info@majlissautulislam.com
© Copyright 2017 Saut-ul-Islam Pakistan All Rights Reserved
Email:
01:30
sautulislampk@gmail.com
+ 92 21 35363159 - 35867580  Fax: + 92 21 35873324
05:15
08:15
Example
اہل اسلام کے لئے ماہ جنوری کچھ اس طرح پیامِ حزن لایا کہ ’’زمین کھاگئی آسماں کیسے کیسے‘‘ کا سماں طاری رہا، 15جنوری کو شیخ الشیوخ محدث العصر استاذ المحدثین حضرت مولانا سلیم اللہ خان رحمۃ اللہ علیہ رحلت فرماگئے۔ابھی حضرت کا داغِ مفارقت تازہ ہی تھا کہ 16جنوری کو برکۃ العصر، ولیٔ کامل، حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ مجاز مدرسہ صولتیہ مکۃ المکرمہ کے مدرس اور انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کے مرکزی امیر حضرت مولانا عبدالحفیظ مکی رحمۃ اللہ علیہ نے سائوتھ افریقا میں اپنی جان جان آفرین کے سپرد کردی، اسی دن حضرت مولانا معین الاسلام رحمۃ اللہ علیہ (انڈیا) اور حضرت مولانا قاری انور صاحب (مدینہ منورہ) نے داعیٔ اجل کو لبیک کہہ دیا جو اہل اسلام کے لئے عظیم سانحہ ہے۔ 
(انا للہ وانا الیہ راجعون)
اول الذکر شخصیت شیخ المحدثین حضرت اقدس شیخ سلیم اللہ خان رحمۃ اللہ علیہ اک نابغۂ روزگار شخصیت تھی جن کا خلا صدیوں بھی پُر نہ کیا جاسکے گا، اسلام کے لئے جن کی خدمات کو تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائیگا، شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ اور مسیح الامت حضرت مولانا مسیح اللہ خانؒ کے پروردہ نے بہت سے مسافرانِ راہ کو سامانِ راحت فراہم کیا ہے، آفریدی خوانین کے متوسط گھرانے سے تعلق رکھنے والے اس ذی سعادت بچے نے 1926ء کو قصبہ حسن پور ضلع مظفر نگر یوپی انڈیا میں جناب عبدالعلیم خان کے گھر آنکھ کھولی، ابتدائی تعلیم منشی بندہ حسنؒ اور منشی اللہ بندہؒ سے حاصل کرنے کے بعد مدرسہ مفتاح العلوم جلال آباد مظفر نگر اکتساب فیض کے لئے حضرت مولانا مسیح اللہ خان رحمہ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے، ڈھائی سال ان کی خدمت میں رہ کر اپنی علمی استعداد کو جلا بخشی، پھر دارالعلوم دیوبند میں پانچ سال مختلف علوم وفنون کی تکمیل کی اور حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنیؒ کے حلقۂ درس میں زانوئے تلمذ طے کیا، حضرت مدنیؒ کی نظرِ خاص نے کچھ ایسا اثر دکھایا کہ حضرت شیخ سلیم اللہ خانؒ ان کی جملہ صفاتِ حسنہ کے امین ہوکر رہ گئے، حضرت شیخؒ کے خوانِ علم سے کثیر خلق خدا نے فیض پرشاد حاصل کیا، اس سرچشمۂ علم وعمل سے بہت سارے تشنہ لبوں نے سیرابی کی سعادت حاصل کی، خزینۂ علم وعمل سے کوسوں دور رہنے والے بہت سے بے علم لوگوں نے خودکو اس زیورِ علم سے پرداختہ کیا،8 سال مفتاح العلوم جلال آباد، 3 سال دارالعلوم الاسلامیہ ٹنڈو الٰہ یار،10سال جامعہ دارالعلوم کراچی اور جامعہ بنوری ٹائون کے درودیوار کو اپنے علوم وفنون سے مہکانے والی یہ عظیم شخصیت 1967ء میں شاہ فیصل کالونی میں مدرسہ جامعہ فاروقیہ کی تاسیس سرانجام دیتی ہے جو دیکھتے ہی دیکھتے اہلِ علم وہنر کا مرجع اور تشنگان دین وملت کی آماجگاہ بن جاتا ہے اور پھر تاحین حیات اسی مرکزِ علم وہنر سے حضرت شیخؒ کے علمی زمزمے پھوٹتے رہے۔
1959ء میں دینی مدارس کی ملک گیر سب سے بڑی منظم تنظیم ’’وفاق المدارس العربیہ پاکستان‘‘ کی بنیاد رکھی گئی جس کی قیادت وسیادت حضرت مولانا خیر محمد جالندھریؒ، حضرت مفتی محمودؒ اور حضرت مولانا یوسف بنوریؒ سے ہوتی ہوئی حضرت شیخ سلیم اللہ خانؒ کے دوشِ امانت پر آن پڑی جسے حضرت نے بخوبی اور احسن انداز سے تاحیات سنبھالے رکھا۔ 1980ء میں وفاق المدارس کے ناظم اعلیٰ بننے والے یہ عظیم قائد 1989ء میں حضرت مولانا ادریس میرٹھی رحمہ اللہ کی وفات کے بعد وفاق المدارس کے صدر منتخب کئے گئے جو تادمِ حیات اپنی تمام تر ذمے داریوں کو بخوبی سرانجام دینے کے بعد بالآخر جنوری 2017ء کواس دارِ فانی کو خیر آباد کہہ دیتے ہیں۔ حضرت شیخؒ کی دینی، ملی، فلاحی، رفاعی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائیگا، حضرت شیخؒ کی حیات کا ہر پہلو بڑا پُرتاب اور بڑا ہی تاباں ودرخشاں ہے جس میں اتباعِ سنت کا جذبہ، حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے والہانہ عقیدت وشغف، عزم ونظم کی فراوانی، اخلاص وللہیت کا پرچار، عجز وانکساری کا اسوۂ حسنہ، تحمل وبرداشت کی ضیاء پاشی، جواہرات علم وعمل کی فیاضی، محبت واُلفت کی گل افشانی، امت مسلمہ کے اتحاد واتفاق کا جذبۂ بیکراں نمایاں نظر آتا ہے، یکساں نظام تعلیم اور نصاب تعلیم کے یہ علمبردار وفاق ہائے مدارس کے اتحاد کے بھی پہلے متحرک وبانی ہونے کا اعزاز رکھتے تھے چنانچہ اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ کا مشترکہ پلیٹ فارم حضرت شیخؒ کی مساعی جمیلہ کو تادیر سلام عقیدت پیش کرتا رہے گا۔
حضرت شیخؒ کے دورِ قیادت میں دینی مدارس کا بہت سے پُرخار راستوں سے گزر ہوا، اہل مدارس کو بہت سے نشیب وفراز کی ضرر رسانیوں کا سامنا ہوا، اہل دین کے خلاف عالمی سازشوں پر بہت سی آنکھیں اشک فشاں ہوئیں، تندیٔ باد صباء نے کئی بار اس کشتی رواں کو سخت مخالف کی طرف دھکیلا،خزاں کے کئی جھونکوں نے اس باغ بہار کو ویران کرنے کی کوشش کی مگر تمام تر ابتلاء وآزمائش کے باوجود کوئی بھی حضرت شیخؒ کے پائے استقلال کو جادۂ حق سے متزلزل نہ کرسکا، بقول مولانا قاری حنیف جالندھری صاحب کے ’’حق پر ڈٹ جانا حضرت شیخ کا خاص وصف تھا، حضرت کا یہ نظریہ عین صواب تھا کہ دینی مدارس کا تحفظ درحقیقت اسلام کا تحفظ ہے جس پر کبھی بھی کمپرومائز کرنے کی گنجائش نہیں ہے‘‘۔
دین اسلام کی نشرواشاعت حضرت شیخؒ کا طرۂ امتیاز اور تاجِ افتخار ہے، قریہ قریہ بستی بستی میں 18ہزار مدارس کا منظم قیام وانتظام اور 23لاکھ طلبہ وطالبات کا وفاق المدارس سے ملحق ہونا حضرت شیخ کی محنت عظمیٰ کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ دینی تعلیم کی اشاعت وترویج حضرت شیخؒ کو کس قدر محبوب تھی؟ راقم الحروف اپنا ایک چشم دید واقعہ قلمبند کررہا ہے۔چند ماہ قبل رنچھوڑ لائن کی جامع مسجد بادامی میں دو بچوں نے حفظ قرآن کریم کی سعادت حاصل کی تو مسجد انتظامیہ نے حضرت شیخؒ سے جاکر درخواست کی کہ وہ اپنے دست مبارک سے ان طلبہ کی دستار بندی فرمائیں،باوجود شدید علیل ہونے کے حضرت شیخؒ نے نہ صرف تشریف آوری کا وعدہ فرمایا بلکہ حاضرین کی حیرت کی اس وقت انتہاء نہ رہی جب وہیل چیئر پر ہونے کے باوجود حضرت شیخؒ بنفس نفیس تشریف لائے اور10 منٹ بیان ودستار بندی فرماکر واپس تشریف لے گئے، صرف دو بچوں کی حوصلہ افزائی کے لئے شاہ فیصل کالونی سے رنچھوڑ لائن تک کا طویل سفر کرنا حضرت کی حُب تعلیم کی بین دلیل ہے۔
حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ کے ذوقِ حدیث کا وافر حصہ حضرت شیخؒ کے دامنِ علم وعمل کی زینت بنا، 63سال تک حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا درس دینے والی یہ وہ عظیم شخصیت ہے جس نے موجودہ بہت سے اہل فضل کو قرآن وسنت کے زیور سے آراستہ کیا ہے، حضرت مفتی رفیع عثمانی، حضرت مفتی تقی عثمانی، حضرت مفتی نظام الدین شامزئیؒ، حضرت ڈاکٹر حبیب اللہ مختارؒ، حضرت مفتی احمد الرحمنؒ جیسے عظیم زعمائے دین وملت حضرت شیخؒ کے خوانِ علم ہی کے ریزہ چین ہیں، اہل مدارس میں شاید کوئی بھی ایسانہیں جو بالواسطہ یا بلاواسطہ حضرت شیخؒ کے علوم وفنون سے مستفید نہ ہوا ہو، تختِ نشینانِ خاک کا وہ نشین بہت سے تابندہ ستاروں کو تابشِ آفتاب میں تبدیل کرگیا۔ بہت سے بے رنگ ورونق پھولوں کو حسن ورنگت کا لبادہ عطا کیا گیا، اتباعِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں لنگی باندھنے والا وہ درویش بہت سے مرجھائے پھولوں کو مہک وخوشبو کا جامہ پہنایا گیا، اپنی زندگی کو علوم شرعیہ کے لئے وقف کرنے والے اس عظیم انسان نے بہت سے ذروں کو صحراء اور قطروں کو دریا میں تبدیل کردیا، مسند علم کو رونق بخشنے والے اس جادۂ نشین نے بہت سے نشیبوں کو فراز، پستیوں کو بلندی اور زوال کو عروج بخشا، اسلاف واکابر کی روایات کے امین اس مرد قلندر نے بہت سی زمینوں کو آسمان کا مقام فراہم کیا، جو علامہ اقبال مرحومؒ کے اس کلام کا عملی مصداق ہیں؎
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
 حضرت شیخ سلیم اللہ خانؒ کی دو مرتبہ نماز جنازہ ادا کی گئی پہلی نماز جنازہ شاہ فیصل کالونی روڈ پر ان کے صاحبزادے حضرت مولانا عبیداللہ خالد صاحب کی امامت میں ادا کی گئی اور دوسری نماز جامعہ فاروقیہ فیز ٹو حب ریور میں جامعہ فاروقیہ کے 44سالہ قدیم استاد مولانا انور صاحب کی امامت میں ادا کی گئی جس میں ملک بھر سے ممتاز شخصیت، علماء وطلباء اور شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لاکھوں افراد نے شرکت کی اور حضرت شیخ کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا۔
ہزاروں علماء وطلبہ کی آہوں اور سسکیوں میں اسلام کا یہ عظیم آفتاب وماہتاب عالم دنیا سے عالم آخرت کی طرف روانہ ہوکر یہ تاثر قائم کرلیا؎ 
ہمارا خون بھی شامل ہے تزئین گلستاں میں
ہمیں بھی یاد کرلینا چمن میں جب بہار آئے
(خدا رحمت کند ایں طینت پاک را)
مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ مجھے
حضرت مولانا سلیم اللہ خان رحمہ اللہ کا سانحۂ ارتحال
عبدالستار سگھروی