© Copyright 2017 Saut-ul-Islam Pakistan All Rights Reserved
+ 92 21 35363159 - 35867580 Fax: + 92 21 35873324
سال 2016ء پاکستان سمیت دنیا بھر کے لئے غم و پریشانی کا سال رہا۔اس سال دنیا کے مختلف حصوں میں کئی بڑی بڑی تبدیلیاں رونما ہوئیں،عرب بہار کے بعد یہ سال گزشتہ آدھی دہائی میںشام اور سوادودہائیوں میں کشمیر کے لئے انتہائی بھاری ثابت ہوا۔جہاں انسانیت سوز مظالم کے مناظر دیکھنے میں آئے جن کے بارے میں سوچ کر ہی دل دہل جاتاہے۔بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں اپنی جنونیت کا وہ کھیل کھیلا کہ انسانیت شرما گئی۔تحریک آزادی کے دوران سال گزشتہ اس نے جس طرح کا اسلحہ(پیلٹ گن) استعمال کیا اس سے کشمیری بچے،بوڑھے،خواتین اور مرد نہ صرف شہید وزخمی ہوئے بلکہ سیکڑوں کی بینائی بھی چلی گئی،ان مظالم کے باوجود عالمی برادری ،اقوام متحدہ اوراسلامی تعاون تنظیم کا کردارافسوسناک حد تک شرمناک رہا۔پاکستان نے اپنے نہتے کشمیری بھائیوں پر مظالم کے خلاف سفارتی مشنز کو متحرک کیااورپہلی بار پوری قوت کے ساتھ دنیا کے سامنے بھارتی مظالم اور پاکستان کے اندر اس کی دہشت گردی کے ثبوت رکھے مگران مقتدر قوتوں نے کشمیریوں کا حق خود ارادیت کیا تسلیم کرناتھا اُلٹا بھارتی واویلے پر پاکستانی مشنز کو ہی لتاڑا جس کا منہ توڑ جواب دینے کی بجائے ہمارے مشنز اپنا سامنہ لے کر واپس آگئے اور اپنے ہی لوگوں پر برسنا شروع کردیانتیجتاً آزادی کشمیر کی تازہ لہر جس کو برہان مظفروانی نے اپنے خون سے نیا جوش وولولہ دیاتھااس کے درجہ حرارت میں قدرے فرق پڑا لیکن یہ ماند نہیں پڑی۔اوراب 5فروری کو یوم یکجہتی کشمیر کے تحت اس میں نئی جان پڑجائے گی،تحریک آزادی کو منطقی انجام تک پہنچانے اور ہندوستان سے چھٹکارا دلانے کے لئے آج کا وقت شاید گزشتہ وقتوں سے زیادہ بہتراور مناسب ہے۔کیونکہ آج کی دنیا اگر چہ کشمیریوں کے لئے آواز نہیں اٹھاتی مگر ان کی حق خودارادیت کی تحریک سے اچھی طرح واقف ضرور ہوچکی ہے جبکہ دنیا کے درمیان تنازعات کے حل کے لئے قائم عالمی ادارہ اقوام متحدہ بھی نئے امیر کی اقتداء میں صف بندی کرچکا ہے۔جس کا عزم ہے کہ وہ دنیا میں جاری صدیوں سے حل طلب مسائل کونتیجہ خیز بنانے میں کسی بھی قسم کے دباؤ کو قبول نہیں کریں گے۔ادھرسپر پاور وائٹ ہاؤس میں نیاسفید فام (ڈونلڈٹرمپ)مگر ایک متنازع صدر عہدہ صدارت پر براجمان ہوچکاہے۔جس نے انتخابی مہم کے دوران مسلم مخالف بیانات سے ایک دنیا کوفکر اور پریشانی میں مبتلا کردیا تھا یہی وجہ تھی کہ خود امریکا کے اندر بھی ٹرمپ کے خلاف عوام سڑکوں پر نکل پڑے اور یورپ ومغرب کے دیگر ملکوں میں جن کے امریکا سے مفادات وابستہ تھے مخالفین کی صف میں کھڑے نظرآئے۔تاہم اسلامی ممالک میں ردعمل بہت مختلف رہااور کئی نے ٹرمپ کے متعصبانہ بیانات اور اسلام مخالف رویوں کو سیاسی مہم کا حصہ قرار دیا۔
جناب ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی تقریب حلف برداری کے بعد جو خطاب کیا وہ بڑا معنی خیز اور فکرانگیز ہے جس کا تقریباً تمام ہی اسلامی ممالک میں حکمرانوں ،سیاسی رہنماؤں اور عوام نے بھرپور طریقے سے نوٹس لیا اور اس کی مذمت کی ۔یہ ایک خوش آئند امرہے مگر ٹرمپ کی تقریر جو خالصتاً امریکی مفادات کے گرد گھومتی ہے اس میں اسلامی شدت پسندی کے خاتمے کا دعویٰ یا امریکیوں سے وعدہ خود ایک ناقابل عمل پہلو لگتاہے۔تاہم اگر ٹرمپ اسلامی
ممالک سے شدت پسندی ختم کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو یہ ان کا اسلامی دنیا پر ایک عظیم احسان ہوگا۔پوری دنیا نہ جانے یا نہ مانے مگر اس حقیقت کو ہر ذی شعور انسان سمجھتا اور تسلیم کرتاہے کہ شدت پسندی اور دہشت گردی کا ہمارے دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔اسلام امن وآشتی کا ایک ایسا عظیم وفقید المثال مذہب ہے جس میں انسان تو انسان جانوروں اور چرند پرند حتیٰ کہ ہر ذی روح چیز کے حقوق کا تعین کیا جاچکاہے۔ لہٰذا امریکی صدر کو اپنے وعدے کے مطابق اس شدت پسندی اور دہشت گردی کے عفریت کو ختم کرنے میں ذرہ برابر بھی تحمل کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے،اور یقین ہے اسلامی ممالک اور وہاں کی مذہبی وسیاسی قوتیں ٹرمپ منصوبے میں ان کے شانہ بشانہ چلیں گی۔لیکن یہ بات امریکی صدر کے پیش نظر رہنی چاہئے ٹہنیاں کاٹنے سے کانٹے دار درخت ختم نہیں ہوتے بلکہ ان کے ارد گرد کئی خودرو پودے بھی جنم لے لیتے ہیں لہٰذا اس درخت کو جڑسے اکھاڑنا ہوگا جس کی وجہ سے اس انسانی دنیا میں مشکلات ومسائل کے انبار لگے ہوئے ہیں۔
اس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ دہشت گردی ایک ناسور ہے اور گزشتہ دودہائیوں میں جس طرح اس ناسور نے پاکستان کونقصان پہنچایا اور اس کی بنیادوں کو کھوکھلا کیا کسی دوسرے ملک کو اس طرح برباد نہیں کیا۔اس جنگ میں پاکستان نے ناقابل تلافی نقصان اٹھایا حالانکہ یہ جنگ صرف پاکستان کی نہیں بلکہ پاکستان دیگر دنیا کو محفوظ بنانے کے لئے دہشت گردی کی اس بھٹی میں جل رہاہے۔عالمی برادری بالخصوص امریکاپاکستان کی ان قربانیوں سے اچھی طرح واقف ہے اور کئی مواقع پر ان قربانیوں کو تسلیم بھی کرچکا ہے لیکن اس کے باوجود عدم اعتماد کی فضا انتہائی حوصلہ شکن اور مایوس کن ہے۔کئی حلقوں کی جانب سے یہ بات بھی سامنے آرہی ہے کہ ڈونلڈٹرمپ اسلامی شدت پسندی اور دہشت گردی کو ختم کرنے کا دعویٰ تو کرتے ہیں مگر انہیں خود یورپ اور مغرب میں ہونے والی شدت پسندی اور مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے سلوک کو بھی مدنظر رکھنا چاہئے اس میں کوئی دورائے نہیں کہ کسی بھی معاشرے میں دہشت گردی ، شدت پسندی اورانتہاپسندی خود بخود پیدا نہیں ہوتی اس کی کچھ بنیادی وجوہ بھی ہوتی ہیں،اور اسلامی ممالک میں پنپنے والی شدت پسندی وانتہاپسندی کا یورپی ومغربی رویوں سے بہت گہرا تعلق ہے،مختلف ممالک میں جنگ وجدل اور ہولناک بمباری اور اس کے نتیجے میں ہونے والی اموات ونقصانات یورپ اور مغرب کے خلاف غم وغصے کا سبب بنتے ہیں۔جب تک امریکا اور دیگر اتحادی ممالک اپنے ان رویوں میں بہتری اور جنگ وجدل کے ماحول میں تبدیلی نہیں لاتے اس وقت تک دنیا میں امن کا قیام ایک خواب کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔اسی طرح شام،فلسطین،عراق،افغانستان،مقبوضہ جموں وکشمیر،برمااور دیگر ممالک میں جاری علیحدگی کی تحریکیں اور جنگیں بھی عالمی امن کے لئے ایک خطرناک اور ہولناک حقیقت ہیں جن سے فرار اور چشم پوشی امن عالم کے لئے رستا ہو ا زخم ہے۔سال گزشتہ کے آخری ماہ میں شام کے شہر حلب میں جس طرح بشارالاسد کی حکومت نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ بمباری کرکے نہتے اور بے گناہ شہریوں ،بالخصوص معصوم بچوں کو موت کے گھاٹ اتار ا یہ ناقابل فراموش اورافسوسناک واقعہ ہے جس نے انسانی درندگی کی بدترین مثال قائم کی۔جبکہ فلسطین میں ارض مقدس کی بے حرمتی اور نہتے مسلم شہریوں پر مظالم بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں،افغانستان،عراق اور برما کی صورتحال بھی اشتعال انگیزی کی ایک بنیادی وجہ ہے۔بہتر ہوگا ڈونلڈ ٹرمپ اور اقوام متحدہ کے نئے سربراہ ان خطوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو روکنے کے لئے غیر معمول اقدامات کریں اور عوام کو ان کی مرضی اور آزادی کے ساتھ جینے کا حق دیں تو شاید نئے امریکی صدر کا دنیا کو محفوظ اور امریکا کو مضبوط بنانے کاخواب شرمندہ تعبیر ہوجائے۔
تعلیمی واصلاحی سلسلے میں میں اکثر غیر ملکی دوروں پر ہوتاہوں میرا وہاںمختلف الخیال لوگوں سے بھی اس حوالے سے تبادلہ خیال ہوتا ہے ہر شخص دہشت گردی اور شدت پسندی سے تنگ ہے چاہے وہ کسی بھی صورت میں ،کسی بھی معاشرے اور رویے میں ہو۔اور سب لوگ ایک نکتے پر متفق نظر آتے ہیں کہ اس عفریت سے جان چھڑانے کے لئے عدل کے ساتھ انصاف کرنا ہوگا ۔حق دار کو اس کا حق دیناہوگا۔شدت پسندی ودہشت گردی کی بنیادی وجوہ کو ختم کرنا ہوگا۔بھوک وافلاس کے خلاف جہاد کرنا ہوگا۔سب سے بڑھ کر ایک دوسرے کو برداشت کرنے اور سننے کا حوصلہ پیدا کرنا ہوگا۔مدلل اور جامع گفتگو کرکے مخالف کو مطمئن کرنا ہوگا۔ایک معتدل معاشرے کے قیام کے لئے عمرلاز کے تحت قوانین تشکیل دیناہوں گے۔
اسلامی شدت پسندی کے خاتمے کا نیا عزم
مفتی ابوہريرہ محی الدین
چیئرمین مجلس صوت الاسلام پاکستان