info@majlissautulislam.com
© Copyright 2017 Saut-ul-Islam Pakistan All Rights Reserved
Email:
01:30
sautulislampk@gmail.com
+ 92 21 35363159 - 35867580  Fax: + 92 21 35873324
05:15
08:15
Example
 تمام تعریفیں اللہ رب العزت کی برتر ذات کے لئے ہیں کہ جس نے انسان کو اپنا نمائندہ بنا کر دنیا میں بھیجا اور لوگوں کو اللہ کی طرف بلانے کی ذمے داری عطا فرمائی اور اس کام کرنے پر تعریف بھی فرمائی کہ لوگوں میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جو لوگوں کو بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برے کاموں سے منع کرتے ہیں۔ یہ حکم اس لئے دیا گیا کہ ایک مسلمان نہ صرف خود اچھے کام کرے بلکہ دوسروں کو بھی اس کی دعوت دے اور پوری کائنات میں اللہ کا نام بلند کرے۔ لغوی اعتبار سے اللہ تعالیٰ کے نام کی سربلندی اور کائنات میں موجود ہر چیز کو اللہ رب العزت کے تابع بنانے کے لئے اسلامی اُصولوں کے مطابق کی جانے والی ہر طرح کی علمی ، عملی ، مالی اور جانی کوشش جہاد کے عمومی حکم میں شامل ہے۔ وقت کی مناسبت سے دفاعی یا اقدامی قتال فی سبیل اللہ کو امتیازی حیثیت حاصل ہے نیز موقع محل کی مناسبت سے مختلف امور وقتی اہمیت کے پیش نظر افضل قرار دئیے جاتے ہیں۔

گزشتہ مضمون میں جہاد کی تین اقسام کا ذکر کیا گیا۔ اول دشمن کا مقابلہ کرنا۔دوسرے شیطان اور شیطانی وساوس کا مقابلہ کرنا۔تیسرے خود اپنے نفس کی ناجائز خواہشات کا مقابلہ کرنا۔اور پھر جہاد کی پہلی قسم کی اہمیت و فضائل بیان کئے گئے۔ اس تحریر میں جہاد کے فرض ہونے کی صورتیں بیان کی جائیں گی اور جہاد کی دیگر صورتوں سے متعلق گفتگو ہوگی۔

گلوبل ویلج کہلانے والی اس زمین پر نوبل امن پرائز حاصل کرنے والے ممالک سمیت کسی بھی ملک کے بجٹ کا مطالعہ کریں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ سالانہ بجٹ کا ایک بہت بڑا حصہ دفاعی امور کے لئے مختص رکھا جاتا ہے جس کا بنیادی مقصد ملکی دفاع اورپر امن معاشرے کی تشکیل ہے جبکہ بعض ممالک کی ترقی کا انحصار ہی جنگی آلات کی فروخت پر ہے۔ اسی تناظر میں اسلام میں دفاعی امور کو جہاد کا نام دیا جاتا ہے اوراس کا بنیادی مقصد بھی پر امن معاشرے کی تشکیل ہے ، یہی وجہ ہے کہ اسلامی ریاست ہر مذہب کے لوگوں کو مذہبی آزادی کے ساتھ تحفظ فراہم کرنا اپنی ذمے داری سمجھتی ہے اور یہ تبھی ممکن ہے جب پوری کائنات میں عدل و انصاف کا نظام قائم ہوگا اور اسلام ہی وہ واحد دین ہے جس کا مثالی انصاف امیر و غریب ، کالے و گورے ، مسلم و غیر مسلم سب کے لئے یکساں میسر ہے۔

جہاد کا حکم : 
عمومی اعتبار سے تمام مسلمانوں پر جہاد کرنا فرض کفایہ اور خاص حالات میں فرض عین ہے۔ اسی طرح جہاد کے مشروعیت پر ایمان لانا مسلمان ہونے کے لئے ضروری ہے۔ اس کا انکار قرآن مجید کی صریح نصوص کا انکار ہونے کی وجہ سے کفر ہے۔ 

ارشاد ربانی ہے : کتب علیکم القتال وھو کرہ لکم وعسیٰ أن تکرھوا شیئا وھو خیر لکم وعسیٰ أن تحبوا شیئا وھو شرلکم واللہ یعلم وأنتم لا تعلمون (البقرۃ216)
ترجمہ:۔جہاد کرنا تم پر فرض کیا گیا ہے اور وہ تم کو (طبعاً) گراں (معلوم ہوتا) ہے اور یہ بات ممکن ہے کہ تم کِسی کام کو مشکل سمجھو اور وہ تمہارے حق میں خیر ہو اور یہ (بھی) ممکن ہے کہ تم کسی کام کو مرغوب سمجھو اور وہ تمھارے حق میں (باعثِ)خرابی ہواور اللہ تعالیٰ جانتے ہیں اور تم (پورا پورا) نہیں جانتے۔‘‘

ابتداء میں تمام مسلمانوں پر جہاد کو فرض کیا گیا تھا لیکن بعد میں اس حکم میں تبدیلی کردی گئی کہ سب کو بیک وقت نکلنا ضروری نہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں اس کام کوباقاعدہ ترتیب دیا گیا کہ کچھ لوگ جہاد کے لئے مخصوص کردئیے جائیں اور بقیہ دیگر معاملات زندگی میں مشغول رہیں۔اس عمل کی تائید مسلم شریف میں حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے منقول نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے ہوتی ہے:۔

’’لن یبرح ھذا الدین قائماً، یقاتل علیہ عصابۃ من المسلمین حتی تقوم الساعۃ ‘‘
ترجمہ:۔یہ دین (اسلام) ہمیشہ قائم رہے گا، مسلمانوں کی ایک جماعت دین کے لئے قیامت تک قتال کرتی رہے گی۔‘‘(صحیح مسلم)

اس لئے ایک جماعت اس کا م کے لئے مخصوص کرنا ضروری ہے یہ صورت دفاعی جہاد کہلاتی ہے جیسا کہ جنگ بدر ، احد اور خندق۔ لیکن اگر کسی وقت یہ جماعت دشمن کے لئے کافی نہ ہو تو حسب ضرورت پوری امت مسلمہ پر جہاد کے لئے نکلنا فرض عین ہوجاتا ہے۔اسی طرح جب اپنے وطن سے نکل کرکفار کے ملک میں جاکر حملہ کرنا اور ان کے ناپاک عزائم کو ناکام بنانا اقدامی جہاد کہلاتا ہے جیسا کہ فتح مکہ ۔ اسلام کی اولین ترجیح دفاعی جہاد ہے لیکن بعض صورتیں ایسی ہیں جن میں اقدامی جہاد فرض ہوجاتا ہے۔مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ’’کتب علیکم القتال وھو کرہ لکم ‘‘کی تشریح میں فرماتے ہیں:۔

’’جب تک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں رہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مقاتلہ کی اجازت نہ ہوئی جب مدینہ کو ہجرت فرمائی تو مقاتلہ کی اجازت ہوئی مگر صرف ان کفار سے کہ جو خود اہل اسلام سے مقاتلہ کریں اس کے بعد علی العموم کفار سے مقاتلہ کی اجازت ہوگئی اور جہاد فرض ہوا۔ اگر دشمنان دین مسلمانوں پر چڑھائی کریں تو مسلمانوں پر جہاد فرض عین ہے ورنہ فرض کفایہ بشرطیکہ جملہ شرائط جہاد جو کتب فقہ میں مذکور ہیں پائی جائیں البتہ جن لوگوں سے مسلمان مصالحت اور معاہدہ کرلیں یا ان کی امن اور حفاظت میں آجائیں تو ان سے لڑائی کرنا یا ان کے مقابلہ میں ان کے کسی مخالف کو مدد دینا ہرگز مسلمانوں کو جائز نہیں۔

جہاد کی فرضیت کے بارے میں مفتی محمد شفیع عثمانیؒ فرماتے ہیں:۔ 
’’جب کفار مسلمانوں کے کسی شہر پر حملہ کردیں اور اس کی مدافعت کے لئے ملک کا مسلمان حاکم و امیر حکم عام جاری کرے کہ سب مسلمان جو قابلِ جہاد ہیں ، شریک ہوں ، تو سب پر جہاد کے لئے نکلنا فرضِ عین ہو جا تا ہے۔ مدافعت کی ضرورت میں عورتوں پر بھی مقدور بھر مدافعت فرض ہو جاتی ہے۔غزوہ تبوک میں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی حکمِ عام جاری فرمایا تھا اسی لئے جو لوگ اس جہاد میں شریک نہیں ہوئے ان پر سزائیں جاری کی گئیں۔‘‘(رسالہ الجہاد)

خدانخواستہ کسی وقت کفار کسی اسلامی ملک پر حملہ آور ہوںاور مدافعت کرنے والی جماعت ان کی مدافعت پر پوری طرح قادر اور کافی نہ ہو۔ تو اس وقت بھی یہ فریضہ اس جماعت سے متعدی ہو کر پاس والے سب مسلمانوں پر عائد ہو جاتا ہے۔ اور اگر وہ بھی عاجز ہوں تو ان کے پاس والے مسلمانوں پر ، یہاں تک کہ پوری دنیا کے ہر فرد مسلم پر ایسے وقت جہاد فرضِ عین ہوجاتاہے اور ایسی صورت میں جہاد تمام عبادات سے افضل ہوگا جیسا کہ غزوہ خندق کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی چار نمازیں قضا ہوجانے کے واقعہ سے ظاہر ہے۔ قرآن کریم کی آیات کے مطالعہ سے جمہور فقہاء و محدثین نے حکم قرار دیا ہے کہ عام حالات میں جہاد فرض کفایہ ہے۔ (معارف القرآن )

جہاد کے اسباب:۔
1) جب غیر مسلم کسی مسلمان آبادی پر حملہ آور ہوجائیں۔
2)جب مسلمانوں کو قید کر لیا جائے بالخصوص اگر عورت کو قید کرلیا جائے اگرچہ وہ ایک عورت ہی کیوں نہ ہو تو اس صورت میں پوری امت مسلمہ پر اس کو آزاد کرانا فرض ہے۔
3) جب امیر المومنین جہاد کا حکم دے دیں۔
4) جب فتنہ پیدا ہوجائے یا اندیشہ ہو۔
5)تمام ان لوگوں کے خلاف جہاد فرض ہوجاتا ہے جو فتنہ پرور ہوں۔
وقاتلوھم حتیٰ لا تکون فتنۃ ویکون الدین کلہ للّٰہ فان انتھوا فان اللہ بما یعملون بصیر (الانفال:39)
ترجمہ :۔’’اور تم ان (کفارِ عرب) سے اس حد تک لڑو کہ ان میں فساد عقیدہ (یعنی شرک) نہ رہے اور دین (خالص) اللہ ہی کا ہوجاوے پھر اگر کفر سے باز آجاویں تو اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کو خوب دیکھتے ہیں‘‘۔
جہاد کی جہات: ۔
جہاد کی مختلف جہات ہیں اور حسب ضرورت ہر جہت سے جہاد کرنا ضروری ہے۔ جہاد بالعلم ، جہاد بالقلم ،جہاد بالتقریر، جہاد بالمال اور جہاد بالسیف۔

پرامن معاشرے کے قیام کے لئے جہاد بالسیف کو بنیادی حیثیت حاصل ہے اور اس پر امن معاشرے میں اللہ کا نام بلند کرنا، دوسروں کو اللہ کی بندگی کی طرف لانا بھی اہم ترین جہاد ہے لیکن ان تمام جہات میں سب سے آخر ی طریقہ ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بعثت کے بعد پوری مکی زندگی میں صرف دعوت و تبلیغ ہی کے ذریعے سے لوگوں کو اللہ کی طرف بلایا ، بار بار لوگوں کے پاس گئے ، سمجھانے کی کوشش کی ، ان کے لئے دعائیں کی ، ان کی کڑوی کسیلی باتوں کو برداشت کیا اور کبھی بھی ناگواری کا اظہار نہیں کیا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عمل اس بات کا متقاضی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سنت کو جاری رکھتے ہوئے بھرپور انداز سے دعوت و اصلاح کا عمل جاری رکھا جائے، اس میں لوگوں کے رویوں کا سامنا کرنا ان کی باتوں کو تحمل مزاجی سے برداشت کرنا اور دعوت کے کام میں تسلسل ہی اس جہاد کی عملی صورت ہے۔ مبلغین کا جارحانہ رویہ اپنانا ، کسی کے سوال پر بھڑک اٹھنا، الزامی جواب دینا ، تنقیدی پہلو اختیار کرنا اس سنت کے سراسر منافی کام ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سایہ شفقت میں پرورش پانے والے حضرت انس رضی اللہ عنہ کے فرمان کا مفہوم ہے کہ مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری زندگی کبھی کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے پر ’’کیوں‘‘ کا سوال نہیں کیا ۔

ہجرت مدینہ کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وفود آنا شروع ہوگئے اور دعوت و تبلیغ کا سلسلہ بڑھنا شروع ہوگیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سفارتی آداب کا بے مثال مظاہرہ کیا اور ان سے مسجد نبوی کے اندر ملاقاتیں کیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس بے مثال اخلاق کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسلام تیزی سے پھیلنا شروع ہوگیا۔

اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلامی ریاست کے دفاع کو محفوظ اور مضبوط بنانے کے لئے غیر مسلم قبائل سے معاہدے کئے تاکہ مسلمان دعوت و تبلیغ کا کام بے خوف ہو کر کرسکیں۔ اس کی عمدہ ترین مثال صلح حدیبیہ ہے اس معاہدے کی پاسداری میں حضرت ابوجندل رضی اللہ عنہ کو بھی قربان کردیا، یوں کفار مکہ سے معاہدہ کرکے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آس پاس کے تمام دشمنوں کی سازشوں کا ناطقہ بند کردیا۔ اب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطوط کے ذریعے سے غیرمسلم بادشاہوں کو اسلام کی دعوت دینا شروع کی اور متعدد بادشاہوں کو دعوتی خطوط لکھے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہمارے لئے اسوہ حسنہ ہے جس سے یہ سبق ملتا ہے کہ اسلام امن و سلامتی کا دین ہے اور اس کی اشاعت بھی امن و سلامتی سے ممکن ہے اور ہر کام کا حل تلوار نہیں بلکہ جہاں جو طریقہ مفید ہو دعوت کا وہی طریقہ اختیار کرنا چاہئے۔ صحابہ کرامؓ جہاد کے لئے ہر طرف پھیل گئے اور ریاست کی سرحدوں کو وسیع کیا لیکن یہ بات اپنی جگہ پر مسلم ہے کہ پورے علاقے کے لوگوں میں اسلام کی اشاعت کی وجہ صحابہ کرامؓ کا بے پایہ اخلاق اور بے داغ کردار تھا، اس لئے آج بھی اسی امر کی ضرورت ہے کہ اپنے اخلاق و کردار کو بے داغ بنایا جائے ، غیر مسلم خود بخود اسلام کی طرف کھنچے چلے آئیں گے۔ 
جہاد کی مختلف جہات
ڈاکٹر محمد سعد صدیقی
چیئرمین شعبہ علوم اسلامیہ، پنجاب یونیورسٹی