© Copyright 2017 Saut-ul-Islam Pakistan All Rights Reserved
+ 92 21 35363159 - 35867580 Fax: + 92 21 35873324
دنیا دہشت گردی کے آگے پل باندھنے میں مصروف عمل ہے اور جدید سے جدید طریقہ آزمائے جارہی ہے مگر یہ جن ہے کہ کسی صورت میں بوتل میں بندہونے کوتیار نہیں،وطن عزیز میں گزشتہ تقریباًپون دودہائیوں سے یہ جن جس شکل میں نمودار ہوا وہ انتہائی ہولناک ہے،حکومت اور افواج پاکستان قوم کے بھرپورتعاون اور عزم وہمت کے ساتھ اس پر قابوپانے کے لئے کمربستہ ہیں اور موجودہ صورتحال قدرے اطمینان بخش ہے کہ اب وہ صورتحال نہیں جو تین سال پہلے تھی تاہم اب بھی دہشت گردی کے اس عفریت سے نکلنے کے لئے مختلف فورم پر مختلف اقدامات جاری ہیںاور یہ ایک اچھی اور حوصلہ افزا مثال ہے۔کیونکہ دہشت گردی نام صرف بندوق اور بارود سے لوگوں کا خون بہانا نہیں بلکہ یہ دیگر کئی اشکال میں بھی موجود ہے جس کے لئے دنیا بھر میں بھی اور پاکستان میںبھی مذاہب ومسالک کے درمیان مذاکرے اوراور کانفرنسیں تسلسل کے ساتھ جارہی ہیں۔24اور 25نومبر 2015ء کو میری تنظیم یونیورسل نیکسس فار انٹرفیتھ ٹرسٹ اینڈاینگجمنٹ (یونائٹ)نے اسلام آباد کے کنونشن سینٹر میں بعنوان ’’پرامن بین المذاہب طرزِزندگی کی جستجو‘‘ کا انعقاد کیااس کانفرنس میں دنیا بھر کے 26ممالک سے 7بڑے مذاہب کے پیشوا شریک ہوئے اور ایک پرامن دنیا کے لئے متفقہ روڈ میپ دیا ۔پہلے بھی مگر خصوصاًاس کے بعد مذاہب اور مسالک کے درمیان عالمی اور ملکی سطح پر جس طرح روابط میں تیزی دیکھنے کو آرہی ہے وہ میرے لئے اور میرے اکابرین کے لئے اطمینان بخش ہے۔گزشتہ نومبر کی13تاریخ کوبرادرم مولانا عبدالخبیر آزاد صاحب جو کہ بادشاہی مسجد لاہور کے امام وخطیب بھی ہیں اور انٹرفیتھ کونسل فار پیس اینڈ ھارمنی کے چیئرمین بھی ہیں انہوں کراچی کے پرل کانٹی نینٹل ہوٹل میں ’’پیغام امن کانفرنس ‘‘کے عنوان سے ایک نشست کا اہتمام کیا۔اس کانفرنس میں راقم کے علاوہ بذات خود جناب حضرت مولانا عبدالخبیر آزاد صاحب،سینیٹر اور وفاقی وزیر انسانی حقوق جناب کامران مائیکل صاحب ،سردا ریاسین ملک (ستارہ ٔ امیتاز)،آرچ بشپ آف کراچی جناب جوزف کوٹس صاحب اور محترمہ ڈاکٹرڈین میری صاحبہ شریک تھیں۔
راقم نے مہمانان گرامی کے خیالات اور عنوان سے اندازہ لگایا ہے کہ اس وقت پاکستان ہو یا کوئی اور ملک ہر کوئی امن کی تلاش میں سرگرداں ہے اوریہ امن ہے کہ کہیں سے نہ مفت میں مل رہاہے اور نہ خریداجاسکتا ہے۔کوئی منڈی،کوئی مقام ،کوئی ادارہ بھی تو ایسا نہیں کہ جہاں سے اس ناپیدچیزکو حاصل کیا جاسکے ۔دعوت خطابت کے موقع پر جب میں نے اپنے خیالات کو مجتمع کیاتو مجھے دوچاردن قبل ہی اپنے ملک کے انتہائی پسماندہ صوبہ بلوچستان جہاں پڑوسی ملکوں کی خفیہ ایجنسیوں کے سرگرم ہونے کی اطلاعات شدومد کے ساتھ ہیں کے علاقے حب میں واقع صوفی بزرگ شاہ نورانی ؒ کے مزار میں ہوئے ہولناک خودکش بم دھماکے اور اس کے نتیجے میں گرنے والے 60لاشے نظرآنے لگے جن میں معصوم بچے ،خواتین اور نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کے ساتھ بزرگوں کے باریش چہرے بھی شامل تھے۔اور جب اس بابت چند الفاظ کہے تو شرکاء بھی افسردہ دکھائی دیئے۔بلاشبہ دہشت گردی صرف ہمارے ملک پاکستان ہی نہیں بلکہ یہ پورے خطے افغانستان، شام، عراق اور کئی ممالک یہاں تک اب تو یورپ بھی اور امریکا بھی محفوظ نہیں،فرانس کو دیکھئے وہاں کس طرح کی ہولناک واردتیں ہوئیں،امریکا کے اندر کئی اندوہناک واقعات یہاں دہشت گردی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ کہیں بھی تو امن موجود نہیں ہے، خون گررہا ہے، دہشت پھیل رہی ہے،خون ارزاں ہورہا ہے بلکہ اگر یوں کہاجائے تو بے جا نہ ہوگا کہ انسان انسان کے ہاتھوں ہی اپنی قدرو قیمت کھورہا ہے۔اور پھر کشکول اٹھائے امن کا متلاشی بھی ہے۔آخرکیوں۔؟ میرے نزدیک اس کی ایک وجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ من حیث القوم اور برادری ہم سب انسان اپنی اپنی مذہبی تعلیمات سے دور ہوچکے ہیں۔بعض ممالک اور چند انتہاپسند اس دہشت گردی کو اکثرمواقع پر مذہب سے جوڑتے نظرآتے ہیں ۔میں انتہائی ذمے داری کے ساتھ یہ بات کہتاہوں کہ دہشت گردی کی بنیادی وجہ کوئی مذہب نہیں بلکہ ہم میں موجود وہ لوگ ہیں جنہوں نے مذہبی تعلیمات کی اپنی اپنی تشریحات کرڈالی ہیںاور نتیجتاً آج کا انسان انسان نہیں حیوان کا روپ دھار رہا ہے۔ اورانسانیت کھورہاہے۔
ہمیں یہ بات کیوں نہیں سمجھ آتی اور ہم کیوں نہیں دوسروں کو بتاتے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ’’شہزادہ امن‘‘ توپیارے نبی مکرم خاتم المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ’’رحمتہ للعالمین ‘‘ ہیں۔آج اگر ہم دنیا پر نظر دوڑائیں تو زیادہ تر مقامات پر انہی رحمتہ للعالمین اور شہزادہ امن کے ماننے والے ہی دست وگریباں ہیں۔کیوں؟،اس لئے کہ وہ تعلیمات جو مالک کائنات ،اللہ رب العزت کے ان برگزیدہ پیغمبروں نے ہم تک پہنچائیں آج ہم ان سے دور ہوچکے ہیں ،وہ تعلیمات ہم سے کھو چکی ہیں،متاع گم گشتہ بن چکی ہیں۔کیا رحمتہ لعالمین اور شہزادہ امن ہمیں یہ نہیں بتا گئے کہ ایک انسان کا قتل نا حق پوری انسانیت کا قتل ہے اور اگر کوئی تمہیں تھپڑ مارے تو تھپڑ کا بدلہ تھپڑ سے نہ دینا۔یہ قتل اور عدم برداشت ہی تو وہ دو بنیادی جز ہیں جنہوں نے آج کے انسانی معاشروں کو حیوانیت کا شکار کردیا ہے۔کیا ہم نہیں جانتے کہ نبی آخرالزماں ،خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کیا ہیں۔مومن کو توچھوڑئیے اور اس کو بھی جانے دیجئے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا گریبان پکڑے ۔رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے تو غیرمسلم پر بھی ظلم اور اس کے حق پر ڈاکے کو سخت ممنوع فرمایا ہے ۔پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کایہ ارشاد پاک ہمارے لئے مشعل راہ ہوناچاہئے کہ :۔الأ من ظلم معاہدا أو انتقصہ :۔خبردار!تم میں سے کسی نے بھی کسی معاہد پر ذرا بھی ظلم کیایا اس کونقصان پہنچایا۔أواخذ منہ شیأً بغیرطیب نفس:۔یا کوئی تھوڑی سی بھی چیز اس سے لے لی اس کی رضامندی کے بغیر۔فانا حجیجہ یوم القیامۃ:۔تو قیامت کے دن میں اس غیر مسلم کا وکیل بن کر تیرے سامنے کھڑا ہوں گا اور اس کو اس کا حق دلوائوں گا ۔یعنی اگر کسی مسلمان نے کسی غیرمسلم کو ناحق جانی یا مالی نقصان پہنچایا ،اس کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ڈالی، اس کی معاشرت میں رکاوٹ بنا۔ اس کے کاروبار میں رکاوٹ بنا تو روز قیامت اس غیر مسلم کی طرف سے میں اس کا وکیل ہوں گا اور اس کی طرف سے مقدمہ لڑوں گا۔قربان جاؤں پیارے نبی کی عظیم تعلیمات پر کہ دیکھئے آپ نے اپنی امت کو قیامت تک یہ سبق دے دیا کہ مسلمان بھائی تو بھائی غیر مسلم کے ساتھ بھی ظلم نہیں کرنا۔آپ ذرا 1400سال پیچھے جائیے اس وقت جب نجران سے نصاریٰ کا ایک وفد مدینے آتا ہے تو اس کے لئے مدینہ منورہ کا عظیم ترین مقام بیٹھنے کے لئے مختص کیا جاتا ہے ۔یہ عظم ترین مقام آج بھی دنیا بھر میں اپنی اسی عظمت کے ساتھ موجود ہے اور قیامت تک موجود رہے گا،آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ مدینہ منورہ میں’’ مسجد نبویﷺ ‘‘سے زیادہ عظیم مقام اور کوئی نہیں ہے۔تو رحمتہ للعالمین کے حکم پر اسی مقام مقد س میں اس وفدکے لئے خاص انتظام کے ساتھ جگہ مختص کی جاتی ہے اور وقت نماز اس وفد سے یہ نہیں کہا گیا کہ آپ باہر تشریف لے جائیں بلکہ اسی مسجد میں ایک جگہ ان کو عبادت کے لئے دی جاتی ہے جبکہ دوسرے موقع پر پر جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ شام کے سفر کے دوران کنسیہ میں گئے اور باوجود اہل کنسیہ کی اجازت کے نماز ادا نہیں کی تو۔
آج جب میں اپنی اسلامی تعلیمات پر غور کرتاہوں تو یوں محسوس ہوتا ہے بلکہ ذمے داری کے ساتھ یہ کہنے پر مجبور ہوجاتا ہوں کہ مذہب اسلام رواداری کا مذہب نہیں ہے،رواداری اسلام میں نہیں ہے،اس میں کوئی تعجب یہ حیرانگی کی بات نہیں بلکہ جب ہم اللہ رب العزت کے احکامات ،حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کا گہرائی اور گھیرائی سے مطالعہ کرتے ہیں تو صاف دکھتا ہے کہ اسلام میں برابری اور حصہ داری ہے بلکہ اگر اس سے بھی اوپر جائیں تو یہ کہنا بجا نہ ہوگا کہ اسلام میں غیر مسلموں کے حقوق کی ادائیگی کے بارے میں بنسبت مسلمان کے حقوق کے برتری ہے۔کیوں کہ اگر ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا حق غضب کرے یا نقصان پہنچائے تو روز قیامت وہ اپنے حق کے لئے خود لڑے گا اور اگر ایک مسلمان کسی غیر مسلم کے حق میں کوتاہی کرے تو روز قیامت اس کے حق کے لئے میرا نبی رحمتہ للعالمین صلی علیہ وآلہ وسلم لڑیں گے۔
میں سمجھتا ہوں کہ اس کانفرنس کا بھی یہی پیغام ہے کہ ہم حضور ﷺ جو رحمۃ للعالمین ہیں ان کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو جائیں،یہی ہم سب کا دین ہے اس کی تعلیمات عظیم تر اور روشن تر ہیںاس کا مقابلہ کوئی نظریہ نہیں کرسکتا لیکن افسوس کہ ہمارا آج کا مسلمان، پاکستان میں بسنے والا مسلمان ان تعلیمات سے دوری کی وجہ سے اپنا اصل مقصد تخلیق بھول چکا ہے ۔میرے دوستوں یہی حقیقت ہے کہ ناحق کشت وخون ہمارے لائق ہے نہ ہمارے مذہب کی تعلیم۔
حضرت عیسی علیہ السلام ’’شہزادہ امن‘‘ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ’’ رحمت للعالمین‘‘ ہیں
ناحق کشت و خون ہمارے لائق ہے نہ دین اسلام کی تعلیمات
مفتی ابوبکر محی الدینمدیر منتظم ’’ماہنامہ ایوان اسلام‘‘ کراچی
پر امن بین المذاہب طرز زندگی کی جستجو کی عالمگیر تنظیم یونائٹ کے جنرل سیکریٹری مفتی ابوبکر محی الدین کا ’’پیغام امن کانفرنس‘‘ سے فکر انگیز خطاب