© Copyright 2017 Saut-ul-Islam Pakistan All Rights Reserved
+ 92 21 35363159 - 35867580 Fax: + 92 21 35873324
پانچ فروری آزادیٔ کشمیر کی علامت بن چکا ہے ،یہ دن ’’یوم یکجہتی کشمیر‘‘ کے نام سے 1990ء سے بغیر کسی سیاسی ومذہبی تفریق کے مسلسل منایا جارہا ہے جس کا بظاہرمقصد کشمیری بھائیوں سے اظہار ہمدردی ہے لیکن حقیقت میں پانچ فروری وہ دن ہے جو تحریک آزادی کے متوالوں کے لہو کو گرماکر رکھ دیتا ہے اور ان کے جذبات پہلے سے بھی زیادہ توانا اور طاقت ور ہوجاتے ہیں۔اس دن کی اہمیت یوں بھی زیادہ بنتی ہے کہ اس روز پاکستان سمیت پوری دنیا میں ہونے والی ریلیاں، احتجاج اور سیمینارز سے عالمی برادری، اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کی پوری توجہ مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ پون دو صدی سے جاری انسانیت سوز مظالم کی طرف مبذول ہوجاتی ہے۔ کشمیر کی آزادی کی جنگ تاریخی اعتبار سے کوئی دہائیوں کا مسئلہ نہیں بلکہ 1832ء سے حل طلب مسئلہ ہے۔
جی ہاں! 1832ئ۔ یعنی دوسری عالمی جنگ سے بھی ٹھیک دو دہائی پہلے سے یہاں کے عوام خواہ وہ مسلم تھے یا غیر مسلم، آزادی کے لئے برسر پیکار تھے۔ اس وقت یہ ریاست رنجیت سنگھ نامی صرف ایک شخص کے زیر تسلط تھی یہ ایک نہایت ظالم اور جابر حکمراں تھا جس کے خلاف عوام نے ایک تاریخی تحریک چلائی، رنجیت سنگھ کے گماشتوں نے تحریک کے سرخیل سبز علی خان اورعلی خان سمیت درجنوں افراد کی الٹی کھالیں اتاریں ، لاشوں میں بھوسہ بھرا اور نشان عبرت کے لئے کرمنگ کے مقام پر درخت کے ساتھ لٹکادیں۔ 1832ء سے 1836ء تک صرف پونچھ میں 25ہزار سے زائد افراد کے قتل عام کے واقعات تاریخ کا حصہ بنے۔16مارچ 1846ء تاریخ کا سیاہ ترین دن تھا جب بدنام زمانہ ’’معاہدہ امرتسر‘‘ کے تحت انگریزوں نے گلاب سنگھ ڈوگرہ کو 75لاکھ روپے نانک شاہی کے عوض کشمیر فروخت کردیا ۔اس کے خلاف بھی غیور حریت پسندوں نے تحریک جاری رکھی۔ 1857ء میں گلاب سنگھ کے مرنے کے بعد رنبیرسنگھ نے 1885ء تک حکومت کی۔ اس کے بعد پرتاب سنگھ 1925ء تک حکمران رہا اور ہری سنگھ 1949ء تک اس ریاست کا حکمران رہا۔ مہاراجہ ہری سنگھ نے توظلم وجبر کی انتہا کر دی۔ اونچی آواز میں اذان اور جمعہ اور عیدین کے خطبہ پر بھی پابندی لگا دی گئی۔ اس پر پوری ریاست میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی۔ بزرگوں نے جوان قیادت کو آگے لانے کا فیصلہ کیا۔ اتفاق رائے کے ساتھ جموں سے چودھری غلام عباس، سردار گوہر رحمان ،شیخ حمید اللہ وغیرہ اور کشمیر سے شیخ محمد عبداللہ،یوسف شاہ ( میر واعظ عمر فاروق کے دادا)،غلام نبی گلکار وغیرہ کو چنا گیا۔ 26 جون 1931ء کو سرینگر کی مسجد شاہ ہمدان میں جموں و کشمیر کی تاریخ کا بڑا جلسہ ہوا جس میں50ہزار مسلمانوں نے شرکت کی۔دوران جلسہ ایک شخص اسٹیج پر چڑھ گیا اور کہا کہ مسلمانوں !اشتہاروں اور جلسوں سے کچھ نہیں ہوگا اٹھو اور مہاراجہ ہری سنگھ کے محل کی اینٹ سے اینٹ بجا دو۔ اس شخص کا نام عبدالقدیر تھا وہ امروہہ کا رہنے والا تھا جو یوپی سے انگریز سیاح کے ساتھ سرینگر آیا ہوا تھا پولیس نے اسے گرفتار کر لیا اور سری نگر کی سینٹرل جیل میں قید کردیاجس کیخلاف 7ہزار کے قریب مسلمان جیل کے باہر جمع ہوگئے جہاں پولیس نے 22افراد کو گولیاں مار کرشہید کردیا۔اس تحریک کے سرخیل چودھری غلام عباس تھے جنہوںنے دیگر رفقا ء کے مشورے سے 1932ء میں پہلی سیاسی جماعت آل جموںو کشمیر مسلم کانفرنس تشکیل دی‘ اسی تحریک کا دباؤ تھا کہ مہاراجہ ہری سنگھ جمہوری نظام قائم کرنے پر مجبور ہوا اور 1934ء میں دستور ساز اسمبلی بنا دی گئی اور 1934ئ۔ 1938ئ۔ 1939ء اور 1947ء میں اس اسمبلی کے الیکشن ہوئے جن میں آل جموںو کشمیر مسلم کانفرنس نے 80 فیصد یا زائد نشستیں جیتیں۔سانحہ سری نگر جیل کیخلاف لاہور میں بھی آل انڈیا مسلم لیگ نے مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کے لئے ’’کشمیر کمیٹی‘‘ قائم کی اور شاعر مشرق علامہ اقبال کو اس کمیٹی کا سربراہ مقرر کیا۔ 1934ء میں پہلی مرتبہ ہندوستان میں کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی اور ڈوگرہ راج کے مظالم کے خلاف ملک گیر ہڑتال کی گئی۔
1946ء میں قائد اعظم نے مسلم کانفرنس کی دعوت پر سرینگر کا دورہ کیا جہاں قائد کی دور اندیش نگاہوں نے سیاسی‘ دفاعی‘ اقتصادی اور جغرافیائی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے کشمیر کو پاکستان کی’’شہ رگ‘‘ قرار دیا۔ مسلم کانفرنس نے بھی کشمیری مسلمانوں کی نمائندگی کرتے ہوئے 19 جولائی1947ء کو سردار ابراہیم خان کے گھر سری نگر میں باقاعدہ طورپر ’’قرار داد الحاق پاکستان ‘‘منظور کی لیکن جب کشمیریوں کے فیصلے کو نظر انداز کیا گیا تو مولانا فضل الہٰی وزیر آباد کی قیادت میں 23 اگست 1947 ء کو نیلابٹ کے مقام سے مسلح جدوجہد کا باقاعدہ آغاز ہوااور 15 ماہ کے مسلسل جہاد کے بعد موجودہ آزاد کشمیر آزاد ہوا۔
1946ء میں برطانوی کابینہ کا ایک وفد برصغیر آیا جسے عام طور پر’’ کیبنٹ مشن‘‘ کہا جاتا ہے۔ اگرچہ یہ مشن ہندوستان کی دو بڑی سیاسی جماعتوں یعنی آل انڈیا نیشنل کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ سے بات چیت کے دوران دونوں تنظیموں کو برصغیر کے مستقبل کے بارے میں کسی نقطے پر متفق کروانے میں ناکام رہا لیکن برصغیر کی تقریباً 665 شخصی ریاستوں کے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ تینوں فریق اس بات پر متفق ہوئے کہ ان شخصی ریاستوں کے حکمران ہی ان ریاستوں کے مستقبل کا فیصلہ کریں گے۔ برصغیر کی تقسیم کے فوراً بعد ہی ریاست جموںو کشمیر، ریاست حیدر آباد دکن اور ریاست جونا گڑھ کو چھوڑ کر برصغیر کی باقی ماندہ چھوٹی بڑی ریاستوں نے آزاد بھارت یا آزاد پاکستان سے الحاق کرلیا۔ ریاست حیدر آباد دکن پر بھارت نے اس وقت ایک پولیس ایکشن کے ذریعہ قبضہ کرلیا جب پاکستانی قوم قائد اعظم محمد علی جناح کا سوگ منا رہی تھی جبکہ جونا گڑھ میں بھارت کی مدد سے ہونے والی ایک غیر قانونی رائے شماری کے ذریعے بھارت سے الحاق کا اعلان کیا گیا۔ 3جون 1947ء کو برصغیر کی تقسیم کے اعلان کے ساتھ ہی قائد اعظم محمد علی جناح نے یہ اعلان کیا تھا کہ برصغیر کی شخصی ریاستوں کو یہ حق حاصل ہوگا کہ وہ پاکستان سے الحاق کریں، بھارت سے الحاق کریں یا خود مختار حیثیت اختیار کریں۔ وہ یہ اعلان بار بار کرتے رہے یہاں تک کہ انہوں نے ریاست جموںو کشمیر کے مستقبل کے سلسلے میں تین اہم اعلان کیے جن کا ذکر حکومت پاکستان کی طرف سے شائع ہونے والی کتاب ’’قائد اعظم محمد علی جناح، اعلانات اور تقاریر 1947-48ئ‘‘ میں موجود ہے۔
جب 1945ء میں اقوام متحدہ معرض وجو د میں آیا تو اس وقت برصغیر پاک وہند میں ایک طرف پاکستان کی تحریک جاری تھی تو دوسری طرف کشمیر ی قوم بھی اپنی شناخت کے لئے مصروف عمل تھی۔شروع میں اقوام متحدہ کے ممبروں کی کل تعداد 51تھی جبکہ آج 2017ء میں یہ تعداد لگ بھگ 200ہے۔ یعنی تقریباً ڈیڑھ سو نئے ملک اقوام متحدہ میں شامل ہوگئے۔27اکتوبر 1947ء کومہاراجہ کشمیر نے پاکستانی قبائلی حملے کو جواز بناکر بھارت سے الحاق کیااور یوں بھارت نے کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کرلیا تاہم کشمیر کے غیور عوام نے مہاراجہ کے اس ظالمانہ ،جابرانہ فیصلے اوربھارتی تسلط کے خلاف پوری قوت کے ساتھ احتجاج شروع کردیا۔ 13 نومبر 1947ء کو شیخ عبداللہ نے اندرا گاندھی کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جو تاریخ میں (اندراعبداللہ ایکارڈ) کے نام سے موسوم ہے جس میں شیخ عبداللہ نے کشمیریوں کی پیٹھ میں چھرا گونپا اور ’’شیر کشمیر ‘‘سے ’’غدار کشمیر‘‘قرار پایا۔ حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے بھارت کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو اقوام متحدہ پہنچ گئے اور بین الاقوامی برادری سے وعدہ کیا کہ وہ ریاست میں رائے شماری کے ذریعے ریاست کے مستقبل کا فیصلہ مقامی عوام کی خواہشات کے مطابق کریں گے۔ چنانچہ 13اگست 1948ء کو جموں وکشمیرکے بارے میں پہلی قرارداد پاس کی گئی جس میں کہا گیا کہ ریاست جموں وکشمیرکے عوام اپنے مستقبل کا فیصلہ رائے شماری کے ذریعے کرنے میں آزاد ہیں۔لیکن ہندوستان اپنے ہی وعدے سے مکر گیااور تقسیم ہند کے دوران ساڑھے تین لاکھ کشمیریوں کو شہید کردیا۔ان انسانیت سوز مظالم کے باوجود اقوام متحدہ اورعالمی برادری نے چشم پوشی اختیار کئے رکھی۔اسی دوران قائد اعظم کے فرمان کے مطابق پاکستان نے آگے بڑھ کر کشمیریوں کا مقدمہ اپنے ہاتھ میں لے لیااور باقاعدہ عالمی فورم میں آواز اٹھائی۔ 25 فروری 1975ء کو ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان اور آزاد و مقبوضہ کشمیر میں بروز جمعتہ المبارک مکمل ہڑتال کی کال دی، زبردست اور تاریخی ہڑتال ہوئی اور سری نگر کے لال چوک میں کشمیری عوام نے ایک مرتبہ پھر سبز ہلالی مرچم لہراکر پاکستان کے ساتھ الحاق کا ثبوت دے دیا۔مئی 1977ء میں حریت رہنما امان اللہ اور مقبول بٹ نے کشمیر لبریشن فرنٹ کی بنیاد رکھی او رتحریک آزادی میں ایک نئی روح پھونک دی۔ 1981ء میں جب ریاستی اسمبلی کے انتخابات کا اعلان کیا گیا تو تمام کشمیری سیاسی جماعتوں نے ایک مشترکہ پلیٹ فارم کے ذریعے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا۔ حریت کانفرنس کے موجودہ سربراہ سید علی گیلانی اور متحدہ جہاد کونسل کے صدر سید صلاح الدین نے بھی ان انتخابات میں حصہ لیالیکن بھارت نے زبردستی اکثریت کو اقلیت میںبدل دیا۔1984ء میںدہلی کی تہاڑ جیل میں ’’شہید کشمیر‘‘ مقبول بٹ نے اپنے خون سے انقلاب کی بنیاد رکھ دی۔
1989ء میں جب کشمیری حریت پسندوں نے ہندوستان کی ہٹ دھرمی اور اقوام متحدہ کی بے حسی سے مجبور ہوکر مسلح جدوجہد کاآغاز کیا توکشمیر کے انتظامی ‘ سیاسی اور سماجی ڈھانچے کی بھارتی بلند و بالا عمارت اسی پر آگری۔جب اعصاب شل ہوئے تو بھارتی سرکار نے وادی میں7لاکھ فوج اتار دی اورحریت پسندوں کی تلاش میں گھر گھر تلاشی‘ کریک ڈاؤن اور خواتین کی عصمت دری معمول بن گئی۔ادھر پاکستان میں ہر دو،ڈھائی سال میں حکومتوں کی تبدیلی،جنگ وجدل اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے سانحہ نے تحریک آزادی کشمیر کو پس پشت ڈال دیا۔تاہم جماعت اسلامی پاکستان نے کشمیریوں کی جدوجہد آزادی پراپنی توجہ مرکوز رکھی اور 5جنوری 1989ء کو امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد نے لاہور میں ایک پریس کانفرنس منعقد کی اورمسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کے لئے ایک ماہ کا وقفہ دے کر 5 فروری کو ہڑتال کی اپیل کرکے یوم کشمیر منانے کا فیصلہ کیا۔ یوں 1989ء کو یوم کشمیر پہلی مرتبہ اور 1990ء سے تمام تر سیاسی اختلافات کو پس پشت ڈال کر منایا جارہا ہے۔
اس کے بعد گزشتہ 27برسوں سے 5 فروری کو آزاد و مقبوضہ کشمیر ‘ پاکستان اور دنیا بھر میں کشمیری تارکین وطن اس عزم کے ساتھ مناتے ہیں کہ آزادی کے حصول تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔
آج ہم ایک ایسے وقت میں یوم یکجہتی کشمیر منارہے ہیں جب پون دوصدی پہلے والی دنیا یکسر تبدیل ہوچکی ہے،اقوام کے درمیان صلح وصفائی کے لئے قائم عالمی ادارہ اقوام متحدہ بھی اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ موجود ہے،اسلامی ممالک کی عالمی تنظیم اسلامی تعاون تنظیم کا وجود بھی برقرار ہے،انسانی حقوق کی تنظیموں کی بھی ایک پوری کھیپ ہے مگر اس کے باوجود کشمیر ی قوم کی پورے سال آزادی آزادی کی دہائی کسی کے کانوں تک نہیں پہنچ رہی۔یہ انسانی بے حسی کی ایک بدترین مثال ہے جو شائد تاریخ کا حصہ تو نہ بن سکے مگر انسانی ماتھے کاکلنک ضرور بن چکی ہے۔عمومی طور پر دیکھاجائے تو کشمیریوں کی جدوجہد آزادی دنیا کی طویل ترین جدوجہد ہے جس میں لاکھوں افراد اپنی زندگیاں قربان کرچکے ہیں لیکن عالمی دنیا اور قوت فیصلہ رکھنے والی طاقتیں اس کو صرف 70،80برس پر مشتمل ایک تحریک سمجھتی ہے۔اگر ہم عصرحاضرکی قوتوں کے سرکاری ماہ وسال میں بھارتی مظالم پر نظر ڈالیںتو صرف سرکاری اعدادوشمارکے مطابق1989ء سے دسمبر2016تک 94ہزار597کشمیری ڈھونگ جھڑپوں، 7ہزار77حراستی مراکز میں شہید جبکہ ایک لاکھ39ہزار519مختلف جیلوں اور عقوبت خانوں میں قید وبند کی صعوبات برداشت کررہے ہیں۔22ہزار 831خواتین بیوہ،ایک لاکھ 7ہزار603بچے یتیم ہوچکے ہیں جبکہ10ہزار825خواتین بھارتی ہوس کانشانہ بن چکی ہیںجبکہ لاکھوں کی تعداد میں مسلمانوں کی املاک تباہ وبرباد ہوچکی ہیں۔ آزاد ذرائع یہ تعداد10لاکھ سے بھی اوپر بتاتے ہیں ۔ اب کوئی اقوام متحدہ،اسلامی تعاون تنظیم اور عالمی برادری سے یہ پوچھے کہ کیا کسی قوم اور ملک کی آزادی کے لئے یہ شہادتیں ،صعوبات اور ماہ وسال کافی نہیں۔کیا اس قوم کو اپنی مرضی سے اور آزاد فضاؤں میں جینے کا حق نہیں جس کے آباؤاجداداور ان کے بھی آباؤاجداد پون دوصدیوں سے قربانیاں دیتے آرہے ہیں۔اب بات صرف 5فروری کو ہاتھوں کی زنجیریں بنانے،تقریبات اورسیمینارز منعقد کرنے،ریلیاں اور جلوس نکالنے ،اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا میں اشتہارات اور بلندبانگ بیانات دینے ،ٹاک شوز میں بھارت کو لعن طعن کرنے سے بہت آگے نکل چکی ہے۔تشدد کی حالیہ لہر نے اس تحریک کو ایک نیا رُخ اور نیا جذبہ دے دیا ہے ۔آج پوری دنیا یہ جان چکی ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی آزادی کسی کا خارجی نہیں خود کشمیریوں کی زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ایسے میں پاکستان اور پوری ملت اسلامیہ کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ اقوام متحدہ اور عالمی برادری اس جانب پوری توجہ کے ساتھ کام کرنے پر مجبور کرے۔
آزادیٔ کشمیر1832ء تا2016ء
۵فروری یوم یکجہتی کشمیر اور اس کے تقاضے
مفتی ابوبکر محی الدینمدیر منتظم ’’ماہنامہ ایوان اسلام‘‘ کراچی