علامہ بوصیریؒ فرماتے ہیں
لاطیب یعدل تربا ضم اعظمہ
کوئی مشک وخوشبو مدینہ طیبہ کی مٹی کا مقابلہ نہیں کرسکتی، اپنے دین وایمان کو بچانے کے لیے مسلمانوں کی یہ پہلی اسلامی ریاست تھی اور پھر تقریباً 1369سال کے بعد اسلام کے نام پر دوسری اسلامی ریاست وطن عزیز پاکستان کی صورت میں جلوہ نما ہوئی۔ مدینہ طیبہ کے قیام کے پیچھے دو قومی نظریہ اور کلمہ طیبہ ہی بنیاد تھا، وطن پاکستان کی اصل وبنیاد بھی دو قومی نظریہ اور کلمہ طیبہ تھا، وہاں مدینہ طیبہ کو جو عزت ومقام ملا، عقل وخرد کی دنیا میں اسے جو پذیرائی حاصل ہوئی، اس کا سبب بھی لازوال قربانیاں تھیں، مدینہ طیبہ کے نقشے میں حضرت بلالؓ وخبیبؓ پر ہونے والے ظلم وستم اور حضرت سمیہؓ کے خون سے رنگ بھرا گیا۔ مولانا عبدلاحمید دہلوی ؒلکھتے ہیں کہ یہ تو سب جانتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک جلیل القدر پیغمبر تھے اور یہ امر بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ آپ ﷺ نے ایک وسیع خطۂ ارض کو اپنی جدوجہد اور سرفروشانہ مساعی سے فرش خاک سے اٹھاکر عرش عزت پر پہنچادیا مگر یہ بھی کسی نے غور کیا کہ حضورﷺ کو اس کارنامۂ جلیل کی انجام دہی میں کتنے خون کے سمندروں کو عبور کرنا پڑا،کتنے مشکلات کے پہاڑوں کو اپنی جگہ سے ہٹاکر رکھ دیا، کتنی مضبوط چٹانوں کو پاش پاش کیا، کتنے مصائب اور حوصلہ سوز تکلیفوں سے آپ کو واسطہ پڑا…کتنی صحبتیںایسی گزرگئیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے صبحِ عید نہیں صبحِ قیامت سے کم نہ تھی۔(سیرت محبوب کائنات صفحہ 396)
کلمہ طیبہ کے نظریئے کی بنیاد پر قائم ہونے والی وہ پہلی اسلامی ریاست 14سو سال گزرنے کے باوجودابھی دشمنان اسلام کو ہضم نہ ہوئی تھی کہ خالق کائنات نے یہ کرم فرمایا کہ رمضان المبارک کی 27ویں شب 14اگست1947ء کوچوہدری رحمت علیؒ کے تخلیق کردہ ’’پاکستان‘‘ کے نام سے مملکت خدادادمعرض وجود میںآنے والی اسلام کے نام پر دوسری اسلامی فلاحی ریاست ٹھہری جو ہزاروں نہیں لاکھوں شہداء ومظلوموں کی قربانیوں کا ثمرہ ہے۔ علامہ اقبال، سردارعبدالرب نشتر، مولانا محمد علی جوہر ، لیاقت علی خان اور چوہدری رحمت علی ودیگرقائدین نے قائداعظم محمدعلی جناحؒ کی قیادت میں اکابرین امت مولانا شبیر احمد عثمانیؒ، مولانا ظفر احمد عثمانیؒ، مفتی شفیعؒ اور مولانا سلیمان ندویؒ کی دینی رہنمائی سے اور حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ کی بصیرت افروزمساعی جمیلہ میں وہ انتھک محنت اور جدوجہد کی کہ یہ وطن عزیز؎
بٹ کے رہے گا ہندوستان
بن کے رہے گا پاکستان
کے نعروں کے لبادے سے نکل کر عملی طور پر وجود میں آگیا، بانیان پاکستان خواہ وہ سیاسی رہنما ہوں یا مذہبی پیشوا ،اس وقت کے ہر مسلمان کے ذہن میں صرف ایک تصور تھا کہ اسلام کے احکامات کو نافذ کرنے کے لئے ایک خطۂ ارض ہونا چاہیے جسے آئیڈیل کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا جاسکے ۔ قائد اعظم محمد علی جناح کے خطابات اٹھاکر دیکھ لیں متعدد مقامات پر انہوں نے اسی عزم کا اظہار کیا کہ اسلامی تعلیمات کو عملاً نافذ کرنے کے لئے ایک وطن کی ضرورت ہے۔ آج سیکولر اور لبرل طبقات جدت پسندی کی آڑ میں ایک نئی منطق پیش کرتے ہیں کہ قائد اعظم نے پاکستان مسلمانوں کے نام پر بنایا اسلام کے نام پر نہیں لہٰذا مسلمان خواہ کیسے ہوں آئین وقانون خواہ کیسے ہوں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہیے۔اسلام بیزار اس طبقے کو جہاں اِدھر اُدھرکی بیساکھیاں دستیاب ہیں وہیں ملک میں چندناعاقبت اندیش حکمران بھی ان کے پشتیبان ہیں۔جیسے کہ سندھ حکومت اور پنجاب حکومت نے اسلام منافی اور خلاف آئین اقدامات کے ذریعے ملک کی اساس میں دراڑیں ڈالنے کی کوشش کی ہے،سیاستدانوں کا یہ طرز عمل اس بات کا ثبوت ہے ہمارے سیاستدان اسلامی اصولوں سے صریحاً ناواقف ہیں اور اس ناواقفیت کی بنا پر وہ ایسے قوانین اسمبلیوں سے منظور کروالیتے ہیں جو کسی بھی طرح سے اسلامی قوانین سے میل نہیںکھاتے اور اسی منفی طرز عمل کے نتیجے میں نہ صرف اقلتیںغیرمحفوظ ہوتی ہیں بلکہ معاشرے میںشدت پسندی بھی فروغ پاتی ہے لیکن جن کو اللہ تعالیٰ نے عقل سلیم عطا فرمائی ہے اور ملک کی اسلامی ونظریاتی سرحدات کے پاسبان ہیں وہ قائد اعظم کے بیان کردہ اقوال وخطابات سے اندازہ لگاسکتے ہیںکہ بانی پاکستان کا مقصد صرف ایک زمین کا ٹکڑا حاصل کرنا نہیں تھا بلکہ بارہا انہوں نے یہ اعلان کیا کہ وطن عزیز پاکستان اس لیے حاصل کرنا چاہتے ہیں کہ اس میں عملی طور پر دین اسلام کو نافذ کرکے اس کی برکات دنیا کو دکھائی جائیں۔ ایک آئیڈیل اور پریکٹس روم کے طور پر یہ ملک وجود میں آیامگر مقام افسوس ہے آج تک یہ اپنی اصل شناخت حاصل نہیں کرسکا، اب یہ ملک بانیان اسلام کی اُمنگوں کا ترجمان اس وقت بنے گا جب عملی طور پر یہاں اسلامی نظام کو نافذ کردیا جائے۔ اخوت ومحبت، رواداری وحسن سلوک کو فروغ دیا جائے، اسلامی نظام کے نتیجے میں مسلمان تو مسلمان غیر مسلم اقلیتوں کو بھی جان ومال کا تحفظ حاصل ہوجائے۔ کوئی بھی چیز اس وقت پائیدار رہ سکتی ہے جب وہ اپنے مقصد کے مطابق استعمال کی جائے۔ مقصد سے ہٹ کر استعمال ہونے والی چیز دیرپا ثابت نہیں ہوسکتی، وطن عزیز پاکستان کا مقصد اور مطلب لاالہ الا اللہ ہے جب تک عملاً یہ مقصد حاصل نہ ہوگا ملک میں استحکام وخوشحالی کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکتا۔
ہمارے بعض سیاسی زعماء اور دانشور حضرات دینی مدارس اور علماء کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے جدت پسندی کا مخالف قرار دیتے ہیں۔لیکن اصل میں ایسا نہیں ہے، ہمارا دین ترقی کا مخالف نہیں تو پھر علماء کی کیا ہمت کہ وہ ایسی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنیں جسے اسلام کا وجود سکڑنے اور عالمی دنیا میں متاثر ہونے کا امکان ہو۔بلکہ ہمارادین تو ہروہ کام جو ملکی ترقی کا سبب ہو اسے نہ صرف جائز کہتا ہے بلکہ اسے فرض کفایہ قرار دیتا ہے۔ محقق دوراں حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ لکھتے ہیں:۔
کتاب وسنت اور شریعت کسی صنعتی اور حرفتی ترقی کو منع نہیں کرتی بلکہ ہر اس صنعت وحرفت کو جس سے ملک کو ترقی ہو فرض علی الکفایہ قرار دیتی ہے جیسا کہ تمام فقہاء کرام کا اجماع ہے۔ (سیرت المصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ج 31402)
چنانچہ ملک میں ترقیاتی کاموں کی اسلام حوصلہ افزائی کرتا ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ اس بات کا بھی پابند بناتا ہے کہ بے حیائی وفحاشی یہ کبھی بھی ترقی کے لیے نہیں ہوا کرتی اس سے ہمیشہ تنزلی اور بربادی جنم لیتی ہے، یورپ کا معاشرہ کیوں برباد ہوا؟ مادی قوت واسباب سب ان کے پاس ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ مادر پدر آزادی نے، بے حیائی وفحاشی نے ان کے معاشرے کو تباہ کردیا ہے۔ آج حالت یہ ہے کہ ہر جمعے کے روز اسلامک سینٹرز کو باقاعدہ خطوط بھیجے جاتے ہیں کہ وہ خطابات جمعہ میں اسلامی نظام اور خاندانی نظام پر گفتگو فرمائیں۔اندازہ لگائیں کہ وہ معاشرے جو ترقی کا استعارہ سمجھے جاتے ہیں وہاں خاندانی نظام کس قدر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اگر خدانخواستہ ایسی آزادی اور حقوق وطن عزیز کے معاشرے میں رائج ہوجائیں تو نتائج کا سوچ کرہی انسان کے رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔
وطن عزیزمیں اقلیت کو ان کا حق دینا ریاست کی اولین ذمے داری ہے اور کوئی بھی باشعور انسان اپنے معاشرے میں رہنے والی اقلیتوں کو ضرردینا پسند نہیں کرتا،نہ کسی کواپنے رسم ورواج اور مذہب کو زبردستی قبول کرنے پر مجبور کرتاہے۔سیاسی قائدین اقلیتوں سے ملیں ،ان کی مذہبی تقریبات میں شرکت کریں۔ان کے مسائل حل کریں ،ان کی دلجوئی کریں، اس سے بہتر اور کیا ہوسکتا ہے مگر اقلیتوں کے تحفظ کا بہانہ بناکر دین اسلام کی حدود پھلانگنا افسوسناک ہے۔قرآن مجید فرقان حمید کی سورۃ المائدہ کی آیت نمبر3میں اللہ رب العزت کے ارشاد گرامی کا مفہوم ہے۔’’آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کردیااور تمہارے لئے اسلام کو دین کے طور پر (ہمیشہ کے لئے) پسند کرلیا‘‘۔اسی طرح حضور نبی کریم ،خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آخری خطبہ حجتہ الوداع میں بھی دین کامل ہونے کا اعلان فرمادیاتھا۔قرآن مجید کی کسی آیت اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کسی حدیث میں اسلام قبول کرنے کے لئے عمرکی کوئی حد مقرر نہیں،اور نہ ہی عورت کے لئے گھریلوناچاقی پر مرد (شوہر) کو گھر سے نکالنے کا کوئی حکم ملتا ہے۔لہٰذا مسلمان حکمرانوں کو اور سیاسی قائدین کو اپنے سیاسی فائدے کے لئے دین کی اساس میں تبدیلی اوراس کی روح کے منافی ترمیم و تشریح کا اختیار حاصل نہیں۔ایسے قوانین کا نفاذ حکمرانوں کی دینی مسائل سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے جو معاشرے میں شدت پسندی میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔تادم تحریر یہ اطلاع ہے کہ سندھ حکومت قبول اسلام کے لئے مقررکردہ عمر پر نظر ثانی کے لئے آمادہ ہے جو کہ اس امید کے ساتھ باعث اطمینان ہے کہ آئندہ غیر اسلامی وغیر آئینی قانون سازی سے گریز کیا جائے گا۔ بقیہ صفحہ نمبر46 پر ملاحظہ کیجئے
سمجھ سے بالاتر ہے کہ جن لوگوں کو ہم عوام منتخب کرکے مقننہ کے ایوانوں میں بھیجتے ہیں وہ ایسے قوانین بناتے ہی کیوں ہیں جو دین کی اساس اور آئین پاکستان کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہوتے ہیں۔پہلے ان قوانین پر عملدرآمد توکرلیں جو 1972ء کے متفقہ آئین میں شامل ہیں۔پھر اگر کوئی کمی بیشی رہتی ہے تو قانون سازی سمجھ میں آتی ہے۔
علماء اسلام کا مطالبہ بھی یہی ہے کہ یہ اسلامی ریاست وطن عزیز پاکستان جس مقصد کے لیے بنایا گیا اس مقصد کو پورا کیا جائے۔ فرسودہ قوانین کے بجائے قرآن وسنت کو اپنا آئیڈیل بنایا جائے، صرف ہندوستان سے آزادی حاصل کرلینا اتنی بڑی کامیابی نہیں ہے،کامیابی وہ ہوگی جس کے لئے ہمارے آبائو اجداد نے قربانیاں دیں۔کیا ہم نے کبھی غور کیا کہ آج پاکستان آزاد ہوئے 70سال مکمل ہونے کو ہیں مگر ہم صدیوں پرانے آقاؤں کے قونین میں جکڑے ہیں۔کیوں ! کیوں کہ ہمارے نااہل حکمرانوں نے وقت اور ضرورت کے مطابق قوانین بنائے اور نہ ایک اسلامی فلاحی ریاست کے لئے ذمے داریاں پوری کیں۔کئی غیر اسلامی ممالک ایسے ہیں جو عمرلاز سے استفادہ کررہے ہیں لیکن ہم آج بھی ان قوانیں کے فیض سے محروم ہیں۔
کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ ؎
وطن تو آزاد ہوچکا ہے دل ودماغ ہیں غلام اب بھی
شراب غفلت کو پی چکے ہیں یہاں کے ہر خاص وعام اب بھی
غلط ہے ساقی تیرا یہ نعرہ نظام محفل بدل چکا ہے
وہی شکستہ سی بوتلیں ہیں وہی کہنہ سا جام اب بھی
میرے میخانے کا عجب انداز ہے اے لوگو!ْ
کسی پر جام شراب جائز کسی پہ پانی حرام اب بھی
آج الحمدللہ ہم مادی اور مالی تمام وسائل سے لیس ہیں، ایٹمی قوت کی حیثیت سے دنیا میں ہماری پہچان ہے، ہماری زمین بڑی زرخیز ہے ،تمام ضروریات واسباب میسر ہیں کمی صرف اس مقصد کی ہے جس کی خاطر یہ ملک وجود میں آیا جس کی خاطر لاکھوں قربانیوں کی تاریخ رقم ہوئی جس کے بارے میں کہا گیا؎
ترجمان ماضی شان حال
جان استقبال سایۂ خدا ذوالجلال
یہ ملک ان صفات سے تب تک مزین رہے گا جب تک یہ سایۂ خدائے ذوالجلال میں رہے گا۔