info@majlissautulislam.com
© Copyright 2017 Saut-ul-Islam Pakistan All Rights Reserved
Email:
01:30
sautulislampk@gmail.com
+ 92 21 35363159 - 35867580  Fax: + 92 21 35873324
05:15
08:15
Example
کشمیر اور فلسطین امت مسلمہ کے دو دیرینہ اور اہم ترین مسائل میں شامل ہیں اور کسی حد تک عالمی امن بھی ان دو مسائل سے منسلک نظر آتا ہے اور یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ امت مسلمہ کے نوجوانوں میں غم وغصہ اور شدت پسندی بڑھنے میں بڑا حصہ بھی ان دونوں کا ہے، عجب تماشہ یہ ہے کہ اقوام عالم بھی ان دو ایشوز سے بخوبی آگاہ ہیں اور اقوام متحدہ بھی کشمیر اور فلسطین کو متنازعہ قرار دینے کے باوجود ان کے حل میں کوئی کردار ادا کرنے سے قاصر ہے اور اقوام عالم کی یہ عدم دلچسپی ان ایشوز کی خطرناکی میں مزید اضافہ کا باعث بن رہی ہے، کشمیر اور فلسطین میں جاری آزادی کی تحریکیں دنیا کی قدیم ترین تحاریک ہیں جنہیں اقوام متحدہ بھی تحریک آزادی کے طور پر تسلیم کررہا ہے اور ان تحاریک کو کسی طور پر بھی دہشت گردی کے زمرے میں نہیں ڈالا جاسکتا، پاکستان کے لئے کشمیر کے ایشو کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح نے کشمیر کو پاکستان کی’’ شہ رگ‘‘ قرار دیا تھا اور پاکستانی قوم کشمیر سے جذباتی وابستگی رکھتی ہے اور کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کے لیے کوئی بھی قیمت ادا کرنے کو تیار ہے یہی وجہ ہے کہ ہر سیاسی جماعت نے کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کی حمایت کو منشور کا حصہ بنارکھا ہے اور کسی بھی سیاسی شخصیت اور پارٹی کی ناکامی کے لیے یہ الزام کافی ہے کہ وہ کشمیر کے بارے میں نرمی یا کسی حل کی حمایت کرتا ہے۔ دوسری طرف بھارت بھی کشمیر کے معاملے پر انتہائی حساس ہے اور کشمیر کو’’ اٹوٹ انگ‘‘ سے تعبیر کرتا ہے اور لاکھوں کی تعداد میں بھارتی افواج اور نیم فوجی دستے مقبوضہ کشمیر میں تعینات ہیں اور تحریک آزادی کو دبانے اور ختم کرنے کی ہرممکن کوشش کررہے ہیں، ظلم وتشدد کا ہر طریقہ اپنانے کے باوجود بھارت اس تحریک کو دبانے میں کامیابی حاصل نہیں کرپایا اور کشمیریوں میں آزادی کی تڑپ آج بھی جو بن پر ہے۔

کشیدگی میں حالیہ اضافے کی وجہ بظاہر نوجوان کشمیری رہنما برہان وانی کی شہادت کا واقعہ بنا جس کے بعد مقبوضہ کشمیر کے چپے چپے میں غم وغصہ پھیل گیا اور لاکھوں کی تعداد میں کشمیری اس ظلم کے خلاف احتجاج میں شریک ہوگئے، احتجاجی تحریک کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ دنیا میں اپنے آپ کو جمہوریت پسند ملک کہلوانے والا ملک عوام کے غم وغصہ کا احساس کرتا اور اپنی غلطیوں کی تلافی کرتا اور نہتے عوام کے زخموں پر مرہم رکھتا مگر افسوس قوت وطاقت کے نشے میں چور بھارتی حکمرانوں نے احتجاج کو دبانے کے لئے ظلم وتشدد کے نئے راستے اختیار کرلیے اور نہتے کشمیریوں کو نئے عذاب میں مبتلا کردیا جس کے نتیجے میں سیکڑوں بے گناہ کشمیری نہ صرف شہید ہوئے ہیں بلکہ بہت بڑی تعداد میں نوجوان زخمی اور بہت سے آنکھوں جیسی عظیم نعمت سے محروم کردیئے گئے ہیں۔ ظلم وتشدد کی ان تازہ کارروائیوں پر پاکستان کا خاموش رہنا اور کشمیریوں کی اخلاقی سفارتی حمایت نہ کرنا ہمارے لئے کسی طور پر ممکن نہ تھا یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے کشمیر کے لئے اپنی غیر متزلزل حمایت کا ایک مرتبہ پھر اعادہ کیا اور کشمیریوں کو حق استصواب رائے دینے کا مطالبہ دھرایا جس میں دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے اور ایک مرتبہ پھر جنوبی ایشیا میں خطرات منڈلانے لگے ہیں اور دونوں ممالک ایٹمی طاقت کے حامل ہیں اور ان کی افواج دنیا میں اعلیٰ صلاحیت کی حامل سمجھی جاتی ہیں جس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ دونوں پڑوسی ممالک میں تصادم کتنا خطرناک ثابت ہوسکتاہے ان حالات میں اقوام متحدہ اور عالمی طاقتوں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ صورتحال کا سنجیدگی سے جائزہ لیں اور دونوں ممالک میں پیدا ہونے والی کشیدگی میں کمی کے لئے سرگرم کردار ادا کریں۔

میرے خیال میں اڑی حملے کے بعد بھارتی قیادت نے جس فوری اور جذباتی ردعمل کا اظہار کیا اور پاکستان پر شکوک وشبہات کا اظہار کیا وہ کسی طور پر بھی مناسب نہیں تھا اور اس سے دونوں ممالک میں جاری کشیدگی میں مزید اصافہ ہوا ہے۔

جہاں تک پاکستانی حکام کا تعلق ہے تو یہ نظر آتا ہے کہ پاکستان نے پچھلے کچھ عرصہ سے بھارت سے الجھنے اور مسائل پیدا کرنے سے گریز کیا ہے اور کوشش کی ہے کہ پڑوسی ملک سے کشیدگی میں کمی لائی جائے مگر افسوس اسی عرصہ میں بھارت نے پاکستان میں مداخلت اور دہشت گردی کو ہوا دینے کی کوشش کی اور پاکستان کی طرف سے امن کے لئے کی جانے والی کوششوں کو بھی نظر انداز  کردیا۔ بھارتی سیاست میں پاکستان مخالفت ایک مقبول عوامی نعرہ ہے اور نفرت وعداوت میں ڈوبے مودی سرکار نے اس کا بھرپور استعمال کیا ہے اور سیاسی محاذ پر ہونے والی ناکامیوں کو پاکستان کے لیے نفرت وعداوت سے دھونے کی کوشش کی ہے۔

امن وامان کی خواہش اپنی جگہ لیکن ملک کی سلامتی اور استحکام کسی بھی قوم کے لئے اولین مقصد ہونا چاہیے، پاکستانی قوم عسکری اداروں اور حکومت کے لیے یہ بات باعث تشویش ہونی چاہیے کہ بھارت کھلے عام اس بات کا اعادہ کررہا ہے کہ وہ عالمی سطح پر پاکستان کو تنہا کرنے کی کوشش کرے گا اوروہ ایساکربھی رہاہے،سفارتی محاذ پر دہشت گردی سمیت تمام تر حربے اور ہتھکنڈے استعمال کئے جارہے ہیں ،بھارت کی پوری کوشش ہے کہ پاکستان کے اندر دہشت گردی کو بڑھاوا دیا جائے اور اس کی بنیاد پر عالمی سطح پر پاکستان کو بدنام کیا جائے جبکہ دوسری طرف وہ پاکستان کے دیرینہ دوستوں میں اپنی جگہ بنانے کی جدوجہد میں بھی مصروف ہے۔ خصوصاً اسلامی ممالک میں کاروباری تعلقات میں اضافہ اور انہیں بھارت میں خصوصی سہولیات فراہم کرنے کی پیش کش ہمارے لئے تشویش کا باعث ہونی چاہئیں۔ افغانستان اور بنگلا دیش کی جانب سے بھار ت کی حمایت بھی خطہ میں نئی کش مکش کا پتہ دیتی ہے، یہ حالات ہمارے لئے مستقبل میں پیش آنے والی رکاوٹوں کا ایک اظہار ہیں اور ان حالات کا تقاضا ہے کہ ہم بھی سفارتی محاذ میں ایک جارحانہ پالیسی اپنائیں اور ہنگامی طور پر اپنے تمام ہمسایہ اور دوست ممالک میں ایک مرتبہ پھر ان گرمجوش تعلقات کا اعادہ کریں جو ہمارے ماضی کا حصہ رہے ہیں، عالمی سطح پر بھارت کا مکروہ چہرہ بے نقاب کرنے کی کوششیں جاری رکھنی چاہئیں اور ہمیں ہر سطح پر بھارت کے بے بنیاد پروپیگنڈے کا جواب دینا چاہیے۔

اقوام متحدہ کے سربراہی اجلاس میں جس عمدگی اور بھرپور تیاری سے میاں نواز شریف نے کشمیر ایشو اجاگر کیا اور پاکستانی مؤقف پیش کیا اس سے کشمیری اور پاکستانی عوام کے حوصلہ بلند ہوئے ہیں اور اجلاس کے دوران امریکہ، چین، برطانیہ، سعودیہ، ترکی، ایران اور اسلامی ممالک کی نمائندہ تنظیم اوآئی سی نے جس طرح پاکستان کے ساتھ دوستی کا اظہار کیا اور کشمیر پر پاکستانی مؤقف کی حمایت کی ہے وہ ہمارے لئے باعث اطمینان ہے مگر اس معاملہ پر جہد مسلسل کی ضرورت ہے، پچھلے تین سال سے وفاقی حکومت کی یہ سب سے بڑی سفارتی کامیابی ہے اور اسے تسلسل کے ساتھ آگے بڑھانے کی ضرورت ہے، اگر ہم سفارتی محاذ پر کمزوری دکھانے کے بجائے دوست ممالک سے مسلسل رابطہ رکھیں اور ماضی میں پاکستان کے ساتھ نظر آنے والے ممالک میں ایک مرتبہ پھر تعلقات کو ازسر نو استوار کریں اور اقوام عالم کے ساتھ پڑوسی ملک کی دو رخی پالیسی کو بھرپور دلائل سے واضح کرتے رہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ اقوام عالم ہماری بات نہ سنیں یا حق وصداقت کا ساتھ نہ دیں، ہمیں اپنی خارجہ پالیسی کا دوبارہ جائزہ لینا اور سفارتی محاذ پر اپنی کمزوریوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے اور ایک نئے عزم کے ساتھ اپنے مؤقف کو اقوام عالم کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت ہے، بہرحال سردست پاکستان کو تنہا کرنا یا اپنے زیر دست لانا یہ دونوں دعوے کسی دیوانے کا خواب ہوسکتے ہیں جن کا حقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق نظر نہیں آتا۔

پاکستان کو تنہا کرنا کسی دیوانے کا خواب ہے
مفتی ابوہريرہ محی الدین
چیئرمین مجلس صوت الاسلام پاکستان