مذہب کے لغوی معنی ’’راستہ‘‘ ہیں۔ یہ عربی لفظ ’’ذ۔ھ۔ب‘‘ سے مشتق ہے جس کے معنی جانا، چلنا، گزرنا یا مرنا ہیں۔ جیسے الامر: ختم ہونا، علی الشئی بھول جانا۔ مذاہب دو قسم کے ہوتے ہیں (1) الہامی (2) غیر الہامی۔ الہامی مذاہب میں اسلام، یہودیت اور عیسائیت جبکہ غیر الہامی مذاہب میں بدھ مت، جین مت، ہندومت اور سکھ مت قابل ذکر ہیں۔ ہندومت کے حوالے سے کئی کتابوں اور حوالوں میں بتایا جاتا ہے کہ یہ کوئی باقاعدہ مذہب نہیں بلکہ یہ ’’سناتن دھرم‘‘ کے بطن سے ہے۔ اس کے زیادہ پیروکار ہندوستان (بھارت) اور نیپال میں ہیں۔ ان کے علاوہ چھوٹے چھوٹے مذہب (فرقے) کل ملاکر تقریباً ایک درجن سے زائد ہیں۔
اس وقت پیروکاروں کی تعداد کے لحاظ سے عیسائیت دنیا کا سب سے بڑا مذاہب تسلیم کیا جاتا ہے جس کے ماننے والوں کی تعداد 2012ء کے اعداد وشمار کے مطابق 2ارب 2کروڑ یعنی دنیا کی کل آبادی کا تقریباً31.5 فیصد ہے۔ جبکہ اسلام دوسرا بڑا مذہب مانا جاتا ہے جس کے پیروکاروں کی تعداد ایک ارب 65کروڑ سے زائد بتائی گئی ہے جو دنیا کی کل آبادی کا تقریباً 23.2فیصد بنتا ہے۔
ان عالمی اعداد وشمار کے برعکس جاری صدی میں اسلام ہی دنیا کا واحد مذہب ہے جو تیزی سے پھیل رہا ہے ۔پیوریسرچ سینٹر کی ایک تازہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ 5سالوں کے دوران صرف امریکا ویورپ میں 4لاکھ افراد حلقہ بگوش اسلام ہوچکے ہیں جبکہ دنیا کے خوشحال ترین ملک سوئٹزر لینڈ میں 37ہزار خواتین مشرف بہ اسلام ہوئیں۔ اسپین میں بھی ایک لاکھ سے زائد لوگ امن وسلامتی والے دین کی چھتر چھائوں میں داخل ہوئے۔ آسٹریا میں نائن الیون کے بعد 36ہزار عیسائی مسلمان ہوئے جبکہ امریکا اور فرانس وہ دو ملک ہیں جہاں عیسائیت کے بعد اسلام دوسرا بڑا مذہب ہے۔ حلقہ بگوش اسلام ہونے والوں میں صرف عام شہری ہی نہیں بلکہ فلم اسٹارز، سائنس دان، کھلاڑی، ڈاکٹرز، انجینئرز بھی شامل ہیں۔ پیوریسرچ کی اس رپورٹ کے مطابق اسی رفتار سے اسلام 2050ء میں دنیا کا سب سے بڑا اور مقبول ترین مذہب ہوگا۔
میرے جیسے ایک عام مسلمان اور نبیﷺ کا حقیر امتی ہونے کے ناطے یہ اعداد وشمار نہ صرف باعث مسرت بلکہ حوصلہ افزا بھی ہیں۔ کیوں؟ کیونکہ اس وقت اگر دنیا میں کسی مذہب کو ہدف تنقید بنایا جارہا ہے تو وہ دین اسلام ہی ہے اور اس کے باوجود اس تیزی کے ساتھ اس کا پھیلائو اس کی امن وسلامتی والی تعلیمات کی حقانیت کو تسلیم کرنے کا ناقابل تردید ثبوت ہیں۔
اگر اس تناظر میں دیکھا جائے تو بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ غیر مسلم ان نام نہاد شدت پسند گروہوں سے نالاں ہیں جو اپنی شدت پسندانہ کارروائیوں کو دینی تعلیم سے جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں ورنہ انہیں (غیر مسلموں) کو اسلام سے کوئی خوف نہیں اگر واقعی یہ اسلام سے خوفزدہ ہوتے تو پھر اس کو قبول کیوں کرتے؟۔کہیں کوئی بگاڑ ہے تو وہ ہم میں سے چند بھٹکے ہوئے نوجوانوں کی وجہ سے ہے۔ ہمارے رویوں اور نفرت کی وجہ سے ہے۔ غیر مسلم ہمارے دین کو ہم سے بہتر نہیں سمجھتا لیکن جب کوئی اس پر غور کرتا ہے اس کو اپناتا ہے تو اس پر غور وفکر میں ہم جدی پشتی مسلمانوں سے آگے نکل جاتا ہے۔ وہ فیس بک، ٹوئیٹر، انسٹا گرام، واٹس ایپ جیسی سوشل ویب سائٹس میں دین کی حقانیت کو تلاش نہیں کرتا۔ وہ اللہ تعالیٰ کے اپنے پیارے حبیب حضرت محمد ﷺ پر اتارے ہدایت والے، فکر والے ،حکمت والے، بہتر سے بہتر کی جستجو والے، دین میں اپنی زندگی صرف کرتا ہے۔
آج دنیائے اسلام کو دہشت گردی کی جدید ترین شکلوں کا سامنا ہے، کہیں بم دھماکے ہورہے ہیں، کہیں سر پھرے جسموں سے بم باندھ کر انسانوں کی بھیڑ میں داخل ہوجاتے ہیں۔ کہیں لوگوں کو گولیوں سے بھون دیا جاتا ہے۔ کہیں آگ میں زندہ جلادیا جاتا ہے لیکن افسوس صد افسوس کے نہ مارنے والے کو علم ہے کہ وہ ایک انسان کی زندگی کیوں لے رہا ہے اور نہ مرنے والے کو علم ہے کہ وہ کیوں مارا جارہا ہے۔ جانے یہ سلسلہ کب تک جاری رہے کیونکہ یہ کسی ایک ملک، کسی ایک مذہب اور کسی ایک گروہ کا مسئلہ ہے مگر حالیہ چند سالوں میں جس دہشت گردی نے عالم اسلام کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اس کا شکار کوئی ایک ملک نہیں، کوئی ایک مذہب نہیں، کوئی ایک گروہ نہیں بلکہ عالم اسلام سمیت پوری دنیا اس دہشت گردی کا شکار ہے اور یہ دہشت گردی ہے سوشل میڈیا کی ،جس کو صرف موجودہ صدی کے مسلمانوں کے خلاف استعمال نہیں کیا جارہا بلکہ مسلمانوں کی مقدس ترین ہستیوں، حضور نبی کریم ﷺ ، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم، اہل بیعتؓ کی توہین وتضحیک کی جارہی ہے۔ اس دہشت گردی کے خلاف آواز اٹھانا یااقدامات کرنا صرف ایک ملک یا ایک مذہب کی ذمے داری نہیں بلکہ یہ مملکتی سرحدوں کے تقدس سے ماورا اقدامات کی متقاضی ہے۔ کیونکہ ٹیکنالوجی کی وسعت نے سرحدی حد بندی اور نظریاتی تقسیم کو بری طرح متاثر کیا ہے اور سوشل میڈیا کے ذریعے عام فرد تک ایسا ہتھیار پہنچ گیا ہے جو کبھی بھی اور کہیں بھی تباہی بربادی کا باعث بن سکتا ہے، ان حالات میں یہ ناممکن نظر آتا ہے کہ کوئی بھی ملک آزادانہ اپنی پالیسی مرتب کرسکتا ہے یا دوسرے ممالک کے تعاون کے بغیر کوئی مؤثر کارروائی کرسکتا ہے۔
حالیہ دنوں میں چند بلاگرز(نامعلوم) کی جانب سے سوشل میڈیا پر گستاخانہ تحاریر ،قرآن مجید فرقان حمید میں تحریف اور دیگر مواد سے متعلق اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے ریمارکس ہی اہل ایمان کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہیں۔ فاضل جسٹس کا یہ کہنا کہ ’’خدا کی قسم! جب سے یہ گستاخانہ مواد دیکھا ہے راتوں کو سو نہیں سکا۔پی ٹی اے والو، ایف آئی اے والو، پولیس والو، فوجیو! نبی کریم ﷺ اور ان کے اہل بیتؓ اطہار کے بارے میں اتنا کچھ ہوا۔ میرے پیارے نبی ﷺ کی شان میں گستاخی کی گئی لیکن آپ لوگوں نے خاموش رہ کر اللہ کے بہت بڑے عذاب کو دعوت دی ہے۔ روز محشر کس طرح ان سے شفاعت طلب کروگے۔ اگر عدالت کو یہ غلیظ مواد بند کرانے کے لیے پورا سوشل میڈیا بھی بند کرانا پڑا تو میں کردوں گا اور آخری حد تک جائوں گا‘‘۔
ایف آئی اے کی جانب سے دائرہ اختیار کی مجبوری ظاہر کرنے پر فاضل جج نے سخت برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ ’’آپ کو شرم آنی چاہیے۔ اس معاملے میں بھی آپ قانونی پیچیدگیوں کا سہارا لے رہے ہیں‘‘۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ ’’فیس بک ہی بند کردیں لیکن یہ پیجز بند ہونے چاہئیں ‘‘اس موقع پر جب چیئرمین پی ٹی ئی اسماعیل شاہ نے ملکی ساکھ کا موقف اپناتے ہوئے کہ کہ اس اقدام سے بیرون ملک پاکستان کی جگ ہنسائی ہوگی تو اس پر فاضل جسٹس کا کہنا تھا کہ’’ میں تو سیدھا سادا مسلمان ہوں اور صرف میں ہی نہیں پاکستان بھر کے مسلمان چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ، قرآن پاک، نبی کریمﷺ آپﷺ کے اہل بیت اور صحابہ کرامؓ کے بارے میں ہونے والی گستاخی فوری طور پر بند ہونی چاہیے۔ اگر یہ آپ کے اختیار میں نہیں ہے تو اس ادارے ( پی ٹی اے) کو بند کردیں‘‘۔ دوران سماعت جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا کہنا تھا کہ ’’گستاخ رسول ’’مباح الدم‘‘ ہے۔ (یعنی اس کا قتل جائز ہے) ‘‘۔انہوں نے کہا کہ ’’جو کچھ کورٹ کے سامنے پیش کیا گیا وہ عوام کے سامنے آجائے تو ہم تصور بھی نہیں کرسکتے کہ وہ کیا کرگزریں اور امن وامان کا سنگین مسئلہ پیدا ہوجائے‘‘۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے درخواست گزار سلمان شاہد ایڈووکیٹ کے وکیل طارق اسد ایڈووکیٹ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’’طارق اسد صاحب!میں آپ کے توسط سے علمائے کرام سے ہاتھ جوڑ کر اپیل کرتا ہوں کہ خدا کے واسطے اپنے مسلکی اور فروعی اختلافات کو ایک طرف رکھ کر نبی کریم ﷺ کی عزت وحرمت کے تحفظ کے لیے ایک ہوجائیں۔ یہ مسئلہ ہم سب کا مشترکہ مسئلہ ہے۔ علماء سے اپیل کرتا ہوں کہ کچھ عرصے کے لئے سہی اپنے اختلافات ختم کردیں کیونکہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کی ناموس کی حفاظت سے زیادہ دین کی کوئی اور خدمت نہیں ہوسکتی‘‘۔ان ریمارکس کے دوران فاضل جج آبدیدہ ہوگئے اور ایک موقع پر یہ بھی انتباہ کیا کہ ’’اگر یہ سلسلہ نہ رکا تو پھر ممتاز قادری جیسے لوگ پیدا ہوتے رہیںگے‘‘۔
اس مقدمے کے معاملے کی سنگینی کا اندازہ اس امر سے بھی ہوتا ہے کہ فاضل جج نے سارا مواد وزیر اعظم ہائوس کو بھی بھجوایا جبکہ وزیر داخلہ چوہدری نثار کو ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا حکم دیا۔ تاہم حسب دستور ہمارے وزیر داخلہ صاحب نے بھی عدالت میں جانے کو اپنی شان کے خلاف سمجھا اور اس اہم ترین نوعیت کے مقدمے میں صرف جواب پر اکتفا کیا جبکہ عدالت نے صاف الفاظوں میں انتباہ کیا تھا کہ یہ معاملہ انتہائی سنگین ہے جس کو بیورو کریسی کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔ تاہم وزیر داخلہ نے عدالتی ریمارکس واحکامات کی روشنی میں یہ ہدایات ضرور جاری کیں کہ گستاخانہ مواد والے تمام صفحات کو ختم کردیا جائے۔
اسی ضمن میں جمعۃ المبارک 24مارچ کو وزیر داخلہ نے اسلامی ممالک کے سفراء کی کانفرنس بلائی جس میں مقدس ہستیوں کی توہین اور گستاخانہ مواد کا معاملہ اقوام متحدہ میں اٹھانے کا اعلان کیا گیا۔ اس کانفرنس میں 57میں سے 25ممالک کے سفراء نے شرکت کی جن میں سعودی عربیہ، آذربائیجان، بوسنیا، قازقستان، لبنان، ایران، ازبکستان، تاجکستان، مالدیپ، الجیریا، بحرین، عرب امارات، ملائشیا، اردن، کویت، فلسطین، سوڈان، تیونس، قطر، برونائی دارالسلام اور ترکی بھی شامل تھے۔ تمام سفراء نے سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی مذمت کرتے ہوئے اس کے خلاف اقدامات پر زور دیا۔ چوہدری نثار علی خان کا کہنا تھا کہ کسی بھی مذہب کی مقدس ہستیوں کی شان میں گستاخی اور مذہبی عقائد کو مسخ کرنا ناقابل برداشت اور دہشت گردی کے مترادف ہے۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ مغربی دنیا کو اسلام فوبیا سے باہر نکلنا ہوگا اور دوہرا معیار ترک کرنا ہوگا۔تمام اسلامی ممالک کے سفراء نے اس نازک ترین معاملے کا لائحہ عمل طے کرنے کی ذمے داری پاکستان کو سونپی اور یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ یہ معاملہ اقوام متحدہ کے علاوہ عرب لیگ اور تنظیم اسلامی کانفرنس کو بھی ریفرنس بناکر بھیجا جائے گا۔
اسلامی ممالک کے سفراء اور ہمارے وزیر داخلہ نے ان افسوسناک واقعات پر جو کچھ کہا یقیناً یہ امت مسلمہ اور پوری قوم کی ترجمانی ہے مگر ہمیں یہ ملحوظ رکھنا ہوگا کہ ہم سب کو مل کر نہایت دانشمندی سے ایک ایسا متفقہ لائحہ عمل اختیار کرنا ہوگا کہ جس کے ذریعے ان افسوسناک واقعات کا سدباب ہوسکے، میرے خیال میں امت مسلمہ کے فرد ہونے کے اعتبار سے ہم سب کی یہ مشترکہ ذمے داری ہے کہ مختلف مذاہب کے درمیان نفرتیں پھیلانے اور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم دیگر انبیاء کرام اور مقدس شخصیات کی توہین کرنے والے گروہوں کے بارے میں عالمی رائے عامہ ہموار کی جائے اور اقوام عالم کو یہ احساس دلایا جائے کہ اس طرح کی نفرت انگیزی میں ملوث گروہ کسی مذہب کے بھی خیرخواہ نہیں ہیں اور نہ ہی انہیں یہ حق دیا جاسکتا ہے کہ وہ آزادی اظہار رائے کے دلفریب نعروں میں انسانوں کو دکھ پہنچاتے رہیں اور مذاہب کی توہین کرتے رہیں، میرے خیال میں دنیا میں موجود مذاہب کے پیروکاروں سے یہ توقع رکھنا کہ وہ کسی مذہب یا مقدس شخصیات میں سے کسی کی توہین کریں گے یہ توقع کسی طور پر بھی مناسب نہیں، مجھے روزمرہ کی زندگی میں مختلف مذہبی شخصیات اور دیگر مذاہب کے پیروکاروں سے رابطہ کی ضرورت پڑتی ہے اس لیے میں اطمینان کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ مٹھی بھر افراد کے علاوہ ہر مذہب سے تعلق رکھنے والی اکثریت نہ صرف یہ کہ دیگر مذاہب اور مقدس ہستیوں کی توہین نہیں کرتیں بلکہ ذاتی زندگی میں اس عمل کو ناپسند بھی سمجھتی ہیں۔ ہماری تنظیم Unitنے نومبر2015ء میں پاکستان کی تاریخ میں بین المذاہب ہم آہنگی کے موضوع پر پہلی عالمی کانفرنس کا انعقاد کیا جس میں دنیا کے 7 بڑے مذاہب سے تعلق رکھنے والے 50سے زائد نامور اسکالرز اور مذہبی شخصیات شریک ہوئیں جن کا تعلق 26مختلف ممالک سے تھا، یہ کانفرنس اپنی مثال آپ تھی اور دنیا کے 7 بڑے مذاہب کے مذہبی اسکالرز نے جس طرح مذہبی رواداری اور مذاہب کے درمیان پرامن تعلقات کے موضوع پر خیالات کا اظہار کیا وہ درحقیقت اقوام عالم کی آواز تھی اور اس کانفرنس میں جاری کیا جانے والا اعلامیہ ایک ایسی دستاویز ہے جو ہمارے ملک سمیت پوری دنیا کے لیے مشعل راہ ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ مختلف مذاہب کے درمیان شکوک وشبہات اور ایک دوسرے کے بارے میں بے بنیاد اور ادھوری معلومات ہمیں ایک دوسرے سے دور رکھے ہوئے ہیں اور مذہب بیزاروں نے اس دوری کا فائدہ اٹھاکر مذاہب، مذہبی شخصیات اور مذہبی تعلیمات کو تمسخر اور توہین کا نشانہ بنارکھا ہے اور مختلف مذاہب اور معاشروں میں موجود یہ لادین عناصر یہ تاثر دینے میں مصروف ہیں کہ یہ مذاہب کے درمیان نفرت یا عدم برداشت کی وجہ سے ہورہا ہے ان ناعاقبت اندیش لادین عناصر کا راستہ مختلف مذاہب کے درمیان موجود شکوک وشبہات کو دور کرکے ہی روکا جاسکتا ہے اور اس سلسلہ میں مسلم حکمرانوں اور ہم سب کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اور مختلف مذاہب کے درمیان رواداری کے فروغ کے لیے اسلامی تعلیمات کو پھیلانا ہوگا اور دیگر مذاہب کی ممتاز شخصیات کو امت مسلمہ کی تشویش سے آگاہ کرنا ہوگا۔
اگر مربوط لائحہ عمل اختیار کیا جائے اور مذاہب اور مقدس شخصیات کی توہین کے معاملے اور اس پر امت مسلمہ کی تشویش کو مروجہ عالمی اصولوں کی روشنی میں اقوام عالم کے سامنے پیش کیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ دنیا مسلمانوں کی تشویش کو محسوس نہ کرے، جذبات اپنی جگہ مگر ہمیں انتہائی سمجھداری اور عرق ریزی سے اس معاملے پر کام کرنے اور دنیا کو اس کی سنگینی سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے اس سلسلہ میں اسلامی جمہوریہ پاکستان اور ہمارے حکمران پہلا قدم اٹھاسکتے ہیں اور ہم سب ان کے معاون بن سکتے ہیں۔
اگر ان بلاگرز کا معاملہ سنجیدگی سے حل کیا جائے اور اس میں ملوث بدبختوں کا محاسبہ کیا جائے اور انہیں عدل وانصاف کے کٹہرے میں لاکر سزائیں دی جائیں تو یہ مقدمہ بارش کا پہلا قطرہ بن سکتا ہے مگر سوال یہ ہے کہ ہمارے ملک ،حکمران اور ہم سب کیا یہ سعادت حاصل کرنے کی تمنا رکھتے ہیں اور تحمل وبرداشت سے راستے کی رکاوٹوں کا مقابلہ کرسکتے ہیں؟۔
٭٭٭٭٭٭