© Copyright 2017 Saut-ul-Islam Pakistan All Rights Reserved
+ 92 21 35363159 - 35867580 Fax: + 92 21 35873324
وقت افراد اور قوموں کا سرمایہ ہے۔ ترقی کی وہ راہیں جو اس سرمایہ کے ٹھیک استعمال ہی کی بدولت تلاش ہوسکتی ہیں انہی راہوں میں کامیابی وکامرانی ملتی ہے۔ فرد معاشرے کا جز ہے اور افراد ہی کے ہاتھوں میں اقوام کی تقدیر ہوتی ہے۔ کسی قوم کے زوال کی پہلی علامت یہ ہے کہ اس کے افراد ضیاع وقت کی آفت کا شکار ہوجائیں۔ مسلمان قوم جو ایک درخشاں تاریخ رکھتی ہے اور اس کے جاہ وجلال اور عزت وعظمت کے پرچم سرنگوں ہوئے کوئی زیادہ عرصہ نہیں گزرا۔ وقت کی قدر اس کے مذہبی فرائض میں داخل ہے اور یہ اس کی تاریخی خصوصیت رہی ہے، وہ صدیوں پوری دنیا پر چھائی رہی علم وحکمت کے میدانوں میں بڑھتی اور ترقی کی سیڑھیاں چڑھتی رہی ان کے علم اور دانش کی درسگاہیں تو وقت کی پابند تھیں ہی…عیش قراواں اور وسعت حکومت رکھنے والے بادشاہوں کے درباروں میں بھی یہ سبق سکھا جاتا کہ وہ کلام جو فائدہ سے خالی ہو چاہے کتنا ہی حیرت انگیز کیوں نہ ہو کمال زندگی نہیں زوال زندگی ہے۔
مشہور ہے کہ کسی شخص نے ہارون الرشید کے دربار میں ایک حیرت انگیز کرتب دکھانے کی اجازت چاہی تو اجازت مل گئی تو دربار میں حاضر ہوکر فرش کے بیچو بیچ ایک سوئی کھڑی کردی اور خود کچھ فاصلے پر سوئیاں ہاتھ میں لیکر کھڑا ہوگیا پھر اس نے ایک سوئی اٹھائی اور فرش پر کھڑی سوئی کا نشانہ لیا، حاضرین کی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی جب انہوں نے دیکھا کہ یہ دوسری سوئی پہلی سوئی کے ناکے میں داخل ہوکر پار ہوچکی ہے، اس طرح اس نے تقریباً دس سوئیاں پھینکیں اور سب کی سب پہلی سوئی کے ناکے سے پار ہوگئیں۔
ہارون الرشید نے یہ حیرت انگیز کمال دیکھا تو حکم دیا کہ اس شخص کو دس دینار انعام میں دیئے جائیں اور دس کوڑے لگائے جائیں‘‘ حاضرین نے اس عجیب وغریب انعام کی وجہ پوچھی تو ہارون رشید نے کہا …’’دس دینار اس شخص کی ذہانت و نشانے کی سچائی کا انعام ہے اور دس کوڑے اس بات کی سزا ہے کہ اس نے اپنی خداداد صلاحیتیں اور قیمتی وقت ایک ایسے کام میں صرف کیا جس میں دین ودنیا میں کوئی فائدہ نہیں۔
آج مغرب مادی ترقی کی جن شاہراہوں پر گامزن ہے، اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ مغربی معاشرہ ہزاروں خرابیوں کے باوجود وقت کی قدر کرتا ہے۔وقت افراد کی صلاحیتیوں کو بروئے کار لانے کیلئے مواقع فراہم کرتا ہے اور علم وحکمت میں تلاش وجستجو کا ایک جذبہ اپنے اندر رکھتا ہے۔ عمومی طور پر کام چوری کی عادت مغربی معاشرہ میں نہیں ہے۔ ملازمت کے وقت کی پابندی اور اس وقت میں جم کر کام کرنا ان کے بدترین معاشرے کا بہترین خاصہ ہے اور ظاہر ہے کہ ہر کام کیلئے ایک وقت اور ایک وقت کیلئے ایک نظام کا پابند معاشرہ ہی ترقی کرسکتا ہے۔ انگریزوں کے ساتھ برسوں رہنے والے ایک مسلمان کرنل نے بالکل درست لکھا ہے۔
’’یہ فرنگی لوگ عشق بھی ٹائم ٹیبل بناکر کرتے ہیں اور دم عشق بھی
ایک آنکھ گھڑی پر رکھتے ہیں بلکہ الارم لگالیتے ہیں‘‘
آج معاشرے میں پیدا ہونے والے بچے کی زندگی تباہ کرنے کیلئے ہزار جال بچھائے گئے ہیں، ویڈیو گیم، ٹی وی، سینما اور فحش ورومانوی لٹریچر کا ایک سیلاب ہے جس میں اس کی معصوم زندگی کے حسین اور کارآمد لمحات ضائع کئے جارہے ہیں۔
تعلیم کا زمانہ جو درحقیقت انسانی عمر کی ناپختہ ٹہنی کے برگ وبار کا زمانہ ہوتا ہے اگر وقت کی قدر کے صحت بخش چشموں سے اس کو سیراب کیا گیا تب تو ٹہنی آگے ایسے سایہ دار درخت کی شکل اختیار کرسکتی ہے جس کی شاداب شاخیں پرسکون چھائوں فراہم کرتی ہوں…لیکن اگر اس ٹہنی کو ضیاع وقت کی دیمک لگ گئی تو دوسروں کیلئے سامان راحت کی فراہمی تو کجا خود اپنی شادابی اور زندگی سے بھی محروم ہورہتی ہے۔
وقت کی تہ میں افراد اور قوموں کی ترقی کا راز مضمر ہے
تحریر: علی محمد قاسمی
استاد، جامعہ اسلامیہ کلفٹن کراچی