© Copyright 2017 Saut-ul-Islam Pakistan All Rights Reserved
+ 92 21 35363159 - 35867580 Fax: + 92 21 35873324
13اور 16فروری 2017ء کو دہشت گردوں نے پاکستان کے دل لاہور اور سرزمین صوفیا سندھ میںمعروف روحانی بزرگ لعل شہباز قلندر کے مزار پر قیامت برپا کی، خودکش دھماکوں میں 100سے اوپر قیمتی جانیں لقمہ اجل بنیں اور سیکڑوں اس وقت بھی کرب واذیت کی حالت میں اسپتالوں میں زیر علاج ہیں، ابتدائی مگر انتہائی ٹھوس شواہد اور گرفتار سہولت کاروں کے اعترافی بیانات کے بعد افواج پاکستان نے تاریخ میں پہلی افغان سرزمین پر گولا بارود برسایا ۔ جماعت احرار اور تحریک طالبان پاکستان نامی کالعدم دہشت گرد تنظیموں کے اہم کمانڈر بابا رحمان اور ولی سمیت درجنوں شدت پسندوں کو ڈھیر کردیا جبکہ 12تربیتی کیمپ اور خفیہ ٹھکانے بھی تباہ کئے گئے۔ بابا رحمان کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ خودکش بمبار تیار کرنے کا ماہر تھا۔
پاک افواج کی اس کارروائی کے بعد افغان حکومت نے برہمی کا اظہار بھی کیا اور پاکستانی سفیر کو دفتر خارجہ طلب کرکے احتجاج بھی ریکارڈ کرایا جبکہ 85مطلوب افراد کی فہرست بھی تھمادی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی بھی ملک کے اندر جاکر حملہ کرنا یا اپنی حدود سے گولا بارود برسانا اخلاقاً اور قانوناً کسی لحاظ سے مناسب نہیں لیکن پاکستان گزشتہ 7دہائیوں خصوصاً 2001ء سے ایک ایسے عفریت کا شکار ہے جس کا کسی دوسرے ملک کو اس شدت سے سامنا نہیں ہے۔
درجنوں نہیں سینکڑوں کی تعداد میں پاکستان پر دہشت گرد حملے ہوچکے ہیں جن میں لاکھوں کی تعداد میں عام شہری اور ہزاروں سیکورٹی اہلکار شہید اور سینکڑوں افراد معذور ہوچکے ہیں ۔ ہر دوسرے حملے کے تانے بانے قبائلی علاقہ جات اور افغانستان سے ملتے رہے اور پس منظر میں پاکستان کا ازلی دشمن بھارت ملوث رہا۔ پاکستان نے بارہا افغانستان سے اپیل کی کہ اپنی سرزمین کو پاکستان کیخلاف استعمال ہونے سے روکے اور اس حوالے سے متعدد بار معاہدے اور وعدے بھی ہوئے مگر حامد کرزئی دہشت گرد تنظیموں کو لگام ڈال سکے اور نہ اشرف غنی حکومت اس بابت کوئی واضح اقدام کرتی نظر آئی۔ نتیجتاً پشاور میں اے پی ایس میں ہمارے معصوم اور بے گناہ بچوں کو جس بیدردی سے نشانہ بنایا گیا وہ پاکستان کی تاریخ میں ایک سیاہ ترین دن تھا۔ اس حملے میں غیرملکی طاقتوں کے ملوث ہونے اور افغان سرزمین کو استعمال کرنے کے ٹھوس ثبوت پر ہی اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے بغیر وقت ضائع کے بذات خود کابل جاکر افغان حکومت سے پرزور مطالبہ کیا کہ پاکستان کے خلاف سازشوں سے باز رہیں اور اپنی سرزمین کا استعمال روکیں۔ بلوچستان سے کلبھوشن یادیو کی گرفتاری اور سنسنی خیز انکشافات کے بعد تو گویا پاکستان میں دہشت گردی میں بھارتی ہاتھ اور افغان سرزمین کا استعمال صاف واضح ہوگیا یہ ایسے ناقابل تردید ثبوت ہیں کہ جن پر نہ تو بھارت کوئی ٹھوس دلائل پیش کرسکا ہے اور نہ افغان حکومت۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ پاکستان اور افغانستان اٹوٹ رشتے میں بندھے ہیں۔ دونوں ممالک میں مذہبی ہم آہنگی، ثقافتی رسم ورواج اور رہن سہن قدر مشترک ہونے کے علاوہ لازم وملزوم پڑوسی بھی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر بُرے وقت میں پاکستان نے اپنے افغان بھائیوں کے لئے بازو پھیلائے اور دل کھول کر ان کی مدد کی، سہارا دیا۔ 1979ء میں جب روس نے طاقت کے نشے میں افغانستان کو تاراج کرنے کی کوشش کی تو انتہائی نامساعد حالات اور معاشی ابتری کے باوجود پاکستان نے افغان مہاجرین کے لئے اپنی سرحدیں کھول دیں اور کم وبیش 40لاکھ سے زائد افغان شہری پاکستان میں داخل ہوئے اور انسان دوستی کی لازوال مثال قائم ہوئی ۔نہ صرف مہاجرین کو خیمہ بستیوں میں تمام تر سہولیات اور آزاد زندگی کے ساتھ رہنے کی جگہ ملی بلکہ پاکستانی عوام نے سینکڑوں افغانوں کو اپنے گھروں میں بھی پناہ دی اور مہمان نوازی کی مثال قائم کردی ۔ یہاں ہمارے افغان بھائیوں کو روزگار، کاروبار اور رشتے داریاں وبرادریاں اور بستیاں قائم کرنے کے بھرپور مواقعے ملے جبکہ دیگر ممالک خصوصاً ایران میں جانے والوں کو صرف کیمپوں تک محدود رکھا گیا اور بھارت جو آجبعض مقتدر شخصیات کے ماتھے کا جھومر بنا ہوا ہے اس نے ان مہاجرین کو سر چھپانے کی جگہ کیا دینی تھی سرحد پر ہی ذلیل ورسوا کردیا سوائے چند کے۔
پاکستان نے اپنے افغان بھائیوں کی مدد کی اور انہیں پناہ دی بلکہ روسی حملے کے بعد ان کی سرزمین کی حفاظت اور دشمن سے واگزار کرانے کے لئے بے پناہ جانی ومالی قربانی بھی دی یہ پاکستان ہی تو تھا جس کی وجہ سے ہمارے افغان بھائیوں کو ان کی سرزمین واپس ملی اور دنیا کی سپر طاقت ٹکڑے ٹکڑے ہوگئی اور 1989ء میں افغانستان کو ایک مرتبہ پھر آزادی ملی۔ اگلے 11،12سال کی شورش میں بھی پاکستان نے افغانستان میں قیام امن کے لئے کلیدی کردار ادا کیا۔ اس دوران 40لاکھ کی تعداد میں آنے والے مہاجرین کئی گنا بڑھے۔ انہوں نے پاکستان میں نہ صرف روزگار اور کاروبار جمائے بلکہ پاکستانی گھرانوں میں رشتے ناطے بھی جوڑ لئے۔
9/11کے بعد بھی پاکستان نے اپنے برادر اسلامی ملک کو تنہا نہیں چھوڑا اور نہ یہاں سے آنے والے مزید مہاجرین کا راستہ روکا۔قیام امن کی بھی تمام کوششوں میں پاکستان نے مرکزی کردار ادا کیا۔افغان دھڑوں اورحکمرانوں سمیت عالمی طاقتوں کے نمائندوں کو ایک میز پر بٹھا کر مسئلے کا حل تلاش کرنے کے مواقعے فراہم کئے ۔مگر بدقسمتی سے گزشتہ 15،16برسوںمیں افغانستان میں مستحکم اور پائیدار حکومت قائم نہیں ہوسکی اوربیرونی مداخلت کھل کر سامنے آئی ،یہی وجہ ہے کہ وہاں پاکستان کے دشمن عناصر کو پنپنے اور اپنی جڑیں مضبوط کرنے کا موقع ملا ،انہوں نے وہاں اپنے ٹھکانے اور تربیتی کیمپ قائم کئے اور اب گزشتہ کچھ عرصے سے وہاں سے وہ پاکستان پر حملہ آور ہیں۔مساجد ،امام بارگاہوں ،مزاروں اور بازاروں کے اندر ہونے والی ہر دہشت گردی کے تانے بانے افغان سرزمین سے ہوتے ہوئے بھارت سے مل رہے ہیں۔ آخر کیوں؟۔ انسان کی فطرت تو احسان کے بدلے احسان ہے۔ نیکی کے بدلے نیکی ہے۔ پھر ایسا کیوں ہے کہ جس سے افغانستان کے محسن ملک اور یہاں آباد اس کے اپنے شہری تکالیف میں مبتلا ہوتے ہیں۔
حالیہ دہشت گردی کے بعد افواج پاکستان کی سرحد کے اندر داخل ہوکر کارروائیاں ’’تنگ آمد بجنگ آمد‘‘ کے مصداق اور استحکام پاکستان کے لئے انتہائی ناگزیر اقدامات کی نظر سے دیکھے جانے چاہئیں۔ یہ سمجھنے اور سوچنے کی بات ہے کہ جو ملک اور عالمی طاقتیں پاکستان کو دہشت گرد یا یہاں دہشت گردی کے ٹھکانے ہونے کا طعنہ دیتے ہیں ان کی موجودگی میں ان کی ناک تلے سرزمین افغانستان پر دہشت گرد کیمپ کیوں قائم ہیں۔اس کا صاف اور واضح مطلب تو یہ کہ افغانستان پر نہ تو اشرف غنی کا کنٹرول ہے نہ وہاں موجود عالمی طاقتوں کا ۔عالمی رپورٹیں تو یہاں تک بتاتی ہیں اور یقینا صحیح بتاتی ہیں کہ افغانستان کے 70فیصد علاقوں پرغیرحکومتی لوگوں کا قبضہ ہے۔باقی 30فیصد کا مطلب صرف کابل تک اشرف اور عالمی افواج غنی ہیں۔
واقعتا یہ صورتحال نہ صرف پاکستان بلکہ افغان عوام اور عالمی قوتوں کے لئے بھی تشویشناک ہے۔اور وقت کا تقاضا ہے کہ افغان عوام بذات خود ان دشمن عناصر کی بیخ کنی کے لئے کردارادا کرنے کے لئے گھروں سے نکلیں اور اپنی صفوں میں موجود ان عناصر کو نکال باہر کریں۔اگر یہ دہشت گردی کے اڈے ختم نہ کئے گئے تو افغانستان میں امن ہوگا نہ پاکستان میں اور نہ عالمی ممالک محفوظ رہے سکیں گے۔پاکستانی عوام اور سیکورٹی اداروں کی بے پناہ قربانیوں کے نتیجے میں گزشتہ 3سالوں میں حالات بہتری کی جانب جارہے تھے اور افغان مہاجرین کو باعزت طریقے سے ان کے وطن واپس بھجوانے کے اقدامات کئے جارہے تھے جن کے تحت ایک بڑی تعدا دواپس بھی جاچکی ہے جبکہ باقی ماندہ نے بھی اسی سال دسمبر تک اپنے آبائی وطن واپس ہونا ہے ۔لیکن لگتا ہے کہ خود افغان حکومت ،بھارت اور وہاں قدم جمائے انسانیت کے دشمن عناصر ان افغانوں کی سرزمین کا قبضہ نہیں چھوڑنا چاہتے۔بھارت کی ہمیشہ سے یہ خواہش رہی ہے کہ پاکستان کو عالمی سطح پر تنہائی کاشکار کیا جائے اور 1971ء کی تاریخ دہرائی جائے مگر یہ اللہ رب العزت کا کرم ہے کہ کلمہ طیبہ کے نعرے پر معرض وجود میں آنے والی ریاست اپنی پوری آب وتاب سے دنیا کے نقشے پر موجود ہے ،مگر جب گھر کو گھرکے چراغ سے ہی آگ لگ جائے تو پھر صورتحال بدل جاتی ہے اور پھر اللہ رب العزت بھی اس قوم کی حالت نہیں بدلتے جو خود اپنی حالت نہ بدلنے کی فکرکرے۔
ایسی ہی خوفناک صورتحال آج پاکستان اور افغانستان کے مسلمانوں کو درپیش ہے۔اگر دونوں ممالک کے عوام نے مل کر اقتدار کے پوجاریوں اور دہشت گردوں کے ایکسپورٹرز کی سازشوں کو ناکام نہیں بنایااور پاک فوج کے تازہ ترین آپریشن ’’ردالفساد ‘‘کو انجام تک پہنچانے میں افواج پاکستان کے کندھوں سے کندھا نہ ملایا تو آنے والی کئی صدیوں تک بھی ہم یوں ہی دست وگریبان رہیں گے۔اس موقع پر پاکستان میں موجود افغان مہاجرین پر بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ قیام امن کے لئے پاکستان کے دشمن عناصر پر کڑی نظرر کھیں اور افواج پاکستان کو افغانوں کے خلاف کارروائی تصور کرنے کی بجائے حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف افواج پاکستان کے ہاتھ مضبوط کریں یہی احسان کا بہترین بدلہ ہے۔اور پاکستانی قوم کو امید ہے کہ اس کے مہمان اسے مایوس نہیں کریں گے۔
استحکام پاکستان کے لیے ناگزیر اقدامات
مفتی ابوبکر محی الدینمدیر منتظم ’’ماہنامہ ایوان اسلام‘‘ کراچی