info@majlissautulislam.com
© Copyright 2017 Saut-ul-Islam Pakistan All Rights Reserved
Email:
01:30
sautulislampk@gmail.com
+ 92 21 35363159 - 35867580  Fax: + 92 21 35873324
05:15
08:15
Example
 پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوۂ حسنہ ہر طبقۂ انسانی کے لئے مشعل راہ ہے جس کی ضیاء پاش کرنیں ہر انسان کو راۂ ہدایت کا پتہ دیتی ہیں، دیگر تمام انبیاء علیہم السلام کی زندگی اپنے اپنے ادوار میں اہل دنیا کے سامنے عیاں تھی اور اس وقت کی انسانیت کے لئے اس میں ہدایت کا ہر راستہ موجود تھا مگر مرورِ زمانہ اور گردش ایام نے ان کی زندگی کے بہت سے روشن پہلو اہل جہاں کی نظروں سے اوجھل کردیئے اور آج کسی بھی نبی کی زندگی اور سیرت کا ہر پہلو مکمل طور پر محفوظ نہیں ہے۔
 انسانی زندگی کا ایک اہم ترین پہلو ازدواجی زندگی کا تسلسل ہے مگر اس پہلو کے بارے میں بھی دیگر انبیاء علیہم السلام کی زندگیاں خاموش نظر آتی ہیں اس کے مقابلے میں پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوۂ حسنہ ہے جو اپنے اندر زندگی کے ہر پہلو کی روشن کرنیں فروزاں کئے ہوئے ہے اس اسوۂ حسنہ میں ازدواجی زندگی کا پہلو بھی بڑا واضح اور انمول موتیوں سے بھرپور ہے، ہر زوجۂ مطہرہ کے پیام نکاح سے لیکر دنیا سے وصال تک کا ہر پہلو اوراقِ سیرت کی زینت ہے، ایک ہی خاندان، ایک ہی مزاج کی ایک خاتون کے ساتھ نبھائو آسان ہوتا ہے، اس کے مزاج واحساس کا ادراک بھی کیا جاسکتا ہے، اس کی ضروریات وخواہشات کی پاسداری بھی کی جاسکتی ہے مگر دولت خانۂ نبوت تو مختلف المزاج، مختلف الاقوام اور مختلف رنگ ونسل سے تعلق رکھنے والی ازواج مطہرات کا آنگن تھا، ازواج مطہرات میں عمر، حیثیت، علم اور مزاج کا فرق گونا گوں موجود تھا، آپ کی ازواج مطہرات میں صاحبات جمال بھی تھیں تو صاحبات علم وہنر بھی، دولتمندوں کی جگر گوشہ بھی تھیں تو معمولی گھرانے کی نور چشم بھی، مکہ کی رہنے والیاں بھی تھیں تو مدینہ کی سکونت پذیر بھی، اپنی ہم کفو بھی تھیں تو غیر کفو بھی، اپنے خاندان کی نورِ نظر بھی تھیں تو دیگر خاندان کی نور العین بھی، غرض یہ کہ خانۂ نبوت مختلف گلوں کا گلدستہ تھا جس کے ہر گل کی رنگت وبو جداگانہ تھی مگر آقا دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کا اس گلستان سے حسن سلوک کا عالم یہ تھا کہ کبھی کسی زوجۂ مطہرہ کو مارنا تو دور کی بات سخت کلامی وطعن وتشنیع کی نوبت بھی نہ آئی۔
پیغمبر دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی گھر کی چار دیواری سے باہر جس طرح مختلف مناصب عالیہ پر فائز تھی، گھر سے باہر آپ امام بھی تھے تو امیر جہاد بھی، قاضی بھی تھے تو کمانڈر بھی، امانت دار تاجر بھی تھے تو فقید المثال مبلغ بھی، لشکر جرار کے سپہ سالار بھی تھے توشعب ابی طالب کے بے کس ومظلوم قیدی بھی، رحمدل فاتح بھی تھے تو کریم النفس جنرل بھی، مایۂ ناز منتظم بھی تھے تو کثیر المشاغل حکمران بھی، بیمثال معلم بھی تھے تو عدیم النظیر مقنن بھی، حوصلہ مند عابد بھی تھے تو جمہوریت نواز قائد بھی، اولوالعزم متوکل بھی تھے تو مظہر اخلاق پیشوا بھی ان تمام مناصب عالیہ کے باوجود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر کی چار دیواری میں ایک خوش مزاج شوہر کی حیثیت سے رہتے تھے۔ جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی گھریلو زندگی کے بارے میں پوچھا گیا تو جواب میں فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں ایک عام انسان کی حیثیت سے رہتے تھے، اسی خوش مزاجی اور لطف افزائی کا نتیجہ تھا کہ کبھی کبھی ازواج مطہرات کے ساتھ کسی گھریلو معاملے میں ویسی ہی تکرار بازی ہوجایا کرتی تھی جو عام زوجین کے مابین ہوا کرتی ہے، مگر اس تکرار میں بھی جانبین سے کبھی بھی اخلاق کا دامن نہ چھوڑا گیا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ مجھے معلوم ہوجاتا ہے جب تم مجھ سے ناراض ہوتی ہو ۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا وہ کیسے؟ فرمایا جب تم راضی ہوتی ہو تو ورب محمد (محمد کے رب کی قسم) کہہ کر بات کرتی ہو اور جب ناراض ہوتی ہو تو ورب ابراہیم (ابراہیم کے رب کی قسم) کہہ کر بات کرتی ہو، حضرت عائشہؓ نے فرمایا کہ جب میں ناراض ہوتی ہوں تب بھی آپ کی محبت کا دریا میرے دل میں موجزن ہوتا ہے۔
اب اگر کوئی تنگ نظر انسان اس واقعہ کو دیکھے تو فوراً فتویٰ لگادے کہ حضرت عائشہؓ ایک نبی سے ناراض ہوتی تھیں؟ اور نبی سے ناراض ہونا تو کفر ہے لیکن اگر علم وفقہ کی دنیا کی  سیر کرنے والا اس واقعہ کو پڑھے گا تو سمجھ جائیگا کہ حضرت عائشہؓ کی حضورﷺ سے ناراضگی بطور امتی ہونے کے نہ تھی بلکہ ایک خوش مزاج شوہر کی بیوی ہونے کی حیثیت سے تھی جسے اسلام بھی گوارا کرتا ہے اور مالک فطرت سلیمہ ہر شخص بھی۔
ازواج مطہرات میں تمام ملکوتی صفات ومحاسن بھی موجود تھیں، بغض وعداوت کا دور دور تک بسیرا نہ تھا، یریداللہ لیذھب عنکم الرجس اہل البیت یعنی اللہ تعالیٰ نے ہر طرح کی ظاہر وباطنی نجاست اور گناہوں کی آلودگی سے ازواج مطہرات کو پاک کردیا تھا مگر اس کے باوجود کبھی آپس میں بھی باہمی چشمک کا سماں پیدا ہوجاتا تھا، شکوہ وشکایت کی نوبت بھی آجاتی تھی، باہمی رشک وتنافس کا مرحلہ بھی آجایا کرتا تھا، سب سے زیادہ نازک صورت حال یہ تھی کہ گھر میں سیم وزر کی تجوریاں بھری ہوئی نہ تھیں، زر ودولت کے انبار نہیں تھے ،خوشحالی وفارغ البالی کا نام ونشان نہ تھا دولت خانۂ نبوت میں فقر وفاقہ نے ڈیرے ڈال رکھے تھے مگر اس کے باوجود ان مختلف المزاج، مختلف الخیال اور مختلف الطبع ازواج مطہرات کے ساتھ اس طرح زندگی گزارنا کہ کسی کو بھی شکایت کا کبھی موقع نہ مل سکے یہ اسوۂ حسنہ کی بہترین مثال ہے، نبی کریم ﷺ نے اپنے طرز عمل سے یہ تعلیم دی کہ اگر گھر کو خوشیوں بھرا آنگن بنانا ہے تو قانون کی حکمرانی سے نہیں بلکہ محبت والفت کی گل افشانی سے گھر آباد ہوگا، گھر میں قانون کی حکمرانی نہیں چلا کرتی بلکہ محبت والفت کا سکہ چلا کرتا ہے جو لوگ گھر میں ذرا سی بات پر قانون کی مین میخ نکالتے ہیں اور درشتی ودھمکی کے زور سے ازدواجی پہئے کو گردش دینا چاہتے ہیں وہ خشک دماغی کے عارضے میں مبتلا ہیں انہیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ عورت مظہر جمال ہوتی ہے اور مرد مظہر جلال ہوتا ہے اور جمال وجلال کا آمیزہ ہی بہار دنیا کا موجب ہوا کرتا ہے، اسی آمیزش سے خانۂ ازدواجی میں مسرت کے پھول کھلا کرتے ہیں، جو گھر میں ہروقت ڈنڈے کی زبان بولنے کے عادی ہیں انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے درج ذیل فرامین اور اسوۂ حسنہ سے روشنی حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان گرامی ہے ’’خیرکم خیرکم لأھلہ وانا خیرکم لأھلی (مشکوٰۃ)
’’تم میں سب سے اچھا انسان وہ ہے جو اپنے گھر والوں سے اچھائی کرے اور میں تم سب سے زیادہ اپنے گھر والوں سے حسن سلوک کرتا ہوں‘‘
دوسری جگہ ارشاد ہے: اکمل المؤمنین ایماناً احسنھم خلقاً وخیار کم خیارکم لنساء ھم (ترمذی)
’’سب سے زیادہ کامل ایمان والے مؤمن وہ ہیں جن کے اخلاق اچھے ہیں اور تم میں سب سے زیادہ اچھا وہ ہے جو اپنی بیویوں کے لئے اچھا ہے‘‘
تیسری جگہ ارشاد ہے : اتقواللہ فی النساء فانکم اخذتموھن بامان اللہ (مسلم)
’’عورتوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو کہ یہ تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کی امانت ہیں‘‘
اسی طرح عورت کو اپنے شوہر کے حقوق کی پاسداری کا حکم دیا:
ایک جگہ ارشاد نبوی ہے:
’’اگر کوئی عورت پانچ وقت کی نماز پڑھے، (رمضان کے) مہینے کے روزے رکھے، اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرے اور اپنے شوہر کی خدمت واطاعت کرے تو جنت کے جس دروازے سے چاہے داخل ہوجائے‘‘ (رواہ ابونعیم)
دوسری جگہ ارشاد ہے:
’’اگر کوئی عورت اس حال میں فوت ہو کہ اس کا شوہر اس سے راضی تھا تو ایسی عورت جنت میں داخل ہوچکی‘‘ (ترمذی)
اور اس کے برعکس اگر کسی عورت کا شوہر کسی جائز امر کی وجہ سے ناراض ہو تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’کہ جس عورت نے شوہر کی ناراضگی کو برقرار رکھا اس پر اللہ تعالیٰ کی  لعنت ہوتی ہے‘‘ (دیلمی)
دوسری روایت میں ہے کہ ایسی عورت کی نماز قبول نہیں ہوتی جس کا شوہر اس سے ناراض ہو (بیہقی)
یہ اسوۂ نبوی اگر حرزجان بناکر اختیار کرلیا جائے تو ہر گھرانہ خوشیوں کا آشیانہ اور ہر مسکن مسرتوں کا آنگن نظر آئے گا۔
دعائے ہجرت اور اسلامی حکومت کی پیش گوئی
سورۂ بنی اسرائیل میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ دعا بھی سکھائی جسے دعائے ہجرت کہا جاسکتا ہے۔ حضرت ابن عباسؓ کے مطابق اس آیت میں رسول اللہ ﷺ کو ہجرت کا اذن دیا گیا ہے:۔
وَقُلْ رَّبِّ اَدْ خِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّاَخْرِجْنِیْ مُخْرَجَ صِدْقٍ وَّاجْعَلْ لِّیْ مِنْ لَّدُنْکَ سُلْطٰنًا نَّصِیْرًا (سورۂ بنی اسرائیل آیت80)
’’اور اے نبی، دعا کرو کہ پروردگار مجھ کو جہاں بھی لے جا سچائی کے ساتھ لے جا اور جہاں سے بھی نکال سچائی کے ساتھ نکال اور اپنی طرف سے ایک اقتدار کو میرا مددگار بنادے۔‘‘اس دعا کی تلقین سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ہجرت کا وقت اب بالکل قریب ہے اور ’’اپنی طرف سے ایک اقتدار کو میرا مددگار بنادے‘‘اس جملہ سے بھی صاف عیاں ہے کہ حضورﷺ کو حکومت اور اقتدار عطا کیا جارہا ہے جس کو ہم اسلامی حکومت کی پیش گوئی سے تعبیر کرسکتے ہیں۔
اسلامی ریاست کا قیام
 بیعت عقبہ کے بعد واپس جاکر انصار کے لوگوں نے حضرت مصعبؓ بن عمیر کی قیادت میں بڑی تیزی کے ساتھ اسلام پھیلانا شروع کیا۔ ابن اسحاقؒ کی روایت ہے کہ حضرت مصعبؓ مدینے میں مسلسل تبلیغ کرتے رہے، یہاں تک کہ انصار کے محلوں میں کوئی ایسا محلہ نہ رہا جس میں مسلمان مرد اور عورتیں موجود نہ ہو۔ صرف تین چار گھرانے ایسے رہ گئے جنہوں نے غزوۂ خندق تک اسلام قبول نہ کیا۔
اسی دوران میں مدینہ میں انصار نے نماز جمعہ پڑھنی شروع کردی۔ ذی الحجہ ۱۳ نبوی کا زمانہ حج تک مدینہ میں اسلام خوب پھیل چکا تھا۔ اس مرتبہ عقبہ کے مقام پر 73 مرد اور 2عورتیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے اور آپ ﷺ کے ہاتھ پر اس بات پر بیعت کی کہ:
1۔ وہ نبی کریم ﷺ کی اسی طرح حمایت وحفاظت کریں گے جس طرح خود اپنے بال بچوں کی کرتے ہیں۔
2۔ اور حضور ﷺ بھی مدینے کے انصار کے ساتھ رہیں گے۔
اس عہد کے نتیجے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم 12ربیع الاول 13نبوی کو مدینہ منورہ پہنچے اور اسلامی اصولوں کے مطابق اجتماعی زندگی کا آغاز فرمایا اور اسلام کے سنہرے اصول واقدار کی بنیاد پر ایک نئے معاشرے اور ریاست کی بنیاد رکھی۔
ازدواجی زندگی اور اسوہ نبوی  ﷺ
عبدالستار سگھروی