info@majlissautulislam.com
© Copyright 2017 Saut-ul-Islam Pakistan All Rights Reserved
Email:
01:30
sautulislampk@gmail.com
+ 92 21 35363159 - 35867580  Fax: + 92 21 35873324
05:15
08:15
Example
 یوں تو برصغیر پاک وہند میں اسلام اسی وقت داخل ہوگیا تھا اور پاکستان بھی قائم ہوگیا تھا جب اس سرزمین پر پہلے مسلمان کا وجود رونما ہوا لیکن چونکہ دین اسلام دائمی اور عالمگیر مذہب ہے لہٰذا اس کے ماننے والوں کو مختلف النوع اقسام کے مسائل، مصائب اور دلخراش تکالیف کا سامنا کرنا پڑا، خود جناب نبی آخر الزماں رحمت اللعالمین حضرت محمد مصطفیﷺ نے جن تکالیف اور مصائب کا سامنا کیا وہ سماوی ادیان کے کسی دوسرے پیغمبر کو پیش نہیں آئے۔

 پھر جوں جوں دین اسلام پھیلتا گیا مسلمانوں کی آزمائشیں بھی جاری رہیں اور دنیا امن کا گہوارہ بنتی گئی پھر ایک وقت وہ بھی آیا جب شیر اور بکری ایک ہی دریا پر پیاس بجھانے لگے یہ مسلمانوں کی تاریخ کا وہ سنہری دور تھا جس نے دنیا کو ایک نیا دستور، رہن سہن اور طور طریقے بتائے اور زندگی گزارنے کے باضابطہ اصول وقوانین وضع کئے گئے جن سے آج غیر مسلم تو استفادہ کررہے ہیں مگر مسلمان ممالک خصوصاً پاکستان کے ہردور کے حکمرانوں کو ان سے فیض یاب ہونے کی توفیق نہیں ملی اور نتیجتاً آج 77سال گزرنے کے بعد بھی ہم ایک اور ’’یوم قرارداد پاکستان‘‘ بم دھماکوں میں لاشیں اٹھاتے ہوئے گزار رہے ہیں۔

میری خواہش ہوتی ہے ایام پاکستان خوشی سے منائوں اور اپنے چاہنے والوں کو بھی شاداں دیکھوں انہیں کچھ امید دلائوں کیونکہ موجودہ حالات میں نوجوانوں کے لیے خوشی اور فرحت کے لمحات ویسے بھی بہت کم ہیں اور نوجوانوں میں امید اور توقعات جگانا نہایت ضروری ہے تاکہ ہمارے نوجوان مایوسی کا شکار نہ ہوں اور نہ ہی شدت پسندی اور انتہا پسندی کی طرف مائل ہوں۔

مگر بدنصیبی یہ ہے کہ جب بھی کسی ایسے موقع پر قلم اٹھاتا ہوں چشم تصور میں تڑپتے لاشے روح کو تڑپا کر رکھ دیتے ہیں اور قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے یہ الفاظ کانوں میں گونجتے محسوس ہوتے ہیں کہ ’’ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے عوام اپنی روحانی، ثقافتی، سیاسی اور معاشی زندگی کی نشوونما ان خطوط پر کریں جو ہمارے لحاظ سے بہترین ہوں، ہمارے تصورات سے ہم آہنگ ہوں اور ہمارے عوام کی فکری صلاحیتوں سے مطابقت رکھتے ہوں‘‘ یہ اقتباس بانی پاکستان کے 22مارچ 1940ء کے طویل خطاب سے ہے۔

آج کا یوم پاکستان اگر ہم اسلامی طور طریقوں، حضور نبی کریم ﷺ کے رہنما اصولوں، خلفاء راشدین کے دور حکمرانی اور مقصد قیام پاکستان کے تناظر میں دیکھیں تو یہ تصویر بم دھماکوں میں اُڑتے چیتھڑوں سے بھی زیادہ خوفناک نظر آتی ہے۔ بلاشبہ مشکلات ومصائب ہمارے ورثے میں ہیں اور ان سے چھٹکارا پانے کے لئے 7دہائیوں سے ہم کوشاں ہیں، ان کوششوں میں جتنی قربانیاں پاکستانی عوام نے دی ہیں کسی اور آزاد ہونے والے ملک کے عوام نے نہیں دیں۔ آج لاکھوں جانیں قربان کرنے اور اربوں روپے کے معاشی نقصان کے باوجود بھی ہم اگر محفوظ نہیں ہیں تو یہ سوچنے اور غور کرنے کا مقام ہے۔

 ہمیں سوچنا ہوگا کہ ان 7دہائیوں میں کس جگہ کس شعبے میں خرابی پیدا ہوئی اور اس کو کس طرح سے ٹھیک کرنے کی کوشش کی گئی؟۔ ہمیں غور کرنا ہوگا کہ وہ کون سے عوامل وعناصر ہیں جو ہماری امن وسلامتی کی زندگی میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں اور کیوں بنے ہوئے ہیں؟ ہمیں وہ خامیاں تلاش کرنا پڑیں گی جو ہماری داخلی اور خارجہ پالیسی میں شامل حال رہیں یا ابھی تک ایک کمبل کی طرح ہم سے لپٹی ہوئی ہیں۔ طاقت اور بمباری کے زور پر ہم نے ہر جگہ امن وسلامتی کو تلاش کرلیا۔ اپنے گھروں اور اپنی آنے والی نسلوں کو محفوظ بنانے کے لئے نہ صرف اپنے گرد حصار قائم کررہے ہیں بلکہ دوسروں کے کندھے بھی استعمال کررہے ہیں۔ خود کو بچانے اور پوری دنیا کو امن وخوشحالی دینے کے لئے آگ اور خون کے دریا عبور کررہے ہیں لیکن نہ خود کو بچاپارہے ہیں اور نہ دنیا کی نظروں میں اپنا مقام بلند کرپارہے ہیں۔آخر کیوں؟؟؟

مجھے خوشی ہے کہ ملکی حالات روز بروز بہتری کی طرف جارہے ہیں اور ہمارے عسکری ادارے نہایت توجہ اور تندہی سے آپریشن میں مصروف ہیں یہی وجہ ہے کہ سال 2016ء گزشتہ ڈیڑھ دہائی کاسب سے پرامن سال ثابت ہوا جس میں13جنوری سے 12نومبرتک دہشت گردی کے چھوٹے بڑے صرف25واقعات رونما ہوئے اور ان میں صرف450کے لگ بھگ افراد شہیدہوئے ۔25واقعات میں جانی نقصان میں کمی ہمارے سکیورٹی اداروں اورحکومت کی جانب سے کئے گئے اقدامات کی ایک حوصلہ افزا کارکردگی ہے۔ان واقعات میں شہید ہونے والوں میں درجن بھر سے زائد سکیورٹی اہلکار بھی شامل ہیں۔تاہم پرعزم اور بہادر قوم کے حوصلے بلندرہے اور روشن پاکستان کی امیدیں مستحکم ہوئیں۔2017ء کے آغاز سے ملک میں تعمیروترقی اور خوشحالی کے سفر میں تیزی دیکھنے میں آرہی ہے۔بیرون ملک سے سرمایہ کار مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کے لئے رابطوں میں ہیں اور لاہور میں وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف سے ملکی وبین الاقوامی سرمایہ کاری کے 35بڑے اداروں کے چیف ایگزیکٹوز نے ملاقات کرکے پاکستان میں امن وامان کی بہترہوتی صورت حال پر نہ صرف اطمینان کا اظہار کیا بلکہ ملک میں سرمایہ کاری کی خواہش کا بھی اظہارکیاہے۔ پاکستان سپر لیگ (کرکٹ ٹورنامنٹ) کے دوسرے ایڈیشن کا فائنل بھی لاہور میں منعقد کرنے کی تیاریاں ہیں،غیرملکی کھلاڑیوں نے ہنسی خوشی پاکستان میں کھیلنے پر آمادگی ظاہر کی یہ بھی امن وامان کی ایک واضح دلیل تھی مگر دشمن قوتیں نہیں چاہتیں کہ پاکستان میں صورتحال اطمینان بخش ہو اور عالمی سطح پر اس کی ساکھ بہتر سے بہتر ہو اور تعلقات کو فروغ ملے یہی وجہ ہے انہوں نے 13فروری کے بعد صرف 5روز کے اندر 8بم دھماکے کرکے دنیا کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ پاکستان ابھی بھی غیر محفوظ ہے۔ ہمارے محافظ اداروںنے دہشت گردی کی حالیہ لہر میں ملوث عناصر کا جس پھرتی سے سراغ لگایااور ان کی سرکوبی کے لئے اقدامات اٹھائے ہیں وہ بلاشبہ اطمینان بخش اور قابل ستائش ہیںاور ان کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔

یہاں ایک افسوسناک پہلو یہ ضرور ہے کہ عوام اب تک دہشت گردی اور تخریب کاری کے خلاف سنجیدگی سے متحد نہیں ہو پارہی اور جس کا مظاہرہ لاہور میں دیکھنے میں آیا کہ وزارت داخلہ کی جانب سے دہشت گردی کی وارننگ جاری ہونے کے باوجود ایک احتجاج منعقد کیا گیا اور جس کے نتیجے میں دہشت گردوں کو یہ موقع میسر ہوا کہ انہوں نے ایک مرتبہ پھر بعض لوگوں کو بے رحمی سے نشانہ بنایا اور اسی خودکش حملے میں ہمارے قابل ترین افسران نے بھی جام شہادت نوش کیا یہ حالات نہایت ہی افسوسناک ہیں اور اس سے معلوم ہوتاہے کہ دہشت گرد سافٹ ٹارگٹ کی تلاش میں ہیں اور وہ ہرحال میں ہماری صنعتی اور معاشی ترقی کا سفر روکنا چاہتے ہیں، یہ نازک حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ تمام ادارے ایمرجنسی کی حالت میں اپنے فرائض سرانجام دیں اور کہیں بھی دہشت گردوں کو موقع نہ دیا جائے کہ وہ معصوم انسانوں پر حملہ آور ہوں جیسے کہ سندھ حکومت کی جانب سے موثر سکیورٹی اقدامات نہ ہونے کے باعث تیسرے دن شام کو لعل شہبازقلندر کے مزار پر بمبار نے کارروائی ڈال دی۔یہاں بڑے پیمانے پر اموات واقع ہوئیں اور یہ سانحہ اپنے پیچھے کئی سوالات بھی چھوڑ گیا۔اور سب سے بڑاسوال یہ کھڑا ہوا کہ وزیراعلیٰ مرادعلی شاہ کے حلقے میں ایک بھی فعال اسپتال نہیں جہاں فوری طور پر زخمیوں کو طبی امداد دی جاسکتی۔میرے لئے یہ ایک اچنبھے کی بات ہے کہ ایسے ملک میں جہاں ہم کئی دہائیوں سے دہشت گرد ی جیسی کارروائیوں کا شکار ہیں وہاں کے بڑے اور معروف شہروں میں طبی سہولیات کا اس قدر فقدان ہے، زخمیوں کی مرہم پٹی کی سہولیات بھی دستیاب نہیں ہیں۔اس کے ساتھ ایک اور چیز کی بھی شدید کمی محسوس کی گئی کہ کسی بھی صوبائی حکومت کے پاس ایسے واقعات میں فوری طبی امداد کے لئے زخمیوں کو قریبی اسپتالوں میں پہنچانے کے لئے ایئرایمبولینس کا انتظام نہیں۔غضب خداکا ۔۔۔آئے روز حکمرانوں ،سیاست دانوں اور وزرا ئ، مشیران اور انتظامی افسران کی اربوں روپے عجب کرپشن کی غضب کہانیاں سامنے آتی رہتی ہیں کیا یہ لوگ اقتدار میں صرف لوٹ مار اور پیسہ بنانے کے لئے آتے ہیں۔ان کے پیش نظر غریب عوام جو انہیں ووٹ دیتی ہے ان بے حس وبے ضمیروں کے لئے اس کی جان ومال کی حفاظت اور ان کو طبی سہولیات کی فراہمی کوئی معنی نہیں رکھتی۔یہ المیہ ہے اور یہ المیہ بڑی سے بڑی دہشت گردی کی واردات سے بھی بڑی حکومتی دہشت گردی ہے۔

تادم تحریر اطلاعات ہیں کہ سندھ حکومت صوبے سے افغان مہاجرین کو نکال باہر کرنے کے ساتھ ساتھ دینی مدارس کی مشقیں کسنے کے بھی عملی اقدامات پر غور کررہی ہے۔میں بذات خود اس کے حق میںہوں کہ وطن عزیزکی سالمیت اور دین اسلام کی بدنامی کا باعث بننے والے عناصر کی سرکوبی کے لئے آخری حد تک کارروائیاں کی جائیں یہ عناصر کسی بھی طور رعایت کے مستحق نہیں جو بے گناہ انسانوں کے خون کی ہولی کھیلنے میں مصروف ہیں اور دشمن قوتوں کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں لیکن بلاتفریق یا بلاامتیاز کی آڑ میںایسے دینی ادارے یا شخصیات کے خلاف کارروائی سے گریز کیا جائے جو بذات خود دہشت گردی کا شکارہوں یا دہشت گردوں کے نشانے پرہوں۔بارہا یہ عرض کرچکا ہوں اور کئی رپورٹیں بھی سامنے ہیں کہ سارے کے سارے مدارس نہ تودہشت گردی میں ملوث ہیں اور نہ ہی اس کے ایکسپورٹر یاسپورٹر ہیں۔اگر کوئی دہشت گرد کسی مدرسے سے فارغ ہونے کے بعد کسی ملک دشمن کارروائی کا حصہ بنتا ہے تو یہ بھی اس کا ذاتی فعل ہے نہ کہ مدرسے کی تعلیم۔لہٰذا حکومت وقت کو دینی اداروں کے خلاف کوئی بھی کارروائی کرنے سے پہلے اچھی طرح جانچ پڑتال کرلینی چاہئے اور متعلقہ وفاق کو اس بارے میں آگاہی فراہم کرنا چاہئے تاکہ کسی قسم کے شکوک وشبہات نہ رہیں۔افغان مہاجرین میں بھی سارے ہی مشکوک نہیں ہوں گے اکثریت پاکستان سے محبت کرنے والوں کی ہے۔اگر چند افراد اس گھناؤنے عمل میں ملوث ہیں تو ان کی سرکوبی کی جانی چاہئے انہیں بیدخل کرنے کی بجائے قرار واقعی سزا دی جانی چاہئے ۔حالات محاذ آرائی کے نہیں دلوں کو جوڑنے کے متقاضی ہیں۔عوام کے ذریعے ہی عوام کی صفوں میں موجود ملک دشمن عناصر کو نکلوانے کے اقدامات کئے جائیں۔

ہماری فکری صلاحیتیں اور دہشت گردی
مفتی ابوہريرہ محی الدین
چیئرمین مجلس صوت الاسلام پاکستان