گذشتہ مضامین میں جہاد سے متعلق گفتگو کی گئی اور یہ بات واضح کی گئی کہ اسلام امن اور سلامتی کا دین ہے اور پوری کائنات میں امن کے فروغ کا ضامن ہے۔ قیام امن کے لیے جہاد لازم ہونے کی وجہ سے اسلام میں جہاد کو فرض قرار دیا گیا ہے۔ اس کا منکر قرآن کا انکار کرنے کی وجہ سے کافر ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جہاد قیامت تک جاری رہے گا۔ جہاد کا بنیادی مقصد اعلاء کلمۃ اللہ ہے اور ثمرہ پرامن معاشرے کا قیام ہے۔ اسی لیے دشمنان اسلام اعلاء کلمۃ کے مشن کو تہہ و بالا کرنے کے لیے پورے عالم اسلام میں خانہ جنگی کے ذریعے جہاد کو بدنام کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں تاکہ دین اسلام کو مضبوط کرنے والے اس اہم فریضہ سے لوگوں کو بد ظن کیا جاسکے۔ وطن عزیز پاکستان میں بھی موجودہ افراتفری اسی سازش کا حصہ ہے۔ عجیب کش مکش ہے کہ مسلمان ہی مسلمان کے مقابلے میں کھڑا ہے ، ہر ایک خود کو درست اور دوسرے کو غلط کہہ رہا ہے۔ اس مضمون میں انہی پہلوؤں پر گفتگو کی جائے گی تاکہ دونوں جانبین کا کردار واضح ہوسکے۔
پاکستان ایک اسلامی ریاست
مدینہ منورہ کے بعد پاکستان وہ ریاست ہے جس کی بنیاد اسلام کے نام پر رکھی گئی اور اس میں مکمل اسلامی نظام لانے کا عزم کیا گیا۔ علامہ سرخسی رحمۃ اللہ علیہ کے مطابق ’’بے شک دارالاسلام ایسی جگہ کا نام ہے جو مسلمانوں کے پاس ہو اور اس کی علامت یہ ہے کہ وہاں مسلمان امن سے رہتے ہوں۔ ‘‘الحمد للہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے جس میں 97 فیصد مسلمان ہیں ، اقتدار بھی مسلمانوں کا اور اختیار بھی۔عظیم مذہبی و ملی رہنما مولانا اشرف علی تھانوی نور اللہ مرقدہ نے بھی ایسے ہی خطے کی خواہش کا اظہار فرمایا :۔
’’ جی یوںچاہتاہے کہ ایک خطے پر خالص اسلامی حکومت ہو ،سارے قوانین تعزیرات وغیرہ کا اجراء احکام شریعت کے مطابق ہو ،بیت المال ہو،نظام زکوٰۃ رائج ہو ،شرعی عدالتیں قائم ہوںوغیرہ وغیرہ۔دوسری قوموںکے ساتھ مل کرکام کرتے ہوئے یہ نتائج کہاں حاصل ہوسکتے ہیں؟اس مقصد کے لیے صرف مسلمانوںہی کی جماعت ہونی چاہیے اور اسی کویہ کوشش کرنی چاہیے‘‘۔
1945ء کے پیغام عید میں قائد اعظم محمد علی جناح نے بھی اسی کا عزم کیا:۔
’’اس حقیقت سے سوائے جہلاکے ہر شخص واقف ہے کہ قرآن مسلمانوںکابنیادی ضابطہ زندگی ہے۔ جو معاشرت، دین، تجارت، عدالت، عسکری امور، دیوانی اور فوجداری ضوابط کواپنے اندر لئے ہوئے ہے۔ مذہبی رسومات سے لے کر روز مرہ زندگی کے معاملات تک، روح کی نجات کاسوال ہویا صحتِ جسم کا، اخلاقیات سے لے کر جرائم تک ،دنیاوی سزاؤںسے لے کرآخرت کے مواخذے تک تمام ضوابط قرآن میںموجود ہیں، اسی لئے نبی کریمﷺ نے حکم دیاتھاکہ ہر مسلمان قرآن حکیم کانسخہ اپنے پاس رکھے اور اس طرح خود اپنامذہبی پیشوا بن جائے‘‘۔ایک اور جگہ فرمایاکہ:۔
’’اسلامی اصول آج بھی ہماری زندگی کے لیے اسی طرح قابل عمل ہیں جس طرح 13سو سال پہلے قابل عمل تھے، وہ یہ نہیںسمجھ سکے کہ لوگوںکاایک گروہ جان بوجھ کرفتنہ اندازی سے یہ بات کیوںپھیلاناچاہتاہے کہ پاکستان کاآئین شریعت کی بنیادپر مدون نہیںکیاجائیگا۔‘‘
مولانا اشرف علی تھانوی کی انہی خواہشات کی وجہ سے حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی ، مولانا ظفر احمد عثمانی ، مفتی محمد شفیع عثمانی جیسے افراد نے دن رات محنت کرکے مسلم لیگ کی کامیابی میںبھرپورکردار ادا کیا۔
حضرت تھانویؒ کی دلی خواہش اور قائد اعظم کا عزم اگرچہ ابھی تک کامل درجہ کو نہیں پہنچا لیکن اللہ رب العزت نے پاکستان کو اسلامی دنیا میں ایک نمایاں مقام بخشا ہے۔ یہ بات بھی ہمارے لیے قابل فخر ہے کہ 80 کی دہائی میں جب بیت اللہ پر مسلح خارجیوں نے قبضہ کرلیا تو اسی پاکستان کے مسلح دستوں نے باعزت طریقے سے وہ قبضہ ختم کرایا ۔ 38 اسلامی ممالک بننے والے دفاعی اتحاد کی سربراہی بھی پاکستان کے ایک جانباز سپاہی دو نشان حیدر حاصل کرنے والے خاندان کے فرزند جنرل ریٹائرڈ راحیل شریف کے نام کی جارہی ہے۔ پاکستان اسلامی دنیا میں واحد ایٹمی طاقت ہے۔ اور حرمین شریفین کی حفاظت کا سب بڑا ضامن بھی یہی ملک ہے۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان کو اسلام کا قلعہ قرار دیا جاتا ہے۔
امیر کی اطاعت
تنظیم کسی بھی کام کی کامیابی کی بنیادی ضرورت ہے اور امیر اس کا لازمی حصہ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد مقامات پر امیر کی اطاعت کو لازمی قرار دیا تاکہ امت متفق اور متحد رہے اور ر ب العزت کے فرمان’’اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو‘‘ پر عمل ہوسکے۔ مولانا عاشق الٰہی بلند شہری سورۃ نساء کی آیت
’’یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوااللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ ‘‘
کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
اس آیت میں اللہ جل شانہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کے ساتھ اولی الامر کی اطاعت کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔ بات یہ ہے کہ جب کسی کو امیر بنا لیا جسے امام اور خلیفہ کے نام سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے اس کا حکم ماننے ہی سے امت کا شیرازہ مجتمع رہ سکتا ہے۔ امیر کی فرمانبرداری نہ کرنے سے شیرازہ منتشر ہوجاتا ہے اور ہر ایک اپنی اپنی راہ پکڑتا ہے۔ جب انتشار ہوتا ہے تو وحدت قائم نہیں رہتی اور دشمن حاوی ہوجاتا ہے پھر امیر اعلیٰ جن لوگوں کو مختلف جماعتوں کا امیر بنائے یا چند مسلمان مل کر کسی کو امیر بنائیں تو اس کی اطاعت بھی ضروری ہے ، اس کی اطاعت نہ کرنے سے بھی پھوٹ پڑے گی اور آپس میں نزاع اور جدال کی صورتیں پیدا ہوں گی۔ چونکہ اللہ کا حکم ہے کہ امیر کی اطاعت کرو اس لیے امیر کی اطاعت کرنا اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے ، اس اطاعت میں ثواب بھی ہے اور امت مسلمہ کا اتحاد بھی ہے۔ (تفسیرانوارالبیان: ج2، ص 285)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ گنہگاری میں کوئی فرمانبرداری نہیں، فرمانبرداری صرف اچھے کام میں ہے۔ (مشکوۃ المصابیح) حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ امام المسلمین پر واجب ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نازل فرمودہ احکام کے مطابق فیصلے کرے اور امانت ادا کرے، وہ جب ایسا کرے گا تو رعیت پر واجب ہوگا کہ اس کی بات سنیں اور فرمانبرداری کریں۔ (معالم التنزیل)
اولی الامر کی ایک دوسری تفسیر کے مطابق اس سے علماء و فقہاء مراد ہیں۔ جس طرح احکام الٰہی کا نفاذ حکمرانوں کی ذمے داری ہے وہیں علماء کے لیے بھی ضرورری ہے کہ وہ ان تمام معاملات میں حکمرانوں کی رہنمائی کریں۔ امیر جب منتخب کرلیا جائے تو اسلام سے غیر متصادم احکامات میں اس کی اطاعت لازمی ہے۔ اسلامی احکام کو ان کی روح کے مطابق نافذ کرنا امیر کی ذمے داری ہے ہر طرح کی کوتاہی کا وہ خود ذمے دار ہوگا۔
بغاوت
جہاںامیرکی اطاعت فرض ہے وہیںیہ بات بھی مسلم ہے کہ رعایامیںسے کسی کوبغاوت کی اجازت نہیںہے۔ باغی ایسے شخص کو کہتے ہیں کہ جو ریاست کے آئین و قانون کو ماننے سے انکار کردے۔ عدالتوں و دیگرریاستی اداروںکی موجودگی میںاسلامی تعلیمات کی خلاف ورزی پربھی بغاوت کی اجازت نہیںہے۔ پاکستان میں الحمد للہ ایسے ادارے موجود ہیں جو ایسی شکایات نہ صرف سنتے ہیںبلکہ ان کا ازالہ بھی کرواتے ہیں۔ حال ہی میںسوشل میڈیاپرگستاخانہ طرز عمل پرعدالت کانوٹس اور اس کا سدباب اوراس پر عمل درآمداس کی زندہ مثال ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ آپ اپنے اختلاف رائے کوکس اچھے اندازسے پیش کرتے ہیں۔ اہل علم و دانش ہمیشہ دلیل سے گولی اور بم کاکام لیتے ہیں۔ اور جاہل طبقہ صرف شور و غل اور لڑائی جھگڑے سے اپنی بات منوانے کی کوشش کرتاہے۔ اس لیے ایسے تمام گروہ جواسلامی نظام کے نفاذ کے لیے کوشش کے دعوے دار ہیں ان کویہ بات اچھی طرح سیسمجھ لینی چاہیے کہ اسلام لانا ہے تو اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت لازمی ہے۔ اپنی مرضی سے اسلامی تعلیمات کو نظر اندازکرتے ہوئے مسلح کوششیں صرف بغاوت کہلاسکتی ہیںجہادنہیں۔
اس تمام صورتحال میں جب کہ جید علماء کرام کی طرف سے ملکی قوانین کے واجب العمل ہونے پرفتاویٰ جات بھی موجود ہوں تو انکار کی کوئی وجہ باقی نہیں رہ جاتی ، اب اگر کوئی مسلح ہوکر ریاست کے خلاف کھڑا ہوجاتا ہے تو بغاوت کے زمرے میں آئے گا۔ باغی کے بارے میں ارشاد ربانی کا مفہوم ہے:۔
’’جو لوگ اللہ تعالیٰ سے اور اس کے رسول سے لڑتے ہیں اور ملک میں فساد پھیلاتے پھرتے ہیں ان کی یہی سزاہے کہ قتل کیے جائیںیاسولی دیے جائیںیا ان کے ہاتھ اور پاؤں مخالف جانب سے کاٹ دئیے جائیںیازمین پرسے نکال دئیے جائیںیہ ان کے لیے دنیامیں (سخت) رسوائی ہے اور ان کوآخرت میں عذابِ عظیم ہوگا۔(المائدہ ۳۳)
اس آیت مبارکہ میں تمام وہ لوگ شامل ہیں جو مسلح ہوکرفورسزکے سامنے آئیں، دہشت پھیلائیں، خانہ جنگی میںکردار ادا کریںیاپھرمسلمانوںپر خود کش حملہ کریں۔ یہ سب باغی اور فساد پھیلانے والے ہیں۔ پاک سرزمین کوایسے ناپاک لوگوںسے پاک کردینالازمی اور ضروری ہے۔ قرآن نے بھی فساد پیداکرنے والوںکو قتل کردینا افضل قرار دیاہے۔افواج پاکستان کی طرف سے ضرب عضب اور رد الفساد جیسے آپریشن کا مقصد بھی یہی ہے کہ ریاست کو ایسے ناسوروںسے پاک کیاجاسکے۔
پاکستان میں موجودہ
انتشار کی وجوہات
پاکستان بننے کے فوری بعد ایک المیہ یہ ہوا کہ ابتداء میںبرطانوی نظام کو نافذ کر دیا گیا جس سے یہ تاثر بنا کہ پاکستان کے حصول کا مقصد اسلام نہیں تھا بلکہ ایک ایسی تجارتی منڈی کا حصول تھا جہاں کچھ لوگ اپنی من مانی کرسکیں۔ یقینا چند کالی بھیڑوں کی وجہ سے اس بات سے اتفاق نہیں کیا جاسکتا۔ دوسری طرف مخلص لوگ اس ریاست کو اسلامی قوانین کے مطابق ڈھالنے کی کوشش میں مسلسل مصروف عمل رہے جس کی پہلی کامیابی قرار داد مقاصد کی تدوین اور حکومت سے اس کی منظوری حاصل کرنا تھا اور یہ قرار داد مقاصد آج تک آئین کا حصہ ہے۔اسی طرح وفاقی شرعی عدالت اور اسلامی نظریاتی کونسل کا قیام بھی انہی کاوشوں کا حصہ ہے۔ ان تمام کوششوں کے باوجود ابھی بھی بہت سے ایسے امور انجام دیے جارہے ہیں جو اسلامی تعلیمات کے صریح خلاف ہیں۔ بالخصوص غیراسلامی کلچر کافروغ وہ بنیادی وجہ ہے جس سے اسلامی اذہان اس ملک کو غیر اسلامی کہنے پر مجبور ہیں۔ آئین پاکستان کے مطابق ریاست میں اسلامی کلچر کو فروغ دینا ریاست کی ذمے داری ہے اور قرار داد مقاصد کی روشنی میں اسلام سے متصادم تمام قوانین کو ختم کرنا بھی ارباب اختیار کی ذمے داری ہے اور عوام پر ایسے قوانین پر عمل کی اجازت بھی نہیں ہے۔ایسے ہی علماء کی ذمے داری ہے وہ آئین سازی میں بھرپور حصہ لے کر پاکستان کو خالص اسلامی ریاست بنانے میں بھرپور کردار ادا کریں۔
قیام امن کے لیے افواج
پاکستان کی کوششیں
پاکستان بننے کے فوری بعد سے لیکرآج تک افواج و دیگر مسلح ادارے اس گلشن میںلوگوںکی حفاظت اور قیام امن کے لیے بھرپورکردار ادا رکررہے ہیں۔ ابتداء میں صرف ازلی دشمن بھارت سے مقابلہ تھا اور ایمانی قوت سے لیس نوجوان ہمیشہ سینہ سپررہے۔ جب سامراجی طاقت کام نہ آئی تو سازشوںکا جال پھیلایاگیا جس کی ابتداء عالمی طاقتوںکے افغانستان میںگٹھ جوڑسے ہوئی ، مقامی لوگ اور اسلام کالبادہ استعمال کیاگیا اور یوںایک مسلمان دوسرے مسلمان کے سامنے آگیا۔ یہ صورت حال ریاست اور ریاستی اداروںکے لیے پریشان کن ہے کیونکہ جب دشمن کوڈھونڈکر مارا جاتاہے تو اپنے ہی لوگ انگلیاںاٹھانا شروع ہوجاتے ہیں ، دوسری مصیبت یہ کہ اس میںبہت سے بے گناہ بھی بغیرکسی جرم کے مظالم کی چکی میںپسنا شروع ہوگئے اور یہ صورت حال باہمی کشمکش کومزیدبھڑکارہی ہے۔
جون 2014ء جناح انٹرنیشنل کراچی پردہشت گردوں کے حملے کے نتیجے میں 21 بے گناہ لوگ جان کی بازی ہارگئے اور کالعدتنظیم نے اس کی ذمے داری قبول کرلی جس پرحکومت پاکستان نے بے گناہ شہریوںکومزید مظالم سے بچانے کے لیے اپنی پالیسی از سر نوترتیب دی اور ضرب عضب کے نام سے ایک بڑے آپریشن کی ابتداء کی۔ عضب کا مطلب ہے کاٹنا، تلوارسے کاٹنا، یہ نام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عضب نامی تلوارکی نسبت سے رکھاگیا۔ اس آپریشن میںجوانوںنے دشمن کو ان کے ٹھکانوںمیںگھس کر مارا ، اس دوران بہت سے فوجی بھی شہیدہوئے لیکن دہشت گردی کی بہت بڑی لہرتھم گئی اور ایک امید بن گئی کہ اب ایک دن آئے گا جب پاکستان سے دہشت گردی کاخاتمہ ہوجائے گا۔ ضرب عضب کے نتیجے میںایک نقصان بھی ہواوہ یہ کہ دہشت گردایک جگہ سے منتشر ہوکرپورے ملک میںپھیل گئے۔ عام لوگوںکے ساتھ گھل مل گئے ، انتہائی سخت سیکورٹی کے باوجودپاکستان کے دل شہرِلاہورمیںحملہ ہوا جس میںبہت سے بے گناہ افراد دار فانی کی طرف کوچ کرگئے۔ اس حملے کے بعد یہ فیصلہ کیاگیاکہ اب ہر اس خطے میںآپریشن کیاجائے گاجہاںدشمن موجود ہوسکتاہے۔ یوں رد الفساد کے نام سے ایک نئی کوشش شروع کی گئی۔ یہ بات یقینا قابل ستائش ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنی بساط کے مطابق دن رات پاکستان کا امن لوٹانے کی کوشش کررہے ہیں۔ کامیابی ان کے قدم چوم بھی رہی ہے جس کی ایک مثال تمام تر خدشات کے باجودلاہورمیںکرکٹ میچ کاپر امن انعقاد ہے۔
اللہ رب العزت اس گلشن کی آبیاری کرنے والے ہرباغبان کی حفاظت فرمائے اور وطن عزیزکوہر طرح کے شرور و فتن سے مکمل طور پر محفوظ فرمائے۔ (آمین)