info@majlissautulislam.com
© Copyright 2017 Saut-ul-Islam Pakistan All Rights Reserved
Email:
01:30
sautulislampk@gmail.com
+ 92 21 35363159 - 35867580  Fax: + 92 21 35873324
05:15
08:15
Example
 تعریفیں اللہ رب العزت کی اقویٰ ذات کے لیے ہیں جس نے ہمیں اسلام جیسی لازوال نعمت سے نوازا اور اپنی تمام تر قدرت کے باوجود انسان کو اپنی مرضی کے مطابق اسلام پر عمل کرنے یا نہ کرنے کا اختیار دیا۔ اسلام ایک پرامن اور محبت سے بھرپور مذہب ہے جس کے لفظی معنی ہی امن ، سکون اور سلامتی کے ہیں۔ پر امن معاشرے کے لیے جتنی تعلیمات اسلام میں ہیں اتنی کسی دوسرے مذہب اور دین میں نہیں ملتیں۔ اسلام نہ صرف مسلمانوں کے لیے امن و سکون کا پیامبر ہے بلکہ پوری دنیا میں موجود ہر رنگ و نسل ، ذات و مذہب کے لوگوں اور زمین پر بسنے والے ہر جاندار کے لیے امن و سلامتی کا داعی ہے ۔ ارشاد ربانی ہے 
مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا‘‘ وَمَنْ اَحْیَاھَا فَکَاَنَّمَا اَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًا (المائدہ:32)
ترجمہ :’’ جو شخص قتل کرے ایک جان کو بلا عوض جان کے یا ملک میں فساد کرنے لگے تو گویا قتل کرڈالا اس نے سب لوگوں کو اورجس نے زندہ رکھا ایک جان کو توگویا زندہ کردیا سب لوگوں کو‘‘۔
اللہ رب العزت نے ناحق قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا اور ایک انسان کی زندگی کو پوری انسانیت کی زندگی قرار دیا ۔ اور اسلام لے کر آنے والی بابرکت ذات کو پوری کائنات کے لیے رحمت بنا کر بھیجا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا مفہوم ہے کہ نا حق قتل ہونے والے انسان کی قیامت کے دن خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وکالت فرمائیں گے ۔ 
اسلام کی ابتداء مکہ میں مظالم سہتے ہوئے ہوئی ، لیکن ان مظا لم کے باوجود دن بہ دن اسلام لوگوں میں پھیل رہا تھا اور اس کے پھیلنے کی بنیادی وجہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بے مثل صداقت ، پاکیزہ زندگی اور حسن اخلاق تھا انہی چیزوں کو دیکھتے ہوئے حضرت ابوبکر صدیقؓ جیسے لوگ بلا سوچے سمجھے ایمان لے آئے کہ انہوں نے کبھی آپ کی زبان مبارک سے جھوٹ نہیں سنا ۔ اسلام پھیلتا گیا اور دشمنان اسلام کے مظالم بڑھتے گئے ، مکہ سے حبشہ اور پھر مدینہ کی طرف ہجرت کرجانے کے باوجود بھی قریش مکہ کی مکاریاں ختم نہ ہوئیں اور اس بات کی ضرورت محسوس ہوئی کہ مسلمانوں کو اپنے دفاع کے لیے اجازت ملنی چاہیے تاکہ معاشرے کے مظالم سے محفوظ ہو کر اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی گزار سکیں۔ 
مدینہ طیبہ میں ’’مواخات مدینہ‘‘ جیسی عظیم تنظیم کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی طرف توجہ فرمائی کہ مسلمانوں کو اپنا دفاع مضبوط کرنا چاہیے ۔ مظالم سے پاک پرامن معاشرے کی تشکیل کے لئے کی جانے والی کوششوں کو ’’جہاد ‘‘ کہا جاتا ہے ۔ اسلام فی نفسہ امن اور سلامتی کا نام ہے لیکن معاشرے کے غیر مسلم ارکان کے مظالم سے بچنے کے لئے جہاد کو ضروری قرار دیا گیا۔ 
جہاد کے لغوی معنی ہیں کسی کام کی ادائیگی میں بھرپور کوشش اور سعی کرنا جبکہ اصطلاح شرع میں اللہ تعالیٰ کا کلمہ بلند کرنے اور دشمن کی مدافعت کرنے میں جان ، مال ، زبان اور قلم کی پوری طاقت خرچ کرنے کوجہاد کہا جاتا ہے ۔ جہاد کے لیے قرآن مجید میں حرب، قتال اور جہاد کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں اور عمومی اعتبار سے جہاد سے مراد اعلاء   کلمۃ اللہ کے لئے شعوری کاوش ومحنت کرنا جس کی مختلف نوعیتیں مؤ رخین اور سیرت نگاروں نے نقل کی ہیں، انہی نوعیتوں میں قتال بھی شامل ہے ۔ 
کنز العمال کی ایک طویل حدیث میں ایک صحابی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ جہاد کیا ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ کفار سے مقاتلہ کرنا۔
قال الجھاد، قال وما الجھاد؟ قال ان تقاتل الکفار اذا لقیتم
امام راغب اصفہانی فرماتے ہیں جہاد کی تین اقسام ہیں اول دشمن کا مقابلہ کرنا دوسرے شیطان اور شیطانی وساوس کا مقابلہ کرنا اور تیسرے خود اپنے نفس کی ناجائز خواہشات کا مقابلہ کرنا۔ 
جہاد کا اصل مقصد نیکی کا رجحان اور بدی سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے ۔ اسی معنی مشابہت کی بنا پر ہی شیطانی ونفسانی خواہشات کے خلاف کی گئی کوشش کو جہاد کہا جاتا ہے ۔ ان دونوں کی ضرورت اور اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے کہ جب تک کوئی انسان خود اپنی ذات میں مکمل نہیں ہوجاتا وہ معاشرے کی اصلاح میں بھرپور کردار ادا کرنے سے قاصر رہتا ہے ، دعوتِ اصلاح کی تاثیر بھی تب ممکن ہے جب خود اپنی ذات میں عمل موجود ہو ورنہ صرف لفاظی ہی رہ جاتی ہے ۔ اس مضمون میں پہلی قسم کے جہاد پر روشنی ڈالنے کی سعی کی جائے گی کہ جہاد کن کن صورتوں میں فرض ہوتا ہے اور کس کس پر فرض ہوتا ہے ۔ 
جہاد ان اعمال میں سے ہے جو قیامت تک جاری رہیں گے ۔ اللہ رب العزت کا فرمان ہے : وقاتلوہم حتی لاتکون فتنۃ۔ فتنہ ختم ہونے تک قتال کرتے رہو۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’الجھاد ماض الی یوم القیامۃ‘‘۔ جہاد قیامت تک جاری رہے گا۔ اسی طرح قرآن مجید میں متعدد مقامات پر جہاد کا حکم دیا گیا ہے اور دشمن کے خلاف ہر وقت اپنی طاقت اور قوت مجتمع کرنے کا حکم دیا گیا۔ اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی جہاد کا حکم دیا اور خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل بھی اسی پر رہا۔ اس لئے جہاد کی فرضیت میں شک کی قطعی گنجائش نہیں ہے ۔
ابتداء میں تمام مسلمانوں پر جہاد فرض کیا گیا اور عدم شرکت پر سزائیں بھی دی گئیں لیکن بعد ازاں ایک مخصوص جماعت کو جہاد پر روانہ کیا جاتا اور باقی لوگ دیگر کاموں میں مشغول رہتے ہوئے دیگر طریقوں سے جہاد میں شرکت کرتے ، جیسا کہ ارشاد ربانی ہے : 
وَتُجَاھِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ باموالکم وانفسکم ۔
 ترجمہ: ’’اللہ کے راستے میں جہاد کرو اپنے مال اور اپنی جان کے ساتھ‘‘ ۔ جس کا مفہوم یہ ہے کہ کچھ لوگ بنفس نفیس جہاد میں شرکت کریں اور بقیہ مالی تعاون کے ساتھ شرکت کریں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے !
’’جاھِدُوا الْمُشْرِکِِیْنَ بِاَلْسِنَتِکُمْ، وَاَنْفُسِکُمْ، وَاَمْوَالِِکُمْ، وَاَیْدِیَکُمْ۔‘‘
 ترجمہ: ’’ مشرکین سے جہاد کرو ، اپنی زبانوں کے ذریعے اور اپنی جانوں کے ذریعے ، اور اپنے مال کے ذریعے ، اور اپنے ہاتھوں کے ذریعے ‘‘ ۔(سنن ابو داؤد)
جہاد کرنے والے کو اجر عظیم کی خوشخبری سنائی گئی ۔ اللہ رب العزت کا فرمان ہے :
فَلْیُقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ الَّذِیْنَ یَشْرُوْنَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا بِالْاٰخِرَۃِ وَمَنْ یُّقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَیُقْتَلْ اَوْیَغْلِبْ فَسَوْفَ نُؤْتِیْہِِ اَجْراً عَظِیْمًا
 ترجمہ: ’’ پس چاہئے کہ اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے لڑائی کی جائے جو آخرت کے بدلے دنیوی زندگی کو اختیار کیے ہوئے ہیں ۔ اور جو شخص اللہ کی راہ میں لڑے گا پھر خواہ وہ جان سے مارا جائے یا غالب آجائے تو ہم اس کو اجر عظیم دینگے‘‘ ۔
اسی طرح فرمایا :
وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتًا بَلْ اَحْیَائٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ یُرْزَقُوْنَ
 ترجمہ: ’’ اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کیے گئے ان کو مردہ مت خیال کر بلکہ وہ لوگ زندہ ہیں اپنے پروردگار کے مقرب ہیں ان کو رزق بھی ملتا ہے ‘‘۔
شہید قیامت کے دن ایسے ہی اٹھے گا کہ اس کے جسم سے خون بہہ رہا ہوگا اور وہ اللہ رب العزت کی بارگاہ میں حاضر ہوگا۔ 
معلوم ہوا کہ جہاد ایک عظیم عمل ہے جس کے بہت سے فضائل اور فوائد ہیں جن میں سب سے اہم فائدہ عالم امن کا قیام ہے ۔ 
یہاں ایک بات اور قابل ذکر ہے کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر کفار نے یہ شرط رکھی کہ جو شخص مکہ سے مسلمان ہوکر مدینہ جائے گا وہ مکہ واپس بھیج دیا جائے گا۔ کچھ دن پہلے ویسی ہی روش اپناتے ہوئے اسلام کے دعوے دار لوگوں نے قریش مکہ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے یہ قانون پاس کیا ہے کہ قانوناً نابالغ افراد کو اسلام قبول کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ حالانکہ اسلامی تاریخ میں بہت سے بچوں نے بلوغت سے پہلے اسلام قبول کیا جن میں حضرت علی مرتضیٰؓ کا نام قابل ذکر ہے ۔ اسلام قبول کرنے کے لئے عمر کی کوئی قید نہیں ہے اور نہ ہی زبردستی مسلمان بنانے کی کوئی حیثیت ہے ۔ اسلامی تاریخ میں ایک واقعہ بھی ایسا نہیں ہے کہ کسی کو زبردستی مسلمان بنایا گیا ہو۔ حکم یہ ہے کہ اسلام پیش کرو اگر قبول کر لے تو ٹھیک ورنہ اسلامی حکومت کی اطاعت قبول کرے اور ٹیکس ادا کرتے ہوئے رعایا بن کر رہے اور اگر ایسا بھی نہیں کرتا تو پھر لڑنے کے لیے تیار ہوجائے ۔اس میں بھی ریاستی قوانین کی عملداری کو ترجیح دی گئی زبردستی اسلام قبول کرانے کا حکم نہیں دیا گیا۔ 
خلاصہ یہ کہ اسلام امن اور محبت کا دین ہے ، جس میں کسی پر ظلم اور زیادتی کی قطعی کوئی گنجائش نہیں ہے نیز عالمی امن کو برقرار رکھنے اور اپنے دفاع کو مضبو ط رکھنے کے لئے جہاد ضروری ہے ۔ جب بھی مسلمان اس حکم سے پیچھے ہٹے ، پریشانیوں اور مصائب نے ان پر دھاوا بول دیا۔ حضرت مولانا مفتی محمد شفیع عثمانیؒ فرماتے ہیں:
قرآن و سنت کی نصوص نیز پوری تاریخ اسلام کا تجربہ شاہد ہے کہ جب بھی مسلمان جہاد چھوڑ دیتے ہیں تو دوسری قومیں ان پر غالب آجاتی ہیں ، ان کے دل سن سے مرعوب ہوجاتے ہیں اور پھر ان کے آپس میں پھوٹ پڑ جاتی ہے ، وہ جذبہ شجاعت و حیت جو کفار کے مقابلے میں صرف ہونا چاہیے تھا وہ آپس میں صرف ہونے لگتا ہے اور یہی ان کی تباہی کا سبب بنتا ہے ۔ اس وقت ہم اپنی غفلت کی سزا بھگت رہے ہیں ، سب طرف سے دشمنوں کی یلغار ہے اور مسلمان مختلف پارٹیوں ، فرقوں اور نظریوں میں بٹے ہوئے ایک دوسرے کے مقابلے میں برسرپیکار ہیں۔(جہاد فی سبیل اللہ از مفتی محمد شفیع عثمانیؒ ص:3) 
جہاد کی اصل حقیقت :
جہاد کی صحیح حقیقت بیان کرتے ہوئے مولانا محمد ادریس کاندھلوی ؒ لکھتے ہیں : 
حضرات انبیاء علیہم السلام کا مبعوث ہونا اللہ جل جلالہ کی ایسی عظیم الشان نعمت ہے کہ ہر بن مو بھی اگر زبان بن جائے تو کسی طرح اس نعمت کبریٰ کا شکر ادا نہیں ہوسکتا ، اگر ان حضرات کا وجود با وجود نہ ہوتا تو اللہ جل شانہ کی ذات وصفات کی ہم گمراہوں کو کون ہدایت کرتا اور مولائے حقیقی کی مرضیات اور نا مرضیات سے ہم کو کون آ گاہ کرتا اور اس معبود بر حق کی عبادت اور بندگی کے طریقے کون سکھاتا ،ہدایت وضلالت اور سعادت وشقاوت کا فرق کون سمجھا تا۔ معاش ا ورمعاد، دین اور دنیا ، فقیری اور درویشی ، حکمرانی اور عدل عمرانی کی راہیں کون سمجھاتا ۔ ۔الحاصل حضرات انبیاء اللہ کی بعثت عین رحمت اور عین نعمت ہے کہ جس پر دنیا وآخرت کی سعادت اور فلاح کا مدار ہے ، حق جل وعلا نے حضرت آدم علیہ السلام سے اس سلسلہ کا آغاز فرمایا اور یکے بعد دیگرے بندوں کی ہدایت کے لئے پیغمبر بھیجے تاکہ لوگوں کو مولائے حقیقی کی اطاعت کی دعوت دیں اور اس کی نافرمانی سے بچائیں ، مطیع اور فرمانبرداروں کو جنت کی بشارت سنائیں ، نافرمانوں اور سرکشوں کو جہنم سے ڈرائیں۔
جہاد کی اس حقیقت کو بیان کرتے ہوئے مزید لکھتے ہیں :
جس طرح مشفق اور مہربان باپ ، نالائق اولاد کی اصلاح و تربیت میں کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھتا اسی طرح حضرات انبیاء (علیہم السلام ) نے اپنے مخلصانہ مشفقانہ مواعظ سے امت کے نالائق اور بدبخت افراد کی تفہیم اور اصلاح میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا۔
 ایک مدت ِ مدید ار عرصہ دراز تک نہایت ملاطفت اور نرمی سے ان کو اللہ کی طرف بلا تے رہے مگر وہ بدنصیب دن بہ دن اور اللہ سے دور بھاگتے گئے ،کما قال تعالیٰ : 
قال رب انی دعوت قومی لیلا ونہارا فلم یزدہم دعائی الا فرارا وانی کلما دعوتہم لتغفر لہم جعلوا اصابعہم فی اٰذانہم وا ستغشوا ثیابہم واصروا واستکبروا استکبارا ( نوح : 5،6)     
ترجمہ:۔ ’’نوح (علیہ السلام) نے عرض کیا کہ اے پروردگار میں نے اپنی قوم کو دن اور رات مسلسل اللہ کی طرف بلایاپس میرے بلانے سے سوائے حق سے بھاگنے کے اور کسی چیز میں زیادتی نہ ہوئی اور میں نے جب کبھی انکو حق کی دعوت دی تاکہ انکے ایمان لانے سے تْو ان کے گناہ معاف کرے تو ان لوگوں نے نفرت کی وجہ سے کانوں میں انگلیاں دے لیں اور کپڑوں میں لپٹ گئے اور اپنی ضد پر جمے رہے اور غایت درجہ سرکشی کی‘‘۔ (مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ۔ سیرت المصطفیٰ۔ج1۔ص:387،388)
نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دین متین کی دعوت اور اللہ کے کلمہ کی سربلندی کے لئے جو جہاد کیا ، اس کی حقیقت کو سمجھنے کے بعد ضروری ہے کہ نبی کریم  ﷺ کے جہاد کی مختلف جہتوں کو سمجھا جائے اور اس کی اقسام کے بارے میں معلومات حاصل کی جائیں تاکہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جہاد کے صحیح تصور کو سمجھ سکیں ، ہماری آئندہ تحریر اسی بارے میں ہوگی ، ان شاء اللہ۔
وآخر دعوانا ان الحمد للّٰہ رب العٰلمین 

اسلام‘ امن اور جہاد
ڈاکٹر محمد سعد صدیقی
چیئرمین شعبہ علوم اسلامیہ، پنجاب یونیورسٹی