info@majlissautulislam.com
© Copyright 2017 Saut-ul-Islam Pakistan All Rights Reserved
Email:
01:30
sautulislampk@gmail.com
+ 92 21 35363159 - 35867580  Fax: + 92 21 35873324
05:15
08:15
Example
محترم حضرات علماء! سیرت نبویﷺ کی تدریس کا معاملہ بڑا مشکل ہے اور مدارس میں بلا استثناء جتنے بھی ہمارے بڑے دارالعلوم ہیں ان میں سیرت نبویﷺ کی تدریس وتعلیم بالکل نہیں ہوتی،یہ ان کے نصاب کا حصہ ہی نہیں ہے۔ دارالعلوم ندوۃ العلماء میں خیاط صاحب کی لکھی ہوئی ایک بہت چھوٹی سی کتاب پڑھائی جاتی تھی جس میں درزی گری کے کچھ قیام تو تھے اور بقیے بھی لگے ہوئے تھے لیکن سیرت نبویﷺ کا کچھ پتا نہ تھا۔یہاںشبلی نعمانیؒ نے بیٹھ کر سیرت نبویﷺ پر درس دیا ہو اور تعلیم دی ہو، اپنی کتاب لکھی ہو، بعد میں اس کا شہرہ رہا ہو، سید سلمان ندوی نے اس پر تحقیق وتصنیف کی ہومگر اس کے نصاب میں بھی سیرت موجود نہیں تھی البتہ خارجی مطالعے میں تھی۔یہی صورتحال دارالعلوم دیوبند میں بھی ہے ،تمام مدارس کو اتفاق سے فیض اٹھانے کا موقع ملا تو سیرت نبویﷺکبھی تدریس اور تعلیم کا جزء نہیں رہی۔ بعد کے زمانے میں البتہ یہ ضرور ہوا کہ اس سے خارجی مطالعے میں رکھا گیا اور خارجی مطالعے میں بھی وہ کتابیں رکھی گئیں جو اپنے مسلک اور ادارے کے مطابق ہیں۔
دارالعلوم ندوۃ العلماء میں وہ کتابیں رکھی گئیں جن کا تعلق ندویوں سے تھا اور دارالعلوم دیوبند میں جو کتابیں رکھی گئیں ان کا تعلق دیوبند سے تھا۔ اصلاح اور جامعۃ الفلاح میں جو کتابیں رکھی گئیں ان کا تعلق مدرسۃ الاصلاح اور اور اصلاحیوں سے تھا۔ اسی طرح کی بہت سی کتابیں جن میں اکبر شاہ نجیب آبادی کی کتاب آج تک بہت ہی دھوم دھڑکا کے ساتھ پڑھائی جاتی اور اس کے حوالے دئیے جاتے ہیں۔ بلاشبہ مولانا بہت بڑے عالم تھے لیکن ان کا تاریخ سے یا سیرت سے کوئی تعلق نہ تھا۔ اسی طرح سے جماعت اسلامی سے جووابستہ ادارے ہیں ان میں مولانا مودودیؒ کی کتاب پڑھائی جاتی ہے۔تو یہ مسلکیت جو پیدا ہوئی ہے اس مسلکیت اور اداری تعصب وعصبیت نے خرابی پیدا کی ۔
 استاذ گرامی مولانا  علی میاںؒ صاحب کے بقول ہم رسول اکرم ﷺ تک براہ راست نہیں پہنچتے بلکہ اپنے بزرگوں اور اکابر کے واسطے سے پہنچتے ہیں اور ان کی عینک سے آپ کی سیرت کو دیکھتے ہیں۔اور جب یہ خرابی پیدا ہوتی ہے کہ ہم اسلام کو اور حضور اکرم ﷺ کو ،قرآن مجید کو، تفسیر کو، حدیث کو اپنے خاص نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں تو پھر اس موضوع کی جو اصل ہوتی ہے وہ ہماری گرفت میں نہیں آتی اور ہمارے پاس وہ بنیادی چیزیں رہ جاتی ہیں جو خلاہیں اور اس مقصد کو اس وقت تک پورا کرنا ممکن نہیں جب تک سیرت نبویﷺ کا آپ صحیح طریقے سے مطالعہ نہ کریں۔
حضرات گرامی!
سب سے پہلی چیز یہ ہے کہ کوئی ایک کتاب بنیادی طور سے آپ کو ضرور پڑھنی چاہئے اور وہ کتاب تاریخی طور پر اس لئے کہ ہمارا مطالعہ بحیثیت عالم دین، مدرسے کے فارغ کے یہ تو ہوتا ہے کہ ہم حدیث کی کتابیں پڑھتے ہیں، قرآن مجید پڑھتے پڑھاتے ہیں۔ سیرت نبویﷺ کا الگ سے مطالعہ بھی کرتے ہیں۔ فقہ میں بھی اس کا مطالعہ ہوتا رہتا ہے، حضور اکرم ﷺ سے کسی نہ کسی طوروابستگی ہوجاتی ہے اور یوں ہماری معلومات ہوجاتی ہیں لیکن فن سیرت جس کو کہتے ہیں وہ ہم تک نہیں پہنچتی، نہ ہم میں اس کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے نہ اس کی تفہیم پیدا ہوتی ہے۔ اب کون سی کتاب دیکھی جائے۔
میری رائے میں سیرت پر علامہ شبلی نعمانیؒ کی اردو میں ایک کتاب ضرور پڑھ لینی چاہئے پہلی جلد اور دوسری جلد۔ باقی 5جلدیں نہیں پڑھنی چاہئیں۔ پانچ جلدوں میں اگر آپ کو دلچسپی ہے تو معجزات والی تیسری جلد سید سلمان ندوی کی پڑھ لیجئے اور اس کے بعد مولانا سید سلمان ندوی کے خطبات ضرور پڑھیے تاکہ آپ کو اندازہ ہوجائے کہ سیرت نبویﷺ کا عطر کیا ہے۔ وہ بنیادی طور پر آپ کو وہ چیزیں عطا کریں گے جو معلومات کے اعتبار سے بھی اور سیرت کے لب لباب اور جو اس کا درس ہے اور جس سے ہمیں سبق حاصل ہوتا ہے اور حضور اکرم ﷺ سے وابستگی کا جو درس ہمیں ملتا ہے وہ اس کتاب سے حاصل ہوجائے گا۔اس کے بعد پھر بہت سی کتابیں ہیں جو پڑھی جاسکتی ہیں۔ اب مطالعے کی صورت کیا ہے۔ سب سے  پہلے تو ہمیں تاریخی طور پر رسول اکرم ﷺ کی سیرت اور رسول اکرم ﷺ کے بارے میں معلومات ہونی چاہئیں۔
عربی سے چونکہ آپ سب واقف ہیں اور اس پر دسترس رکھتے ہیں۔ ابن اسحاق یا ابن ہشام کی سیرت النبویہﷺ لازمی طور پر پڑھنی چاہئے۔ اس لئے کہ وہ ہی بنیادی کتاب ہے اس کتاب کے فضائل بھی ہیں اور بعض خرابیاں بھی ہیں۔ فضائل میں یہ ہے کہ اس کی عربی بہت خوبصورت ہے اور بنیادی کتاب ہے جو ابن اسحاق نے مرتب کی تھی۔ اب ابن اسحاق کی کتاب تو موجود نہیں ہے لیکن وہ زندہ ہے ابن ہشام کی کتاب سیرت النبویہﷺ میں۔ یہ عجیب وغریب معاملہ ہوا کہ ابن اسحاق کی تلخیص وتہذیب جب ابن ہشام نے کی تو اس خلاصے اورملخص ومہذب کتاب کو وہ شہرت مل گئی اور وہ مقبولیت حاصل ہوئی کہ اصل کتاب نظروں سے اُوجھل ہوگئی اور اس کے بڑے نقصانات ہوئے۔ ایک تو بنیادی بات یہ کہ وہ کتاب دھیرے دھیرے غائب ہوتی گئی یہاں تک اب اس کا کہیں وجود ہی نہیں ملتا۔ علامہ سیوطی ؒکے زمانے تک معلوم ہوتا ہے کہ ان کی کتاب کسی نہ کسی شکل میں موجود تھی لیکن اب ابن اسحاق کی وہ بنیادی کتاب جو3حصوں میں منقسم تھی ابن ہشام نے بھی اسی طرح تلخیص کی۔
تو حضرات دونوں مصنفوں کا فرق بھی آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ جو بنیادی چیز ہے۔ اس لئے کہ اصل کتاب کیا ہوتی ہے اور تلخیص نگار کیا کرتا ہے اور خلاصہ کس طریقے سے کرتاہے اس کا آپ کو اندازہ ہوگا۔ آپ کسی فقے کی کتاب کو لے لیجیے، حدیث کی کتاب کو لے لیجیے، قرآن مجید کی تفسیر کو لے لیجیے، اس میں آپ کو اندازہ ہوگا کہ اصل کتاب میں جو مباحث ہوتے ہیں ان کو مترجم یا خلاصہ نگار اپنے نقطۂ نظر سے تلخیص وتہذیب کے طریقے سے گزارتا ہے اور بہت سے ایسے مباحث اور کارنامے جو اس کی نظر میں صحیح نہیں ہوتے یا ضروری نہیں ہوتے ان کو نکال دیتا ہے یا ان کی تلخیص کردیتا ہے۔ تلخیص میں بسا اوقات اصل مصنف کی جو منشا ہوتی ہے جو تحقیق ہوتی ہے وہ نکل جاتی ہے اور اس کے مسائل بہت سارے پیدا ہوتے ہیں۔ میں اس کی چند مثالیں دوں گا جن سے آپ کو اندازہ ہوگا۔
ابن ہشام نے اس کتاب کو مرتب کیا ۔ پہلی بات یہ یاد رکھئے کہ ابن اسحاق کی کتاب 3حصوں میں منقسم تھی، اس کتاب کا نام تھا ’’المبتداء والمواص والمغازی ‘‘ ۔اورالمبتداء میں انہوں نے ایک بڑا کارنامہ سرانجام دیا تھا جو آج کل کے گلوبل ہسٹری یا عالمی تاریخ، یونیورسل ہسٹری کا تصور ہے اور اس تصور کو انہوں نے اس طرح سے پیش کردیا تھا کہ عالم تخلیق کو بلکہ وقت کو (زمان ومکان) جو بنیادی چیز ہے اس کو پہلے پیش کیا کہ اللہ تعالیٰ نے تخلیق فرمائی اوراول لمحہ تخلیق سے لے کر کے حضور اکرم ﷺ کے ابتدائی دور یعنی آپ ﷺکی نبوت کے زمانے تک کے تمام لوگوں کی تاریخ بیان کی اور مختصراً قرب وجوار کی تاریخ بیان کی اور انبیاء کے طریقے کو لے کر کے پیش کرتے رہے اور وہی طریقہ ان کا تھا کہ سنت نبویﷺ ہمیں اختیار کرنی ہے لیکن درمیان میں ایران اور بازنطینی جو قریبی علاقے تھے ان کی بھی تاریخ شامل کرلی اور عرب کے علاقوں کی تاریخ بھی شامل کرلی، اس لئے کہ لازمی طور پر وہ قرب وجوار کے لوگ تھے اور اس وقت پورے ایک عرب کا تصور موجود تھا تو قومی اعتبار سے بھی یہ ساری تاریخ مرتب کرکے انہوں نے رسول اکرم ﷺ پر ارتکاز کیا اور آپ ﷺکے آبائو اجداد تک جب وہ آئے قریش تک بھی پہنچے اور رسول اکرم ﷺ کے خاندان سے ہوتے ہوئے آپ ﷺ تک پہنچ گئے اور پھر آپ ﷺ کی ولادت سے لے کر بعثت تک کے تمام بنیادی واقعات انہوں نے بیان کردئیے تھے۔یہ کتاب المبتداء میں ہے ۔تو جناب اس طرح بہت خوبصورت انداز سے انہوں نے کتاب مرتب کی اب اس میں ابن ہشام نے جو تلخیص کی وہ بڑی خراب، خطرناک کی۔ انہوں نے بہت سی ایسی ایسی باتیں کہہ دیں کہ جو حضور اکرم ﷺ سے براہ راست وابستہ نہیں تھیں ان کو نکال دیا اور وہ چیزیں جو وابستہ تھیں اور سیرت النبیﷺ سے تعلق رکھتی تھیں ان کو قائم رکھا لیکن یہ بات ان کی صحیح نہیں، بہت سے مباحث انہوں نے ابن اسحاق کے ایسے نکال دئیے جو بہت ضروری تھے یہ وجہ ہے کہ بعد میں خلا پیدا ہوگیا۔
ایک خراب کام اور بھی کیا انہوں نے۔ ابن اسحاق میں بھی ایک بیماری تھی کہ وہ بہت ساری شعروشاعری کی باتیں اور شاعری شامل کرتے تھے ابھی ابن ہشام کی جو موجودہ کتاب ہے اس میں تقریباً ایک چوتھائی حصہ شاعری پر مشتمل ہے اور وہ بیشتر حصہ صحیح تاریخ نہیں ہے، اس تاریخ کو ٹھیک طرح سمجھنے کے لئے بعض چیزیں تو یقینی طور پر صحیح ہیں جیسے ابو طالب کا قصیدہ ہے بالکل صحیح ہے۔ بخاری میں بھی دوسری جگہوں پر بھی وہ اشعار موجود ہیں ان پر الزام تھا کہ وہ بہت سے اپنے معاصر شعراء کو موضوع دے دیتے تھے اور ان سے تاریخی اشعار کہلواتے تھے اور پھر شامل کردیا کرتے تھے۔ عبدالمطلب کی وفات پر جو مرثیے کا پورا باب ہے کہ مرنے سے پہلے عبدالمطلب نے اپنی بیٹیوں سے کہا کہ میرے مرجانے کے بعد تم کون سے مرثیے کہوگی اور تمہارے جذبات کیا ہوں گے ان کا اظہار کرو تو سب نے شعر کہے اور وہ مرثیے سارے جمع کردئیے گئے۔ اب یہ پورا یعنی درایتی طور سے بھی آپ غور کیجئے کہ مرنے سے پہلے کوئی طے کرے کہ ہمارے مرنے کے بعد آپ کون سے مرثیے کہیں گے تو یہ پیڈ نیوز والا معاملہ ہے اسی طرح جیسے آج کل پیڈ نیوز لکھوائی جاتی ہیں۔ تو اصل میں یہ سارا مسئلہ ایسا تھا کہ جو اس کے استناد کو کمزور کرتا ہے اور بلاوجہ جو غیر ضروری مواد ہے اس میں آجاتا ہے۔ غیر ضروری مواد اس وجہ سے ہوا کہ بہت سی چیزیں جو رسول اکرم ﷺ سے وابستہ تھیں اور بعد میں ہمیں مل گئی ہیں۔جیسے یونس بکیر کی روایت جو ڈاکٹر حمیداللہ صاحب نے عربی میں جمع کی عربی میں ہیں اگرچہ بہت ہی ناقص ہیں لیکن ان میں کچھ چیزیں مل گئیں اور اس سے اندازہ ہوتا ہے یا بعض اور روایتوں میں ابن اسحاق کی روایتیں آئی ہیں۔ وہ اس ابن ہشام کی تلخیص میں موجود نہیں ہیں، اس کی وجہ سے بھی خرابیاں پیدا ہوئیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ابن اسحاق کی کتاب کے تقریباً16,15ایڈیشن تھے اور انہوں نے سب سے پہلا ایڈیشن مرتب کرلیا تھا۔ ہماری ایک غلط فہمی یہ بھی ہے کہ ہم یہ سمجھتے ہیں ابن اسحاق نے اپنی کتاب مدینہ منورہ سے جانے کے بعد عباسی دور میں لکھی تھی اور خلیفہ منصور عباسی کے حکم یا فرمائش پر لکھی تھی یہ بالکل قطعی غلط بات ہے۔
ڈاکٹر حمیداللہ صاحب نے جو کتاب مرتب کی اس میںابن اسحاق پر محاکمہ لکھا اوراس میں ثابت کیا ہے اور یہ ایک ونسن مستشرق کا کارنامہ ہے اس میں تفصیل سے لکھا کہ وہ کون کون سے نسخے تیار ہوئے تھے اوروہ آپ بھی جانتے ہیں ۔ قرأت وسماعت کا طریقہ،مناولہ وغیرہ یہ سب تفصیلات بتانے کی ضرورت نہیں ۔اس میں ابن اسحاق کا طریقہ یہ تھا کہ مدینہ منورہ میں وہ اپنی کتاب کی تدریس کرتے تھے تعلیم کرتے تھے اوریہاں حلقہ اساتذہ وعلماء کا بیٹھتا تھا وہ اپنی اپنی کتابیں تیار کرلیتے تھے۔ ایک مدنی شاگرد جس نے سب سے پہلے ایک نسخہ تیار کیا تھاعباسی دور کے آغاز میں، جب ابن اسحاق نے مدینہ منورہ چھوڑ اہے تو اس وقت تک ان کی کتاب مرتب ہوچکی تھی اور شائع ہوچکی تھی، لوگوں کے سامنے آچکی تھی پھر وہ عراق گئے کوفہ میں رہے، بصرہ میں رہے،عراق گئے، کوفہ میں ان کے 5شاگرد بنے جنہوں نے ان کی کتاب کو مرتب کیا۔تواس وقت تقریباً15کتابیں موجود ہیں۔ ان کتابوں میں بڑی نئی معلومات ہیں جن کا تقابلی مطالعہ کرنے سے بہت سی چیزیں منکشف ہوں گی۔
مثلاً رسول اکرم ﷺ نے طائف کا پہلا سفر کب فرمایا تھا اور آپﷺ کا طائف سے کیا تعلق تھا، اب ہماری تمام سیرتوں میں ابن ہشام کی وجہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول اکرم ﷺ زندگی میں پہلی بار سن10نبوی میں گئے تھے،یعنی ابوطالب اور حضرت خدیجہؓ کی وفات کے بعد۔ اب یہ بداھتہً غلط ہے اوردرایۃً بھی غلط ہے اس لئے کہ دونوں مکہ اور طائف قریبی شہر تھے ان کے تعلقات بہت قدیم تھے اور اتفاق سے جہاں داخلی وخارجی شواہد پائے جاتے ہیں وہاں ایک تاریخی سرحد بھی ہمارے ہاتھ آجاتی ہے۔ ابن اسحاق کی کتاب میں یونس بن بکیر کی روایت ملتی ہے کہ حضور اکرم ﷺ بہت پہلے جوانی کے زمانے میں مکہ سے طائف تشریف لے گئے تھے اور جاتے رہتے تھے طائف سے آپ ﷺ کا قریبی رشتہ تھا،نساب نے بہت سی خواتین کا پتہ لگایا جو مکی اکابرین کی بیٹیاں تھیں اور ثقفی اکابرین سے ان کے رشتے ہوئے تھے۔ خود حضرت محمد ﷺ کے دادا ہاشم کی کئی بیٹیاں وہاں موجود تھیں اس طرح اور بھی کئی لوگوں کے رشتے دار تھے تو تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ ان دونوں شہروں کے درمیان تعلقات نہیں تھے یا حضور نبی کریم ﷺ وہاں تشریف نہیں لے جاتے تھے۔ ایسی بہت سی تفصیلات ہیں جن کا ذکر میں نے اپنی کتاب میں کیا ہے جن سے ثابت ہوتا ہے یہاں دو صدیوں سے تعلقات تھے اور یہ تعلقات تجارتی بھی تھے اور حکمرانی بھی تھے اور دینی بھی تھے۔ تہذیبی ومعاشرتی بھی تھے۔ 
حضرات یہ مثالیں دینے کا مطلب یہ ہے کہ تفصیل میں، تہذیب میں اور تلخیص میں کس طرح سے بہت سی بنیادی معلومات نکل جاتی ہیں جو دوسری کتابوں میں موجود ہیں۔ رسول اکرم ﷺ کی بعثت سے پہلے حضرت زید بن حارثہ کے ساتھ طائف جانے کا واقعہ روایت یونس بن بکیرمیں موجود ہے اس کے علاوہ بہت دلچسپ تفصیلات جو روایت میں ملتی ہیں کہ مکہ سے طائف جانے کے لئے اگر آپ پہاڑی کے راستے سے خچر یا گھوڑے پر جائیں (سڑک سے 75کلو میٹر کا راستہ ہے) تو آپ آدھے دن میں پہنچ سکتے ہیں اس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ مکہ میں سبزیاں اور دیگر کئی اشیاء طائف سے ہی آتی ہیں یہ بذات خود میرے مشاہدے میں بھی ہے تو حضرات یہ جس طرح سے سیرت میں اچانک چیزیں آجاتی ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ یہیں سے سلسلہ شروع ہوا اور پھر ہم اسی کو ترتیب دینا شروع کردیتے ہیں اس طرح ایک خلا باقی رہ جاتا ہے۔
اب مثال کے طور پرحضرت ورقہ بن نوفل کی مثال آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ حضرت ورقہ بن نوفل کے بارے میں ابھی تک علماء کرام مخمصے کا شکار ہیں کہ حضرت ورقہ بن نوفل مسلمان ہوئے تھے یا نہیں۔ ارے بھائی حافظہ بن حجر نے ان کو مسلمانوں میں شامل کیا۔ صحابہ کرامؓ نے شامل کیا۔ اس کے علاوہ بخاری شریف کی حدیث میں حضرت عائشہؓ روایت کرتی ہیں اول مابدی بہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم من الوحی الرؤیا الصالحۃ فی القوم۔تو اس حدیث میں بھی حضرت ورقہ بن نوفل کا ذکر ملتا ہے۔ 
یہاں پر عرض کرتا چلوں چونکہ آپ علماء ہیں، محدثین کے متبع بھی ہیں اور سیرت نگاروں سے بہت خفا رہتے ہیں تو اس سلسلہ میں عرض کرتا ہوں کہ مولانا عبدالرئوف دانا پوری، مولانا کاندھلویؒ اور دوسرے علماء کرام سب نے یہ لکھا ہے کہ اصل میں سیرت نگار اور محدثین میں طریقت اوربقۂ روایت کا فرق ہے۔ اس کی وجہ سے مسائل پیدا ہوتے ہیں محدثین ہر سند کے ساتھ الگ الگ واقعہ بیان کرتے ہیں جن کے بارے میں پتہ نہیں چلتا کہ یہ انفرادی ہے یا اجتماعی جبکہ سیرت نگاریہ کام کرتے ہیں کہ مختلف روایات اور حدیث کو گوندھ کر پیش کرتے ہیں اور اس کے نتیجے میں یہ پتہ لگنا محال ہوتا ہے کہ وہ روایت کس کی ہے اور اس وجہ سے وہ اس میں تدلیس کا الزام لگاتے ہیں حالانکہ مولانا عبدالرئوف دانا پوری نے صحیح لکھا ہے کہ جتنے قدیمی سیرت نگار ہیں وہ سب محدثین میں سے بھی تھے تو یہ طریقہ محدثین میں بھی میں پایا جاتا ہے۔ بہت ادب اور تحفظ کے ساتھ عرض کرتا ہوں کہ حضرت عائشہؓ کی اس حدیث کا تجزیہ کریں۔ (یہ خیال رہے کہ حضرت عائشہؓ اس وقت پیدا بھی نہیں ہوئیں تھیں) یہ مراسل میں ہے اور مراسل صحابہ ہمارے مستند ہیں تسلیم شدہ ہیں۔ اب اس حدیث کو پہلے لفظ سے شروع کریں کہ حضور نبی کریم ﷺ پر سب سے پہلی وحی رویائے صادقہ کی شکل میں نازل ہوئی۔حضرت جبریلؑ غار حرا میں آئے آپ کی پریشانی اور حضرت خدیجہؓ کی تسلی اور آپﷺ کے صفات حسنہ کا واسطہ،گفتگو اور پھر حضرت ورقہ بن نوفل کے پاس لے جانا، ان کی تسلی اور ناموس اکبر کا حوالہ اور اس کے بعد ورقہ بن نوفل کی مدد کا ذکر کہ میں زندہ رہا تو آپ کی مدد کروں گا لیکن حضرت ورقہ بن نوفل جلد ہی وفات پاگئے، یہ پوری حدیث اگر آپ جوڑیں گے تو یہ 10،15افراد کی روایت کا مجموعہ ہے جو حضرت عائشہؓ نے مختلف جگہوں سے حاصل کیا تھا اور یقیناآپؓ نے حضور نبی کریمﷺ سے بھی استفادہ کیا ہوگا اس لئے کہ رسول اکرم ﷺ بنیادی ماخذ تھے۔ حضرت خدیجہؓ کو تو عائشہؓ نے دیکھا بھی نہ تھا اور اس کے علاوہ دیگر کئی لوگوں نے بھی نہیں دیکھا تھا۔ درایت کے بنیاد پر عرض کررہا ہوں روایت کی بنیاد پر بھی اس کو شامل کرلیجیے اس لئے کہ ہمارے ہاں ایک روایت کی بنیاد پر گفتگو آپ نہیں کرسکتے، آپ گفتگو کریں گے مختلف روایات کے تناظر میں ،اس موضوع سے متعلق جتنی روایات ہوتی ہیں، ہماری مصیبت یہ ہوتی ہے کہ جب ہم کوئی گفتگو کرتے ہیں تو ایک آیت یا ایک روایت کی بنیاد پر بولتے ہیں اور اس سے متعلق جتنی دیگر روایات ہوتی ہیں انہیں نظر انداز کردیتے ہیں اور یوں مسائل پیدا ہوجاتے ہیں یہ عام آدمی کے لئے پریشانی کا باعث بن جاتے ہیں کہ کس پر عمل کریں اور کس پر عمل نہ کریں تو یہ ایک بڑا مسئلہ ہے جس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
سیرت نبویﷺ کے اعتبار سے یہ پہلی چیز ہماری ساری کتابوں میں چلی آرہی ہے کہ رسول اکرم ﷺ پر پہلی وحی غار حرا میں اقرا باسم ربک الذی خلق نازل ہوئی۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ یہ پہلی وحی تھی یا پہلی قرآنی وحی تھی، اس لئے کہ عنوان میںہے۔اول مابدی بہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم من الوحی الرؤیا الصالحۃ فی النوم…تو پہلی وحی تورویائے صادقہ ہے اور انبیاء کرام کے جتنے رویائے صادقہ ہوتے ہیں وہ وحی ہیں۔ اور یہ ایک وحی نہیں اگر آپ قرآن مجید کی آیات سے پتہ لگائیں۔ حدیث سے پتہ لگائیں تو حضرت ابراہیمؑ کو حضرت اسماعیلؑ کی قربانی کا حکم آتا ہے تو یہ بھی رویائے صادقہ تھا، حضرت یوسفؑ کا رویائے صادقہ تو قرآن مجید میں سورۃ یوسف میں موجود ہے پہلی بارروہائے صادقہ کا دیکھنا اور بعد میں اس کی تکمیل ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے’’ھذا تاویل رء یای من قبل‘‘اب دیکھئے قرآن مجید میں پوری طرح سے ’’لقد صدق اللہ رسولہ الرؤیا بالحق لتدخلن المسجدالحرام انشاء اللہ آمنین‘‘ توایسے رویا سب کے پاس ہیں۔
 اب رویاکو ہم نے پہلی وحی سے الگ کردیا اور اس کے نتیجے میں رویائے صادقہ بھی نکل گئی اور وحی وحدیث بھی نکل گئی تو حدیث کا وحی سے تعلق بنیادی ہے اور یہ پہلی وحی تھی، اب مسئلہ یہ پیدا ہوتا ہے رسول اکرم ﷺ پہلی بار کیسے رسول بنے تھے تو اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا جو وحی رسول اکرم ﷺ پر نازل ہوئی تھی وہ رمضان میں نازل ہوئی تھی اور لیلۃ القدر میں نازل ہوئی تھی، اب اس کی تاریخ کوئی بھی متعین کیجئے، بعض محدثین کی تعبیر وتوجیہ یہ ہے کہ جب پہلی وحی نازل ہوئی تھی تو آپ ﷺ کی عمر مبارک 40سال 6مہینے ہوچکی تھی تاہم سیرت نگاروں کی اکثریت کے نزدیک جس دن حضور نبی کریم ﷺ 40سال کے پورے ہوئے اور 41ویں سال میں داخل ہوئے تو آپ ﷺ نبی بنادئیے گئے تھے اور یہ ابن اسحاق سے لے کرتقریباً تک تمام سیرت نگاروں کا ذکر ہے اور محدثین بھی اس میں شامل ہیں۔40سال پر تو سب متفق ہیں اب 6ماہ کا مسئلہ ہے تو عرض ہے کہ 6مہینے تک حضرت جبرئیلؑ آپ ﷺ کی خدمت میں وحی لے کر آتے رہے یا کشف کی شکل میں یا دوسرے طریقے سے وحی آتی رہی تو وہ رویائے صادقہ کی شکل میں تھی بہرحال رویائے صادقہ 6مہینے تک آتے رہے۔ آپ سب علماء کرام جانتے ہیں کہ رویائے صادقہ نبوت کا 46واں حصہ ہے، اب یہ 46واں کیوں؟ یہی سوال میرے والد صاحب نے مجھ سے بچپن میں کیا تھا کہ بیٹا یہ 46واں کیوں ہے؟ 50واں کیوں نہیں ہے؟100واں کیوں نہیں ہے؟ تو بڑی پریشانی ہوئی میری سمجھ میں آئی نہیں۔ لیکن انہوں نے ایک نقطے کی بات بتائی تھی جو آپ کے سامنے بھی عرض کروں گا۔ انہوں نے پہیلی کی صورت میں پھر پوچھا۔ اچھا بتائو کتنے برس تک حضور اکرم ﷺ پر وحی آتی رہی تو میں نے عرض کیا کہ 23برس تک۔ تو کہنے لگے کہ 23برس کو اگر آپ ششماہی میں ضرب کریں تو کتنی ہوئیں۔ تو اب بات سمجھ میں آگئی کہ یہ 46ششمائیاں بنتی ہیں۔ پہلی ششماہی خاص تھی رویائے صادقہ کے لئے اور اس کی وجہ سے وہ 46واں حصہ نبوت کا قرار پایا۔ یہ اصل بنیادی چیز ہے کہ جس کو ہمیں دیکھنا چاہئے کہ کس طرح سے ہوگا۔ اب اس طرح 6ماہ کا مسئلہ حل ہوجاتا ہے۔
آپ حضرات چونکہ صاحب علم ہیں لہٰذا یہ غور کریں بلکہ یہ ایک موضوع بنتا ہے کہ سیرت نبویﷺ میں سچے خوابوں کا کیا کردار ہے۔ یہ بہت زبردست موضوع ہے جس کے تحت آپ بہت بڑا کارنامہ انجام دیں گے اور اس میں بہت سی نئی چیزیں سامنے آجائیں گی۔ حضرت ورقہ سے بات شروع ہوئی تھی جو یہاں تک پہنچی۔ اب اگر آپ اس ساری گفتگو پر غور کریں اور مطالعہ میں لائیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ گویا آپ ﷺ کی حضرت ورقہ سے پہلی ملاقات نبی بننے بلکہ قرآن پاک کی پہلی آیت اترنے کے بعد ہوئی تھی۔
اسی پر ہماری ساری گفتگو چلتی ہے۔ ابن حجر کی تفسیر دیکھ لیجیے شرح میںدیکھ لیجیے، دوسرے بزرگوں کے ہاں دیکھ لیجیے یہیں سے ہم ساری کتابوں میں حضرت ورقہ بن نوفل کا پہلے ذکر پاتے ہیں اور جب کبھی پلٹ کر سیرت نبویﷺ میں دوسری طرف جاتے ہیں تو ان کا ذکر اور بھی جگہوں پر ملتا ہے اور بہت پہلے ملتا ہے۔ مثلاً حضرت خدیجہؓ سے جب آپ ﷺ کی شادی ہوئی تھی تو اس میں خطبہ کس نے پڑھا تھا تو آپ ﷺ کی طرف سے ابو طالب اور حضرت خدیجہؓ کی طرف سے حضرت ورقہ بن نوفل نے پڑھا تھا۔ دونوں کی جانب سے خطبہ نکاح کا متن موجود ہے مولانا کاندھلویؒ نے اس کا ذکر بھی کیا ہے۔اب یہاں ایک بات تو یہ بھی سامنے آتی ہے کہ شادی میں دونوں جانب سے خطبے بھی پڑھے گئے۔ اسی تناظر میں ایک بات اور بھی عرض ہے کہ حضرت خدیجہؓ اور حضرت ورقہ بن نوفل کا تعلق ایک ہی خاندان سے تھا اور دونوں چچا زاد بہن بھائی تھے۔ اس سے بھی بڑا ایک تعلق یہ تھا کہ حضرت خدیجہؓ حضرت ورقہ کی مسماۃ تھیں۔ حضرت خدیجہؓ کی پہلی نسبت حضرت ورقہ سے طے تھی اور وہ شادی کسی وجہ سے نہیں ہوسکی تھی۔ حضرت خدیجہؓ اور حضرت ورقہ بن نوفل کی پوری زندگی پر نظر ڈالیں تو حضور اکرم ﷺ کی ولادت مبارک سے بھی قبل ان کے درمیان بڑا قریبی رشتہ تھا اور رسول اللہ ﷺ کی ولادت کے بارے میں حضرت ورقہ کو جو معلومات تھیں وہ ہمارے سیرت نگاروں نے جمع کیں اگرچہ یہ بہت زیادہ نہیں لیکن یہ بہت اہم بلکہ اہم ترین ہے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے حضرت ورقہ سے آپ ﷺ کی ملاقاتیں بچپن سے تھیں اور آخر عمر تک رہیں اور جس طرح سے حضرت ورقہ کی زندگی کا دورانیہ بیان کیا جاتا ہے کہ وہ جلدی وفات پاگئے تھے جلدی نہیں وفات پاگئے تھے۔ وہ حدیث پڑھ لیجیے جس میں ذکر آتا ہے کہ حضرت بلالؓ جب اَحد اَحد کرتے گزرتے تھے تعظیم میں تو حضرت ورقہ بن نوفل نے انہیں تسلی دی تھی۔ اگر حضرت عائشہؓ کی پہلے گزری حدیث کی تفصیل دیکھئے اورجو اس میں حقائق بیان کئے گئے ہیں ان کو اگر آپ بیان کریں گے تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ کتنی چیزیں ہیں جو ابھی بھی تشنۂ تشریح ہیں۔ 
مثلاً حضرت ورقہ بن نوفل نے جہاں یہ بات کہی تھی کہ وحی ناموس اکبر ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر آیاتھا اور خودنصرانی تھے۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا حوالہ کیوں نہیں دیا؟ اور وہ توراۃ اور انجیل کے عالم تھے اور عربی میں اس کو ترجمہ بھی کرتے تھے،کتابیں بھی لکھتے تھے ،لیکن ناموس اکبر کا ذکرتے ہیں ،حضرت موسیٰ علیہ السلام کے حوالے سے نہ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حوالے سے۔لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ذکر نجاشی کے حوالے سے آتا ہے عام طور پر ان کا ذکرنہیں آتا،اس پر غورکرنے کی ضرورت ہے کہ انہوں نے کیوں حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ناموس اکبر آنے کا ذکر کیا؟ دوسری بات، حضرت ورقہ بن نوفل نے یہ بھی کہا تھا کہ آپ کی قوم آپ کو نکال دے گی تو آپ کو بہت حیرت ہوئی تھی،اور آپ نے کہاتھا کہ کیا میری قوم مجھے واقعی نکال دے گی؟ اس پر حضرت ورقہ بن نوفل نے کہا جی ہاں!جو بھی یہ پیغام لے کرآتا ہے اس کی قسمت میں ہے کہ وہ اپنے وطن سے نکال دیا جاتاہے،اس پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔تیسری بات یہ کہی تھی جب آپ کو نکال دیں گے تو آپ کی قوم سے آپ کی جنگ ہوگی اس جنگ میں ،میں آپ کی مدد کروںگا،اور آپ کی مدد ایسی ہوگی جو آپ کو فتح دلائے گی۔
رسول اکرم ﷺ کے عالمگیر نبی ہونے کا ذکر پہلے سے ہی موجود ہے۔ سورۂ انعام کو پڑھیں تو اس میں صاف طور پر ہے کہ ہم نے آپ ﷺ کوکافۃ للناس بھیجا ہے۔کوہ صفا میں دیئے پہلے خطبہ میں آپ ﷺ نے جو گفتگو فرمائی تو اس میں یہی کہا تھا کہ ’’میں تم لوگوں کی طرف عام طور سے خاص طور سے بھیجا گیا ہوں اور تمام لوگوں کی طرف مبعوث کیا گیا ہوں‘‘۔ یہ جملہ عام طور پر ہماری کتابوں میں نہیں آتا۔
یہ چھوٹی چھوٹیں باتیں بتانے کا مقصد یہ ہے کہ سیرت النبیﷺ کا مطالعہ کس طرح سے کریں تو جب آپ سیرت النبیﷺ کا مطالعہ کریں تو اس مطالعے کے لئے ضروری ہے کہ ہم سیرت النبیﷺ کے واقعات کو ان کے اصل تناظر میں اور تاریخی اعتبار کو تناظر میں رکھ کر یں۔ میں نہیں جانتا آپ میں سے کتنے جانتے ہیں کہ مکی دور میں مواخات ہوئی تھی۔ مواخات کا باب ابن اسحاق کی کتاب میں پڑھیں گے تو اس میںبہت زیادہ ابہام ہے۔آپ کو کہیں نظر نہیں آئے گا کہ مکی دور میں بھی کوئی مواخات ہوئی سب کا ذکر مدنی دور سے ہے ۔
میں کسی مقالے میں پڑھ رہا تھا کہ رسول اکرم ﷺ نے جب مدینے میں انصار ومہاجرین کے درمیان مواخات فرمائی تو پہلے مہاجرین کے درمیان کرائی اس میں ابوبکرؓ اور عمرؓ کو بھائی بنایا۔ عبدالرحمنؓ اور عثمانؓ کو بنایا اور اپنے آپ کو حضرت علیؓ سے وابستہ کیا۔ اب دیکھیں یہاں دو الگ الگ مقامات کی مواخات کو ایک جگہ یعنی مدنی مواخات میں گڈمڈ کردیا گیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ سیرت پر آپ ساری کتابیں پڑھئے جن میں علامہ شبلی نعمانیؒ بھی شامل ہیں کہیں کسی کی بھی کتاب میں مکی مواخات کا ذکر نہیں ملے گا تاہم بعض دوسرے ایک، دو مصنفین کے ہاں مکی مواخات کا ذکر ضرور پایا جاتا ہے تو معاملہ دراصل یہ ہے کہ یہ معاشرے کی تاسیس کا معاملہ ہے ۔امت محمدیہ کی تشکیل کب ہوئی تو جب امت اسلامیہ کی تاسیس کا ذکر ہم کرتے ہیں تو دستور مدینہ کا ذکر کرتے ہیں جس میں میثاق مدینہ لکھا گیا تھا اور اس میں پہلی بار امت واحدہ یا امت مسلمہ کا ذکر ملتا ہے جبکہ حضور اکرم ﷺ نے سب سے پہلے مکی زندگی میں اسلامی معاشرے کی بنیاد رکھی تھی۔
ہمارے استاذ محترم پروفیسر محمد حبیب صاحب  اپنی ایک کتاب میں ایک جملہ لکھتے ہیں کہ ’’جہاں ایک مسلمان موجود ہوتا ہے وہاں صرف ایک فرد مسلمان نہیں ہوتا بلکہ ایک ریاست موجود ہوتی ہے، ایک معاشرہ موجود ہوتا ہے اور رسول اکرم ﷺ کا کارنامہ یہ ہے کہ وہ موجودہ دھارے کے خلاف بہے تھے اور نہ صرف بہے تھے بلکہ دوسروں کو بھی بہالے گئے تھے۔ یہ بنیادی چیز ہے کہ ایک مسلمان کہیں بھی ایک جگہ پر ہو وہ اپنی جگہ پر فرد بھی ہے اور اس کے ساتھ وہ امت بھی ہے۔
ابراہیمؑ امۃً قانتاً وہ اکیلے ہیں لیکن امت میں پورے پورے۔ حضرت عمرو بن نفیل حضور اکرم ﷺ کی بعثت سے پہلے وفات پاگئے۔ حضور ﷺ سے حضرت عمرؓ کا بھی تعلق تھا ان کے بیٹے حضرت سعید بن زید کا بھی تعلق تھا تو انہوں نے پوچھا کہ اے زید بن نفیل عمرو بن نفیل کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے تو آپ نے فرمایا کہ امت واحدہ کے طور پر مبعوث کئے جائیں گے اور جس طرح سے انہوں نے فرمایا تھا اس پر انہیں صحابی کا درجہ دیا گیا۔
 اس لئے کہ وہ غائبانہ طور پر ان پر ایمان لائے تھے، یہ ایک بہت ہم چیز ہے جو اسلامی معاشرے کی تشکیل کا باعث بنتی ہے اور حضور اکرم ﷺ نے مکہ میں ہی اسلامی معاشرہ قائم کردیا تھا۔ وہیں سے شروع ہوگیا تھا، حضور اکرم ﷺ پہلے اول المسلمین تھے، حضرت خدیجہ اور دوسرے لوگ بعد میں آئے لیکن جس وقت آپ ﷺ نے اعلان نبوت کیا تھا اسی وقت امت اسلامی کی بنیاد پڑچکی تھی اور اس کو جوڑ دیجیے اس حدیث سے جس میں آپ ﷺ کی ختم نبوت کا معاملہ ہے، حدیث میں آیا ہے کہ لوگ ایک محل میں گھومتے تھے، محل بڑا خوبصورت ہے بڑا شاندار ہے بس ایک اینٹ کی کمی ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں اسی کی تکمیل کرنے آیا ہوں تو یہ معاشرہ نبوی معاشرہ تھا اور پھر قرآن مجید کی آن آیات سے اس کو جوڑیے جس سے آپ کو اندازہ ہوگا جہاں سورۃ انعام میں 17انبیاء کرام کا ذکر کرنے کے بعد امت واحدہ کا ذکر ہے، یہی ہے امت واحدہ اور اسی کی اتباع کیجیے، ملت ابراہیمؑ کی اتباع کیجیے، یہ نبوی معاشرہ غیر اسلامی معاشرے کے مقابلے میں ایک امت بنتا چلا آرہا تھا اور یہ چلتا رہا۔ یہ نبوی معاشرے کیسے تشکیل پاتے رہے؟۔
حضرت نوحؑ سے پہلے کی چیزوں کو اگر آپ چاہیں تو قابیل اور ہابیل سے بھی جوڑ لیجیے دیکھ لیجیے کہ وہاں صورتحال کیا تھی اور بعد میں حضرت نوحؑ کے زمانے میں تو تفصیل قرآن مجید میں بہت زیادہ ملتی ہے۔ حضرت نوحؑ ، حضرت ابراہیمؑ، حضرت اسماعیلؑ اور ان کے بعد پھر تمام انبیاء علیہ السلام اور ان کی مخالف قوتوں کو سامنے رکھ لیجئے تو نبوی معاشرے بنتے چلے آئے اور یہ نبوی معاشروں کا ایک تسلسل چلا آرہا ہے ۔ حضرت آدمؑ سے لے کر فخر موجودات حضرت محمدﷺ تک یہ نبوی معاشرے ہیں جن کی میراث کو ہم پاتے ہیں تو جب ہم اس طرح سے سیرت نبویﷺ کا مطالعہ کریں گے تو نبوت کا تسلسل، تسلسل نبوت کی میراث کا تسلسل امت اسلامی کا تسلسل ،تسلسل امت واحدہ کا، اس کی اساس کا اس کی میراث کا یہاں تک کہ قرآن مجید اور کتاب الہٰی کا تسلسل بھی معلوم ہوگا۔
ابھی ایک مطالعے میں عجیب وغریب چیز سامنے آئی، عام طور پر 4کتابیں بیان کی جاتی ہیں اور بنیادی طور پر یہ 4کتابیں ہی آتی ہیں یعنی توراۃ، زبور، انجیل اور قرآن مجید، اس مطالعے میں اندازہ ہوا کہ صاحب صحف ابراہیم کہاں گئے؟ اس کوتوہر روز پڑھتے ہیں لیکن کہیں ذکر نہیں کرتے۔ان ھذا لفی الصحف الاولی صحف ابراہیم وموسیٰ۔ اب صحف اولیٰ کون کون تھے ۔سورۃ نجم میں دیکھئے وہاں صحف اولیٰ اور دوسرے صحف کا تذکرہ موجودہے۔پھرحضرت ابراہیم کے صحف کا ذکر کئی جگہ موجود ہے۔حضرت موسیٰ کے صحف کا ذکر ہے۔لیکن جب سورہ انعام میں 17،18کو ہم دیکھتے ہیں تو تمام انبیاء کرام کا ذکر چلا آرہا ہے،اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔’’اولٰئک آتینٰھم الکتاب ‘‘ یہ سب وہ لوگ ہیں جن کو ہم نے کتاب دی تھی۔
’’یحییٰ خذا الکتاب بقوۃ‘‘ اس کے بعد حضرت عیسیٰ کا ذکر آتا ہے وہاں بھی یہ کتاب ہے اور ابھی بولنے والے بھی نہیں تھے معجزاتی طور پربول رہے ہیں۔انی عبداللہ آتانی الکتب وجعلنی نبیاً،وجعلنی مبارکاً اَینما کنت واو صانی بالصلوٰۃ والزکاۃ مادمت حیاً،وبرابوالدتی ولم یجعلنی جباراً شقیاً۔تو اب دیکھئے یہاں کتاب بھی ہے نبوت بھی ہے اس کے ساتھ ساتھ نماز وزکوٰۃ کا بھی ذکر ہے تو یہ ساری کتابیں موجودہیں۔25انبیاء کا ذکر قرآن میں موجود ہے تو 25کتابوں کا بھی ذکر موجود ہے۔اس کے علاوہ بھی کتابیں رہی ہوں گی اب دوسری شق یہ ہے کہ 25کتابیں تو معرف ہوگئی ہیں اب جو موجودہ کتابیں ہیں توراۃ،انجیل ،زبور وغیر وہ توبنیادی طور پر اوریجنل تو پائی نہیں جاتی تجربات ہیں۔(
سیرت نگار اور محقق
مولانا ڈاکٹر محمد یاسین مظہر صدیقی
کے مجلس صوت الاسلام میں دو دن