سال گزشتہ کے آخری ماہ کے پہلے ہفتے ایک عظیم قومی سانحہ رونما ہوا جس میں چترال سے اسلام آباد آنے والا قومی ایئر لائن (پی آئی اے )کا طیارہ حویلیاں کے قریب گرکر تباہ ہوگیا جس میںجہاز کے عملے سمیت 48افراد نے داعی اجل کو لبیک کہہ کر دار فانی سے دارباقی کی طرف کوچ کیا، طیارے میں موجود ہرجان قیمتی اور لائق صد احترام تھی جس کی جدائی ملک وقوم کے لئے عظیم سانحہ ہے۔
ان قابل قدر نفوس میں ایک عظیم شخصیت جنید جمشید کی بھی تھی جن کی زندگی نوجوانانِ ملت کے لئے گرانقدر نمونہ کی حیثیت رکھتی ہے، اخباری رپورٹس میں جنید جمشید کی وہ تصویر بھی شائع ہوئی جس میں وہ طالب علمی کے زمانے میں بحضور سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم گلہائے عقیدت کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے دکھائے گئے ہیں، جنید جمشید کی زندگی بڑی سبق آموز ہے، نوجوانی کی ترنگ نے انہیں بہت سے پُرآشوب راستوں سے گزرا، ان کی جوانی کا ایک مختصر عرصہ شبستانِ عیش کے اندھیروں میں گزرا،مال ودولت کی فراوانی، گلوکاری کی دنیا میں گُلوں کی نیفشانی، دلکش جوانی کی طرف لپکنے والے دلوں پر جہانبانی نے اس نوجوان کو کس قدر تعیش کے مناظر وخواب دکھائے ہوں گے؟ وہ کیا سامانِ راحت تھا جو جنید جمشید کو میسر نہ تھا، وہ کیا امنگ وحسرت تھی جو جنید جمشید کی جوانی سے دامن گیر نہ تھی؟ ان سب چیزوں کی موجودگی میں جنید جمشید خود کو بے سکون وبے قرار محسوس کررہا تھا، رقص وموسیقی کا شغل اسے دلی سکون مہیا نہ کرسکا، گلوکاری کے سوزوساز نے اسے دولت کی فراوانی تو دی لیکن دل کا اطمینان فراہم نہ کیا، وہ سینکڑوں نیم برہنہ دوشیزائوں کے بیچ میں بھی خود کو بے سکون تصور کررہا تھا، وہ ہزاروں سامعین وشائقین کے مابین رہ کر بھی خود کو تنہا محسوس کررہا تھا جس کا اظہار اس نوجوان نے مولانا طارق جمیل صاحب سے ایک ملاقات میں کیا، لندن کی ایک مسجد میں ہونے والی اس ملاقات میں جنید جمشید نے اس حقیقت کو آشکارہ کردیا کہ دنیاوی عیش پرستی کے سامانِ راحت میں اشتہاء ولذت تو پنہاں ہے لیکن دلی سکون کا فارمولا اس سے کوسوں دور ہے۔
کرب واضطراب کی کیفیات سے دوچار ہونے والے اس نوجوان کے کانوں میں اقبال کا ترانہ گونج رہا تھا؎
کبھی اے نوجواں مسلم تدبر بھی کیا تو نے
وہ کیا گردوں تھا جس کا تو ٹوٹا ہوا اک تارہ
تجھے اس قوم نے پالا تھا آغوش محبت میں
کچل ڈالا تھا جس نے قدموں سے تاجِ سردارا
چنانچہ چین وسکون کا یہ طالب نوجوان بالآخر اپنی حقیقی منزل کی جانب گامزن ہوجاتا ہے، رقص وموسیقی کی جلتی شمع شبستان کو چھوڑ کر دین وشریعت کے فروزاں خورشید کی روشنی کو اختیار کرلیا، گانے باجے کا سرور چھوڑ کر قرآن وسنت کا نور حاصل کرلیا، وہ بدن جو کبھی ڈھول کی تھاپ پر رقص کناں ہوتا تھا پھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت وتوصیف میں جھومنے لگا، وہ مال ودولت جو ناجائز مجالس پر خرچ ہورہا تھا پھر اسلام کی ترویج وتبلیغ کی محافل پر خرچ ہونے لگا، وہ دل جو کبھی ہزاروں کی حرص ولالچ میں شب وروز کوشاں رہتا تھا پھر کروڑوں کی پیشکش کو بھی ٹھکراتا نظر آیا، وہ ہاتھ جو کبھی مائیک پکڑکر گانوں کی اشاعت وسماعت کا ذریعہ بن رہے تھے پھر وہی ہاتھ مائیک پکڑ کر لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتے نظر آئے، عام طور پر لوگوں کے ذہنوں میں اک فتور ڈیرے ڈالے ہوئے ہے کہ اگر اپنے بچوں کو دین کے کام میں لگایا تو وہ کھائیں گے کہاں سے؟ ان کی شہرت کہاں سے ہوگی؟ ان کی تعظیم وتکریم کون کرے گا؟ جنید جمشید کی زندگی ان تمام سوالوں کا جواب ہے کہ پہلے ان کے مال کی فراوانی ناجائز وحرام ذرائع سے ہورہی تھی پھر حلال کاروبار نے ان کے مال کو پاک کردیا، پہلے ان کی شہرت ناجائز کاموں سے تھی پھر دعوت وتبلیغ اور نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب پاکیزہ شہرت ان کو حاصل ہوئی، پہلے ان کی تعظیم کرنے والے لہو ولعب کی دنیا کے لوگ تھے پھر ان کی تعظیم واحترام علماء دین کے حلقے میں بھی نظر آیا، لہو ولعب کے اندھیروں میں سفر کرکے آنے والے جنید جمشید نے دین کی تعمیل وتبلیغ کی قدرومنزلت کو خوب پہچانا اور آخر تک اس پر ثابت قدم رہے، یہ ضابطہ بھی مسلم ہے کہ اجالوں کی قدر بھی وہی جانتا ہے جو اندھیروں کی وادیوں میں گھوم چکا ہو؎
جلتا ہے جن کا خون چراغوں میں رات بھر
ان غمزدوں سے پوچھ کبھی قیمت سحر
جنید جمشید نے اپنے عزم وہمت کو کار خیر کا راہی بنایا، وہ آج ہم میں موجود نہیں ہیں لیکن رہتی دنیا تک دلوں میں زندہ رہیں گے، وطن عزیز کے لئے ان کے نغمے ’’دل دل پاکستان‘‘ اور ’’ہم ہیں پاکستانی ہم تو جیتے گے ہاں جیتیں گے‘‘ اور نعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے گلہائے عقیدت سے بھرپور درجنوں البمزان کی یادوں کو دلوں کا مکین بنائیں گے، برائی سے اجھائی کی طرف، بے حیائی سے حیا داری کی طرف، فحاشی سے پاکدامنی کی طرف، گلوکاری سے دعوت وتبلیغ کی طرف، بے دینی سے دین داری کی طرف ہونے والا وہ سفر ہمیشہ نوجوانان قوم کے لئے قابل تقلید رہے گا، کچھ ناعاقبت اندیش لوگوں نے جب جنید جمشید پر گستاخیٔ رسول کا الزام عائد کیا اور ایئر پورٹ پر ان کو گالیاں دیں اور مکے رسید کئے تو وادیٔ طائف میں پتھر کھانے والے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے اس غلام نے انہیں فوراً معاف کردیا اور ان کے خلاف کوئی کارروائی نہ کرنے کا اعلان کیا جس نے ان کے دشمنوں کا سر بھی شرم سے نیچا کردیا، اس واقعہ میں صبروبرداشت کا سبق بھی موجود ہے جو نوجوانوں کو ان کی زندگی سے مل رہا ہے۔
جنید جمشید کی یہی صفات حسنہ تھیں جن کی وجہ سے وہ مقبول خاص وعام بن گئے، وہ صرف دیندار طبقے میں قابل احترام نہ تھے بلکہ گلوکار، تاجروں اور دنیا داروں کے ہاں بھی توقیر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے جس کا اندازہ ان کے جنازے سے ہوتا ہے جس میں کم وبیش ڈھائی لاکھ سے زائد لوگوں نے شرکت کی، کسی بھی شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والا کونسا فرد تھا جو ان کے جنازے میں نہ تھا، علماء وصلحاء بھی تھے تو فساق وبدکار بھی، نیک بھی تھے تو بد بھی، اصحاب تبلیغ بھی تھے تو صاحبان گلوکاری بھی، تاجر وکاروباری بھی تھے تو طلباء ومزدور بھی، فوج کے افسران بھی تھے تو سپاہی بھی، غرض ہر شعبہ کے آدمی انہیں آخری سلام عقیدت پیش کرنے کے لئے وہاں موجود تھا، اپنی زندگی کا ایک نمایاں کردار رقم کرنے والا یہ مسافر بالآخر قال اللّٰہ قال الرسول کی گونج میں جامعہ دارالعلوم کراچی کے قبرستان میں سپرد خاک ہوکر یہ سبق دے گیا؎
دنیا سے نہ دولت سے نہ گھر آباد کرنے سے
تسلی دل کو ہوتی ہے خدا کو یاد کرنے سے
جنید جمشید جہاں قوم کے ہر فرد کے دل کی دھڑکن تھے وہیں افواج پاکستان نے بھی ان کی دینی وملی خدمات کو بھرپور طریقے سے خراج عقیدت پیش کیا اور پورے فوجی اعزازات کے ساتھ ان کی تجہیز وتکفین کرکے ایک شاندار اور حوصلہ افزا روایت کو برقرار رکھا۔