© Copyright 2017 Saut-ul-Islam Pakistan All Rights Reserved
+ 92 21 35363159 - 35867580 Fax: + 92 21 35873324
برادر عزیز، ہارون الرشید نے اپنے 14 فروری والے کالم میں لکھا ہے کہ ’’روایت ہے مولانا اشرف علی تھانوی کا بھیجا ہوا علما ءکا ایک وفد قائداعظم رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں پہنچا اورملاقات میں دو نکات پر زرو دیا۔ اول سیاست اور مذہب اور دوم جھجکتے ہوئے کہا کہ اگرچہ ذاتی بات ہے مگر انہیں نماز پڑھنی چاہئے‘‘۔ اسی کالم میں ہارون الرشید نے مجھ سے تفصیل لکھنے کی فرمائش کی ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ محض روایت نہیں بلکہ مستند واقعہ ہے اور تاریخ کا حصہ ہے۔ میں نے 2001ء میں محترم ارشاد احمد حقانی صاحب مرحوم سے قلمی بحث میں اس کا حوالہ دیا تھا اور پھر افتخار احمد چودھری کے ساتھ یوم قائداعظم رحمتہ اللہ علیہ کے حوالے سے جیو کے پروگرام ’’جوابدہ‘‘ میں بھی عرض کیا تھا کہ قائداعظم رحمتہ اللہ علیہ کی مذہبی تربیت مولانا اشرف علی تھانوی کی ہدایت پرا ن کے ساتھیوں اور خواہر زادوں نے کی تھی جن کی قائداعظم رحمتہ اللہ علیہ سے طویل ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ ان ملاقاتوں کا نتیجہ تھا کہ انگلستان سے واپسی کے بعد قائداعظم رحمتہ اللہ علیہ کی تقریروں پر واضح مذہبی رنگ نظر ا?تا ہے، ان کی تقریروں میں جا بجا اسلام کے حوالے ملتے ہیں، خدا کے سامنے جوابدہی کے خوف کا خوف طاری ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ قائداعظم رحمتہ اللہ علیہ کی تقاریر کو بغور پڑھنے کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ 1934 کے بعد ان کے نظریات میں ایک واضح تبدیلی نظر ا?تی ہے، مذہب کی جانب جھکائو محسوس ہوتاہے اور ان کے تصور قومیت اور سیاست میں بنیادی تبدیلی دکھائی دیتی ہے۔ ظاہر ہے کہ قائداعظم رحمتہ اللہ علیہ کوئی مذہبی شخصیت نہیں تھے اور نہ ہی علامہ اقبال کی مانند ان کی مذہبی تربیت ہوئی تھی۔ وہ ایک کھرے اور سچے مسلمان تھے اور اسلام کی تعلیمات میں یقین رکھتے تھے۔ انہوں نے اپنے طور پر اسلامی نظام، سیرت نبوی اور قرا?ن حکیم کا گہرا مطالعہ کیا تھا جس کے حوالے سے ان کی تقاریر میں جا بجا ملتے ہیں۔ وہ قرا?ن حکیم پر غور و فکر کرتے تھے اور اس کی گواہی نہ صرف منیر احمد منیر کی کتاب ’’دی گریٹ لیڈر‘‘ کے عینی شاہدین دیتے ہیں بلکہ جنرل محمد اکبر کی کتاب ’’میری ا?خری منزل‘‘ سے بھی ملتی ہے۔ گنتی کے مطابق قائداعظم رحمتہ اللہ علیہ نے قیام پاکستان سے قبل 101دفعہ اور قیام پاکستان کے بعد چودہ دفعہ اس عزم کا اعادہ کیا کہ پاکستان کے ا?ئینی ڈھانچے اور نظام کی بنیاد اسلامی اصوبوں پر رکھی جائے گی اور انہوں نے یہ بات تو کئی بار کہی کہ ’’قرا?ن مجید‘‘ ہمارا راہنما ہے۔ حتیٰ کہ سٹیٹ بینک کی افتتاحی تقریر میں بھی اسلامی اصولوں کی بنیاد پر اقتصادی نظام تشکیل دینے کی ا?رزو کا اظہار کیا۔ مجموعی طور پر قائداعظم رحمتہ اللہ علیہ پاکستان کو اسلامی جمہوری اور فلاحی ریاست بنانا چاہتے تھے، مذہبی ریاست ہرگز نہیں کیونکہ اسلام میں تھیوکریسی کا کوئی تصور موجود نہیں۔ افسوس تو اس بات پر ہوتا ہے کہ ہمارے سیکولر دانشوروں نے قائداعظم رحمتہ اللہ علیہ کی تقاریر کو پڑھا ہی نہیں اور نہ ہی ان کی روح کو سمجھا ہے۔ وہ فقط چند ایک تقاریر پڑھ کر اپنا مطلب نکال لیتے ہیں اور اس پہلو پر غور کرنے کی زحمت نہیں فرماتے کہ وقت گزرنے کے ساتھ کب اور کیسے قائداعظم رحمتہ اللہ علیہ کے نظریات میں تبدیلی ا?تی گئی اورانہوں نے مسلمانوں کے حوالے سے ’’اقلیت‘‘ سے ’’قومیت‘‘ تک کا سفر کیسے طے کیا۔ اقبال کا فکری ارتقاء بھی اسی حقیقت کی غمازی کرتا ہے۔ اسلام مخالف اور دین بیزار حضرات قائداعظم رحمتہ اللہ علیہ کو سیکولر ثابت کرتے رہتے ہیں اور ان کے علم کاحال یہ ہے کہ وہ ا کثر دعوے کرتے پائے جاتے ہیں کہ قائداعظم رحمتہ اللہ علیہ نے کبھی پاکستان کو اسلامی مملکت بنانے کا اعلان نہیں کیا۔ یہ سطحیت کی حد ہے کیونکہ قائداعظم رحمتہ اللہ علیہ نے فروری 1948 ءمیں امریکی عوام کے نام براڈ کاسٹ میں پاکستان کو ’’پریمیئر اسلامک اسٹیٹ‘‘ قرار دیا تھا۔ (بحوالہ قائداعظم رحمتہ اللہ علیہ کی تقاریر جلد چہارم صفحہ 1064تدوین خورشید یوسفی) البتہ سیکولر کا لفظ کبھی ان کی زبان سے نہیں نکلا۔ قائداعظم رحمتہ اللہ علیہ کے نظریات کیا تھے اور وہ پاکستان کو کیسی ریاست بنانا چاہتے تھے، یہ میرا ذاتی مسئلہ نہیں لیکن دین بیزار حضرات اس حوالے سے جب قائداعظم رحمتہ اللہ علیہ کومولوی محمد علی جناح کہتے اور مجھ پر پھبتی کستے ہیں تو میں محظوظ ہوتا ہوں اور دعا مانگتا ہوں کہ اللہ انہیں قائداعظم رحمتہ اللہ علیہ کی تقاریر پڑھنے کی توفیق دے۔ رہا ا?ج کا پاکستان تو وہ نہ اسلامی ہے نہ جمہوری ہے اورنہ ہی فلاحی ہے بلکہ ا?مریت اور جمہوریت کا ملغوبہ ہے ،جہاں اقتدار اور سیاست پر دولت کی اجارہ داری ہے، نیم خواندہ، نظریاتی منافق اور ہوس زدہ طبقے چھائے ہوئے ہیں اور عوام کے نام پر عوام کے لئے بنائے گئے پاکستان میں عوام پس رہے ہیں۔
بات چلی تھی مولانا اشرف علی تھانوی اور قائداعظم رحمتہ اللہ علیہ کی مذہبی تربیت کے حوالے سے اور قدرے دور نکل گئی۔ اس ضمن میں جس تفصیل کا مطالبہ کیا گیا ہے وہ منشی عبد الرحمن خان مرحوم کی کتاب ’’تعمیر پاکستان اور علمائے ربانی میں‘‘ تفصیل سے موجود ہے اور پڑھنے کے لائق ہے۔ منشی عبد الرحمن مرحوم نے بڑی محنت اور تحقیق سے مواد جمع کیا ہے اور قائداعظم رحمتہ اللہ علیہ کے حوالے سے ان گوشوں پر روشنی ڈالی ہے جن کا ذکر نہ ہماری تحریک پاکستان پر لکھی گئی کتابوں میں ملتا ہے اور نہ ہی مغربی سکالرز قائداعظم رحمتہ اللہ علیہ کی سوانح لکھتے ہوئے انہیں قابل توجہ سمجھتے ہیں کیونکہ یہ انہیں ’’سوٹ‘‘ (Suit)نہیں کرتا۔ ا?ج کا نوجوان تو یہ بھی نہیں جانتا کہ مولانا اشرف علی تھانوی بہت بڑے سکالر، تفسیر قرا?ن اور سیرت نبوی کے عظیم مصنف اور بڑی روحانی شخصیت تھے۔ ایسی شخصیت کا مسلمانوں کے مستقبل کے بارے میں متفکر رہنا قابل فہم ہے۔ مولانا شبیر علی تھانوی کی ’’روئیداد تبلیغ‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے منشی عبد الرحمن مرحوم نے لکھا ہے ’’حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی دوپہر کا کھانا نوش فرما کر قیلولہ کے لئے خانقاہ میں تشریف لائے اور مجھے ا?واز دی۔ حاضر ہوا تو حضرت متفکر تشریف فرما تھے۔ (یہ مئی 1938کا واقعہ ہے) اس زمانہ تک قرارداد پاکستان منظور نہیں ہوئی تھی مگر کانگرس اورہندوو?ں کی ذہنیت بے نقاب ہوچکی تھی… حضرت نے دو تین منٹ کے بعد سر اٹھایا اور ارشاد فرمایا ’’میاں شبیر علی ہوا کا رخ بتا رہا ہے کہ لیگ والے کامیاب ہو جاویں گے اور بھائی جو سلطنت ملے گی وہ ان ہی لوگوں کو ملے گی جن کو ا?ج ہم فاسق فاج کہتے ہیں، مولویوں کوتو ملنے سے رہی۔ لہٰذا ہم کو یہ کوشش کرنا چاہئے کہ یہی لوگ دین دار بن جاویں۔ ا?ج کل کے حالات میں اگر سلطنت مولویوں کو مل بھی جاوے تو شاید چلا نہ سکیں گے… ہم کو تو صرف یہ مقصد ہے کہ جو سلطنت قائم ہو وہ دیندار اور دیانتدار لوگوں کے ہاتھ میں ہو اور بس…‘‘
میں نے ارشاد سن کر عرض کیا کہ پھر تبلیغ نیچے کے طبقہ سے شروع ہو یا اوپر کے طبقہ یعنی خواص سے۔ اس پرارشاد فرمایا کہ اوپر کے طبقہ سے کیونکہ وقت کم ہے اور خواص کی تعداد بھی کم ہے۔ اگر خواص دیندار بن گئے تو انشاء اللہ عوام کی بھی اصلاح ہو جائے گی۔ اس پس منظر اور اس جذبے کے تحت مولانا اشرف علی تھانوی نے ایک وفد ترتیب دیا،نواب محمد اسماعیل کے ذریعے قائداعظم رحمتہ اللہ علیہ سے ملاقات کا انتظام کیا جس کا احوال اگلے کالم میں بیان کروں گا انشاء اللہ… فی الحال اتنا ذہن میں رکھیں کہ نواب محمد اسماعیل مسلم لیگ کے سرکردہ لیڈر تھے اور دسمبر 1947میں جب مسلم لیگ کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا اور ہندوستان کے لئے انڈیا مسلم لیگ بنائی گئی تو نواب اسماعیل اس کے پہلے صدر تھے۔
علامہ اقبال نے اپنے انگریزی خطبات (Reconstrction)میں لکھا ہے کہ زندگی دراصل اموات کے سلسلے کا نام ہے، انسانی شخصیت کا ایک حصہ ختم ہوت اہے تو اس کی راکھ پر دوسری شخصیت جنم لیتی ہے۔ انسان جو کل تھا وہ آج نہیں ہے، اس کی ماضی کی شخصیت مرچکی اور اُس پر نئی شخصیت جنم لے چکی۔ اسے اقبال سلسلہ وار اموات (Series of Deaths)کا نام دیتے ہیں۔ قائد اعظم سیاسی زندگی کے آغاز میں سرسید احمد خان اور علامہ اقبال کی مانند متحدہ قومی تکی بات کرتے تھے لیکن سرسید اور اقبال کی مانند غوروفکر اور تجربات کی گھاٹیوں سے گزرنے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ مسلمان اور ہندو دو الگ الگ قومیں کیوں ہیں کیونکہ ان کے راہیں الگ الگ ہیں۔ چنانچہ اسی بنیاد پر انہوں نے الگ وطن کا مطالبہ کیا۔ وہ خلوص نیت سے سمجھتے تھے کہ اسی علیحدگی میں مسلمانوں کی بقاء کا راز مضمر ہے۔ کسی صحانی نے ایک بار قائد اعظم سے پوچھا کہ آپ تو متحدہ قومیت میں یقین رکھتے تھے اور اب آپ کیوں دونوں کو الگ قومیں قرار دیتے ہیں؟ جواب تھا کہ کبھی میں ہائی اسکول میں بھی پڑھتا تھا۔ مطلب یہ کہ علامہ اقبال کے الفاظ میں وہ شخصیت مرچکی اور ماضی تاریخ کا حصہ بن چکا۔ بعینہ کسی دور میں قائد اعظم مذہب کو سیاست سے الگ سمجھتے تھے اور جب گاندھی نے مذہب کو سیاست میں ملوث کیا تو قائد اعظم نے بغاوت کردی اور کانگریس کے ناگپور جلسہ میں ناخوشگوار واقعہ ہوا۔ وہی قائد اعظم جب تجربات ، مشاہدات اور غور وفکر کی بھٹی میں پگھل کر کندن بنتے ہیں، اسلامی تعلیمات کو سمجھتے ہیں اور قرآن حکیم پر تدبر کرتے ہیں تو وہ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اس میں سیاست کو مذہب سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔ سیدھی سی بات ہے کہ یا تو اسلامکو مکمل ضابطہ حیات نہ کہیے اور عیسائیت کی مانند چرچ کو طلاق دے کر سیاسی وعملی زندگی سے نکال دیجیے ورنہ اگر آپ اسلام کو مکمل ضابطہ حیات سمجھتے ہیں تو پھر سیاست کو کیونکر اس سے الگ کریں گے۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ ہمارے روشن خیال اور سیکولر دانشور اس حوالے سے دو اعتراض کرتے ہیں اول یہ کہ مذہب اور سیاست کو ملانے سے دہشت گردی، فرقہ واریت اور انتہا پسندی پیدا ہوئی ہے۔ یہ ان کا واہمہ ہے او ربے بنیاد ہے کیونکہ دہشت گردی، فرقہ واریت وغیرہ وغیرہ ہماری سیاست اور بین الاقوامی سیاست کے تحفے ہیں جبکہ ہمارا دین ان کی نفی کرتا ہے۔ تمام اسلامی اسکالرز اس بات پر متفق ہیں کہ دہشت گردی اسلام سے خارج ہے اور ڈاکٹر طاہر القادری نے تو اس پر فتویٰ دے کر ضخیم کتاب بھی لکھ دی ہے جو علم وفکر کا نمونہ ہے۔ دوسرا اعتراض اقلیتوں کے حوالے سے کیا جاتا ہے حالانکہ اسلام اقلیتوں کو پورے حقوق اور مکمل سرپرستی عطا کرتا ہے۔ اس کی بہترین عملی مثال میثاق مدینہ ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ’’مدینہ ریاست‘‘ تشکیل دینے سے پہلے طے کیا۔ جن پارٹیوں سے ’’میثاق مدینہ‘‘ طے کیا گیا ان میں بارہ غیر مسلم یا ایسے سردار شامل تھے جنہوں نے بھی اسلام قبول نہیں کیا تھا اور بقول ڈاکٹر حمید اللہ میثاق مدینہ میں غیر مسلم شہریوں کو برابر کے حقوق دیئے گئے تھے۔ قائد اعظم نے جب گیارہ اگست 1947ء کو دستور ساز اسمبلی میں تقریر کی تو ان کے پیش نظر میثاق مدینہ ہی تھا کیونکہ میں نے قائد اعظم کی تقاریر کے بغور مطالعے سے یہ اخذ کیا ہے کہ انہوں نے قرآن حکیم، اسلامی فقہ اور تاریخ کا گہرا مطالعہ کیا تھا اور اسلامی معاشرے کے اصولوں کی روح کو سمجھتے تھے۔ ہمارے روشن خیال سیکولر دانشوروں کا سانحہ یہ ہے کہ انہوں نے قائد اعظم کو پڑھا ہی نہیں اور نہ ہی وہ اسلامی اصولوں کی روح سے آگاہی رکھتے ہیں۔ اگر یہ حضرات اپنی مصروفیات سے وقت نکال کر صرف احمد سعید کی کتاب ’’گفتار قائد اعظم ‘‘ پڑھ لیں تو ان پر میری گزارشات عیاں ہوجائیں گی۔ احمد سعید درویش طبیعت سکالر ہیں جنہوں نے قائد اعظم پر خاصا تحقیقی کام کیا ہے۔ گفتار قائد اعظم قومی کمیشن برائے تحقیق تاریخ نے چھاپی ہے اور اس میں زیادہ تر قائد اعظم کی روزنامہ انقلاب میں چھپنے والی تقاریر شامل ہیں جنہیں خلوص نیت سے پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ انگلستان سے واپسی کے کچھ ہی عرصہ بعد قائد اعظم ذہنی فکر، سیاسی سوچ اور خیالات کے حوالے سے وہ محمد علی جناح نہیں تھے جو وہ انگلستان ہجرت سے قبل تھے۔ مجھے ایک بار پھر یہ کہنے دیجیے کہ یہ نہ میرا ذاتی مسئلہ ہے اور نہ ہی مجھے اس سے کوئی فرق پڑتا ہے۔ میں نے فقط قائد اعظم کو آزاد ذہن کے ساتھ خلوص نیت سے پڑھا ہے اور سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ میں اپنی اس تحقیق کے حق میں سینکڑوں ثبوت دے سکتا ہوں لیکن ظاہر ہے کہ کالم ان کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ ان کی 1930ء کی دہائی کے اواخر کی تقاریر پڑھتے ہوئے بار بار قرآن حکیم، اسلامی تعلیمات، سیرت نبویؐ اور اسلامی اصولوں کے حوالے ملتے ہیں جو انگلستان ہجرت سے قبل آٹے میں نمک کے برابر تھے۔ یہ تو ان کے دشمن بھی مانتے ہیں کہ محمد علی جناح ایک سچا اور کھرا انسان تھا، منافقت اور جھوٹ ان کے قریب سے بھی نہیں گزرے تھے ۔ نہ ان کا کوئی ذاتی ایجنڈا تھا اور نہ ہی ذاتی مقصد اور اسی خلوص اور کردار کے پیش نظر علامہ اقبال نے محمد علی جناح کو ہندوستان کے مسلمانوں کی راہنمائی کے لئے چنا تھا اور کہا تھا کہ ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے، بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا۔ ماضی کا ذکر کرتے ہوئے محمد علی جناح نے میمن چیمبرز آف کامرس کے سپاسنامے کے جواب میں کہا تھا ’’مجھے شروع شروع میں گجراتی پڑھائی گئی اس کے بعد انگریزی۔ پھر انگلستان بھیج کر انگریزی زبان کی انتہائی تعلیم دلوائی گئی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ میری رگ رگ میں انگریزیت سماگئی۔ میں اپنی کمزوری کا احساس کرتا ہوں اور اس سے عہدہ برآ ہونا چاہتا ہوں۔ میں اپنے پر قیاس کرتا ہوں کہ قوم کی تمدنی، معاشرتی اور مذہبی اصلاح وتعمیر پر زبان کا گہرا اثر مرتب ہوتا ہے اس لئے میں مسلمانوں کی مادری زبان اردو کو جاری رکھنے کے حق میں ہوں لیکن کانگریس نے ہماری ایک نہیں سنی۔ ‘‘ ذرا رک کر غور کیجیے کہ قائد اعظم کس طرح اپنا تجزیہ کرتے اور کمزوریوں کو رفع کرنے کی کوشش کرتے تھے اور وہ ایک قومی زبان کے حق میں کیوں تھے؟ اسی پس منظر میں قائد اعظم نے مارچ 1948ء میں اردو کی بحیثیت قومی زبان حمایت کی تھی اور بنگالیوں سے کہا تھا کہ وہ اپنے صوبے مشرقی پاکستان میں بنگالی کو سرکاری اور صوبائی زبان کا درجہ دیں لیکن قومی رابطے کے لئے زبان صرف اردو ہوگی۔ میمن چیمبرز آف کامرس کی اسی تقریر میں آگے چل کر قائد اعظم نے جو کچھ کہا اس سے سیکولر حضرات کو صدمہ ہوگا لیکن ذرا غور کیجیے کہ وہ جون 1938ء میں کیا کہہ رہے ہیں اور ان کے باطن سے کیا الفاظ نکل رہے ہیں ’’مسلمانوں کے لئے پروگرام تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے ان کے پاس تو تیرہ سو برس سے ایک مکمل پروگرام موجود ہے اور وہ ہے قرآن پاک۔ قرآن پاک ہی میں ہماری اقتصادی، تمدنی ومعاشرتی اصلاح وترقی کے علاوہ سیاسی پروگرام بھی موجود ہے۔ میرا اسی قانون الٰہیہ پر ایمان ہے اور جو میں آزادی کا طالب ہوں وہ اسی کلام الٰہی کی تعمیل ہے ۔ قرآن پاک ہمیں تین چیزوں کی ہدایت کرتا ہے۔ آزادی، مساوات اور اخوت۔ بحیثیت ایک مسلمان کے میں بھی ان ہی تین چیزوں کے حصول کا متمنی ہوں۔ تعلیم قرآن ہی میں ہماری نجات ہے اور اسی کے ذذریعے ہم ترقی کے تمام مدارج طے کرسکتے ہیں۔‘‘ (روزنامہ انقلاب،12جون 1938ء بحوالہ گفتار قائد اعظم مصنف احمد سعید صفحہ 213-215) یہ الفاظ قائد اعظم کے قرآن حکیم پر گہرے تدبر اور سچے ایمان کی غمازی کرتے ہیں اور یہ تقریر کسی جلسہ عام کی نہیں بلکہ مخصوص اجتماع میں کی گئی تھی۔ ذہن میں رہے کہ ابھی مسلم لیگ قرار داد پاکستان سے کوسوں دور تھی اور ابھی قائد اعظم کی ملاقات حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے تبلیغی وفد سے نہیں ہوئی تھی۔ اس وفد سے قائد اعظم کی پہلی ملاقات دسمبر 1938ء میں ہوئی جس کا احوال اگلے کالم میں بیان کروں گا۔ ان شاء اللہ
میں نے کل کے کالم میں لکھا تھا کہ قائداعظم رحمتہ اللہ علیہ نے الگ وطن کا مطالبہ اس بنیاد پر کیا تھا کہ مسلمان ہر لحاظ سے ایک علیحدہ قوم ہیں اور ان کا مذہب، کلچر، تاریخ،معاشرت اور انداز فکر ہندوو?ں سے بالکل مختلف ہے۔ ان کی 1934ء سے لے کر1948ء تک کی تقاریر پڑھی جائیں تو ان پرقرا?نی تعلیمات کا گہرا اثر نظر ا?تا ہے، پاکستانیوں کو تو نہ قائداعظم رحمتہ اللہ علیہ کی مستند اور معیاری سوانح عمری لکھنے کی توفیق ہوئی ہے اور نہ ہی ان کی سیاسی فکر کا تجزیہ کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی ہے لیکن ایک برطانوی شہری محترمہ سلینہ نے ’’سیکولر جناح اینڈ پاکستان‘‘ نامی کتاب لکھ کر یہ حق ادا کر دیا ہے۔ اس کتاب کے دوسرے ایڈیشن میں سلینہ نے قرا?نی ا?یات کے حوالے دے کر تحقیق اور عرق ریزی کے ساتھ ثابت کیا ہے کہ جناح? کے اکثر تصورات اور افکار قرا?ن حکیم سے ماخوذ تھے اور یہ کہ کاو?س جی سے لے کر پروفیسر پرویز ہوڈ بھائی تک جتنے لکھاریوں نے انہیں سیکولر قراردیا ہے وہ بددیانتی کے مرتکب ہوئے ہیں کیونکہ انہوں نے اپنی تحریروں کی بنیاد جسٹس منیر کی کتاب میں دی گئی قائداعظم رحمتہ اللہ علیہ کی جس تقریر پر رکھی ہے وہ الفاظ قائداعظم رحمتہ اللہ علیہ کے نہیں بلکہ جسٹس منیر مرحوم کے اپنے ہیں اور ان کی ’’انگریزی‘‘بھی غلط ہے جوقائداعظم رحمتہ اللہ علیہ کی نہیں ہوسکتی۔ وزیرا?باد کے محمد شریف طوسی بنیادی طور پر مدرس تھے ،انہوں نے انگریزی اخبارات میں پاکستان کے حق میں اتنے مدلل اور زوردار مضامین لکھے کہ قائداعظم رحمتہ اللہ علیہ نے متاثر ہو کر انہیں بمبئی بلایا اور چھ ماہ اپنے پاس رکھ کر ان سے ’’پاکستان اینڈ مسلم انڈیا‘‘ اور ’’نیشنلزم کنفلیکٹ ان انڈیا‘‘ جیسی معرکۃ الاراء کتابیں انگریزی زبان میں لکھوائیں۔ طوسی صاحب نے اپنی چھ ماہ کے قیام کی یاداشتوں میں لکھا ہے کہ قائداعظم رحمتہ اللہ علیہ ہر روز صبح علامہ یوسف علی کے قرا?ن حکیم کے انگریزی ترجمے کا مطالعہ کیا کرتے تھے اور سید امیر علی کی کتاب ’’سپرٹ ا?ف اسلام‘‘ پڑھا کرتے تھے۔ انہوں نے شبلی نعمانی کی کتاب ’’الفاروق‘‘ کے انگریزی ترجمے کو بغور پڑھ رکھا تھا۔ یہ ترجمہ مولانا ظفر علی خان نے کیا تھا۔ ان کی لائبریری میں سیرت نبوی، اسلامی تاریخ اور قرا?ن حکیم کے تراجم پر بہت سی کتابیں موجود تھیں جو ان کے زیر مطالعہ رہتی تھیں۔
میں ذکر کر چکا ہوں کہ جب حکیم الامت مولانا اشرف تھانوی نے محسوس کیا کہ انگریزوں کی رخصتی کے بعد اقتدار مغربی تعلیم یافتہ لیڈران کو ملے گا توانہوں نے ان کی مذہبی تربیت کا پروگرام بنایا اور اس ضمن میں قائداعظم محمد علی جناح سے ملاقات کے لئے ایک وفد ترتیب دیا جس کے سربراہ مولانا مرتضیٰ حسن تھے اور اس وفد میں مولانا شبیر علی تھانوی ، مولانا عبد الجبار، مولانا عبد الغنی، مولانا معظم حسنین اور مولانا ظفر احمد عثمانی شامل تھے۔ مولانا شبیر احمد عثمانی اور مولانا ظفر احمد عثمانی سگے بھائی اور مولانا اشرف تھانوی کے بھانجے تھے جبکہ مولانا شبیر علی تھانوی مولانا اشرف تھانوی کے بھتیجے تھے۔ دسمبر1938ء میں مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس پٹنہ میں ہونا تھا۔ مولانا شبیر احمدعثمانی والدہ کی علالت کے سبب جا نہ سکے چنانچہ دوسرے حضرات وفد کی صورت میں پٹنہ پہنچے، نواب اسماعیل خان کے ذریعے قائداعظم رحمتہ اللہ علیہ سے رابطہ ہوچکا تھا۔ پٹنہ میں نوابزادہ لیاقت علی خان کے ذریعے قائداعظم سے پٹنہ جلسہ عام سے پہلے کا وقت مانگا گیا کیونکہ علماء قائداعظم رحمتہ اللہ علیہ سے ملے بغیر مسلم لیگ کے اجلاس میں شامل نہیں ہونا چاہتے تھے۔ 25دسمبر 1938کو شام پانچ بجے یہ وفد قائداعظم رحمتہ اللہ علیہ سے ملا۔ ملاقات ایک گھنٹہ جاری رہی جس کی تفصیل مولانا شبیر علی تھانوی کی ’روئیداد‘ میں موجود ہے اور اس کا ذکر منشی عبد الرحمن کی کتاب کے صفحات 61-62میں بھی ملتا ہے۔ وفد کے تاثرات ان الفاظ میں جھلکتے ہیں ’’ہم ان کے (قائداعظم رحمتہ اللہ علیہ) کے جوابات سے متاثر ہوئے۔ ان کے کسی دینی عمل کی کوتاہی کے متعلق عرض کیا گیا توبغیر تاویل و حجت اپنی کوتاہی کو تسلیم کیا اور ا?ئندہ اصلاح کا بھی وعدہ کیا۔ یہ صرف حضرت تھانوی کا روحانی فیض کام کر رہا تھا ورنہ جناح? صاحب کسی بڑے سے بڑے کا اثر بھی قبول نہ کرتے تھے‘‘۔ تفصیل اس ملاقات کی دلچسپ اور فکر انگیزہے جس میں قائداعظم رحمتہ اللہ علیہ نے کہا ’’میں گناہگار ہوں… وعدہ کرتا ہوں، ا?ئندہ نماز پڑھا کروں گا‘‘ (بحوالہ منشی عبد الرحمن صفحہ26)چنانچہ اس وفد نے پٹنہ میں مسلم لیگ کے سالانہ جلسے میں شرکت کی جہاں مولانا اشرف تھانوی کا تاریخی بیان پڑھا گیا۔ اس کے ذریعے ارباب و ارکان مسلم لیگ کو اسلامی شعائر کی پابندی کی تلقین کی گئی تھی۔ دوسری ملاقات 12فروری1939ء کو دہلی میں شام سات بجے ہوئی۔ اڑھائی گھنٹے کی اس ملاقات کے بعد قائداعظم رحمتہ اللہ علیہ نے کہا کہ ’’میری سمجھ میں ا?گیا ہے کہ اسلام میں سیاست سے مذہب الگ نہیں بلکہ مذہب کے تابع ہے‘‘ (بحوالہ روائیداد از مولانا شبیر علی تھانوی، صفحہ نمبر7)۔ اس ملاقات میں مولانا شبیر علی تھانوی کے ساتھ مولانا مفتی محمد شفیع صاحب بھی تھے جن کا ذکر قیام پاکستان کے بعد ا?ئین سازی اور علماء کے اتفاق رائے کے حوالے سے ملتا ہے۔ مختصر یہ کہ مولانا اشرف علی تھانوی کے نمائندے مئی 1947ء تک قائداعظم رحمتہ اللہ علیہ سے ملتے رہے اور ان کی دینی تربیت کرتے رہے جس کے نتیجے کے طور پر قائداعظم رحمتہ اللہ علیہ کا مولانا تھانوی کے گھرانے سے ایک پائیدار تعلق قائم ہوگیا۔ مولانا ظفر احمد عثمانی اپنی روائیداد میں لکھتے ہیں ’’ایک مجلس میں قائداعظم رحمتہ اللہ علیہ سے کہا گیا کہ علماء کانگرس میں زیادہ ہیں اور مسلم لیگ میں کم۔ قائداعظم رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا ’’تم کن کو علماء کہتے ہو‘‘۔ جواباً مولانا حسین احمد مدنی، مفتی کفایت اللہ اور مولانا ابوالکلام کا نام لیا گیا۔ قائداعظم رحمتہ اللہ علیہ نے جواب دیا ’’مسلم لیگ کے ساتھ ایک بہت بڑا عالم ہے جس کا علم و تقدس و تقویٰ سب سے بھاری ہے اور وہ ہیں مولانا اشرف تھانوی جو چھوٹے سے قصبے میں رہتے ہیں مسلم لیگ کو ان کی حمایت کافی ہے‘‘۔
قائد اعظمؒ اور مولانا اشرف علی تھانویؒ
ڈاکٹر صفدر محمود