info@majlissautulislam.com
© Copyright 2017 Saut-ul-Islam Pakistan All Rights Reserved
Email:
01:30
sautulislampk@gmail.com
+ 92 21 35363159 - 35867580  Fax: + 92 21 35873324
05:15
08:15
Example
سب تعریف اللہ ہی کے لئے ہے۔ ہم اسی کی تعریف کرتے ہیں،اسی سے معافی مانگتے ہیں، اسی کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ اپنے نفس کے شر سے اور اپنی بداعمالیوں سے اللہ ہی کی پناہ میں آتے ہیں۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ جسے اللہ تعالیٰ ہدایت دے دے، اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا اور جسے اللہ رب العزت گمراہ کر ڈالے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا۔ ہم اللہ تعالیٰ کی تعریف اسی انداز میں کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کو پسند اور اللہ تعالیٰ کے شایان شان ہو۔ ہم اللہ تعالیٰ کی خوب تعریف بیان کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔ یقینا ہم تیری تعریف کما حقہ ادا نہیں کر سکتے اور اے اللہ ہم کبھی کما حقہ تیرا شکر ادا نہیں کر سکتے۔ بہرحال ہم اللہ کی اتنی تعریف کرتے ہیں کہ جس سے آسمان کا ہر گوشہ زمین کا ہر کونہ اور سمندر و خشکی کا ہر ذرہ بھر جائے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے۔ وہ واحد ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمدﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ اللہ کی بے شمار رحمتیں ، بے بہا برکتیں اور ان گنت سلامتی نازل ہو آپﷺ پر، آپﷺ کی آل اور تمام صحابہ کرامؓ پر۔ بعد ازاں! لوگو! میں اپنے آپ کو اور آپ سب کو اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کی تلقین کرتا ہوں۔ ’’اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے تم کو موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو‘‘ (آل عمران:102) ’’لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت مرد و عورت دنیا میں پھیلا دیے اس خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو، اور رشتہ و قرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو یقین جانو کہ اللہ تم پر نگرانی کر رہا ہے۔‘‘ (النساء :1) ’’اے ایمان لانے والو، اللہ سے ڈرو اور ٹھیک بات کیا کرو۔اللہ تمہارے اعمال درست کر دے گا اور تمہارے قصوروں سے درگزر فرمائے گا جس شخص نے اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کی اس نے بڑی کامیابی حاصل کی۔‘‘ (احزاب:81۔80) اے ابن آدم! تو ہر حال میں اللہ سے ڈرتے رہنا۔ یاد رکھ! قیامت کے بے حد طویل دن میں تجھے اس کا ثمرہ ملے گا اور آج کی اس محنت سے تو اس سخت دن میں خوش ہو جائے گا۔ یاد رکھئے ! اگر انسان کو زندگی اور جہاں کی تمام آسائشیں یکجا ہو کر بھی میسر آ جائیں لیکن اس دنیا سے رخصت ہوتے وقت آدمی تقویٰ سے خالی ہو تو اسے زندگی کی تمام آسائشوں کا ذرہ بھر فائدہ نہیں ہو سکے گا۔

 اے اْمت اسلامیہ! اللہ تعالیٰ نے انسان کو زمین میں ایک دوسرے کاجانشین اور خلیفہ بنا کر بے پناہ عزت اور شرف عطا فرمایا ہے۔ اللہ کا فرمانِ ذیشان ہے۔ ’’میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔‘‘ (البقرہ:30) اللہ تعالیٰ کا انسان کو زمین میں خلیفہ اور جانشین بنانے کا مقصد ہی یہ ہے کہ وہ زمین میں تعمیر و اصلاح کا کام کرے۔ نیکی اور بھلائی کا حکم دے اور برائی سے روکے۔ لوگوں کے درمیان عدل قائم کرے۔ اللہ تعالیٰ نے بہت سے رسول مبعوث فرمائے ہیں تاکہ وہ عظیم پیغام لوگوں تک پہنچائیں اور یوں لوگوں کے پاس اپنی غلط روش اور گمراہی کی کوئی حجت اور دلیل باقی نہ رہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: ’’یہ سارے رسول خوش خبری دینے والے اور ڈرانے والے بنا کر بھیجے گئے تھے تاکہ ان کو مبعوث کردینے کے بعد لوگوں کے پاس اللہ کے مقابلہ میں کوئی حجت نہ رہے۔‘‘ (النساء :165) ۔اللہ تعالیٰ نے اپنے ان مبعوث کردہ رسولوں کی تائید بڑی عظیم نشانیوں اور معجزات سے فرمائی ہے جو ان انبیاء کی نبوت کی سچائی پر بڑی واضح دلالت کرتی ہیں۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: ’’ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیجا۔‘‘(الحدید:25) پھر آخر میں اللہ تعالیٰ نے تمام انسانیت کی طرف ہمارے پیارے نبی،محترم ، رسول مکرم، ساری اولادِ آدم کے سردار، تمام نبیوں کے امام اور خاتم النبین حضرت محمدﷺ کو مبعوث فرمایا۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: ’’ ہم نے تمہیں گواہ بنا کر، بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔‘‘ (الاحزاب:45) آپ ﷺ سچے اور کھرے دین اسلام کے ساتھ مبعوث فرمائے گئے جس نے لوگوں کے لئے زندگی کا ہر راستہ روشن کر دیا اور خالص توحید کی طرف رہنمائی فرمائی۔ اسی کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو شرک کی آلودگی اور اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مارنے سے بچا لیا۔ دین اسلام کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو اپنے جیسی مخلوق کی غلامی سے آزاد فرما کر خالق حقیقی کی غلامی سکھائی ہے۔ یوں اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے لئے واضح ہدایت کا دروازہ کھولا اور کامیابی کی راہ کی طرف بہترین رہنمائی فرمائی ہے، تاکہ لوگ ادھر ادھر رائیگاں بھٹکنے کے بجائے اللہ تعالیٰ کی طرف یکسو ہو کر متوجہ ہو جائیں،اور یوں اپنی پیدائش کا حقیقی مقصد اور تخلیق انسانی سے وابستہ اللہ کی مقدس حکمت پوری کریں۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: ’’میں نے جن اور انسانوں کو اِس کے سوا کسی کام کے لئے پیدا نہیں کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں۔‘‘ (الذاریات:56) اسی طرح فرمایا: ’’ہم نے تم سے پہلے جو رسول بھی بھیجا ہے اْس کو یہی وحی کی ہے کہ میرے سوا کوئی خدا نہیں ہے، پس تم لوگ میری ہی بندگی کرو۔‘‘ (انبیائ:25) ۔دیکھئے، اس آیت مبارکہ سے کس قدر توحید کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ دراصل توحید ہی لوگوں کے ذمے اللہ تعالیٰ کا حق ہے۔ اسی کے لئے رسولوں کو مبعوث کیا گیا اور اسی کی خاطر کتابیں نازل کی گئیں۔ سو اے اللہ کے بندے! اپنے یکتا خالق کے منفرد و ممتاز راستے پر یکسوئی سے گامزن ہو جا۔ میرا مطلب ہے کہ حق اور ایمان کی راہ پر یکسو ہو جا۔ اسلام دین حق لے کر آیا ہے، چنانچہ اب کسی مسلمان کو قطعاً زیب نہیں دیتا کہ وہ اس دین میں شک کرے۔ یاد رہے ، اب اللہ تعالیٰ دین اسلام کے علاوہ کوئی دوسرا دین قبول نہیں فرمائے گا۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: ’’یہ دین اس لئے آیا ہے تاکہ لوگوں کو خیر اور بھلائی کی ترغیب دلائے اور نجات اور کامیابی کی طرف انسانیت کی رہنمائی کرے۔ ‘‘ اے بیت اللہ کے حاجیو! وہ وقت یاد کیجئے کہ جب میرے اور آپ کے عظیم نبی محمدﷺ ٹھیک اسی عظیم جگہ پر قیام پذیر ہوئے تھے، اسی مقدس جگہ پر کھڑے ہو کر آپﷺ نے حقوق انسانی کا واضح منشور یعنی حجۃ الوداع کا عظیم خطبہ ارشاد فرمایا تھا۔ جس میں آپ ﷺ نے دین اسلام کے بنیادی ارکان واضح فرمائے تھے اور جاہلیت کی خرافات ختم کرنے کا واضح اعلان فرما دیا تھا۔ اس خطبے میں رسول مکرم ﷺ نے لوگوں کی جانیں انتہائی محترم قرار دی تھیں۔ آپﷺ نے خطبہ ارشاد کرتے ہو ئے فرمایا تھا، آج دین کامل اور ،مکمل ہو گیا، دین کے تمام احکام بالکل واضح ہوگئے، اللہ تعالیٰ کی نعمت پوری ہو گئی اور اللہ تعالیٰ نے اس دین کو لوگوں کے لئے پسند فرما لیا۔ اور پھر آپﷺ نے لوگوں کو الوداعی کلمات سے ایسے اشارے دیئے کہ جس سے لگتا تھا یہ اس طرح کی آخری ملاقات ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: ’’ آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لئے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لئے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے۔‘‘ (المائدہ:3) نبی کریم ﷺنے اس مبارک دن میں کیسا عظیم خطبہ ارشاد فرمایا اور کیا ہی عمدہ نصیحتیں فرمائیں۔ گو یہ ایک مختصر خطبہ تھا تاہم دین کے تمام اصول اس میں سمٹ آئے تھے۔ آپﷺ نے لوگوں کے ذہنوں میں دین اسلام کے آصول راسخ فرما دئیے تھے۔ اور بڑے اور بنیادی اصولوں کا ذکر کرتے ہوئے جزئیات اور تفصیلات کی طرف بھی اشارہ فرما دیا تھا۔ یقیناآپﷺ نے لوگوں کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لانے کی بڑی محنت اور کوشش فرمائی تھی تاکہ اللہ تعالیٰ کی مشیئت سے ایک نئی اور توانا امت جنم لے جو واضح اہداف کی حامل ہو اور جو عظیم اصولوں پر عمل پیرا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اس امت کو انسانوں کی گمراہی کے بعد ہدایت عطا فرمائی، انتشار اور تفرقے کے بعد اجتماعیت اور اتحاد نصیب فرمایا اور جہالت کے بعد علم و دانش عطا فرمائی۔

 آپﷺ نے خطبہ حجۃالوداع میں حقوق انسانی واضح فرمائے اور آزادی کا مفہوم بھی متعین فرما دیا۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’سنو! تمہارا خون، تمہارا مال اور تمہاری عزتیں ایک دوسرے کے لئے اسی طرح قابلِ احترام ہیں، جس طرح اس ملک اور اس شہر میں یہ دن حرمت والا ہے‘‘۔اسلام نے ان پانچ ضروری چیزوں کی حفاظت یقینی بنائی ہے، جس کے بغیر انسان کی زندگی ٹھیک طرح چل ہی نہیں سکتی۔ اسلام نے دین، جان، مال، عقل اور عزت پر حملہ کرنے سے منع فرمایا ہے۔ یہ اسی لئے ہے تاکہ لوگ امن وامان اور اطمینان کے ساتھ زندگی جی سکیں۔ دنیا وآخرت کے لئے اطمینان سے کام کر سکیں اور سارا معاشرہ سیسہ پلائی دیوار کی طرح اتحاد واتفاق کے ساتھ قائم اور استوار رہ سکے۔ تاکہ لوگوں کے احوال سنور جائیں اور ان کے معاملات درست ہو جائیں۔ آپ ﷺ نے اپنے عظیم خطبے میں مسلمان عورت کے بارے میں بھی نصیحت فرمائی۔ اس کے حقوق اور فرائض واضح فرماتے ہوئے یہ بھی واضح فرما دیا کہ ایک مسلمان عورت کو کیا ادا کرنا ہے اور بدلے میں کیاوصول کرنا ہے۔ اے مسلمانو! اسلام نے یہ بات واضح کر دی ہے کہ اولادِ آدم ہونے کے لحاظ سے سب لوگ ایک جیسے ہیں۔ سب کے حقوق اور واجبات بھی ایک ہی جیسے ہیں۔ کسی عربی اور عجمی میں تقویٰ کے سوا کوئی فرق نہیں۔ کسی کو کسی پر کوئی نسبی یا نسلی برتری نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’لوگو! تمہارا رب بھی ایک ہے اور تمہارا باپ بھی ایک ہی ہے۔ تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے بنائے گئے تھے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: ’’حقیقت میں اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیز گار ہے۔‘‘ (الحجرات:13) ۔کسی عربی کو کسی عجمی پر تقویٰ کے علاوہ کوئی فضیلت نہیں۔ اسی طرح اسلام کا اقتصادی نظام بھی بڑا منفرد اور شاندار ہے۔اس میں لوگوں کی انسانی اور فطری ضروریات کا خیال بڑے توازن کے ساتھ رکھا گیا ہے۔ جس کی مثال کسی دوسرے نظام میں نہیں ملتی۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: ’’جو مال اللہ نے تجھے دیا ہے اس سے آخرت کا گھر بنانے کی فکر کر اور دنیا میں سے بھی اپنا حصہ فراموش نہ کر ،احسان کر جس طرح اللہ نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے اور زمین میں فساد برپا کرنے کی کوشش نہ کر۔‘‘ (القصص:77)۔اسلام نے مالی لین دین کے عظیم اور مفید اصول وضع کیے ہیں جو سچائی اور عدل واحسان پر مبنی ہیں۔ ظلم، جہالت، دھوکے بازی، مکاری اور فریب کاری جیسی خرافات اور انسانوں کو گھاٹے میں ڈالنے والے معاملات سے روکتے ہیں۔ رسول اکرمﷺ کا فرمان ہے: ’’دو تجارت کرنے والے اپنے معاملے میں اس وقت تک آزاد ہیں جب تک وہ سودہ کر کے الگ نہ ہو جائیں۔ اگر وہ سچائی کی بنا پر تجارت کریں گے اور زیر تجارت چیز کے عیب و اوصاف بیان کردیں گے تو ان کے سودے میں برکت شامل کر دی جائے گی۔‘‘ اسی طرح آپﷺ کا ارشاد گرامی ہے: ’’جو دھوکہ دہی کرتا ہے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔‘‘ اسلام نے سود کو حرام قرار دیا ہے اور لوگوں کے مال نا جائز طریقوں سے ہتھیانے سے بھی روکا ہے۔ اسلام میں باہمی معاشرتی ذمے داریوں کی بڑی اہمیت ہے۔ اسلامی نظام صرف مادی چیزوں تک محدود نہیں ہے، بلکہ وہ معاشرے کی تمام تر انفرادی اور اجتماعی، مادی اور روحانی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: ’’جو کام نیکی اور خدا ترسی کے ہیں ان میں سب سے تعاون کرو اور جو گناہ اور زیادتی کے کام ہیں ان میں کسی سے تعاون نہ کرو‘‘ (المائدہ: 2)۔ اسی طرح فرمایا:’’مومن مرد اور مومن عورتیں، یہ سب ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔‘‘ (التوبہ:71) ۔تکافل یعنی باہمی ذمے داریوں کا دائرہ انتہائی وسیع ہے اور اس میں تمام لوگ اپنی ذمے داریوں سمیت سما جاتے ہیں۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: ’’لوگو، ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنا دیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو در حقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیز گار ہے،یقینااللہ سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے۔‘‘ (حجرات:13) ۔پھر اس میں نیکی اور بھلائی کی تمام شکلیں بھی شامل ہیں۔ اسلام نے والدین کی خدمت اور ان کے ساتھ احسان والا معاملہ کرنے کی بھی بڑی تلقین فرمائی ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: ’’اللہ نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم لوگ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو۔‘‘(الاسراء :23) ۔اسلام نے رشتہ داروں سے قطع تعلق کرنے سے بھی منع کیا ہے اور رشتہ داری توڑنے والے کو بد ترین وعید سنائی ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: ’’اب کیا تم لوگوں سے اِس کے سوا کچھ اور توقع کی جا سکتی ہے کہ اگر تم اُلٹے منہ پھر گئے تو زمین میں پھر فساد برپا کرو گے اور آپس میں ایک دوسرے کے گلے کاٹو گے؟‘‘(محمد:22)۔ اسلام میں ہمسائے کے حقوق کا بھی خوب خیال رکھا گیا ہے۔ خاص طور قرابت دار ہمسائے کے حقوق کی طرف اور زیادہ توجہ دلائی گئی ہے۔عام طور پر تمام ہمسائیوں کے حقوق کی تلقین کی گئی ہے۔ فرمان نبوی ہے: ’’جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے ہمسائے کی عزت کرے۔‘‘ اسلام نے انسانی جان کی حفاظت کو بھی پوری طرح یقینی بنایا ہے چنانچہ اس نے انسانی خون کو بہت زیادہ محترم قرار دیا ہے۔ دین میں جان کی حفاظت کو ایک عظیم مقصد بنایا گیا ہے۔ چنانچہ اسلام نے حکمرانوں کے خلاف بغاوت کو بھی حرام قرار دیا ہے۔ اسلام نے افراد کی تمام انفرادی اور اجتماعی مشکلات کا حل پیش کیا ہے اور ہر معاملے میں شرعی حدود وقیود واضح کر دی ہیں جو قطعی ، حتمی اور ناقابل تبدیل ہیں اور جن کو درست اور مفید ماننے پر آج کی جدید دنیا کا ہر شخص بھی مجبور ہیں، یہی حدود قیود ہیں جو اسلامی معاشرے میں مجرموں کو جرم سے روکے رکھتی ہیں اور مفسدوں کو مقررہ حدود سے تجاوز کرنے کی اجازت نہیں دیتیں اور یوں اس طرح سے یہ اصول وضوابط زمین پر عدل قائم کرنے کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ چنانچہ اسلام نے ان اصولوں پر عمل کرنا لازم قرار دیا ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: ’’کسی وجہ سے بنی اسرائیل پر ہم نے یہ فرمان لکھ دیا تھا کہ ’’جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کر دیا اور جس نے کسی کی جان بچائی اس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی۔‘‘ (المائدہ:32)۔

 اسلام ہی وہ معتدل اور متوازن طریقہ لے کر آیا ہے کہ جس کے ذریعے سے بھلائیاں حاصل ہو جاتی ہیں اور برائیاں کافور ہو جاتی ہیں۔ اسلام نے تعمیر وترقی اور فلاح و بہود کا حکم دیا ہے اور تعمیر وترقی کے تمام ااسباب و وسائل اپنانے کی نصیحت فرمائی ہے تاکہ مسلمان اپنے دینی اصول اسلام پر قائم رہتے ہوئے ہر جدید دور کے ساتھ چل سکیں اور جدید چیزوں کو سمجھ سکیں۔ اسی طرح اسلام نے فساد پھیلانے والے تمام ذرائع سے رکنے کا حکم دیا ہے اور اسلام کے عظیم مفادات کا خیال کرتے ہوئے ادنیٰ مفادات کو نظر انداز کرنے کا حکم دیا ہے۔ اسی طرح دین اسلام کے مفادات، اْمت کی اجتماعی کمائی ، اس کے مستقبل اور اس کی ناموس کا خیال نہ کرنے والے کو دنیا وآخرت کی بد ترین وعید سنائی ہے اور ان مفادات پر اثر انداز ہونے سے روکا ہے۔ اے مسلمان حکمرانو !اے امت اسلامیہ کے لوگو!کیا شک ہے کہ آج ہماری امت اسلام اپنی تاریخ کے انتہائی مشکل مرحلہ سے گزر رہی ہے۔ ان حالات میں ہم پر لازم ہے کہ ہم تمام اختلافات چھوڑ کے اکٹھے ہو جائیں اور دل و جذبات میں ایک دوسرے کا خیال رکھیں، کسی بھی معاملے میں کوئی سا بھی موقف اختیار کرنے سے پہلے باہم مشورہ کر لیں، معاملات کو دیکھنے کا انداز ایک سا کر لیں اور اپنی کوششوں کو ہم آہنگ کر لیں تاکہ یہ امت مسائل اور مشکلات حل کرنے میں کامیاب حقیقی اعتبار سے کامیاب ہو سکے۔ ہمارے مسائل میں سب سے نمایاں مسئلہ  فلسطین اور مسجد اقصیٰ کا مسئلہ ہے۔ اسی طرح شام، عراق، یمن اور دیگر ممالک میں ہمارے بھائیوں کی خستہ حالت زار بھی سب کے سامنے ہے۔ اس وقت ہم سب کو سب سے بڑھ کی باہم مل بیٹھنے کی ضرورت ہے۔ اکٹھے بیٹھ کر اپنے معاملات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ایک دوسرے کو بھلائی کی نصیحت کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اخوت اسلامیہ کا اخوت و اتحاد اور یک جہتی و وحدت کا رنگ نظر آ سکے۔ یقیناہم سب مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ ہمیں اچھی طرح ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ معاشرے کی اصلاح، امت کی فلاح ، امن وامان کی بقا اور وحدت کی ضیا حکمرانوں کے ساتھ عوام کے تعاون پر موقوف ہے، حکمرانوں کے گرد جمع ہونے پر اور حکمرانوں کا ہاتھ بٹانے پر منحصر ہے۔

 مسلمان حکمرانوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے کندھے پر پڑنے والی بھاری امانت کا احساس کریں اور بھر پور ذمہ داری کا مظاہرہ کریں۔ وہ ذہن نشین کر لیں کہ اختلافات اور نزاع کا باعث بننے والے تمام جدید مسائل کو حل کرنا ان کی ذمہ داری ہے اور انہیں حل کرنے کا بہترین طریقہ باہم مذاکرات اور باہمی تعاون، مشورہ، عدل اور ظلم کا خاتمہ ہے۔ اے امت اسلامیہ! عدل اسلام کی عظیم بنیاد اور اساس ہے۔ یہ بہترین ترازو ہے۔ یہ رسولوں کا پیغام ہے۔ یہ رب العالمین کا حکم ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: ’’اللہ عدل اور احسان اور صلہ رحمی کا حکم دیتا ہے‘‘(النحل:90) ۔اسی طرح فرمایا: ’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، انصاف کے علمبردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو اگرچہ تمہارے انصاف اور تمہاری گواہی کی زد خود تمہاری اپنی ذات پر یا تمہارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو‘‘.(النساء :35)۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: ’’ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیجا، اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں۔‘‘(الحدید:25) اسلام نے تمام تر اصول اور ضابطوں میں عدل کو بڑی اہمیت دی ہے۔ یہ اس لئے کہ عدل بذات خود بڑی اہم چیز ہے اور اس کے نتائج بڑے عمدہ ہیں۔ عدل کے ذریعے ہی انسانوں کی زندگی بھلی بن سکتی ہے اور اسی کے ذریعے نیکی پھل پھول اور پھیل سکتی ہے۔ اسی کے ذریعے خو ش بختی حاصل ہو سکتی ہے اور عین اسی پر امت کی خیر و ہدایت، بقا اور فلاح منحصر ہے۔ عدل سے بھلائی پھیلتی ہے اور نیکی بڑھتی ہے اور لوگوں کے دلوں میں سکون اور سرور آ جاتا ہے اور لوگوں کو چین نصیب ہوتا ہے۔ اسلام نے نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کو بھی عظیم عبادت قرار دیا ہے اور اس کی بھی خوب ترغیب دلائی ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: ’’اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لئے میدان میں لایا گیا ہے تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘ (آل عمران:110)۔ مسلمانو! تمہارا دین باہمی لین دین اور باہمی برتاو کا دین ہے، انصاف اور رحمت کا دین ہے۔ یہ بہترین رویے سکھانے والا دین ہے، عمدہ فیصلے کرنے اور درست عمل اپنانے کا دین ہے۔ اسلام بھلے برتاؤ کے ذریعے ہی تو پھیلا ہے۔ اس طرح کے برتاؤ کے ذریعے کہ جس کے اصول اسلام نے وضع کیے ہیں اور جنہیں اسلام کے باشندوں نے اپنایا ہے۔ جیسے عدل، احسان، سچائی، امانت اور بھلے اخلاق۔ اسلام نے اخلاقی تربیت اور کردار سازی کے حوالے سے بھی بہترین اور عمدہ ترین نمونہ فراہم کرنے کو بھی بڑی اہمیت دی ہے۔ اے لوگو! لوگوں نے تمہارے نبی محمدﷺ کو دیکھا تھا کہ وہ ایسے ہی اوصاف حمیدہ ، خصائلِ پاکیزہ اور محاسنِ عظیمہ سے متصف انسان تھے اور ان کی ذاتِ والا صفات میں یہ ساری صفات موجود ہیں۔ چنانچہ وہ ان زندہ نظر آتی مثالوں پر ایمان لائے، ان کے دل ودماغ نے ان اعلیٰ صفات کو بے ساختہ قبول کیا اور ان کے جذبات و احساسات نے انہیں بھلا سمجھا۔ پھر لوگوں نے ان صفات کو اپنانا شروع کیا اور اپنی زندگی میں نافذ کر دکھایا۔ آپ ﷺ لوگوں کے لئے بہترین استاد، بہترین نمونہ اور تربیت دینے والے تھے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: ’’در حقیقت تم لوگوں کے لئے اللہ کے رسولﷺ میں ایک بہترین نمونہ تھا‘‘(الاحزاب:21) ۔اسی طرح فرمایا: ’’اے محمدﷺ ہم نے جو تم کو بھیجا ہے تو یہ دراصل دنیا والوں کے حق میں ہماری رحمت ہے۔‘‘ (الانبیاء :107)۔ اے مسلمان نوجوانو! آج کے دور میں جن مصیبتوں کا ہمیں سامنا ہے ان میں ایک نمایاں مصیبت زمین فساد برپا کرنے کی کئی شکلیں ظاہر ہونا ہے جنہیں ہم مجمل طور پر دہشت گردی کا نام دے سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ وہ دہشت گردی کہ جس کی برائی بڑی بڑی قوموں، نسلوں اور مذاہب میں سرایت کر چکی ہے۔ اس برائی کو کسی قوم ، کسی دین، کسی ثقافت یا کسی ملک کی طرف منسوب نہیں کیا جا سکتا۔ دہشت گردی کی تہمت اسلام کے نام بھی قطعا ًنہیں لگائی جا سکتی۔ امت کی مصیبتوں میں سے ایک مصیبت یہ بھی ہے کہ اس کے کچھ باشندوں کو شیطان نے حق سے پھیر لیا ہے اور راہ راست سے بھٹکا دیا ہے۔ اس طرح وہ دین اسلام کے اعتدال پسند طریقے سے ہٹ گئے ہیں اور لوگوں پر کفر کے فتوے لگانے میں جلد بازی کرنے لگے۔ ہیں یقینایہ رویہ بڑے ہولناک نتائج سامنے لانے والا ہے۔ تکفیر سے مومنوں کے دل لرز اٹھتے ہیں اور مسلمانوں کی جانیں کانپ اٹھتی ہیں۔ کس قدر بے خوف لوگ ہیں کہ جنہوں نے مسلمانوں  کوکافر قرار دیا ہے اور ان کی محترم اور محفوظ جانوں پر حملہ کرنا جائز سمجھا، انہوں نے اسلام کے عطا کردہ حرمت والے معاہدے توڑ ڈالے ہیں، زمین میں فساد برپا کیا ہے۔ دھماکے کیے ہیں اور توڑ پھوڑ کی ہے۔معصوم جانوں کو قتل کیا ہے، مسلمان اور غیر مسلم امن پسند شہریوں کو ڈرایا دھمکایا ہے، اللہ کی کتاب، سنت رسولﷺ اور امت کے علماء کے اجماع کو پس پشت ڈال دیا ہے کہ جو سب ان ناپاک اور بد ترین اعمال کو نا جائز قرار دینے پر متفق ہیں۔ تو مسلمان نوجوانو! آپ پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ آپ ہی امت کا سرمایہ اور آپ ہی اس کا مستقبل ہو۔ سو لازم ہے کہ ہر اس راستے سے بچو جو امت اسلامیہ کی صفیں بکھیرنے، تفرقہ بازی پھیلانے اور فرقہ واریت کو ہوا دینے والا ہو۔ جان رکھو کہ امت میں گمراہی اور انحراف پھیلانے کے اسباب میں سے قبلہ رخ ہو کر نماز ادا کرنے والے مسلمانوں کو کافر قرار دینے میں جلدی کرنا بھی ہے۔ یہ بہت بڑی مصیبت اور بڑا ہلاکت خیز رویہ ہے۔ یاد رکھو! نبی اکرمﷺ نے بڑے زور دار انداز میں اور بہت ہولناک الفاظ میں اس بڑے گناہ سے بچنے کی تلقین فرمائی ہے۔ اللہ آپ کی نگہبانی فرمائے! اپنے آپ کو تقویٰ، علم اور سمجھ کے ذریعے ہر وقت ان چیزوں سے محفوظ رکھو۔ امت کے علماء کی طرف رجوع کرو اور ان کی باتیں دلائل اور واضح نشانیوں کے ساتھ مانو۔ امت کو تم سے بڑی امیدیں وابستہ ہیں تو تم ساری دنیا کو اپنے دین کی بھلائیاں، اس کی نرمی، اس کی رحمت اور اس کے اخلاق حسنہ دکھاؤ۔ دوسروں کے لئے بہترین نمونہ بنو۔ اپنے فارغ اوقات کا بھر پور فائدہ اٹھاؤ، اپنی صلاحیتیں ان اعمال میں صرف کرو جن میں امت اسلامیہ کی فلاح وبہبود ہو، اسی میں تمہاری اور اسلام کی عزت ہے اور اسی میں دنیا وآخرت میں آپ کا فائدہ ہے۔ اے تربیت دینے والو! بھلے اخلاق تمام آسمانی شریعتوں کا مرکز ومحور اور جوہر ہیں۔ نبی اکرمﷺ کی بعثت کا مقصد بھی اخلاق درست کرنا ہی تھا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’وہی ہے جس نے امیوں کے اندر ایک رسول خود انہی میں سے اٹھایا، جو انہیں اس کی آیات سناتا ہے، ان کی زندگی سنوارتا ہے،‘‘۔ (الجمعہ:2)۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں نبی اکرمﷺ کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا ہے۔ : ’’اور بیشک تم اخلاق کے بڑے مرتبے پر ہو‘‘ (القلم:4) اسلام نے لوگوں کی اخلاقی تربیت، کردار سازی اور نیکی پر نفوس کی تربیت کرنے کو اپنی ترجیحات میں اولیت دی ہے۔ چنانچہ عظیم دینی اخلاق پر نفس کی تربیت اسلام کا طریقہ ہے اور یقینااسی طرح سے لوگوں کو سکون اور چین اور کامیابی حاصل ہو سکتی ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: ’’اور نفس انسانی کی اور اس ذات کی قسم جس نے اسے ہموار کیا پھر اس کی بدی اور اس کی پرہیز گاری اس پر الہام کر دی یقینافلاح پا گیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا اور نامراد ہوا وہ جس نے اس کو دبا دیا۔‘‘ (الشمس:10۔7) ۔اسی تربیت کی وجہ سے ہی لوگ افضلیت میں ایک دوسرے سے بڑھ سکتے ہیں۔ فرمان نبوی ہے: تم میں بہترین وہ ہے جو سب سے اچھے اخلاق کا حامل ہے‘‘ مسلمانوں کے بعض معاشروں کو عملی اعتبار سے ان حسین اصولوں سے دوری کا سامنا ہے۔ یہ بڑی خطرناک چیز ہے اور ہمارے لئے بہت بڑا چیلنج ہے۔ چنانچہ اے والدین، اے تربیت دینے والو! آپ کے سر پر بچوں کی بھلی اور اخلاق پر مبنی تربیت کی عظیم ذمہ داری ہے۔ خاص طور پر اس زمانے میں کہ جس میں برائی اور فتنے کے اسباب عام ہو چکے ہیں۔ آج جنگ نے ایک نیا روپ اختیار کر لیا ہے اور وہ اصول ومبادء اور اخلاق کی جنگ بن چکی ہے۔ اے اسلام کے علمائ! آپ انبیاء کے وارث ہو، انبیاء کے پیغام کے حامل ہو، آپ پر ساری امت کی فلاح وبہبود منحصر ہے۔ سو سنو! امت میں اختلافات پھیلانے کا سبب مت بنو۔ بھلائی کی طرف لوگوں کی رہنمائی کرو، حق بیان کرو، باطل کی حمایت مت کرو، لوگوں کو راہ دکھاؤ، لوگوں کو شریعت اسلامیہ کے مطابق فتوے دو، نہ تشدد کرو اور نہ حد سے زیادہ نرمی برتو۔ اللہ کا دین تشدد اور نرمی کے مابین رہتا ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: ’’ور اِسی طرح تو ہم نے تمہیں ایک ’’امت وسط‘‘ بنایا ہے۔‘‘ (البقرہ:143) ۔

لوگوں کے لئے آسانیاں پیدا کرو اور ان کی مشکلات دور کرو۔ فرمان الٰہی ہے: ’’دین میں تم پر کوئی تنگی نہیں‘‘(الحج:78) رسول مکرمﷺ کو جب بھی دو چیزوں میں سے ایک اپنانے کا کہا گیا تو آپﷺ نے آسان چیز اختیار فرمائی۔ الا یہ کہ آسان چیز گناہ پر مشتمل ہو۔ اے اللہ کی طرف بلانے والو! اللہ کی طرف بلانا انبیاء اور رسولوں کا کام ہے۔ تو آپ دعوت کے معاملے میں صحیح طریقہ اپناؤ۔ علم، سمجھ داری اور اخلاص کے ساتھ دعوت دو۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: ۔ ’’(اے پیغمبرﷺ) یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ تم اِن لوگوں کے لئے بہت نرم مزاج واقع ہوئے ہو ورنہ اگر کہیں تم تند خو اور سنگ دل ہوتے تو یہ سب تمہارے گردو پیش سے چھٹ جاتے۔‘‘ (آل عمران:159) ۔دوسروں کے لئے اچھا نمونہ بنو۔ جنہیں دعوت دے رہے ہو، ان پر رحم کرو، بھلے انداز سے گفتگو اور بحث کرنا آپ کی دعوت کا اسلوب ہونا چاہیے۔ علم کو اپنا اسلحہ بنائیے۔ لوگوں کی حق کے ذریعے رہنمائی کرنا اپنا ہدف بنائیے۔ فرقہ وارانہ رویے سے بچئے! نئے فرقے اور گروہ ایجاد کرنے سے باز رہئے۔ الگ ہونے اور نئی شاخیں بنانے سے گریز کیجئے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: ’’سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑ لو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔‘‘ (آل عمران:103) ۔اسی طرح فرمایا: ’’آپس میں جھگڑو نہیں ورنہ تمہارے اندر کمزوری پیدا ہو جائے گی۔‘‘ (الانفال:46)۔ اے میڈیا کے لوگو! اے سوشل میڈیا کے حاملو! میڈیا، میڈیا کے ذرائع اور میڈیا کی سائیٹس کو دین کے فائدے کے لئے، اس کا دفاع کرنے کے لئے برتو۔اس کی خیر اور بھلائیاں بیان کرنے میں میڈیا استعمال کرنے کا اہتمام کرو۔ الفاظ کے استعمال میں ذمہ داری کامظاہرہ کرو، اپنی بات پر قائم رہنا سیکھو اور سچائی سے کام لو۔ قلم کی ذمہ داری کو سمجھو۔ حقیقت پسندی سے کام لو۔ با مقصد طریقہ تحریر اپناؤ۔ ہلچل مچانے والی تحریروں سے، افواہوں سے اور تنقید برائے تنقید سے دور رہو۔ ان ذرائع کو بنانے والا بناؤ بگاڑنے والا نہ بناؤ۔ جمع کرنے والا بناؤ، تفرقہ پھیلانے والا نہ بناؤ۔ قوت پھیلانے والا بناؤ، کمزور کرنے والا نہ بناؤ۔ اے بیت اللہ کے حاجیو! آپ حرمت والے شہر میں ہیں۔ اس کی عظمت کو جانو اور اس کی تقدس ذہن نشین کر لو۔ اللہ تعالیٰ نے اس محترم شہر کو ایسی خصوصیات سے مختص فرمایا ہے کہ جو کسی دوسرے شہر کو نہیں ملیں۔ یہ امن والا ہے، محترم ہے اور قیامت تک یوں ہی رہے گا۔ فرمان الٰہی ہے: ’’ جو اِس (مکہ) میں داخل ہوا مامون ہو گیا۔‘‘ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا تھی، فرمان الٰہی ہے: ’’پروردگار، اِس شہر کو امن کا شہر بنا اور مجھے اور میری اولاد کو بت پرستی سے بچا۔‘‘ (ابراہیم:35) ۔اللہ تعالیٰ نے اس شہر کو اپنے نبی ابراہیم علیہ السلام کے لئے منتخب فرمایا تھا۔ فرمان الٰہی ہے: ’’اور لوگوں کو حج کے لئے اذنِ عام دے دو کہ وہ تمہارے پاس ہر دور دراز مقام سے پیدل اور اونٹوں پر سوار آئیں۔‘‘ (الحج:27)۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے اس حکم پر لبیک کہا۔ میں حاضر ہوں اے اللہ! میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں۔ تیرے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے۔ میں حاضر ہوں۔ تعریف بھی تیری ہی ہے اور ساری نعمتیں بھی تیری اور ساری بادشاہت بھی تیری ہی ہے۔ تیرا کوئی شریک نہیں ہے۔ پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعد اللہ کے انبیائ، رسول اور اللہ کے بندے اسی طرح لبیک کہتے رہے۔ اللہ نے انہیں بلایا تو انہوں نے راضی ہوتے ہوئے اور محبت کرتے ہوئے اس پر لبیک کہا۔ پھر جب انہوں اللہ کو پکارا تو اللہ ان کے نفس کی نسبت ان سے زیادہ قریب تھی۔ اللہ کے گھر کے حاجیو! دیکھو! تم اللہ کے امن والے شہر میں آئے ہو، تمہارے لئے راستے آسان کر دئیے گئے ہیں۔ آپ کی مشکلات آسان کر دی گئی ہیں۔ اللہ کی نعمتوں پر اس کا شکر ادا کرو! مزید فضل وکرم کا سوال کرو! یہ اللہ کا مقدس گھر ہے۔ اللہ کے نازل کردہ امن کی وجہ سے امن والا ہے۔ فرمان الٰہی ہے: ’’اور قسم ہے اِس پرامن شہر (مکہ) کی۔‘‘(التین:3)   ۔ اس کے امن کو تباہ کرنے سے بچو۔ اس کے مقامات کا احترام کرو۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: ’’یہ ہے اصل معاملہ (اسے سمجھ لو)، اور جو اللہ کے مقرر کردہ شعائر کا احترام کرے تو یہ دلوں کے تقویٰ سے ہے۔‘‘ (الحج:32)۔ اسی طرح فرمایا: ’’یہ تھا (تعمیر کعبہ کا مقصد) اور جو کوئی اللہ کی قائم کردہ حرمتوں کا احترام کرے تو یہ اس کے رب کے نزدیک خود اسی کے لئے بہتر ہے‘‘ (الحج:30)۔ عبادت گاہوں کا صاف ستھرا ماحول آلودہ کرنے سے اجتناب کرو۔ فرمان الٰہی ہے: ’’اِس (مسجدِ حرام) میں جو بھی راستے سے ہٹ کر ظلم کا طریقہ اختیار کرے گا اسے ہم درد ناک عذاب کا مزا چکھائیں گے۔‘‘ (الحج:25) ۔حرمین کا امن اور حجاج کی سلامتی ایسی سرخ لائنیں ہیں جن سے آگے بڑھنا، سیاسی بینرز اٹھانا یا فرقہ وارانہ نعرے لگانا کسی صورت برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ اس ملک پر اللہ کا فضل وکرم ہے کہ اس ملک کو اس نے حکمت والی قیادت مہیا فرمائی ہے۔ جو حرمین کی خدمت اور نگہبانی کے ذریعے شرف حاصل کرتی ہے۔ حکومت نے خدمات کا طویل سلسلہ تیار کر رکھا ہے اور ہر قسم کی ممکنہ کوشش کی ہے تاکہ حرمین میں آنے والے امن وامان اور اطمینان کے ساتھ اپنی عبادت سر انجام دے سکیں۔اللہ تعالیٰ ہمارے حاکم سلمان بن عبدالعزیز کو اسلام اور مسلمانوںکی خدمت پر جزائے خیر عطا فرمائے اور اس کی کاوشوں کو بابرکت بنائے۔ اس کی تمام کاوشوں کو اس کے لئے باعث اجر و ثواب بنائے اور اسے صحت و عافیت سے نوازے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے حاکم اس کے دونوںنائبین اور تمام ساتھیوں کو اپنی رضا اور خوشنودی والے کام سر انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے۔ اس طرح ہم ہر اس شخص کے لئے دْعا گو ہیں،جس نے حج کی ادائیگی کو آسان بنانے میں اپنی خدمات پیش کیں اور حجاج کرام کو ادائیگی حج میں اطمینان و سکون فراہم کیا۔ ان سب کے سرخیل امیر حج اور امیر مکہ کو اللہ حاجیوں کی طرف سے جزائے خیر عطا فرمائے۔ اسی طرح بہادر سیکورٹی فورسز کے اراکین کو بھی اللہ جزائے خیر سے نوازے، جنہوںنے حجاج کرام کی خدمت اور ہماری ملکی حدود کی حفاظت کے لئے عظیم قربانیاں دی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی قربانیاں قبول فرمائے اور ان کی کوششوں کو بابرکت بنائے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے ان کے قول و عمل کی درستی کی دعا کرتے ہیں۔ اللہ ان کی کاوشوں کو خیر و برکت کا باعث اور اجر عظیم کا سبب بنائے۔ یہ اور ان کے دیگر بھائی جو حجاج کرام اور حرمین شریفین کی خدمت پر مامور ہیں۔ کوئی حجاج کرام کی رہنمائی کے لئے فتویٰ دے رہا ہے، کوئی دعوت و ارشاد کے لئے مقرر ہے، کوئی صحت و سلامتی کے لئے خدمات دے رہا ہے اور اس جیسی دیگر کئی ذمہ داریاں نبھانے والے کئی اور کتنے ہی لوگ ہیں، اللہ تعالیٰ ان سب کو اجر عظیم عطا فرمائے۔ اے حجاج کرام!تمہارا آج کا دن بڑا عظیم اور مبارک دن ہے۔ نبی کریمﷺ فرماتے ہیں: جتنے لوگوں کو اللہ تعالیٰ عرفہ کے دن جہنم سے آزادی عطا فرماتے ہیں، کسی اور دن عطا نہیں کرتے۔ اس دن اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے قریب ہوتا ہے پھر فرشتوں کے سامنے بندوں پر فخر کا اظہار فرماتا ہے اور ان سے پوچھتا ہے: ’’میرے یہ بندے کیا چاہتے ہیں؟‘‘اور ایک روایت میںیہ الفاظ ہیں: میرے ان بندوں کو دیکھو کہ کس طرح میلے کپڑوں اور غبار آلود بالوںکے ساتھ حاضر ہیں، اے فرشتو! تم گواہ ہو جاؤ کہ میںنے انہیں معاف کر دیا ہے۔‘‘لہٰذا آج خوب دعائیں مانگو۔ نبی کریمﷺ فرماتے ہیں: ’’بہترین دْعا عرفہ کے دن کی دعا ہے اور وہ بہترین دْعا جو میں نے اور مجھ سے پہلے انبیائے کرام نے اللہ سے کی ہے، وہ یہ ہے:لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد و ھو علی کل شی ء قدیر’’اللہ کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں، وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔ ساری بادشاہی اسی کی ہے۔ سب تعریفیںاسی کے لئے ہیں اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘لوگو! اپنے نبی کی سنت کا اہتمام کرو۔اللہ تمہاری حفاظت فرمائے۔ آرام و سکون سے چلو اور نیکی و بھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے سے تعاون کرو۔ گناہ اور برائی میں ایک دوسرے کا ساتھ مت دو۔ اللہ سے ڈرو۔ اپنی زبان اور دیگر اعضاء  کو کنٹرول میں رکھو۔ صبر، حوصلے ،خوشخبری اور حسن ظن سے کام لو۔ شکست خوردگی ، مایوسی اور نا امیدی سے بچو۔ کیونکہ اللہ کا دین ہی کامیاب ہے اور اللہ اپنے دین کا ، شہروں کا اور بندوںکا محافظ ہے۔ عزت اللہ ،اس کے رسول اور مومنوں کے لئے ہے اور اللہ اپنے امر پر غالب ہے، لیکن اکثر لوگ نہیںجانتے۔

خطبہ حج2016ء کا مکمل اردو ترجمہ
عبد الرحمن السديس
امام کعبہ