info@majlissautulislam.com
© Copyright 2017 Saut-ul-Islam Pakistan All Rights Reserved
Email:
01:30
sautulislampk@gmail.com
+ 92 21 35363159 - 35867580  Fax: + 92 21 35873324
05:15
08:15
Example
انسانی معاشرہ میں امن و سلامتی کا قیام، اطمینان و سکون کا وجود، افراد و اقوام کے مابین ہمدردی، ایثار و تعاون کتنی بڑی نعمت ہے اس کا احساس ان خطوں کے لوگوں کو اچھی طرح ہوسکتا ہے جو امن و سکون اور باہمی تعاون و اعتماد کی نعمت سے محروم ہوں، اور جن کی جان و مال اور عزت و آبرو ہر وقت خطرات سے دوچار رہتی ہو۔ بدامنی اور معاشرتی برائیوں سے نکلنے کا طریقہ یہی ہے کہ ہم قرآن حکیم کی دی ہوئی ہدایات اور رسول اللہﷺ کی تعلیمات اور نظم تربیت کی روشنی میں اپنی اصلاح اور تربیت و تزکیہ پر پوری توجہ دیں اور ان تمام برائیوں سے اپنے آپ کو پاک صاف کریں جو معاشرہ میں بدامنی، بے چینی اور فتنہ و فساد کا سبب بنتی ہیں۔ 

اس سلسلہ میں رسول اللہﷺ کا حجۃ الوداع کے موقع پر خطبہ تذکیر و تنبیہ کا اعلیٰ نمونہ ہے ۔ یہ خطبہ نہ صرف یہ کہ ساری انسانیت کے لیے ہدایت و رہنمائی کا بہترین منشور ہے بلکہ انسانی حقوق و فرائض کا بھی عالمی منشور ہے ۔ امتِ مسلمہ کے ہر فرد کو یہ خطبہ بار بار پڑھنا چاہیے اور اس کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالنے کی کوشش کرنا چاہیے ۔ 

رسول اللہﷺ کی حیات طیبہ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپﷺ نے امت مسلمہ کی تشکیل تین بنیادوں پر فرمائی، ان میں سرفہرست علم ہے ۔ علم کے بغیر نہ اخروی فلاح ممکن ہے ، نہ ہی دنیوی کامیابی کا کوئی امکان ہے ۔ علم کے بغیر نہ اعلیٰ روایات و اقدار وجود پذیر ہوتی ہیں نہ ہی کسی تہذیب و تمدن کا تصور کیا جاسکتا ہے ۔ 

اصولی طور پر تو یہ بات پہلی وحی نے طے کردی تھی کہ علم کو ہر صورت اور ہر حالت میں ترجیح حاصل ہے طلب علم ہر دور اور ہر حالت میں فرض ہے ۔ حصول علم کا ذریعہ اگر قطعی ہو جو صرف وحی کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے تو اس کا حصول تو فرض عین ہے ۔ لیکن اگر اس کے ذرائع ظنی ہوں تو بھی اس کا حصول واجب ہے ۔ 
افتراق واتشار کی روک تھام

امتِ مسلمہ کی وحدت کو مضبوط و مستحکم رکھنے کے لیے جہاں ایجابی احکام و ہدایات ہیں، وہاں کچھ سلبی احکام بھی ہیں، امت مسلمہ کو ایسے تمام کاموں سے منع کر دیا گیا ہے جو امت میں افتراق اور تشتت کا ذریعہ بنیں۔ قرآن و سنت نے ہر ایسے عمل سے امت کو روکا ہے جو فرقہ پرستی، باہمی انتشار یا جنگ و جدل کے راستہ پر ڈال دے ۔ قرآن حکیم نے افتراق اور شقاق سے جس اسلوب میں منع کیا ہے اس سے ہر قسم کے تفریق پیدا کرنے والے عمل کی حرمت واضح ہوتی ہے مثلاً ارشاد باری تعالیٰ ہے : 

ترجمہ:(تم سب مل کر اللہ تعالی کی رسی (دین) کو مضبوطی سے تھام لو اور تم فرقوں میں نہ بٹ جاؤ)۔
(آل عمران103:3)
ترجمہ:(تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجاؤ جو فرقوں میں بٹ گئے اور دلائل آجانے کے بعد بھی اختلافات کا شکار ہوئے) ۔ (آل عمران105:3)

ترجمہ:(جس شخص کے سامنے واضح ہدایت آجائے پھر بھی وہ رسول اللہﷺ کی مخالفت کرے اور امتِ مسلمہ کا راستہ چھوڑ کر غیروں کے راستہ کی پیروی کرے تو ہم اسے اسی راہ پر ڈال دیں گے جس پر وہ چلنا چاہتا ہے ، اور ہم اسے جہنم میں پہنچا دیں گے ۔ جو بہت برا ٹھکانہ ہے )۔ 
(النسائ115:4)

کتب احادیث میں اکثر محدثین نے حوادثات اور فتن کو ذکر کیا ہے ، انہیں فتنوں کے ضمن میں جہاں ان سے بچنے کے لیے ہدایات دی گئی ہیں وہیں اہل ایمان کو امت اور جماعۃ المسلمین کے ساتھ وابستہ رہنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ مثلاً امام ترمذیؒ نے کتاب الفتن میں ایک باب باندھا ہے جس کا عنوان ہے ’’باب لزوم الجماع‘‘ اس باب کے تحت وہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی روایت نقل کرتے ہیں کہ خلیفہ ثانی حضرت عمر بن خطابؓ نے جابیہ کے مقام پر خطبہ دیا، اس خطبہ میں خاص طور پر مسلمانوں کو جماعت کے ساتھ وابستہ رہنے اور ہر قسم کی فرقہ واریت سے دور رہنے کا حکم دیا۔ حضرت عمرؓ کے الفاظ تھے : 

علیکم بالجماعۃ، وایاکم والفرقۃ، فان الشیطان مع الواحد وو من الاثنین ابعد من اراد بحبوحۃ الجنۃ فلیلزم الجماعۃ 
(جماعت کے ساتھ پوری قوت کے ساتھ وابستہ رہو، فرقہ واریت سے اجتناب کرو، اس لیے کہ انسان اکیلا ہو تو شیطان اس کے ساتھ لگ جاتا ہے ، لیکن دو انسان اکٹھے ہوجائیں تو شیطان ان سے دور ہوتا ہے ، جو شخص جنت کی خوشبو پالینا چاہتا ہے اسے چاہیے کہ وہ جماعت سے جڑا رہے )۔ 

حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے :
 ان اللّٰہ لا یجمع امتی. او قال امت محمدﷺ علی ضلالۃ ویداللّٰہ علی الجماعۃ ومن شذ شذ الی النار 
(یقینا اللہ تعالیٰ میری امت یا شاید راوی نے یہ کہا کہ محمد ﷺ کی امت کو گمراہی پر جمع نہیں کرے گااور اللہ تعالیٰ کا ہاتھ جماعت پر ہوتا ہے ۔ اور جو شخص جماعت سے کٹ جاتا ہے وہ جہنم کی آگ میں چلا جاتا ہے )۔ 

وید اللّٰہ علی الجماعۃ 
(اللہ کی رحمت جماعت پر ہوتی ہے ) کے الفاظ حضرت عبداللہ بن عباسؓ کی روایت میں بھی آئے ہیں۔ 

ان روایات پر غور کیجیے اور دیکھیے کہ رسول اللہ ﷺنے کس قدر شدت کے ساتھ امت کے ساتھ مربوط رہنے کا حکم دیا ہے ۔ ان روایات کو ذہن میں رکھتے ہوئے سورہ الانعام کی اس آیت کا مطالعہ کیجیے : 

ترجمہ:(یقینا جن لوگوں نے دین میں تفرقہ بازی کی اور مختلف گروہوں میں بٹ گئے ۔ اے رسولﷺ آپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں، یقینا ان کا معاملہ اللہ کے قبضہ میں ہے ، پھر وہ انہیں بتا دے گا جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں)۔ (الانعام159:6)

تفرقہ کی اصل بنیاد دین سے انحراف و تحریف ہے ، دنیا میں جتنے بھی فرقے پیدا ہوئے ہیں وہ دین میں بگاڑ کی وجہ سے پیدا ہوئے ۔ 
وتقطعوا امرہم بینہم 

میں اسی بات کی طرف اشارہ ہے ۔ سب سے زیادہ خطرناک فرقہ بازی مذہبی فرقہ بازی ہوتی ہے ۔ اس لیے کہ اس میں انسان غلو کرتا ہے ، تعصب کو ابھارتا ہے جو مزید بگاڑ کا سبب بنتا ہے ۔ 

قرآن حکیم میں ایسی بہت سی آیات ہیں جن میں ایسے اختلافات کو ممنوع قرار دیا گیا ہے جو امت کے درمیان تفرقہ کا سبب بنیں۔ جہاں تک علمی اور تعمیری اختلافِ راے کا تعلق ہے تو شریعت نے تین شرائط کے ساتھ اسے نہ صرف قبول کیا ہے بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کی ہے ۔ یہ اختلاف فقہا کے نزدیک اختلاف محمود کہلاتا ہے اس کے لیے پہلی شرط اخلاص ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ رائے قائم کرنے میں کوئی ذاتی مفاد شامل نہ ہو بلکہ مقصود اللہ تعالیٰ کی رضا ہو اور امت و معاشرہ کے لوگوں کی فلاح و بہبود پیش نظر ہو۔ دوسری شرط علم ہے جس معاملہ میں انسان کو علم ہی نہ ہو اس کے بارے میں اظہارِ رائے نہ کرے ۔ البتہ جب صحیح علم کے مطابق راے آجائے تو اسے تسلیم کرلینا چاہیے ۔ قرآن حکیم نے ان لوگوں کی مذمت کی ہے جو علم پر مبنی رائے آنے کے بعد اسے ماننے سے انکار کردیتے ہیں: 

ترجمہ:(اور اہل کتاب نے علم آجانے کے بعد صرف اس لیے اختلاف کیا کہ وہ باہم سرکشی کا شکار تھے )۔
 (آل عمران19:3)
ترجمہ:(اور بہت سے لوگ محض اپنی نفسانی خواہشات کی بنیاد پر علم کے بغیر دوسروں کو گمراہ کرتے ہیں)۔ (الانعام119:6)

ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض لوگ اپنی نفسانی کمزوریوں کی بنا پر یا تو علمی تقاضوں کو رد کردیتے ہیں یا پھر جہالت کے باوجود اپنی بات پر اصرار کرتے ہیں۔ اظہارِ رائے کے لیے تیسری شرط دلیل ہے ، یعنی جب انسان اپنی راے کا اظہار کرے تو وہ دلیل پر بھی مبنی ہونی چاہیے ۔ 

ترجمہ:(اور اہل کتاب دلیل آجانے کے بعد بھی فرقہ پرستی کا شکار ہوئے ۔ (البینۃ4:98)

ترجمہ:(اور اس (دین) میں انہی لوگوں نے واضح دلائل آنے کے باوجود محض سرکشی اور باہم ضد کی وجہ سے اختلاف کیا)۔ (البقرہ213:2)

ان آیات قرآنی سے پتہ چلتا ہے کہ دلائل یا علمی راے کو محض اس لیے رد نہیں کرنا چاہیے کہ وہ آپ کی خواہشات کے مطابق نہیں ہیں، نہ ہی انہیں تکبر و سرکشی کی وجہ سے رد کرنا چاہیے ۔ اس لیے کہ اس قسم کا رویہ اتحاد و اجتماعیت اور وحدت و ملی یکجہتی کے لیے نقصان دہ ہے ۔ لوگوں کو اختلافِ رائے اور امت میں اختلاف کے فرق کو ملحوظ رکھنا چاہیے ۔ رسول اللہﷺ کو اپنی امت میں تعصب اور تفریق پیدا کرنے والا اختلاف سخت ناگوار تھا، اس لیے آپﷺ نے ہمیشہ سابقہ اقوام کی تاریخ سے مثالیں دے کر سمجھایا کہ سابقہ اقوام باہمی افتراق کی وجہ سے تباہ و برباد ہوئیں۔ 

ہماری مندرجہ بالا بحث سے قرآن و سنت کا یہ پیغام واضح طور پر سمجھ میں آتا ہے کہ امتِ مسلمہ کے تمام افراد، معاشرہ، ادارے اور مملکت سب کی اولین ذمہ داری ہے کہ مل جل کر ہر صورت میں امت کی وحدت کی حفاظت کریں۔ یہ ہم سب کا فرض ہے ۔ ایسے تمام اقدامات اور فیصلے جو تعمیر ملت کے لیے ضروری ہیں، ان میں کسی قسم کی کوتاہی مجرمانہ غفلت ہوگی جس کا خمیازہ سب ہی کو بھگتنا پڑے گا۔ قرآن مجید فرقان حمید میں اللہ رب العزت فرماتے ہیں۔

ترجمہ:(اور اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت اس وقت تک تبدیل نہیں کرتے جب تک کہ وہ خود اپنی حالت کو نہ بدلیں)۔ 
(الرعد11:13)

گویا اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں کی ناشکری، اس کے عطا کردہ علم و فہم اور صلاحیتوں سے صحیح کام نہ لینے اور آیات الٰہی کا انکار کرنے کا نتیجہ زوال نعمت کی صورت میں ہوتا ہے ، جو لوگ اپنے حالات کا جائزہ نہیں لیتے ، قلب و نفس کا محاسبہ نہیں کرتے اور اپنی اصلاح کی فکر نہیں کرتے ، وہ نعمتوں سے محرومی کا شکار ہوتے ہیں۔ محرومیوں سے بچنے اور ارتقائی منازل طے کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنا محاسبہ کرتے رہیں، اپنی خامیوں اور کمزوریوں کو دور کرکے اپنی ذہنی، فکری، علمی و عملی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کی کوششیں کریں۔ معاشرہ کی فلاح و سعادت کا راستہ یہی ہے ۔
اقتباسات
 (اسوۂ حسنہؐ…چند دستوری وانتظامی پہلوئوں کا جائزہ)


انسانی معاشرہ میں امن و سلامتی کا پیغام
ڈاکٹر محمد یوسف فاروقی