تمام تعریفیں اللہ رب العزت کے لیے ہیں جس نے انسانیت کو معتدل دین یعنی دین اسلام کی نعمت سے نوازا۔ اور یہ بات بھی بتا دی اگر اطمینان اور سکون والی نعمت حاصل کرنا چاہتے ہو تو اللہ کو کثرت سے یاد کرو اور اسی پرامن اور معتدل راستے پر چلتے رہو۔
پوری دنیا بالخصوص اسلامی ممالک میں افراتفری کا عالم ہے۔ بازاروں ، پارکوں ، مساجد، مدارس، مزاروں ، درگاہوں، عوامی اجتماعات پر حملے اور قتل وغارت گری، ڈاکہ زنی ، چوری چکاری عام بات بن چکی ہے۔سب ایک دوسرے کے خون کے پیاسے لگتے ہیں۔ تمام معاملات کو بلاتحقیق و تصدیق اسلام اور مسلمانوں سے جوڑ کر بے طرح کے بیانات داغنے کے بعد دینی تعلیم کے مراکز پر پابندیاں لگانے کے مطالبے کیے جاتے ہیں اور اہل دین و دانش پر شکنجہ کس دیا جاتا ہے جبکہ دوسری طرف افراتفری پھیلانے والے نامی گرامی افراد کی سرپرستی کرنے والے ریاستی ایوانوں کے خوب مزے اڑاتے ہیں۔
گذشتہ دومضامین میں جہاد کی اہمیت ، فضیلت اور اس کی جہات سے متعلق گفتگو کی گئی تھی اور یہ بات واضح کی گئی کہ اسلام ایک پرامن دین ہے جس میں انسان کے خون کی بہت قدر کی جاتی ہے اور نہ صرف انسان بلکہ جانوروں کو بھی تکلیف دینے سے منع کیا جاتا ہے۔ ایسے پرامن دین میں کسی کے ناحق خون کی کیسے اجازت دی جاسکتی ہے۔ اس مضمون میں اسلامی تعلیمات کی روشنی میں جہاد اور دہشت گردمی میں فرق واضح کیا جائے گا۔
جہاد ایک ایسا عمل ہے جس کے ذریعے سے پر امن معاشرے کی تشکیل ہوتی ہے اور ریاست تمام تر بیرونی دباؤ اور مظالم سے محفوظ رہتی ہے۔تعصب و تشدد کرنا یا ترغیب دینا ، قتل و غارت کرنا ، نہ صرف ناجائز بلکہ جائز کاموں کے لیے بھی زبردستی کا رویہ اپنانے کی ممانعت کی گئی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے:
ترجمہ:۔ جہاد دو طرح کا ہے ایک وہ جہاد ہے جو رضاء الٰہی کی خاطر کیا جاتا ہے اور اس میں امیر کی فرمانبرداری کی جاتی ہے اور بہتر سے بہتر مال اس میں خرچ کیا جاتا ہے، ساتھی کے ساتھ نرمی برتی جاتی ہے اور فساد سے پرہیز کیا جاتا ہے پس ایسے جہاد میں تو سونا اور جاگنا بھی عبادت ہے۔ دوسرا جہاد وہ ہے جس میں فخر شامل ہو اور جو دکھانے اور سنانے کی غرض سے کیا جاتا ہے جس میں امام کی نافرمانی ہو اور زمین میں فساد مطلوب ہو ایسے جہاد کا کوئی اجر نہیں۔‘‘(سنن ابی داؤد)
مجاہدین کو بھیجتے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے نصیحت کی جاتی تھی کہ اللہ سے ڈرتے رہنا، ساتھیوں سے بھلائی کرنا، عہد کو پورا کرنا، عورتوں ، بچوں اور بوڑھوں کو قتل نہ کرنا، فصلوں اور جانوروں کو نقصان نہ پہنچانا، اعضاء کو نہ کاٹنا، آگ نہ لگانا۔اور یہ بات بھی واضح فرمادی کہ جو شخص شہرت و شجاعت کے لیے لڑتا ہے اس کا لڑنا بے کار ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جہاد وہی ہے جو اللہ رب العزت کی رضا حاصل کرنے کے لیے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ کے مطابق ہو۔
دہشت گردی کس چیز کا نام ہے ؟اور کیا اسلام میں ان حرکات کی اجازت ہے یا نہیں ؟آکسفورڈ ڈکشنری میں ذکر کردہ دہشت گردی کی تعریف کا مفہوم یہ ہے کہ ’’سیاسی مقاصد کے لیے غیر قانونی ذرائع کا استعمال دہشت گردی کہلاتا ہے ‘‘ جبکہ اس تعریف کو مزید عام کیا جائے تو’’ عام شہریوں یا فورسز کے خلاف سیاسی یا ذاتی مقاصد کے حصول کے لیے انفرادی یا اجتماعی طور پر تشدد کرنا، دھمکیاں دینا ، خود کش یا کسی بھی طرح کا بم بلاسٹ اور طاقت کا غیر قانونی استعمال دہشت گردی کہلاتا ہے‘‘۔ اسلامی تعلیمات میں ان تمام حرکات کی سخت الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ’’ جس نے ہم پر (مسلمانوں پر) ہتھیار اٹھایا وہ ہم میں سے نہیں‘‘۔ اور فرمایا کہ’’ تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی پرہتھیار سے اشارہ نہ کرے اس لئے کہ وہ نہیں جانتا ہے کہ شاید شیطان اس کے ہاتھ سے وہ ہتھیار چلادے اور اس کی وجہ سے آگ کے گڑھے میں جا گرے۔‘‘(بخاری )
معلوم ہوا کہ کسی پر ہتھیار اٹھانا تو دور کی بات ہے کسی کی طرف ہتھیار سے اشارہ کرنے کی اجازت بھی نہیں۔ دہشت گردی اسلامی تعلیمات یا جہاد کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کے دیگر اسباب ہیں ، اگر دہشت گردی کو اسلام یا اہل اسلام کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی جائے گی تو اصل اسباب و محرکات نظر سے اوجھل رہیں گے۔ دہشت گردی سے چھٹکارہ تبھی ممکن ہے جب اس کے محرکات کا قلع قمع کیا جائے ، ان تمام امور کو ختم کیا جائے جن کی وجہ سے دہشت گردی وجود میں آتی ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ دہشت گردی پھیلانے میں وہی کردار ادا کررہے ہیں جو اسلحہ بنا کر افراتفری کو ہوادیتے ہوئے اپنے مالی فوائد حاصل کرتے ہیں اور الزام اہل اسلام پر ڈال دیتے ہیں۔ عجیب بات یہ بھی ہے کہ اگر کوئی کسی ملک پر اپنی اجارہ داری قائم کرنے کے لیے بمباری کرے تو اسے نوبل پرائز سے نوازا جاتا ہے اور اپنا حق حاصل کرنے کے لئے آواز بلند کرنے والا دہشت گردکہلاتاہے۔ اس سب کے باوجود افراتفری کی وجہ عموماً اسلامی تعلیمات کو اور خصوصاً جہاد کو قرار دے کر اسلام کو بدنام کرنے کے لئے الیکٹرانک وپرنٹ میڈیا سمیت ہر پلیٹ فارم اور ہر طریقے کو استعمال کیا جارہا ہے۔
دہشت گردی میں ملوث افراد عموماً مال و دولت کے لالچ میں ایسے مکروہ کام کرتے ہیں ،اسلامی تعلیمات کو فروغ دینے اور دعوت و اصلاح کے ذریعے سے لوگوں کے دلوں سے مال کی ہوس ختم کرنے کی کوشش کی جائے۔
دہشت گردی کی ایک بہت بڑی وجہ ریاستی افراد کے مظالم بھی ہیں۔ جب کسی پر ظلم و بربریت کی جائے گی اور اس کے جائز حقوق چھینے جائیں گے تو ایسے افراد بھی بغاوت پر اتر آتے ہیں اور نتیجہ عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔ قبائلی علاقہ جات کے بعض لوگ جو کبھی پاکستان کی حفاظت کے لئے جان دیتے تھے آج غیر ملکی عناصر کا آلہ کار بن رہے ہیں۔
دہشت گردی کی تیسری بڑی وجہ وہ لوگ ہیں جوعلمی کمی کی وجہ سے غیر اسلامی معاملات کو غیر اسلامی طریقوں سے ہی ختم کرنا چاہتے ہیں حالانکہ ایسے کسی عمل کا قطعاً کوئی فائدہ نہیں ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مبارک ہے:
’’میں تمہارے پاس دو چیزیں کتاب اللہ اور سنت چھوڑ کر جارہا ہوں ، جب تک تم انہیں تھامے رکھوگے ہرگزگمراہ نہ ہوگے۔‘‘
اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ اسلامی تعلیمات پر عمل کے بغیراصلاح کا کوئی بھی طریقہ فائدہ مند نہیں۔
پاکستان اس وقت تیزی سے ترقی کے مراحل طے کرتے ہوئے اپنی معیشت کو مضبوط کرنے کی کوشش میں مصروف ہے جس کی وجہ سے ہمسایہ ممالک پریشان ہیں اور وہ اس ترقی کو روکنے کے لیے ہر طرح کے حربے استعمال کررہے ہیں ، اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لیے کمزور ایمان والے افراد اور اسلامی لبادہ کا استعمال کفار کی پرانی عادت ہے۔ اس لئے ارباب اختیار کی ذمے داری ہے کہ اہل اسلام کو مورد الزام ٹھہرانے کی بجائے اصل افراد پر توجہ دی جائے۔ اسی طرح مقتدر اہل دین کی بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ ایسے تمام تر واقعات کی حسب سابق شدید الفاظ میں مذمت کریں اور اجتماعات میں لوگوں کو باور کرائیں کہ اسلام میں ایسے کسی ظلم و بربیت کی ہرگز ہرگز اجازت نہیں ہے تاکہ کوئی سادہ لوح مسلمان دشمنان دین کے ہاتھوں استعمال نہ ہوسکے۔ یقینا اپنے مسلمان بھائیوں پر حملے کرنے والے مسلمان نہیں ہوسکتے۔
آخر میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مکہ مکرمہ میں امن و سلامتی کے لیے مانگی گئی دعا کو دہراتے ہوئے اس مضمون کو ختم کرتے ہیں کہ اللہ رب العزت پوری دنیا کو بالعموم اور اسلامی دنیا کو بالخصوص امن کا گہوارہ بنائے۔ آمین یا رب العالمین
٭٭٭٭٭