گلشن نبوت کے ُگلِ بے خار
یوں تو گلشنِ نبوت میں مہکنے والاہر پھول اپنی ایک جداگانہ مہک کا حامل ہے جس نے اپنی پُرجازب مہک سے تاامروز دنیاکو مہکارکھاہے،مگرگلشن رسالت ﷺ میںایک گل حضرت سیدناصدیق اکبرؓبھی ہیںجو بہت سی ایسی صفات و خصوصیات کے حامل ہیں جن میںکوئی دوسراان کا ثانی نہیںہے،دورِنبوت سے قبل جب معاشرہ ہر قسم کی برائیوں کی آماجگاہ بن چکاتھا،دنیاپر ظلم وستم کے اند ھیروں کی چادرتنی ہوئی تھی ،شراب کو شربت کادرجہ حاصل ہوچکا تھا،زناوبدکاری کے جھنڈے بطورعلامت گھروں پرلہرارہے تھے،نومولود بچیوں کی چیخیں فضائے عالَم کو غم ناک کررہی تھیں،نفرت وعداوت کی صدائیں چہاردانگ عالم بازگشت کررہی تھیں ،انسانیت کا جوہر انسانوں میںمفقودہوچکاتھا،انسانی ظلم وبربریت کے سامنے درندے بھی اپناسر نہاں کئے ہوئے تھے،انسانیت کی تذلیل کے بادل ہرطرف منڈلارہے تھے ،ان تمام اندھیروں میں کچھ نفوس قدسیہ ایسے بھی تھے جن کے دل میںابھی تک فطرت سلیمہ کاچراغ پوری آب وتاب کے ساتھ روشن تھا ،وہ بت پرستی سے بیزاراورشراب نوشی سے یکسرلاچارتھے،مکہ میںہرجگہ ان کی عظمت واحترام کا پھریرہ لہرارہاتھا ،ان خوش بخت وذیشان لوگوں میں ایک ہستی حضرت سیدناصدیق اکبرؓ کی بھی تھی جنہیں اسلام سے قبل بھی بہت سی صفات حسنہ سے آراستہ ہونے کا شرف حاصل تھا،جن کی طبیعت سلیمہ بت پرستی،مے نوشی،ظلم وستم اورہرقسم کی بدکاری کے جراثیم سے کوسوں دورتھی، وہ ہرخاص وعام میںعزت واحترام اوراعزازواکرام کی دولت سے مالامال تھے،قبولِ حق کا جذبۂ بیکراںجن کے دل میںاس قدرموجزن تھاکہ ہر اعلانِ نبوت گوش گزارہوتے ہی سب سے پہلے تصدیق کرنے والے بنے اور ’’صدیق‘‘کے لقب سے ملقب ہوئے۔
شجاعت وبہادری کے بحرذخار
حضرت سیدناصدیق اکبرؓ نے جب نبوت کی معیت اختیارکی توپھراپناتن من دھن اس وعدہ کی فاداری میں قربان کردیا،اسلام کے ابتدائی دورمیں وہ کونساظلم وتشددتھاجو اہلِ ایمان پر روانہیں رکھاگیا،وہ کونساحق تھاجو مسلمانوں سے نہیںچھیناگیا،ابتلاء وآزمائش کاوہ کونسامرحلہ تھاجس سے اہلِ ایمان کو گزارانہیںگیا،کلمہ ٔ اسلام ایک جرم عظیم بن چکا تھا، کفروشرک سے بے زاری کااعلان اپنے اوپر ظلم وتشدد کودعوت دینے کے مترادف تھا،مگران نامساعدحالات میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ سب سے زیادہ جو شخصیت ثابت قدم رہی وہ حضرت سیدناصدیق اکبر ؓکی ذات گرامی تھی جن کی دوررس نگاہیں اسلام کی حقانیت کو مطلع عالم پرہویداہوتے ہوئے دیکھ رہی تھیں ،انھیں اس بات کا یقین تھاکہ یہ دانہ خاک میں مل کر گلِ گلزارہوتاہے،وہ ظلم وستم کی ناموافق ہواکودیکھ کر بھی’’ یہ تو چلتی ہے تجھے اونچااڑانے کے لئے ‘‘کے قائل تھے، نبی کریم ﷺ کے فرمان کے مطابق امت میں سب سے زیادہ رحم وکرم کرنے والے تھے،مگریہ رحم وکرم ان کی بہادری وشجاعت کے راستے میں حائل نہ ہوسکاوہ اپنوں کے لئے رحیم بھی تھے تو دشمنوں کے لئے ایک پررعب شجاع بھی ،جس کی گواہی حضرت سیدناعلی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے اس وقت دی جب اثناء خطبہ ان سے سب سے بڑے بہادرکی بابت پوچھاگیاتو فرمایاسب سے بڑے بہادرحضرت ابوبکر صدیقؓ تھے کیونکہ ایک مرتبہ قریشِ مکہ نبی کریم ﷺ کو ماررہے تھے ہم میں سے کسی میں دفاع کرنے کی طاقت نہ تھی مگر یکایک حضرت صدیق اکبرؓ آئے اور مشرکین کے غول میں جاگھسے اور ان کوتھپڑ رسید کرکے نبی کریمﷺ کو چھڑالائے اور مشرکین مکہ کو وہ جواب دیاجو آل فرعون میں ایک مؤمن صادق نے فرعون کو کہاتھاکہ’’ کیا تم ایسے شخص کو شہید کرناچاہتے ہوجوصرف یہ کہتاہے کہ میرارب اللہ تعالیٰ ہے‘‘ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایاکہ بتاؤآلِ فرعون کامؤمن زیادہ بہتر ہے یاحضرت ابوبکرؓ ؟پھرخودہی فرمایاکہ حضرت ابوبکر ؓکی زندگی کی ایک گھڑی آل فرعون کے مردمؤمن کی پوری زندگی سے بہتر ہے کہ اس مردمؤمن نے اپنے ایمان کو چھپایااور حضرت صدیق اکبر ؓ نے اپنے ایمان کا برملااظہار کیا،اس مردمؤمن نے فقط زبان سے نصیحت پر اکتفاکیا جبکہ حضرت ابوبکرؓ نے زبانی نصیحت کے ساتھ ساتھ ہاتھ سے بھی نصرت وحمایت کی۔(مسندبزار،دلائل ابی نعیم )
صفاتِ نبوت کے عکاس و آئینہ دار
حضرت صدیق اکبرؓ پرجب اہل مکہ کا ظلم وستم حدسے بڑھ گیاتو آپ نے حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کا ارادہ فرمایا، اہل ِمکہ کے ایک سردار ابن الدغنہ کوجب معلوم ہواتو کہاکہ آپ جیساشخص شہرسے نہ نکل سکتاہے نہ نکالے جانے کے لائق ہے اور پھر اس سردار نے حضرت صدیق اکبر ؓکی بعینہ وہی پانچ صفات بیان کیں جو ابتداء ً نزول وحی کے وقت حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہانے نبی کریم ﷺ کی صفات بیان کی تھیں جس سے نبی کریم ﷺاور حضرت صدیق اکبرؓمیںفطرتی موافقت کا پتہ چلتاہے ،ابن دغنہ نے کہاآپ تووہ ہیں جو(۱) رشتہ داروں سے حسن سلوک کر نے والے ہیں(۲)کمزوروں کا بوجھ اٹھانے والے ہیں(۳)مہمان نوازی کرنے والے ہیں(۴)ناداروں کے لئے کسب وکفالت کرنیوالے ہیں (۵) حق کے معاملے میں لوگوں کی معاونت کرنے والے ہیں،یہ کہہ کر ابن الدغنہ نے کہاکہ آپ میری پناہ میں رہیں کوئی آپکو نقصان نہ پہنچاسکے گا،حضرت ابوبکرؓ نے گھرکے صحن میں عبادت کے لئے ایک جگہ بنائی اور جب تلاوت کرتے تو مشرکین مکہ کی عورتیں اوربچے جمع ہوکرتعجب کرنے لگتے اورحضرت ابوبکرؓ کی تلاوت سے متأثر ہونے لگ جاتے، حضرت صدیق اکبرؓ پردوران تلاوت گریہ طاری ہوجاتاتھااس کیفیت نے ان کی عبادت وتلاوت کی تاثیرکوکئی آتشہ بنادیاتھا،اس خاموش انقلاب سے مشرکین برافروختہ ہوگئے کیونکہ یہ صورتِ حال اہل مکہ کے لئے بڑی پریشان کن تھی چنانچہ انہوں نے ابن الدغنہ کواپنی پناہ واپس لینے پرمجبورکیا،جب اس نے حضرت صدیق اکبرؓ سے بات کی توآپ نے فرمایا:۔میں تمہاری امان واپس کرتاہوں اور اللہ تعالیٰ کی پناہ پر راضی ہوں(بخاری)
اسلام کے فیاض مالدار
نبی کریمﷺ ہجرت سے قبل مکہ میں تقریباً۱۳برس رہے اس دوران حضرت ابوبکرؓدل وجان سے نہ صرف حضور ﷺکے تابعداروجانثاررہے بلکہ کمزوروں کے لئے اپناسب کچھ قربان کرنامقصدِ حیات سمجھتے تھے جس کا اندازہ نبی کریم ﷺ کے اس فرمان سے ہوتاہے کہ ’’مجھے کسی کے مال نے اتنا فائدہ نہیں دیاجتناابوبکرؓ کے مال نے دیا‘‘حضرت ابوبکر ؓ نے متعدد غلام آزاد کرائے ،حضرت بلالؓ امیہ بن خلف کی غلامی میں نہایت مظلومیت کا شکارتھے،آواز ِحق کو دبانے کے لئے امیہ نے ظلم کاہرراستہ اختیارکیا،ایک دن حضرت صدیق اکبرؓ وہاں سے گزرے اورحضرت بلالؓ کو تڑپتے دیکھاتودل بھر آیافوراًبھاری قیمت اداکرکے حضرت بلالؓ کو آزادکرایااور نبی کریم ﷺ کی بارگاہِ عالی میں پیش کردیا،اس طرح کے سینکڑوں واقعات ہیں جو حضرت ابوبکر ؓ کی اسلام کے لئے بے لوث خدمت پر دال ہیں،ان کی اس فیاضی کو دیکھ کر ایک دن ان کے والدابوقحافہؓ کہنے لگے کہ بیٹا!تم کمزور غلاموں پر اتنامال خرچ کرتے ہواگرکسی طاقتور پر خرچ کروتو بعدمیں تمہاری مددکے کام آئے گا، حضرت صدیق اکبر ؓ نے فوراً جواب دیاکہ میں یہ خدمت صرف اللہ تعالیٰ کی رضاکے لئے سرانجام دیتاہوں اپناکو ئی مفاد پیش نظرنہیں ہے ،اسی بے لوث خدمت کانتیجہ تھاکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت صدیق اکبرؓ کی شان میں سورۃ اللیل کی کئی آیات مبارکہ نازل فرمائیں،
حضرت صدیق اکبرؓ نے مکی دورِ نبوت میںدل کھول کراپنا مال راہِ خدامیں خرچ کیا یہاں تک کہ بوقتِ ہجرت صرف چھ ہزار دراہم موجود تھے جو کچھ سفرِ ہجرت میں خرچ ہوگئے اور کچھ سے مسجد نبوی کی زمین خریدی گئی ،مدینہ طیبہ پہنچ کربھی حضرت ابوبکرؓ کادست ِکرم کشادہ ہی رہا،چنانچہ ایک غزوے میںجب راہِ خدامیں خرچ کرنے کی اپیل کی گئی توحضرت عمرؓ نے اس خیال سے کہ آج اس کارِ خیرمیں حضرت ابوبکرؓ سے سبقت لینے کاموقع ہے اپنے گھر کا آدھاسامان نبی کریم ﷺ کے قدموں میںلا کرنچھاورکردیامگرحضرت صدیق اکبر ؓ اپنے گھر کا تمام سامان لاکر حاضرخدمت کردیتے ہیں ا ور جب نبی کریم ﷺ نے استفسار کیاکہ اپنے اہل وعیال کے لئے کیا چھوڑاہے تو حضرت صدیق اکبرؓ نے وہ ایمان افروز جواب دیا جسے علامہ اقبال مرحوم یوں تعبیر کرتے ہیں ؎
پروانے کو شمع بلبل کو پھول بس
صدیق کے لئے خداکا رسول بس
مزاج شناسِ رسول وزیرباوقار
حضرت صدیق اکبرؓ کو نبی کریم ﷺسے جو قرب حاصل تھاوہ کسی اورکے حصے میں نہ آسکا،وہ نبی کریم ﷺ کے مشیرووزیر ہونے کا اعزازوشرف رکھتے تھے،نبی کریم ﷺنے فرمایا’’میرے دووزیرآسمانوں میں ہیں اور دووزیرزمین میںہیں ،آسمانوں کے ددوزیر جبرئیل ومیکائیل ہیں اور زمین کے دووزیرابوبکرؓ وعمرؓ ہیں‘‘چنانچہ مکہ میں تو نبی کریم ﷺکا عا م معمول تھاکہ دعوت وتبلیغ کے لئے حضرت صدیق اکبرؓ کوساتھ لے جایاکرتے تھے اورمشاورت کے لئے حضرت صدیق اکبرؓ کے گھرصبح وشام تشریف لے جاتے تھے،وہ حضور کے ہر سفرکے رفیق اور علومِ نبوت کے بحرِ عمیق تھے،اسفارتو بہت ہوئے مگر سفرِہجرت وہ عظیم اعزاز ہے جس میں ان کا کوئی ثانی نہیں ہے ، جس سفرکو قرآن کریم نے بطور افتخاربیان فرمایا،جس کے بارے میں نبی کریم ﷺ بطور مسرت فرمایاکرتے تھے حملنی الیٰ دارالہجرۃ (کہ ابوبکرؓ نے مجھے اس دارالہجرت تک پہنچایا)یہ وہ قابلِ رشک سفرتھاجس کے بارے میں حضرت عمرؓ فرمایاکرتے تھے کہ کاش میری عمر بھر کی عبادت ابوبکرؓ کو اوران کی ہجرت والی تین راتیں مجھے دیدی جاتیں، مدینۂ طیبہ پہنچنے کے بعد سیدناصدیق اکبر ؓ کے درجات عالیہ میںمزیداضافہ ہوتاگیا،نبی کریم ﷺکی نظررحمت اس قدرانہیں اپنے اندرجانگزیں کئے ہوئے تھی کہ ایک عورت نے جب کہاکہ یارسول اللہ !اگرآپ کونہ پاؤں توکس کے پاس آؤں؟نبی کریم ﷺ نے فرمایااگرمجھے نہ پاؤ توابوبکرؓ کے پاس آنا(بخاری)
یہ ا س بات کی دلیل ہے کہ علوم نبوت کے سب سے بڑے ماہروامین حضرت صدیق اکبرؓ تھے،یہ بات مسلمان تو کیاکافربھی جانتے تھے کہ نبی کریم ﷺ کے بعد مسلمانوں کے سرداروامام ہونے کے جو لائق ہیں وہ صدیق اکبرؓ ہیں،غزوہ ٔ احد اس بات پر گواہ ہے کہ جب کفار نبی کریم ﷺ کو للکاررہے تھے اور کوئی جواب نہ آیاتو ان کی زبان پر دوسراجو نام آیا وہ حضرت ابوبکرؓ ہی کانام تھا بقیہ صفحہ نمبر45 پر ملاحظہ کیجئے
وہ اس قدررمز شناس تھے کہ نبی کریم ﷺ اگراشارۃً کوئی بات ارشاد فرماتے توسب سے پہلے اس بات کی تہہ میں پہنچنے والے حضرت صدیق اکبرؓ ہوتے تھے،اسی محبت ومصاحبت اورتقویٰ وللہیت کا نتیجہ تھاکہ نبی کریم ﷺ کی حیات طیبہ میں ہی مصلیٔ رسول کی امامت حضرت صدیق اکبرؓ کے حوالے کی گئی اورحضرات صحابہ کرام ؓنے حکمِ نبوی کو بجالاتے ہوئے تقریباً سترہ نمازیںحضرت ابوبکرؓ کی اقتداء میں اداکیں۔
عزم ونظم کے بے مثال سالار
نبی کریم ﷺ کی رحلت کے بعدمختلف ناموافق حالات امڈ آئے ،ہرطرف بے خودی کاسماں طاری تھا،حضرت عمرؓ جیسے جری انسان کے اوسان خطاہوچکے تھے جووفاتِ رسول کی خبردینے والے کاسرقلم کرنے کوبھی تیارتھے،حضرت عثمانؓ کوسلام کئے جانے کابھی علم نہ ہوسکااس نامساعدوناموافق فضا کوجس شخصیت نے اپنے عالی عزم ونظم سے ختم کیاوہ حضرت صدیق اکبرؓہیں،چنانچہ آپ نے وہ بلیغ خطبہ ارشاد فرمایاجس کی طرف ہرچیز گوش برآوازتھی،آپ نے حمد وثناء کے بعدفرمایاکہ جو شخص نبی کریم کو اپنامعبود سمجھتاتھاوہ جان لے کہ آج اس کا معبود فوت ہوچکاہے اورجوشخص نبی کریم ﷺکے رب کو اپنامعبودسمجھتاتھاوہ یقین رکھے کہ اس کامعبودآج بھی زندہ ہے،اسلامی مزاج کے عین مطابق یہ خطبہ ارشادفرماکرحضرت صدیق اکبرؓ نے غم وملال کی اس گھڑی میں امت مسلمہ کا ہاتھ تھامااوراسے سہارادیا،جس سے یہ سبق ملتاہے کہ کسی اندوہناک واقعہ اورسنسنی خیزخبرکے بعد حوصلہ شکن آواز کے بجائے ہمت افزاء فضاء قائم کرنی چاہئے،جب حضرت صدیق اکبرؓکے دوشِ امانت پرخلافت کا بارامانت آن پڑاتوبہت سے فتنوں نے بھی جنم لے لیا،مانعینِ زکوٰۃ کا فتنہ ،ارتدادکافتنہ،یمامہ میں مدعی ٔ نبوت مسیلمہ کذاب کافتنہ،ان فتنوں کے سدباب کے طریقہ کارمیںبھی صحابہ کرام ؓ کی آراء مختلف تھیں مگر حضرت ابوبکرؓنے فرمایاکہ میرے زندہ ہوتے ہوئے دین میں کمی ہوجائے ایسانہیں ہوسکتا،ا گرکوئی بھی میراساتھ نہ دے تو میں اکیلاہی د ین کی حفاظت کے لئے نکل کھڑاہوں گا،حضرت ابوبکرؓ کے اس عزم کی بدولت امت کا بکھرتا شیرازہ دوبارہ مجتمع ہوگیااورہر فتنے کے مقابلے میںاللہ تعالیٰ نے فتح مبین نصیب فرمائی، جس سے معلوم ہوا کہ مملکت میںاگر ایک بھی عالی ہمت شخص موجود ہو تو وہ ووسروں کی ہمت ر سائی کے لئے کافی ہوتاہے۔
اتباعِ سنت کے خوگروتاجدار
حضرت صدیق اکبرؓ کو قربِ رسول ﷺ کی بدولت اتباع سنت کا جذبہ بھی وافرمقدارمیں نصیب ہوا جس کااندازہ اس بات سے ہوتاہے کہ جب حضورکی ر حلت کے بعدخلافت کی سپردگی میں صحابہ کرامؓ کے مابین گفت وشنید ہونے لگی تو حضرت صدیق اکبرؓ نے نبی کریم ﷺکا یہ فرمان پیش کیا کہ’’ امام قریش میں سے ہوگا‘‘اسی طرح جب خلافت کے منصب عالی پر متمکن ہوئے اور جگرگوشۂ رسول خاتون جنت حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرأ نے باغِ فدک کی میراث کا مطالبہ فرمایاتواب ایک طرف جگرگوشۂ رسول کی چاہت تھی اور دوسری طرف نبی کریمﷺ کا یہ فرمان عالیشان تھاکہ انبیاء کرام کی وراثت( مال کی شکل میں)نہیں ہواکرتی چنانچہ حضرت ابوبکرؓ نے حضورکے فرمان کو ترجیح دی جسے حضرت فاطمہؓ نے بھی قبول فرمایا،حضر ت اسامہؓ کے لشکر کو بھیجنے کا مسئلہ تھاتمام صحابہ کی رائے یہ تھی کہ فی الحا ل یہ لشکرروانہ نہ کیاجائے مگرحضرت ابوبکرؓ نے یہ ایمان افروزجواب دیاکہ اگرچیل وکوے میراگوشت نوچ ڈالیں تب بھی میں اس لشکرکو نہ روکوں گا جس کی روانگی کا حکم رسول اللہ ﷺ خود دے کر گئے ہیں ،حضرت عمرؓ نے جب جمع قرآن کا مشورہ دیاتوفوراًفرمایاکہ جس کام کو نبی کریم ﷺ نے نہیں کیا اسے میں کیسے کرسکتا ہوں پھراللہ تعالیٰ نے شرح صدرفرمادیااورجمع ِقرآن کاکارنامہ سرانجام دیا۔
بے لوث خدمت ِخلق کے علمبردار
حضرت صدیق اکبر ؓ کی زندگی تین اصولوں پرکاربندرہی (ا)اللہ تعالیٰ کی عبادت(۲)نبی کریم ﷺکی اطاعت(۲)مخلوقِ خداکی خدمت،مخلوق خداکی خدمت کو عبادت واطاعت کی طرح ہمیشہ قائم رکھا،خلیفہ بن جانے کے بعد بھی یتیم بچیوں کے لئے دودھ دہونا،بوڑھی وبے سہاراعورت کے گھر جا کرصفائی اورکام کاج کرنا،بیت المال میں سے بقدر ضرورت وظیفہ لینااورضرورت سے زائد ایک درہم بھی دوبارہ بیت المال میں جمع کرادینا،ذاتی خرچ میں سے میٹھی چیز کے لئے زوجہ کے جمع کردہ دراہم بھی بیت المال کی نذرکردیناایک خداترس اورعوام کاخادم حکمران ہونے کی عکاسی کرتاہے ،اسلام کی جبین پر تابندہ رہنے والے یہ ستارے اورامت مسلمہ کے خلیفۂ اول تریسٹھ سال کی عمرمیں دوسال تین مہینے نودن خلافت کے منصب عالی پر متمکن رہ کر بالاٰخر۲۲ جمادی الثانیہ ۱۳ھ اس دارفانی کو خیر آباد کہہ گئے اور دنیاکی رفاقت ِنبوی کے بعد آخرت کی رفاقت کے لئے روضہ رسول ﷺ میں تادیرآرام فرماہوگئے۔
خدارحمت کندایں عاشقان پاک طینت را