عبرانی میں، سارمائی میں، سامی زبانوں میں انبیاء علیہ السلام پر نازل ہوئیں تھیں وہ کتابیں اس وقت موجود نہیں ہیں وہ ساری کتابیں کیا ختم ہوگئیں۔ ان کے مباحث کہاں گئے۔
غور فرمائیے گا کہ جس طرح سے حضور نبی کریم ﷺ تمام انبیاء علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نبوتوں کا جامع نبی ہیں اسی طرح قرآن مجید تمام آسمانی کتابوں میں جامع کتاب ہے۔ لہٰذا کوئی کتاب الٰہی مِٹی نہیں اور نہ ہی مٹ سکتی ہے۔ وہ سب کے سب موجود ہیں ، جب آپ قرآن مجید میں غور فرمائیں گے تو یہ سب موجود پائیں گے ۔
یہاں دو مثالیں آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں جن سے آپ کو اندازہ ہوگا۔
سورۂ فتح میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات حسنہ کا ذکر ہے۔چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗٓ اَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآئُ بَیْنَھُمْ تَرٰہُمْ رُکَّعًا سُجَّدًا یَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰہِ وَ رِضْوَانًا سِیْمَاھُمْ فِیْ وُجُوْھِہِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ ذٰلِکَ مَثَلُہُمْ فِیْ التَّورٰۃِ …… وَمَثَلُہُمْ فِی الْاِنْجِیْلِ کَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْئَہٗ فَاٰزَرَہٗ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَویٰ عَلٰی سُوْقِہٖ یُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیْظَ بِھِمُ الْکُفَّارَ وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنْھُمْ مَّغْفِرَۃً وَّ اَجْرًا عَظِیْمًا
اب ہمارے قاری دونوں کو ملادیتے ہیں، ذٰلِکَ مَثَلُہُمْ فِیْ التَّورٰۃِ …… وَمَثَلُہُمْ فِی الْاِنْجِیْلِ
یہاں سے معاملہ خراب ہوجاتا ہے۔ ذٰلِکَ مَثَلُہُمْ فِیْ التَّورٰۃِ میں رکنا چاہیے، اس لئے کہ اوپر جو گفتگو آئی ہے تورات میں بیان ہے ۔رسول اکرم اور صحابہ کرام ؓ کے متعلق اور آگے جو آرہا ہے ’’وَمَثَلُہُمْ فِی الْاِنْجِیْلِ کَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْئَہٗ فَاٰزَرَہٗ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَویٰ عَلٰی سُوْقِہٖ یُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیْظَ بِھِمُ الْکُفَّارَ ‘‘ یہ ہے بیان رسول اکرم ﷺ کااور صحابہ کرامؓ کا بعد میں انجیل میں۔
حضرات علمائ!
آپ نے اس پر غور فرمایا کہ پہلی مثال جو تورات کی ہے اور دوسری مثال جو انجیل کی ہے ان دونوں میں معنوی اور لفظی فرق کتنا ہے، بالکل واضح طور پر تورات کا بیانیہ ہے اس میں کوئی تشبیہ، استعارہ وغیرہ نہیں ہے اور جہاں تک انجیل کی بات ہے اس میں سب تشبیہہ ، استعارہ پر مبنی بات ہے، ’’کَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْئَہٗ فَاٰزَرَہٗ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوٰی عَلٰی سُوْقِہٖ یُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیْظَ بِھِمُ الْکُفَّارَ ‘‘ ۔ ایسا کیوں ہے ؟ تو حضرات وجہ یہ ہے کہ تورات جتنی آئی بہت واضح زبان میں ہے ، آج بھی اگر آپ اس کا مطالعہ کرکے دیکھیں گے تو بالکل واضح اسٹیٹمنٹ ہے۔ اس میں کوئی استعارہ اور تشبیہ وغیرہ نہیں پائے جاتے؟ لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان پر نازل کتاب جس زبان میں ہے اس میں جو گفتگو ہے وہ ہمیشہ استعاروں سے آتی تھی، تشبیہات سے آتی تھی، سیدھی سادی زبان میں نہیں آتی تھی، اس کو برقرار رکھا گیا اور وہاں سے اللہ تعالیٰ نے اس کو قرآن مجید میں جمع کردیا۔
اب ’’وَلَقَدْ کَتَبْنَا فِی الزَّبُوْرِ مِنْ بَعْدِ الذِّکْرِ اَنَّ الْاَرْضَ یَرِثُھَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَ: اِنَّ فِیْ ھٰذَا لَبَلٰغًا لِّقَوْمٍ عٰبِدِیْن وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ‘‘ یہ پوری آیت تورات کی آیت ہے جو قرآن مجید میں کوڈ کی گئی ہے۔ تو جناب والا یہ وہ بنیادی چیزیں ہیںجو ہمیں آنکھیں کھول کر غور کرکے پڑھنی چاہئیں۔ ورنہ سیرت نبویﷺ کا مطالعہ ہم صحیح طریقے سے نہیں کرسکتے۔
ابھی جو آنکھیں بند کرکے کتابوں کے مطالعہ کا طریقہ ہے ہمیں اس کو بدلنا ہوگا۔ اکثر وبیشتر میں عرض کرتا رہتا ہوں کہ ابن اسحاقؒ اور ابن ہشامؒ اللہ ان کی مغفرت کرے اور درجات بلند کرے۔ انہوں نے جہاں ہمارے اوپر احسان کیا ہے کہ انہوں نے سیرت نبوی ﷺ کا بنیادی مواد ہم تک پہنچایا وہاں ایک بڑا ظلم بھی کیا ہے وہ راستہ دے گئے جو ہم مقلدین نے بالکل اندھی تقلید کے ساتھ قبول کرلیا اور اب اس سے ہٹتے نہیں۔ آپ دیکھ لیجیے مولانا شبلیؒ کی کتاب ہو، مولانا کاندھلویؒ کی کتاب ہو یا اردو کی یا پھر عربی کی کتابیں ہوں سب کی سب ابن اسحاق اور ابن ہشام کے تتبع میں لکھی جاتی ہیں۔ وہی طریقہ، وہی تربیت اختیار کی جاتی ہے، کہیں کہیں مشکل سے فرق نظر آتا ہے جسے علامہ شبلیؒ نے دوسری جلد میں کچھ مختلف کیا ہے۔ اسی لئے میں سمجھتا ہوں کہ آپ سب کو بھی علامہ شبلیؒ کی دوسری جلد کا مطالعہ کرنا چاہیے اور بار بار پڑھنا چاہیے تب آپ کو معلوم ہوگا کہ سیرت نبویﷺ ہے کیا؟ وہ واقعات جو بنیادی طور پر بیان کئے جاتے ہیں ۔ ظاہری واقعات، حوادث و واقعات وہ اصل میں بنیادی چیز نہیں ہوتے۔ ابن خلدون نے اسی بنیاد پر بہت فلسفیانہ بات کہی اور حکیمانہ بات ہے اور یہی واقعہ ہے کہ جو واقعات سامنے ہمیں نظر آتے ہیں ان کے پیچھے بہت سے تکوینی اسباب و علل ہوتے ہیں۔ وہ دھارے کہلاتے ہیں جو اندرونی دھارے ہیں اور یہ دھارے تاریخ کے واقعات کو بناتے ہیں جو ظاہری حوادث ہیں یہ اندرونی حوادث نہ ہوں یا دھارے نہ ہوں تو بیرونی جو آپ کو نظر آرہے ہیں وہ بالکل نظر نہیں آئیں گے۔ دریا کی مثال دیکھ لیجیے سمندر کی مثال دیکھ لیجیے اس کے علاوہ دوسری چیزیں ہیں۔
کبھی آپ نے اس پر غور کیا کہ آخر سیرت نبویﷺ میں حضور اکرم ﷺ مکے میں کیوں پیدا ہوئے؟ اور مکے میں آپ ﷺ کی بعثت کیوں ہوئی؟ اس کا تعلق جوڑنے کی ضرورت ہے۔ کوئی بھی چیز دیکھ لیجیے ۔ حضرت ابراہیمؑ کنعان میں کیوں تھے۔ یا وہاں کیوں پیدا ہوئے تھے۔ دوسرے انبیاء کرام کہیں کسی علاقے میں کہاں تھے اور کیوں پیدا ہوئے ۔تو یہ کوئی حادثاتی واقعہ نہیں تھا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا سوچا سمجھا منصوبہ ہوتا ہے جس کے مطابق یہ چیزیں پیش آتی ہیں۔
تو حضرت اس پر غور کیجیے تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ اللہ کا گھر ’’اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّۃَ مُبٰرَکًا وَّھُدًی لِّلْعٰلَمِیْنَ‘‘ پھر حضرت ابراہیمؑ کی دعا پر غور کیجیے۔ ’’رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِکَ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُزَکِّیْھِمْ اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ‘‘
تو ان تمام چیزوں سے آپ کو اندازہ ہوگا کہ جہاں حضرت ابراہیمؑ نے بیت اللہ کی تعمیر کی تھی اور اس کو نئے سرے سے بنایا تھا۔ یہ تو پہلے سے بنا ہوا چلا آرہا تھا۔ حضرت ابراہیمؑ نے بنیاد سے اوپر اٹھایا تھا، جبکہ بنیادی طور پر اس گھر کی تعمیر تو بہت پہلے ہوچکی تھی لیکن حضرت ابراہیمؑ کی تعمیر اور اس کے بعد اذان ابراہیمی کے نتیجے میں یہ طے ہوگیا تھا کہ اب رسول یہیں پیدا ہوں گے اس لئے کہ حضرت ابراہیمؑ کی دعا رد ہونے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہ خلیل اللہ تھے اور خلیل الرحمن تھے، کیوں تھے اسی بناء پر ہی تھے تو خاتم النبیین کا سلسلہ تمام نبوتوں کے سلسلے میں، شریعت کے سلسلے میں دوسری چیزوں کے سلسلے میں بھی آپ کو غور کرنا پڑے گا کہ کیوں ایسا ہوا؟ اور اس کے پیچھے اسباب وعلل کیا تھے۔ مثلاً معراج کا واقعہ پہلے بھی پیش آسکتا تھا۔ ایسے وقت میں کیوں پیش آیا؟ جب واقعہ طائف ہوچکا تھا اور آپ ﷺ پر سخت وقت گزر رہا تھا۔ ایک عالم ومصنف نے اس کی وجوہ کا پتہ لگایا تو بڑی خوبصورت بات کہی کہ رسول اکرم ﷺ کو جو جسمانی اور روحانی مصائب سے گزرنا پڑا تھا اس کی ایک ہی صورت تھی تسلی کی کہ حضور اکرم ﷺ کو اللہ تعالیٰ اپنی جناب میں بلاکر بتائیں کہ آپﷺ کا مقام ومرتبہ کیا ہے۔
تو حضرات یہ بنیادی چیزیں ہیں جنہیں ہمیں تلاش کرنا پڑے گا اس لئے کہ اس کے پیچھے جو اسباب ہوتے ہیں وہ انتہائی اہمیت کے حامل اور بروقت ہوتے ہیں اور یہ کام آپ ہی کرسکتے ہیںٖٖ۔ عام آدمی جو عربی سے واقف نہیں، قرآن سے واقف نہیں ہے، حدیث سے واقف نہیں ہے، وہ ان چیزیوں کا پتہ نہیں لگاسکتا، تو ایک یہ چیز ہے ، ایک اور عرض بھی کرنا چاہتا ہوں کہ احادیث سے جس طرح سے علماء کرام عام طور پر تشریعی چیزیں تلاش کرتے ہیں، سنت کے اعتبار سے استحباب کے اعتبار سے اور مندوب کا درجہ کیا ہے؟ مسنون درجہ کیا ہے؟ اور پھر واجب کون ہے؟ فرض کون ہے، تو اب مسئلہ یہ پیدا ہوتا ہے یہ احکام تو فقہی انداز کے ہیں لیکن یہ فقہی انداز تو قرآن میں بھی موجود ہے، اسلئے کہ نَافِلَۃً لَّک کا ذکر آگیا ، کَتَبَ کا لفظ آتا ہے، اِنَّ الَّذِیْ فَرَضَ عَلَیْکَ الْقُرْاٰنَ لَرَآدُّکَ اِلٰی مَعَادٍ قُلْ رَّبِّیْٓ اَعْلَمُ مَنْ جَآئَ بِالْھُدٰی وَمَنْ ھُوَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ کا ذکر آگیا ۔ تو یہ جو بنیادی باتیں ہیں ان سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ قرآن مجید میں بھی ان کی درجہ بندی کی گئی ہے تشریعی احکام کی، اب تشریعی احکام میں آپ اندازہ کیجئے کہ کون سی چیز ایسی ہے جو لازمی ہے اور کون سی نہیں ہے۔ پہلے ایک عرض یہ ہے کہ عقائد کا جہاں تک تعلق ہے بنیادی طور پر جتنے ہمارے عقائد ہیں۔ توحید وآخرت اور رسالت سے وابستہ دوسری چیزیں ، سب انبیاء کرام میں مشترک تھیں۔ تمام کتابوں میں مشترک ہیں۔ یہ ہمارا خیال بھی ہے اور عقیدہ بھی ہے اور سب کتابوں میں پایا جاتا ہے ، لیکن اس کے بعد ارکان اسلام کا معاملہ آتا ہے ، نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ یہ بنیادی طور پر تمام انبیاء کرام کے مذاہب وادیان میں موجود تھا۔ ابھی تک صرف ایک آدمی (سیرت نگار ) اس جدید دور میں ملے ہیں جو کہتے ہیں حضرت آدمؑ سے لے کر حضرت محمدﷺ تک تمام انبیاء کرام کی شریعت میں عقائد کے ساتھ یہ ارکان چاروں موجود تھے اور ان پر عمل تھا۔ وہ مولانا مودودی ہے۔
جب اس کی تلاش شروع ہوئی تو واقعی میں بالکل اہم ترین بات ہے۔ اب نماز کو لے لیجئے ، قرآن میں کتنی آیتیں آپ کے ذہن میں گونج رہی ہوں گی کہ جہاں نماز کا ذکر ہے ، حضرت ابراہیم علیہ السلام سے شروع کیجئے ، کہیں ’’لیقوم الصلوٰۃ‘‘ اور کہیں ’’اقم الصلوٰۃ‘‘ کا ذکر ہے جو قرآن مجید میں صاف واضح ہے۔ حضرت ابراہیمعلیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت عیسیٰ علیہ السلام سب کے ہاں تو نماز کا کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ نماز سب کے ہاں پائی جاتی ہے۔ زکوٰۃ بھی سب کے ہاں پائی جاتی ہے۔ سارے انبیاء کرام کے ہاں زکوٰۃ پائی جاتی ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حوالے سیکہتے ہیں زکوٰۃ فرض ہوئی ہے اور مشکل یہ ہوتی ہے جب ہم گڑبڑ کرنے لگتے ہیں تو اپنی تاویلات لاتے ہیں اور آپ سب تو جانتے ہی ہیں اس معاملے میں علماء کرام کا کوئی ثانی نہیں ہے تو اس کے نتیجے میں معاملہ خراب ہوتا ہے ۔ مثلاً میں کتاب التفسیر پڑھ رہا تھا ’’یٰیَحْییٰ خُذِ الْکِتَابَ بِقُوَّۃ‘‘ حضرت یحییٰ سے کہا جارہا ہے کہ کتاب کو مضبوطی سے پکڑلو، اب سارے مفسرین تفسیر بیان کرتے ہیں کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کو ہدایات دی جارہی ہیں کہ تورات کو مضبوطی سے پکڑلو، تورات اپنی جگہ پر ہے، لیکن حضرت یحییٰ علیہ السلام کو جو کتاب دی گئی تھی اس کا کیا ہوگا؟ یہاں تو اس کتاب کو مضبوطی سے پکڑنے کا حکم ہے جو ان کو دی گئی تھی تو جب تک یہ اندازہمارے ہاں پیدا نہیں ہوگا معاملہ خراب ہو جائے گا۔
آج سے 15،16 سال پہلے ایک مدرسے میں جب میں نے یہ گفتگو کی تو ایک صاحب کہنے لگے صاحب اسلام سے پہلے نماز میں کیا پڑھا جاتا تھا۔ حضرت ابن عباسؓ کی طرف ایک حدیث منسوب ہے۔ منسوب اس لئے کہہ رہا ہوں کہ صحیح نہیں ہے۔ ہماری نماز میں اور پہلی امتوں کی نماز میں فرق رکوع کا ہے، ان میں رکوع نہیں ہوتا تھا، ہمارے ہاں رکوع ہوتا ہے تو فوری طور پر میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ حضرت مریم کو تو حکم دیا جارہا ہے کہ ’’وارکعی مع الراکعین‘‘ اور ’’رکعا سجداً ‘‘ہر جگہ پر موجود ہے۔ یہ شاہ ولی اللہؒ کا کارنامہ ہے۔ شاہ ولی اللہ کی حجۃ اللہ البالغہ کا وہ باب ’’باب ما کان عھاد اھل الجاھلیۃ ‘‘ پڑھنا چاہیے اور بار بار پڑھنا چاہیے۔ یہ کوئی 10-15 صفحے کا ہے اور یہ ضروری ہے کیونکہ آپ کو اندازہ ہونا چاہیے کہ کون کون سی چیزیں تھیں جن میں شریعت اور حکم دین سب ایک جگہ پر موجود تھا اور پھر اس کے علاوہ دینی احکام کے ساتھ ساتھ شریعت۔
اب عام طور پر ہم لوگ یہ بھی کہتے ہیں، علماء کرام کی کتابوں میں زیادہ تر ملتا ہے کہ جہاں تک دین کا تعلق ہے تو سب متفق ہیں سب یکساں ہیں، صرف شریعت کا اختلاف ہے، شاہ صاحب نے تو یہ بھی کہا ہے کہ شریعت کا اختلاف بہت مختصر ہے۔ شرائع بہت سے پائے جاتے ہیں سب یکساں ہیں، کہیں کہیں معمولی سا فرق ہوا ہے اور یہ فرق نوعی قسم کا ہے۔ جوہری قسم کا نہیں ہے، کہیں حلال حرام نہیں ہوا اور کہیں حرام حلال نہیں ہوا۔ اسی طرح سے جو فرض تھا فرض ہی رہا اور جو سنت ہے وہ سنت ہی رہی۔ جو مندوب ہے وہ مندوب ہی رہا۔ یہاں ایک اور بات بھی عرض کرنا چاہتا ہوں اور اکثر میں کہتا ہوں کہ انبیاء کرام کا طریقہ کار یہ تھا وہ کہتے ہیں کہ سب کا یہی طریقہ کار تھا کہ اپنے وقت میں رسول جتنی اچھی چیزیں ہوتی تھیں ان کو برقرار رکھتے تھے۔ جتنی خراب چیزیں ہوتی تھیں انہیں دور کردیتے تھے اور جتنی چیزوں کی اس زمانے اور تقاضے کے اعتبار سے ضرورت ہوتی تھی ان کا اضافہ فرمادیا جاتا ۔ یہ 3کام بنیادی طور پر کرتے تھے۔
رسول اکرم ﷺ کا معاملہ یہ تھا چونکہ آپ ﷺ عالمی اور دائمی نبی تھے۔ خاتم المرسلین تھے اور آپ ﷺ کی نبوت قائم رہنی تھی لہٰذا آپ کی اصلاحات سب عالمی ہیں آپ ﷺ نے بہت سی چیزیں باقی رکھیں اور بہت سی چیزیں بدل دیں اور بہت سی چیزوں کا اضافہ فرمایا لیکن جو باقی رکھیں وہ بہت دلچسپ ہیں وہ آپ کو اس کتاب میں مل جائیں گی۔
آپ ﷺ کی ولادت سے لے کر کہ آپ ﷺ کا عقیقہ، خاندان، نکاح، نماز جنازہ اور دوسری بہت سی چیزیں موت تک کے سارے مراحل جس سے بھی آپ گزرتے ہیں ۔ آپ ﷺ کی تمدنی زندگی، مذہبی زندگی، ودیعت، قصاص، خون کا ہر معاملہ اور یہ سارے مسائل پرانے زمانے کے آپ ﷺ نے بدلے تھے وہ پرانے زمانے کے لوگوں کے نہیں یہ سب انبیاء اور دین ابراہیمی کی میراث تھے جو آپ ﷺ کو ملے تھے۔
اب صرف حج پر غور کرلیجئے تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ حج سراسر صرف حضرت ابراہیمؑ، حضرت اسماعیلؑ، حضرت ہاجرہ کے عشق کا ایک تتبع ہے۔ ورنہ کیا معنی رکھتے ہیں آپ خانہ کعبہ کے گرد گھوم رہے ہیں۔ صفاء ومرویٰ کے درمیان دوڑ رہے ہیں یہ حضرت ہاجرہ کا کارنامہ تھا جو اپنے بیٹے کے لئے دوڑی تھیں اور اللہ میاں کو یہ ادا پسند آگئی تو یہ رہتی دنیا کے لئے فرض کردیا۔ ایک ہی لباس پہن کر جائو تاکہ سب یکساں ہوں۔ تو پورے حج کا آپ عقلی تجزیہ کرنا شروع کردیں تو نہیں کرپائیں گے۔ سوائے چند چیزوں کے، باقی سب چیزوں میں یہی عشق الٰہی کار فرما نظر آئے گا۔ نماز میں آپ تجزیہ کر سکتے ہیں۔ روزے میں کرسکتے ہیں۔ لیکن جہاں تک حج کا معاملہ ہے یہ نماز میں نہیں آتا۔ یہ روزے میں نہیں آتا، زکوٰۃ میں نہیں آتا مگر حج میں یہ عبادتیں شامل ہیں یہ مجموعہ ہے سب کا۔ تو حضرات اس پر آپ غور کریں گے تو مجموعہ جو حضور اکرم ﷺ کو عطا فرمایا گیا تھا۔ یہ وہ ہی تبع و تابع جاودانہ ہے ، تبع و تابع جاودانہ ہی کے ذریعے انسان قانت بنتا ہے جسکو قانت اور قنوت کہا گیا ہے کہ اللہ کے سامنے آپ کھڑے ہوں تو کس طرح کھڑے ہوں تو حضرات یہ کچھ بنیادی باتیں تھیں جو آپ کے سامنے پیش کی گئیں جن کا نچوڑ یہ ہے کہ سیرت نبویﷺ کے مطالعے کا ایک طریقہ تو تشریعی ہے اور ایک علماء کرام کا ہے جو یہ احادیث کے نتیجے میں بیان کرتے ہیں ۔ ایک تاریخی ہے ایک واقعاتی ہے۔ ایک تمدنی ہے۔ تہذیبی ہے۔ ان سب پر گفتگو کرنے کی ضرورت ہے اور اس کا ایک مجموعی تناظر ہے اور مجموعی تناظر میں ہمیں سیرت نبویﷺ کو دیکھنا ہے کہ رسول اکرم ﷺ بیک وقت نبی بھی ہیں مصلح بھی ہیں، سپہ سالار بھی ہیں۔ قائد بھی ہیں۔ شوہر بھی ہیں اور فرد کی حیثیت سے اپنے خاندان والوں کے ساتھ، اپنے محلے والوں کے ساتھ محسن انسانیت بھی ہیں۔ آپ ﷺ کے دل میں صرف مسلمانوں کا درد ہی نہیں تھا بلکہ سب کا درد تھا۔ سب کے لئے جو کچھ کرنا چاہتے کرتے تھے تو اس طرح سے آپ ﷺ کی صفات ہیں جنہیں ابھی تک ہم نے سمجھا ہی نہیں کیوں کہ ابھی تک ہم نے مطالعہ ہی نہیں کیا اس انداز سے جس انداز میں اس کی ضرورت ہے اور سچی بات بھی ہے کہ ہم حضور نبی کریمﷺ کی تمام جہات کا احاطہ کر بھی نہیں سکتے۔ اس لیے کہ حضور اکرم ﷺ جن صفات سے متصف تھے اور جو آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے عطا کی تھیں ان کا احاطہ کرنا ہمارے لئے مشکل ہے لیکن بہرحال وہ آئیڈیل ہیں اس کو ہمتلاش تو کرسکتے ہیں ، اہداف کے پیچھے جا تو سکتے ہیں۔
قرآن مجید میں ایک آیت آتی ہے ’’وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَآ اِلَی اللّٰہِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَّقَالَ اِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ‘‘ کہ تم احسن کو تلاش کرو اور اس کی پیروی کرو، اب اس پر اہم سوال اٹھادیتے ہیں کہ کیا کوئی حسن بھی ہے، احسن بھی ہے، درجہ بندی بھی ہے ، یہ بات نہیں ہے اس میں سب احسن ہے لیکن ہمیں بتایا جارہا ہے حسن پر قناعت مت کرو احسن کو بھی تلاش کرو ، ہمیشہ جستجو خوب سے خوب تر کی رہے ، جب تک یہ نہیں ہوگا ہم تقرب الی اللہ حاصل نہیں کر سکتے ، معرفت رسول ﷺ حاصل نہیں کر سکتے اور جب معرفت رسول حاصل نہیں ہوسکتی تو معرفت الٰہی کہاں سے ملے گی؟۔
حضرات!
اللہ سے دعا ہے کہ جو کچھ کہا گیا اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے اور کوئی کمی زیادتی ہوئی ہے تو اللہ رب العزت اصلاح کی ہدایت نصیب فرمائے۔