info@majlissautulislam.com
© Copyright 2017 Saut-ul-Islam Pakistan All Rights Reserved
Email:
01:30
sautulislampk@gmail.com
+ 92 21 35363159 - 35867580  Fax: + 92 21 35873324
05:15
08:15
Example
گزشتہ ماہ نومبر کی 9 تاریخ کو پاکستان میں شاعر مشرق، مفکر پاکستان ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ کا 139واں یوم پیدائش انتہائی جوش وخروش سے منایا گیا، ملک بھر میں ان کے یوم ولادت پر ملکی وملی خدمات کے تناظر میں خصوصی تقریبات منعقد کی گئیں۔ موقع کی مناسبت سے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے شاعر مشرق کی زندگی کے مختلف پہلوئوں کو اُجاگر کرنے اور فلسفہ اقبال نوجوان نسل تک پہنچانے کے لئے ملک کی معروف ادبی تنظیم ’’رابطہ ادب العالمی اسلامی‘‘ نے بھی 29اور 30اکتوبر کو ایوان اقبال لاہور میںایک تقریب کا انعقاد کیا۔ اس تقریب کے روح رواں لاہور کی معروف دینی درس گاہ جامعہ اشرفیہ کے رئیس اور تنظیم کے پاکستان چیپٹرکے صدر جناب مولانا فضل الرحیم صاحب اور جنرل سیکرٹری جناب ڈاکٹر محمد سعد صدیقی صاحب کی خصوصی دعوت وشفقت پر راقم کو بھی شریک ہونے کا موقع ملا اور فکر اقبال پر اظہار خیال میرے لئے انتہائی مسرت ٹھہرا۔

فکر اقبال میں فلسفہ خودی وہ جُز ہے جو میری تنظیم مجلس صوت الاسلام پاکستان کے منشور کا بھی ایک خاص گوشہ ہے، کانفرنس میں ملکی وغیر ملکی دانشور، مفکرین اور ادبی زندگی کے مایۂ ناز مقرر موجود تھے جنہوں نے فکر اقبال اور نظریہ اقبال پر سیر حا  گفتگو کی۔ راقم نے ’’فکر خودی‘‘ کو موضوع بنایا جس کی چند معروضات نذر قارئین ہیں۔

جناب قابل قدر مولانا فضل الرحیم صاحب، جناب ڈاکٹر محمد سعد صدیقی صاحب اور منتظمین رابطہ ادب العالمی اسلامی السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ۔

بلاشبہ شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ موجودہ صدی کے ایک عظیم انسان ہیں۔اور فکر اقبال اور نظریہ اقبال پر اس طرح کی کانفرنس وقت کی ضرورت ہے، یہ کانفرنس اقبال کے فکر اور نظریات کے پھیلائو کا بہترین ذریعہ بنے گی۔میں آج کی اس پروقار تقریب میں محمد اقبال ؒ کی جس فکر اور نظریے کو موضوع بنانا چاہتا ہوں ۔وہ ہے اقبال کا نظریہ خودی…

ڈاکٹر صاحب خود فرماتے ہیں  ؎
خود کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے پوچھے، بتا تیری رضا کیا ہے

اقبال کا فکر خودی میرے خیال میں خود شناسی کا نام ہے جس میں صاف یہ پیغام پنہاں ہے کہ انسان اپنی ذات اور جوہر کو پہچانے، میں سمجھتاہوں کہ یہ فلسفہ خودی علامہ اقبال نے قرآن مجید سے اخذ کیا ہے، اس الہامی کتاب میں اللہ رب العزت اپنے بندے کو خود شناسی کی ترغیب دیتے ہیں کہ انسان خود شناس ہو اور اپنے آپ کو پہچانے کہ وہ کیا ہے۔

 قرآن کریم فرقان حمید میں ارشاد ربانی ہے۔’’ ولقدکرمنا بنی آدم‘‘…ایک اور مقام پرفرمایا:۔’’ لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم‘‘ …

اسی طرح حدیث مبارکہ میں انسان کی خود شناسی کو یوں بیان کیا گیا۔’’ خلقت بیدی‘‘:۔کہ انسان کو اپنے ہاتھوں سے پیدا کیا۔
میرے خیال میں علامہ محمد اقبالؒ کا فلسفہ خودی 3 مراحل میں انسان کے سامنے ہے اور انسان کو دعوت فکر دے رہا ہے۔
پہلا مرحلہ یہ ہے کہ انسان خود کو پہچانے، اپنے مقام، مرتبہ اور تقاضوں کو پہچانے…دوسرا مرحلہ یہ ہے کہ انسان بحیثیت مخلوق اپنے خالق سے تعلق اور مقام  عبدیت کو پہچانے اور اس کے تقاضوں کو پہچانے۔ اللہ کے بندوں سے معاملات اور ان کے تقاضوں کی اہمیت کو پہچانے…تیسرا مرحلے میں معاشرے کے اندر انسان کا مقام آتا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہاں ’’خودی‘‘ کے تمام تقاضے پورے کرنا ہی اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان پر عمل پیرا ہونے کی بہترین مثال ہے۔ کیونکہ معاشرے میں اللہ رب العزت انسان کو بہت سے مقام و مراتب سے نوازتا ہے۔ کوئی استاذ ہے تو اس کو اپنا مقام و مرتبہ پہچانتے ہوئے آگے بڑھنا چاہئے، اگر یہ اپنی خودی کوحاصل کرکے صحیح راہ پر آگے بڑھے گا تو پورا معاشرہ خودی کی فکر سے آشنا ہوگا اور ترقی کرے گا۔ اسی طرح ڈاکٹر ، انجینئر، عالم، سیاستدان، سائنس دان حتیٰ کہ زندگی کے ہر شعبے سے وابستہ افراد کو فکر ِخودی کے فلسفے کو سمجھتے ہوئے اپنے مقام و مرتبہ کو پہچاننا چاہئے۔ یہاں میرے خیال میں خودی کے وہ تمام تقاضے جو انسان کو بلند مرتبہ، پرہیز گاری اور خدا ترسی کے مقام پر فائز کرتے ہیں موجود ہیں بس ضرورت اس امر کی ہے ان کے حصول اور ان پر عملدرآمد اور ان کے پھیلاؤ کی پوری کوشش کی جائے۔

 اقبال نے فکر خودی کے فلسفے میں خود کو ڈھال کر بھی دکھایا ہے، آپ دیکھئے کہ یہ اقبال کی فکر خودی اور خود شناسی ہے کہ آج وہ ایک عالمگیر شاعر کی حیثیت سے دنیا کے دلوں میں زندہ ہیں۔اگر حاکم وقت بھی اسی خودی اور خودشناسی کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اپنی  عوام اور معاشرے میں بہتری کے اقدامات کرے گا تو لامحالہ یہ انسان معاشرے میں ترقی کے اعلیٰ مقام پر پہنچ جائے گا ۔

اور جب یہ انسان اپنی اس خودی کو کھودیتا ہے تو پھر وہ اس مقام اور مرتبے سے گرجاتا ہے اور پھر اپنی خودی کے ساتھ ساتھ اپنے اردگرد دوسروں کے لیے بھی نقصان کا باعث بنتا ہے اور ان کی تباہی و بربادی کا سبب بن جاتا ہے۔

آج اگر ہم اپنے معاشرے پر نظر ڈالتے ہیں تو صاف نظر آتا ہے بحیثیت قوم، فرد ، عالم ، تاجر، استاذ، انجینئر ، ڈاکٹر اور حاکم ہم اپنی خودی اور خود شناسی کھوچکے ہیں۔ ہمارے تعلیمی ادارے، تجارت، صحت عامہ کے ادارے، معاشی و اقتصادی ایوان، مارکیٹیں اور بازار زبوں حالی اور تنزلی کا شکار ہیں جس کا واضح مطلب ہے کہ ہم من حیث القوم اور انفرادی سطح پر علامہ اقبال ؒ کے اس فلسفہ خودی جو قرآن کریم سے اخذ کیا گیا ہے اس کی اہمیت اور افادیت سے نا آشنا ہوچکے ہیں اورہم میں سے ہر ایک اپنے منصب کے تقاضوں سے ناآشنا ہے اور فرائض ادا نہیں کررہا۔

ہمیں حالات اور معاملات میں خودی کے تقاضوں کا ادارک نہیں اور نتیجتاً آج ہماری درس گاہیں چاہے وہ دینی ہوں یا پھرعصری ،فتنہ و فسادات کا سبب بنی ہوئی ہیں۔ جھوٹ، دھوکا، فریب، مکاری، دشنام طرازی اور ایک دوسرے پر تنقید معاشرے میں کینسر جیسا ناسور بن چکا ہے۔

آج ہمارے حکمران یوم اقبال پر قوم کے نام پیغامات میں اقبال کی فکری خودی ، اعلیٰ اقدار، انصاف پسندی اور تعلیمات و نظریات پر عمل پیرا ہونے کا درس تو دیتے ہیں مگر بذات خود اقبال کے فلسفہ خودی سے کوسوں دور ہیں۔ انہوں نے اپنی خودی کھودی ہے جس کے باعث ملک مختلف قسم کی پریشانیوں میں جکڑا ہے، معاشی صورتحال ہر دور میں تباہی کے دہانے پر  دکھائی دیتی ہے۔ ملک ہر گزرتے لمحے کے ساتھ بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے دبتا جارہا ہے، عوام کے حالات دن بدن ابتر ہوتے جارہے ہیں، چار سو مہنگائی، بے روزگاری، افراتفری، دہشت گردی اور بے حیائی نے ڈھیرے ڈالے ہوئے ہیں۔

حالانکہ ہمارے تمام مسائل کا حل اقبال کی فکر خودی جو قرآن مجید و حدیث مبارکہ سے اخذ ہے اس کے حصول میں ہے۔ بس ضرورت اس بات کی ہے کہ حالات و واقعات کا ادراک کرتے ہوئے ہم اپنی اسی خودی اور خود شناسی کو تلاش کریں جس میں رب بھی ہم سے راضی ہو اور دنیا میں بھی ہمیں اپنا مقام و مرتبہ ملے۔

آخر میں رابطہ ادبی العالمی اسلامی سے التماس ہے اور تجویز ہے کہ آپ نے یہ بہت اچھا کام کیا ہے اور اس کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے بلکہ میں یہ کہوں کہ آنے والے سال 2017ء کو فکر اقبال کے طور پر منایا جانا چاہئے اور آئندہ نسلوں کو فکر اقبال سے آگاہی دینی چاہئے۔

دوہزار سترہ کو فکر اقبال کے طور پر منایا جائے
مفتی ابوہريرہ محی الدین
چیئرمین مجلس صوت الاسلام پاکستان



آج اگر ہم اپنے معاشرے پر نظر ڈالتے ہیں تو صاف نظر آتا ہے بحیثیت قوم، فرد ، عالم ، تاجر، استاذ، انجینئر ، ڈاکٹر اور حاکم ہم اپنی خودی اور خود شناسی کھوچکے ہیں،ہمارے تعلیمی ادارے، تجارت، صحت عامہ کے ادارے، معاشی و اقتصادی ایوان، مارکیٹیں اور بازار زبوں حالی اور تنزلی کا شکار ہیں جس کا واضح مطلب ہے کہ ہم من حیث القوم اور انفرادی سطح پر علامہ اقبال ؒ کے اس فلسفہ خودی جو قرآن کریم سے اخذ کیا گیا ہے اس کی اہمیت اور افادیت سے نا آشنا ہوچکے ہیں اورہم میں سے ہر ایک اپنے منصب کے تقاضوں سے ناآشنا ہے اور فرائض ادا نہیں کررہا