info@majlissautulislam.com
© Copyright 2017 Saut-ul-Islam Pakistan All Rights Reserved
Email:
01:30
sautulislampk@gmail.com
+ 92 21 35363159 - 35867580  Fax: + 92 21 35873324
05:30
08:30
Example
فروری1940ء میں آل انڈیا مسلم لیگ ورکنگ کمیٹی اور کونسل کا اجلاس دہلی میں منعقد ہوا جہاں مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ مملکت کے قیام کا مطالبہ اس اجلاس میں پیش کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ ورکنگ کمیٹی کے اجلاس کے بعد قائد اعظم وائسرائے لارڈل نلت ھگو سے ملے اور بتلایا کہ مسلم لیگ مجوزہ اجلاس لاہور میں ہندوستان کی تقسیم کا مطالبہ کرے گی۔
23مارچ 1940ء سے صرف چار روز قبل حکومت پنجاب نے نیم فوجی جماعتوں کو غیر قانونی قرار دے کر مخصوص وردی پہننے اور پریڈ کرنے پر پابندی عائد کردی جس کا مقصد مسلم لیگ کا اجلاس ملتوی کرانا تھا تاہم خاکسار جماعت نے ان احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 19مارچ کو بھاٹی دروازہ کے اندر وردی پہن کر پریڈ شروع کردی ۔ اسی دوران تصادم کے نتیجے میں 50کے قریب خاکسار پولیس کے ہاتھوں مارے گئے، شہر میں صورتحال بے حد کشیدہ ہوگئی۔ سر سکندر کی حکومت نے اس صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مسلم لیگ کا اجلاس ملتوی کروانے کی کوشش کی۔ حکومت پنجاب نے وائسرائے کی انتظامی کونسل کے رکن سر ظفر اللہ خان کو ایلچی بناکر قائد اعظم کے پاس بھیجا تاکہ وہ انہیں سمجھا بجھاکر اجلاس ملتوی کرانے سے متعلق قائل کرسکیں لیکن قائد اعظم محمد علی جناح نے اس سلسلے میں تمام مشوروں کو رد کرتے ہوئے یہ فرمایا کہ اجلاس مقررہ تاریخ پر لاہور میں ہی منعقد ہوگا۔
اس اجلاس کے پہلے روز قائد اعظم محمدعلی جناح 2گھنٹے طویل خطاب کیا تاہم دوسرے روز مختصر خطاب پر اکتفا فرمایا۔ان کے خطاب چند اقتباسات درج ذیل ہیں۔
قائداعظم نے اپنے تاریخی خطبہ ء صدارت میں فرمایا:
’’ہم ہندوستان کے شمال مشرق اور شمال مغرب کے ان صوبوں کو ایک نئی ’’اسلامی مملکت ‘‘بنانا چاہتے ہیں جہاں مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہے ۔ہمیں یہ حق حاصل ہے ،ہوناچاہئے کہ ہم ان صوبوں میں ’’اسلامی حکومت ‘‘قائم کریں ۔آپ نے اعلان کیا کہ :۔
’’ہندوستان کے مسلمان واضح طور پر آزادی ٔ ہند کے حامی ہیں مگر یہ آزادی تمام ہندوستان کے لئے ہونی چاہئے ،صرف ایک طبقے کے لیے نہیں ۔‘‘
مسلم قومیت کی وضاحت کرتے ہوئے آپ نے کہا کہ:۔
’’مسلمان ایک اقلیت نہیں ہیں ،مسلمان کسی بھی تعریف کے لحاظ سے ایک قوم ہیں ۔ایک اور نکتہ ہے جو کافی عرصے سے میرے لیے پریشانی کا باعث بناہواہے اور میں چاہتاہوں کہ آپ اس پر نہایت احتیاط سے غورکریں ۔اور وہ ہے ہندومسلم اتحاد کا سوال ۔گزشتہ 6ماہ کے دوران میں نے اپنا بیشتر وقت مسلم تاریخ اور مسلم قانون کے مطالعہ میں صرف کیا اور میں یہ سوچنے پر مائل ہوںکہ یہ نہ ہی ممکن ہے اور نہ ہی قابل عمل ۔آپ کو وہ گفتگویادہوگی جو میں نے آپ کو کلکتہ میں سنائی تھی جو میرے ،حکیم اجمل خان اور ڈاکٹر کچلو کے درمیان ہوئی تھی ۔حکیم اجمل خان سے زیادہ نفیس مسلمان ہندمیں موجود نہیں لیکن کیا کوئی مسلمان رہنماقرآن سے سرتابی کرسکتاہے ؟میں صرف یہ امید کرسکتاہوں کہ اسلامی قانون کے بارے میں میرا ماحاصل غلط ہو۔میں دیانت داری اورخلوص کے ساتھ ہندومسلم اتحاد کی ضرورت اور پسندیدگی کا قائل ہوں ۔میں مسلم رہنماؤں پر اعتماد کرنے کے لیے بھی پوری طرح سے آمادہ ہوں لیکن قرآن کریم اور حدیث صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کے بارے میںکیا خیال ہے؟رہنماان سے تو سرتابی نہیں کرسکتے ۔یہ سمجھنا بہت دشوار بات ہے کہ ہمارے ہندودوست اسلام اور ہندومت کی حقیقی نوعیت کو سمجھنے سے کیوں قاصر ہیں ۔یہ حقیقی معنوں میں مذاہب نہیں ہیں، فی الحقیقت یہ مختلف اور نمایاں معاشرتی نظام ہیں اور یہ ایک خواب ہے کہ ہندواور مسلمان کبھی ایک مشترکہ قوم کی حیثیت میں منسلک ہوسکیں گے ۔ہندوؤں اور مسلمانوں کا دومختلف مذہبی فلسفوں ،معاشرتی رسم ورواج اور ادب سے تعلق ہے ۔نہ وہ آپس میں شادی بیاہ کرتے ہیں نہ اکھٹے بیٹھ کرکھاتے پیتے ہیں ۔دراصل وہ دومختلف تہذیبوں سے متعلق ہیں جن کی اساس متصادم خیالات اور تصورات پر استوار ہے ۔یہ بھی بالکل واضح ہے کہ ہندو اور مسلمان تاریخ کے مختلف مآخذوں سے وجدان حاصل کرتے ہیں ۔ان کی رزم مختلف ہے ،ہیروالگ ہیں اور داستانیں جدا۔ایسی دوقوموں کو ایک ریاست کے جوئے میں جوت دینے کا جن میں سے ایک عددی لحاظ سے اقلیت اور دوسری اکثریت ہو،نتیجہ بڑھتی ہوئی بے ا طمینانی ہوگا اور آخر کاروہ تانا بانا تباہ ہوجائے گا جو اس طرح کی ریاست کے لئے بنایاجائے گا ۔
قوم کی کسی بھی تعریف کے مطابق مسلمان ایک قوم ہیں اور ان کے اپنے وطن ہونے چاہئیں ،اپنے علاقے اور اپنی ریاست ۔ہم آزاد اور خود مختارقوم کی حیثیت سے اپنے ہمسایوں کے ساتھ امن اور آشتی کے ساتھ رہناچاہتے ہیں ۔ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے عوام بھرپور روحانی ،ثقافتی اقتصادی ،معاشرتی اور سیاسی زندگی میں ترقی کریں ۔اس  انداز سے جسے ہم بہترین سمجھتے ہیں ،اپنے آئیڈیل کے مطابق اور اپنے عوام کی سوچ کے مطابق ۔دیانت کا تقاضا ہے اور ہمارے کروڑوں لوگوں کا اہم مفاد ہم پر یہ مقدس فریضہ عائد کرتاہے کہ ہم ایسا آبرومندانہ اور پُر امن حل تلاش کریں جو سب کے لئے جائز اور منصفانہ ہو۔
میں دانشوروں سے اپیل کرتاہوں ،دنیا کے تمام ملکوں میں دانشور ہی آزادی کی تحریکوں کے سرخیل ہوتے ہیں ۔مسلمان دانشور کیا کرناچاہتے ہیں ؟میں آپ کو بتاسکتا ہوں کہ جب تک کہ آپ اسے اپنے خون میں نہ دوڑادیں گے ،جب تک کہ آپ آستینیں چڑھانے پر آمادہ نہیں ہو جائیں گے ،جب تک کہ آپ وہ سب کچھ قربان کردینے کے لئے تیار نہ ہوں گے جو قربان کر سکتے ہیں ،جب تک کہ آپ اپنی قوم کے لئے بے لوثی اور خلوص کے ساتھ کام نہیں کریں گے۔آپ کبھی بھی اپنا مقصد حاصل نہیں کرسکیں گے ۔
میں چاہتاہوں کہ آپ قطعی طور پر اپنا ذہن تیار کرلیں اور پھر ترکیبیں سوچیں اور اپنے لوگوں کو منظم کریں ،اپنی تنظیم کو مضبوط بنائیں اور پورے ہند میں مسلمانوں کو مجتمع کریں۔’’اسلام ‘‘ کے خادموں کی حیثیت سے آگے بڑھیں اور اپنے لوگوں کو اقتصادی ،معاشرتی ،تعلیمی اور سیاسی طورپر منظم کریں ۔مجھے یقین ہے کہ آپ ایسی طاقت بن جائیں گے جسے ہرکوئی تسلیم کرے گا۔‘‘

قائد اعظم محمد علی جناح کا خطاب
محمد فرید اسحاق