info@majlissautulislam.com
© Copyright 2017 Saut-ul-Islam Pakistan All Rights Reserved
Email:
01:30
sautulislampk@gmail.com
+ 92 21 35363159 - 35867580  Fax: + 92 21 35873324
05:15
08:15
Example
تارکین وطن مسلمان امریکا ، یورپ یا آسٹریلیا اس لئے نہیں آتے کہ انہیں دین اسلام کو فروغ دینا ہوتا ہے بلکہ ان کی اکثریت مادی ترقی کے حسین خوابوں سے سرشار ہوکر یہاں آتی ہے اور یہ خواتین وحضرات اپنی بیداری کا بیشتر وقت کیریئر بنانے، زیادہ سے زیادہ کام کرنے یا اپنے کاروبار کے فروغ میں صرف کرتے ہیں، اس لئے اکثر کے پاس اولاد کو نہ تو دینے کے لئے وقت ہوتا ہے اور نہ ہی ان کی تعلیم وتربیت کے لئے وقت ہوتا ہے حالاںکہ اگر اولاد بگڑجائے تو مادی ترقی لایعنی ہوجاتی ہے۔
مسلمان کمیونٹی مساجد اور اسلامک سینٹر کے قرب وجوار میں آباد نہیں ہے بکھری ہوئی ہے اس کی بھی مختلف وجوہات ہیں۔ اس لئے ان ممالک میں مسلمان اب تک کوئی اسلامی تہذیبی گروہ نہیں بن سکے، مسلم کمیونٹی کے اسلامک اسکولز تو ضرور ہیں مگر وہ مخصوص علاقوں میں ہیں اور بہت کم ہیں اس لئے سنڈے اسکول یا ویک اینڈ اسکول جو چند گھنٹوں پر مشتمل ہوتا ہے ان ذہنوں کو جو ہفتے میں 40 گھنٹے امریکی Neighbour hood Schoolsمیں امریکی تہذیبی جدولوں Frameworkمیں تپتے اور ڈھلتے رہتے ہیں، اسلامی رنگ میں رنگا جانا ذرا مشکل عمل ہوتا ہے سب سے بڑا مشکل اور کٹھن مرحلہ وہ ہوتا ہے کہ مسلم کمیونٹی کے افراد اپنے بچوں کو تو اسلامی رنگ میں رنگنا چاہتے ہیں مگر وہ خو د اسلامی رنگ میں کتنے رنگے ہوئے ہیں یہ کبھی نہیں سوچتے بلکہ وہ زبان حال سے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ بچو! ہم تو مسلمان نہ بن سکے تم ضرور بن جائو۔
اب اسلامی نقطہ نظر سے اولاد کی تربیت کے مسئلہ کو ملاحظہ فرمائیے۔ 
قرآن مجید میں ارشاد ربانی ہے:۔
یآیھا الذین اٰمنوا قوا انفسکم واھلیکم نارا وقودھا الناس والحجارۃ
’’اے ایمان والو! بچائو اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو اس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے۔
اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ ایک مسلمان کی ذمے داری صرف اپنی ذات ہی کو خدا کے عذاب سے بچانے تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ بھی اس کا فرض ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس خاندان کی سربراہی کی ذمے داری اس کے سر پر ڈالی ہے اس کو بھی وہ ایسی تعلیم وتربیت دے جس سے وہ ایک صالح مسلمان اور بہترین شہری بن سکے اور اگر وہ جہنم کی راہ پر چل پڑے ہوں تو اس سے جس امکانی حد تک ہوسکے اسے برائی کی راہ سے روکے اور جہنم سے بچانے کی کوشش کرے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔
’’بچے جنت کے پھول ہیں والدین کا ان کے حق میں بہترین عطیہ اچھی اور صحیح تعلیم وتربیت ہے، مگر افسوس ہمارے دور کے لوگ اس طرف سے نہایت غفلت کا شکار ہیں۔ آج کے والدین بچوںکی صحیح اسلامی تعلیم وتربیت میں ناکام ہیں اور اس کے اسباب یہ ہیں۔
۱۔ اقتصادی ترقی کی دوڑ میں آگے آنے، زیادہ سے زیادہ ڈالرز اور پونڈز کمانے اور معیار زندگی کو اونچے سے اونچا کرنے کی بے جا اور شُتر بے مہار خواہش نے والدین کو بچوں کی تعلیم وتربیت سے غافل کردیا ہے اور وہ یہ کام مسجد یا اسلامک سینٹر کے حافظ صاحب یا سنڈے اسکول سے لینا چاہتے ہیں، چند ڈالرز یا کچھ پونڈز کے عوض مگر یہ انہونی بات ہے۔
۲۔ بچوں کی تعلیم وتربیت کے بغیر ہی والدین ان سے ان کی عمر اور صلاحیتوں سے زیادہ توقعات وابستہ کرلیتے ہیں مگر جب وہ غلطیاں کرتے ہیں یا گستاخ ونافرمان ہوجاتے ہیں تو اصلاح احوال کی طرف سے مایوس ہوکر والدین بچوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیتے ہیں،اس عمل سے بھی بچے احساس کمتری کا شکار ہوجاتے ہیں اور ان میں خود اعتمادی باقی نہیں رہتی۔
۳۔امریکی ویورپی معاشرے ،بہرحال صالح معاشرے نہیں ہیں نوجوان خاص طور پر Teenagersبالکل بے راہ رو ہوجاتے ہیں اور مسلم کمیونٹی اس مسئلہ کے حل کے لئے کوئی مثالی اسلامی معاشرہ تشکیل دے نہیں پارہے ہیں۔ہمارے اسلامی مراکز متعلقہ مسلم آبادی کے دور دور بسنے کی وجہ سے بچوں اور نوجوانوں کے لئے کھیل کود نیز صحت مند اور مثبت واصلاحی پروگراموں کی ترتیب وتشکیل میں ناکام ہیں۔
۴۔ امریکی ویورپی سرمایہ دارانہ نظام نے زندگی کی اقدار اور فکروغور کی سمتیں اور تدبر وتفکر کی جہتیں تبدیل کرکے رکھ دی ہیں اور انفرادیت کے بھوت نے، Individual Freedomکے سیکولر تصور نے بچوں کو اور نوجوان نسل کو بے باک، گستاخ، بداخلاق اور منہ زور بنادیا ہے۔ جنس، ڈیٹنگ، ہم جنس پرستی، سحاقیت، جنسی اُبھار ان کے پسندیدہ موضوعات وعنوانات ہیں جن پر وہ والدین، اساتذہ، مقررین وغیرہ سے بات کرنا چاہتے ہیں اور ہر بار معقول جواب پانے کے باوجود بار بار ان ہی سوالات کو پوچھتے ہیں جس سے ان میں فحاشی، بے حیائی اور بداخلاقی بڑھتی چلی جاتی ہے، چنانچہ مسلمانوں کی پہلی نسل جو گزشتہ ربع صدی میں آنے والے تارکین وطن کی اولاد پر مشتمل ہے، اپنے والدین کے دائرہ اثر سے نکلتی جارہی ہے، بہت سے مسلمان والدین کے بیٹے اور بیٹیاں غیر مسلموں سے شادی رچارہے ہیں اور والدین سوائے کڑھنے کے اور کچھ نہیں کرپارہے ہیں۔
ایسی صورت حال میں والدین کا معیار زندگی اور بچوں کی لگژری تو ضرور بڑھ رہی ہیں مگر دینی اعتبار سے عاقبت خراب ہورہی ہے۔ بات ہے تو بہت تلخ مگر ہے حقیقت…
خدارا اس حقیقت کو سمجھئے کہ بچے ہمارا مستقبل ہیں بچوں کی قدر ان افراد سے پوچھئے جو بے اولاد ہیں۔ اولاد ماں باپ کی امید ہوتی ہیں ہر والدین کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ ان کے بچے دنیاوی لحاظ سے آگے بڑھیں اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے اپنے اعلیٰ مقاصد کی تکمیل کریں خدارا ان کے دینی مستقبل کی بھی فکر کریں۔
بچوں کی تعلیم وتربیت گھر، اسکول، ماحول، معاشرہ، کمیونٹی اور حکومتی نظریات تعلیم پر منحصر ہوتی ہے۔
اس نقطۂ نظر سے امریکا اور یورپ اور دیگر بلاد غربی میں رہنے والے مسلمانوں کی اکثریت کے گھر کا ماحول اسلامی نہیں ہے۔ اب بچے اپنی ماں کی گود میں تعلیم نہیں پاتے جب ماں اور باپ دونوں نوکری کریں گے تو یقینابچے بے بی سینٹرز کے سپرد کردیئے جاتے ہیں، پہلے وقتوں کی خواتین کا معیارِ نسوانیت یہ تھا کہ خواتین سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کی طرح خانہ نشین ہوکر سیدنا حسن اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہما کی تربیت کرتی تھیں چنانچہ شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے کہا ہے  ؎
اگربندے ز در ویشے بگیری
ہزار امت بمیرد تو نہ میری
امریکا اور یورپ کے اسکولوں کا سسٹم بھی ہمارے نقطۂ نظر سے معیار نہیں ہے اور ہم اسے اسلامی بنانے پر بھی قادر نہیں اور جو کچھ قانونی طور پر ہمیں مل سکتا ہے ہم وہ بھی اپنی غفلت سے کھورہے ہیں۔ بعض ممالک میں اس بات کی اجازت ہے کہ اگر یہاں کسی بھی فرقے کے طلباء کی تعداد پچیس ہو تو اسکول اتھارٹی سے ایک مذہبی معلم مانگا جاسکتا ہے مگر مسلمان اس طرف توجہ نہیں دیتے کیونکہ انہیں اس کام کے لئے فرصت ہی نہیں ہے اکثر ممالک میں حکومتی نظریات سیکولر ہیں اور بغیر مطالبہ وکوشش کے دینی تعلیم کے لئے مذہبی معلم کا انتظام ممکن نہیں ہے۔ مطالبات ہم کرتے نہیں۔ حالانکہ مسلم کمیونٹی بھرپور ٹیکس دینے والی کمیونٹی ہے۔
ماحول کی خرابی کے بارے میں مزید تبصرہ ضروری نہیں ہے یہاں ماحول کی خرابیاں سب جانتے ہیں۔
امریکا یورپ اور دیار غربی میں رہنے والے والدین اگر سنجیدہ ہیں اور اپنی نسل کو بچانا چاہتے ہیں تو ان کو کم ازکم درج ذیل اقدامات کرنا پڑیں گے۔ 
۱۔ ہمیں اپنے گھروں کے ماحول کو اسلامی بنانا ہوگا اس سے مراد یہ ہے کہ بچوں کو نماز فجر کے وقت اٹھنے، نماز پڑھنے اور انہیں قرآن مجید کی کوئی ایک آیت اور صرف ایک مختصر حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پڑھانے کا اہتمام کیا جائے۔
۲۔ بچے جب اسکول سے واپس آئیں تو انہیں کھانے اور تھوڑے آرام کے بعد اپنے پاس بٹھاکر اپنے خاندان کے اچھے بزرگوں کے واقعات، اسلامی تہذیبی، تمدنی ثقافتی روایات، تاریخ اسلام سے مختصر واقعات، مثلاً خلفائے راشدین، صحابہ کرامؓ، اہل بیت عظام،ائمہ اسلام، فقہائے اسلام کے احوال سے آگہی کروائی جائے۔ اسلامی عقائد کے بارے میں بتایا جائے، سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مختلف پہلو ان کے سامنے اجاگر کئے جائیں۔ اس سے ان میں اللہ جل شانہٗ کے رب ہونے اور رزاق ہونے، مالک وحاکم ہونے اور معبود ہونے کا عقیدہ مضبوط ہو، نماز کا اہتمام مسجد جاکر ادا کرنے کا ہو، خواہ مسجد دور ہو ورنہ ہوسکے تو خاندان کے تمام افراد مل کر نماز ادا کریں شام میں ان کے ساتھ کھیل کود میں شریک ہوں اور معصوم ہنسی مذاق کریں، نماز عشاء کے بعد انہیں ہنسی خوشی سونے کے لئے بھیج دیں، اس سے قبل حالات حاضرہ پر بچوں کے نقطۂ نظر سے تبصرہ وتجزیہ کریں تو وہ بھی مفید ہوگا۔
۳۔ اسکول سے واپسی بچوں سے دن بھر کی کارگزاری سنیں اور واقعات پر اسلامی نقطہ نظر سے تبصرہ کریں، تاکہ بچے ماحول کی زہر آلودگی سے واقف ہوکر ان سے اپنی حد تک بچنے کی کوشش کریں اور اسلامی معیاری کردار پر عمل کرنے کو ازخود پسند کریں۔
۴۔ مساجد اور اسلامک سینٹرز میں اسلامی پروگرام ہونے چاہئیں، مراکز میں بچوں کے لئے کھیل کا سامان اور لائبریری وغیرہ ہو، ان مراکز میں تربیت یافتہ نیز تجربہ کار مسلمان خواتین وحضرات کو بچوں کی نگرانی کے لئے مقرر کریں ہوسکے تو اپنے وسائل کو بروئے کار لاکر اسلامی اسکول قائم کرنے کی طرف بھی توجہ دی جائے۔
۵۔کوشش کریں کہ مسلمان خاندان ایک دوسرے سے اتنے فاصلے پر آجائیں کہ آنا جانا آسان ہو، سماجی روابط قائم ہوں، بہتر یہ ہے کہ اسلامک سینٹرز یا مساجد کے قریب بسنے کی کوشش کریں جس طرح دوسرے مذہبی گروہ رہتے ہیں تقریبات میں خاص طور پر اسلامی تقریبات میں بچوں کو اپنے ساتھ لے جائیں اور دوسرے خاندانوں سے متعارف کروائیں تاکہ مسلمان خاندانوں کو ایک دوسرے کے لڑکوں اور لڑکیوں کے بارے میں معلومات ملیں اس سے شادی بیاہ کے مسائل میں آسانی ہوگی۔
یاد رکھیں قوموں کی اصلاح کا اور دیار غیر اسلامی میں آنے والی نسلوں کو بچانے کا یہی ایک نسخہ ہے، یہ ایک دقت طلب کام ہے، محنت طلب کام ہے، مسلسل جدوجہد اور عمل پیہم ہے لیکن بغیر جدوجہد اور کوشش کے بھی تو کچھ نہیں ہوتا، افسوس کہ ہم اس کوشش سے غفلت برت رہے ہیں لیکن ارشاد خداوندی ہے ’’لیس للاانسان الا ماسعیٰ‘‘ اور یہ کہ کسی انسان کے لئے نہیں مگر اسی قدر جتنی اس نے سعی کی۔
والدین بیدار ہوکر صر ف مساعی کریں اور صورت حال سے عہدہ بر آ ہونے کے لئے سرگرم عمل ہوں تو اللہ تعالیٰ ہماری ایسی سمتوں سے مدد فرمائے گا کہ ہمیں توقع تک نہ ہوگی، ان شاء اللہ لیکن اگر ہم نے غفلت کی روش نہ بدلی سوتے رہے اور نہ جاگے تو خدا کی سنت یہ ہے کہ   ؎
فطرت افراد کی تقصیر سے کرلیتی ہے اغماض مگر
کرتی نہیں کبھی ملت کی خطائوں کو معاف
٭٭٭٭٭


مغرب میں مسلمانوں کی نئی نسل کو درپیش مسائل
ڈاکٹر حافظ حقانی میاں قادری