اسلام کے ابتدائی دور میں صحابیاتؓ کی عملی سرگرمیاں صرف عبادات تک محدود نہ تھیں بلکہ سیاسی ، علمی و عملی خدمات میں بھی خواتین اسلام کا زیادہ حصہ رہا ہے۔
چنانچہ اسلام کے ابتدائی دور کی تاریخ خواتین اسلام کے سیاسی کارناموں سے بھری پڑی ہے اور متعدد صحابیاتؓ نے سیاسی خدمات سرانجام دی ہیں۔ حضرت شعاء بنت عبداللہؓ اس درجہ صائب الرائے تھیں کہ خلیفۃ المسلمین امیر المومنین حضرت عمر فاروقؓ ان سے مشورہ کرتے تھے اور بسا اوقات تو مدینہ طیبہ کے بازار کا انتظام بھی ان کے حوالے کرتے تھے۔ (سیرت الصحابیات ص۱۰
ہجرت سے پہلے جب مشرکین مکہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا محاصرہ کرنا چاہا تو رقیہؓ بنت صفی جو حضرت عبدالمطلب کی بھتیجی تھیں ،نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اس ارادے کی اطلاع دی تھی۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مکہ چھوڑ کو مدینہ کی طرف ہجرت کے لیے روانہ ہوگئے۔ اسلام نے عورت کو تمام حقوق دیئے ہیں جن کی یہ صنف نازک حقدار ہے، بلکہ کئی امور میں اسلام نے عورت کو مرد کے شانہ بشانا کھڑا کیا ہے۔ اسلام میں عور توں کے سیاسی اختیارات اس قدر وسیع ہیں کہ وہ دشمنوں کو پناہ دے سکتی ہے اور اما م وقت ان کی امان کو برقرار رکھ سکتا ہے، صحاح ستہ کی مشہور کتاب سنن ابی دائود میں ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا جو حضرت علی المرتضیٰؓ کی بہن تھیں، نے ایک مشرک کو پناہ دی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’قد اجرنا من اجرت وامنا من امنت‘‘ جس کو تم نے پناہ دی اس کو ہم نے بھی پناہ دی جس کو تم نے امن دیا اس کو ہم نے بھی امن دیا۔(ابودائودج(۱)ص274
علمی کارنامے
علمی کارناموں میں بھی خواتین اسلام کو ایک حد تک سبقت حاصل رہی ہے۔ ویسے تو علوم اسلامیہ یعنی علم قرأت ، تفسیر، حدیث، فقہ، فرائض وغیرہ کا ہر زمانے میں چرچا رہا ہے پھر اسلام کے ابتدائی زمانے میں بالخصوص بعد الہجرت ان علوم کی طرف زیادہ میلان تھا، مرد عورتیں، بوڑھے اور بچے سب کا شغف حصول علم کی طرف تھا۔ اس مبارک دور میں بھی متعدد صحابیات رضی اللہ عنہن علم قرأ ۃ، علم تفسیر وحدیث اور علم فقہ وفرائض میں کمال رکھتی تھیں چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا، حضرت حفصہؓ، ام سلمہؓ اور ام ورقہؓ نے پورا قرآن مجید حفظ کیا تھا اور ہشام بنت حارثہؓ، ہند بنت اسیدؓ اور ام سعدؓ بعض حصوں کی حافظہ تھیں، ام سعدؓ تو معلمہ بھی تھیں۔ (سیرت الصحابیات،ص۱۱
احادیث مبارکہ میں ازواج مطہرات عموماً اور حضرت عائشہؓ اور حضرت ام سلمہؓ خصوصاً دیگر صحابیاتؓ سیبڑھ کر تھیں۔ چنانچہ حضرت عائشہؓ کی روایات کی تعداد 2210ہے اور حضرت ام سلمہؓ کی مرویہ کی تعداد 378ہے۔ ان کے علاوہ حضرت ام عطیہؓ، اسماء بنت ابی بکرؓ، ام ہانیؓ اور فاطمہ بنت قیسؓ بھی کثیر الروایہ گزری ہیں ،علم فقہ جو دین کے اساسات میں سے ہے جس کی طرف قرآن مجید میں شوق دلایا گیا ہے اور احادیث میں بھی حامل فقہ کی نہ صرف تحسین کی گئی ہے بلکہ اس کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فضائل بھی بیان فرمائے ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ارشاد گرامی ہے۔’’ مِنْ یُرِد اللہ بہٖ خیراً یفقہ فی الدین‘‘ (الحدیث
دوسری حدیث مبارکہ ہے فقیہ واحد اشد علی الشیطٰن من الف عابد
قرون اولیٰ میں علم فقہ کی طرف نہ صرف صحابہ رضی اللہ عنہم کا میلان تھا بلکہ صحابیات رضی اللہ عنہن کا شوق بھی قابل تقلید تھا چنانچہ اسد الغابہ میں ہے کہ فقہ میں حضرت عائشہؓ سے فتاویٰ اس قدر زیادہ ہیں کہ متعدد ضخیم جلدیں تیار ہوسکتیں ہیں۔
حضرت ام سلمہؓ کے فتاویٰ سے بھی ایک کتاب تیار ہوسکتی ہے۔ اس طرح حضرت صفیہؓ، حضرت حفصہؓ، حضرت ام حبیبہؓ ، حضرت جویریہؓ، حضرت میمونہؓ ،حضرت فاطمہ زہراؓ، حضرت ام شریکؓ، حضرت اسماء بنت ابی بکرؓ، حضرت خولائؓ،حضرت ام الدردائؓ، حضرت عاتکہؓ، حضرت فاطمہ بنت قیسؓ کے فتاویٰ کو بھی رسالوں میں جمع کیا جاسکتا ہے۔
نہ صرف اسلامی علوم بلکہ دیگر علوم میں بھی خواتین اسلام حضرات صحابیات رضی اللہ عنہن کو خاصہ شہرہ حاصل تھا۔
چنانچہ علم نفسیات پر حضرت ام سلمہؓ کو پوری طرح عبور حاصل تھا ۔ فن خطابت میں اسماء بنت سکنؓ کا خاصہ شہرہ تھا اور فن تعبیر میں حضرت اسماء بنت عیسؓ نے گویاپی ایچ ڈی کی ہوئی تھی، فن طب، میڈیکل میں بھی صحابیاتؓ کا اہم کردار رہا ہے۔
کئی صحابیاتؓ اس دور کی لیڈی ڈاکٹر رہی ہیں۔ حضرت رفیدہ اسلمیؓ تو اس وقت کی اسپیشلسٹ لیڈی ڈاکٹر تھیں۔ علاوہ ازیں ام مطاعؓ، ام کبشہؓ، حمنہ بنت جحشؓ کا بھی طب (میڈیکل) میں کافی زیادہ شہرہ رہا ہے۔ طبقات سعد میں ہے کہ رفیدہ اسلمیؓ کا تو مسجد نبوی (صلی اللہ علیہ وسلم) کے قریب خیمہ یعنی (میڈیکل سینٹر)تھا جس میں وہ جراحی کا کام کیا کرتی تھیں۔ یعنی آپریشن روم تھا۔ (طبقات ابن سعد جلد8ص213