ماہ شعبان اور اس مہینہ کی پندرہویں شب یعنی شب برأت کے بڑے فضائل ہیں اور پندرہویں شب کی فضیلت ماہ رمضان کی شب قدر سے کم یا یوں کہہ لیجئے کہ دوسرے نمبر پر ہے۔
بعض علماء کے نزدیک قرآن پاک کی سورۂ دخان میں بھی اس شب کی فضیلت واہمیت کا ذکر ہے‘ جیسا کہ فرمایا گیا:
فِیْھَا یُفْرَقُ کُلُّ اَمْرٍ حَکِیْمٍ اَمْراً مِّنْ عِنْدِنَا،
(پ۲۵‘ع۱۴)
’’ہر مبنی بر حکمت کام اس رات میں ہمارے سامنے پیش ہوکر طے کیا جاتا ہے‘‘
اس سلسلے میں شاہ عبدالعزیز صاحب محدث دہلوی رحمہ اللہ کی ’’تفسیر عزیزی ‘‘میںہے کہ اس رات میں خداوند کریم کی جانب سے بڑے بڑے کاموں کے فیصلے ہوتے ہیں۔
اس آیت کی تفسیر کے ضمن میں شیخ التفسیر مولانا شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں‘ یعنی سال بھر کے متعلق قضا وقدر کے حکیمانہ اور اٹل فیصلے اسی عظیم الشان رات میں ’’لوح محفوظ‘‘ سے نقل کرکے ان فرشتوں کے حوالہ کئے جاتے ہیں جو شعبۂ تکوینیات کا کام کرنے والے ہیں۔
پھر فرماتے ہیں! ’’بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ شعبان کی پندرہویں رات ہے جسے ’’شب برأت‘‘ کہتے ہیں۔ (فوائد عثمانی)
بہرحال اتنی بات تو قرآن وحدیث کی روشنی میں واضح ہوجاتی ہے کہ شب برأت کی شرعاً فضیلت واہمیت ہے لیکن رمضان المبارک کی شب سے کم ہے۔
اس کے باوجود بھی بعض اللہ کے بندے ایسے ہیں کہ وہ لوگوں کے سامنے اس کا ایسے انداز میں بیان کرتے ہیں جیسے دوسری عام راتیں یعنی ان کے نزدیک اس رات کی کوئی اہمیت و وقعت نہیں۔
اس دور میں جبکہ الحاد وبے دینی ترقی پر ہے اور مسلمان اپنے دین سے روز بروز دور ہوتا جارہا ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسی باتوں سے پرہیز کیا جائے جس سے مسلمان اپنے دین سے اور زیادہ دور ہو۔لوگوں کے سامنے تو دینی باتوں کو اس خوبصورتی کے ساتھ پیش کرنا چاہئے کہ اس رات کی فضیلت واہمیت جاگزین ہو‘ دیکھا گیا ہے کہ اس دور آزادی میں بہت سے اللہ کے بندے حق کے متلاشی ہوتے ہیں اور ان کی کوشش وسعی یہ ہوتی ہے کہ دنیا کی اس چند روزہ مستعار زندگی میں ہم سے کوئی ایسا نیک کام ہوجائے جو رضائے خداوندی اور اس کے رسول برحق صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کا سبب بن جائے اور ہماری نجات کا ذریعہ ثابت ہو۔
ماہ شعبان کی فضیلت اور وجہ تسمیہ
ماہ شعبان کی احادیث میں بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے‘ اور کم وبیش ہر مسلمان بھی اس کی فضیلت سے واقف ہے‘ اس مہینہ کی وجہ تسمیہ شیخ عبدالحق صاحب محدث دہلوی رحمہ اللہ اپنی مشہور تصنیف ’’ماثبت بالسنۃ‘‘ میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کے حوالہ سے یہ بیان کرتے ہیں:
’’اس مہینہ کا شعبان نام اس لئے رکھا گیا کہ روزہ دار کی نیکیوں (کے ثواب میں) درخت کی شاخوں کی طرح اضافہ ہوتا ہے‘‘
احادیث میں اس رات کے بڑے فضائل بیان کئے گئے ہیں اس سلسلے میں چند احادیث ملاحظہ ہوں۔
(1) جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مہینہ کی نسبت اپنی طرف فرمائی ہے اور ارشاد فرمایا’’ شعبان شھری‘‘ (دیلمی) ’’یعنی شعبان میرا مہینہ ہے‘‘ اس سے اندازہ کریں کہ جس چیز اور مہینہ کی نسبت حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی طرف فرمائیں تو اس کی کتنی فضیلت ہوگی۔
(2) حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب رجب کا مہینہ شروع ہوتا تو آپ یوں دعا فرمایا کرتے تھے۔
اَللّٰھُمَّ بَارِکَ لَنَا فِیْ رَجَبَ وَشَعْبَانَ وَبَلِّغْنَا رَمَضَانَ
(ابن عساکر)
’’یااللہ رجب اور شعبان کے مہینہ میں ہمارے لئے برکت فرمائیے اور خیریت کیساتھ ہم کو رمضان تک پہنچائیو‘‘
یعنی خیریت کے ساتھ برکات رمضان دیکھنا اور اس کا استقبال کرنا نصیب ہو‘ آپؐ کا اس طرح دعا فرمانا اس مہینہ کی فضیلت وعظمت کی دلیل ہے۔
(3) ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:
کَانَ اَحَبُّ الشُھُوْرِ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنْ یَّصُوْ مَہٗ شَعْبَانَ ثُمَّ یَصِلَہٗ بِرَمَضَانَ (بیھقی)
’’جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات بڑی پسند تھی کہ شعبان کے روزے رکھتے رکھتے رمضان کے رزوں سے ملادیں‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شعبان میں روزے زیادہ کیوں رکھتے تھے؟
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم شعبان کے مہینہ میں کثرت سے روزے کیوں رکھتے تھے؟ تو اس کی وجہ بھی حدیث میں موجود ہے‘ چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ حضرت اسامہؓ نے ایک مرتبہ دریافت کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !میں آپ کو شعبان میں زیادہ روزے رکھتے ہوئے دیکھتا ہوں‘ اس کی کیا وجہ ہے؟ آپؐ نے جواب دیا کہ:
ذٰٰکَ شَھُرٌ تَغْفُلُ النَّاسُ عَنْہُ بَیْنَ رَجَبَ وَبَیْنَ رَمَضَانَ وَھُوَ شَھْرٌ تُرْفَعُ فِیْہِ الْاَعْمَالُ اِلٰی رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ فَاُحِبُّ اَنْ یُّرْفَعَ عَمَلِی وَاَنْا صَائِمٌ (نسائی)
’’یہ شعبان ایسا مہینہ ہے جو رجب اور رمضان کے درمیان ہے‘ لوگ اس کی فضیلت سے غافل ہیں‘اس مہینہ میں اللہ رب العٰلمین کے حضور میں لوگوں کے اعمال پیش کئے جاتے ہیں‘ میری آرزو یہ ہے کہ جب میرے اعمال پیش ہوں تو میرا شمار روزہ داروں میں ہو‘‘
اسلام میں ہر شب کی فضیلت ہے
اسلام میں صرف چند راتوں کی ہی فضیلت نہیں‘ بلکہ ہر رات بافضیلت وبزرگ ہے‘ ایک صاحب حال بزرگ سے کسی نے شب قدر کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے جواب دیا۔
؎ اے دوست چہ پُرسی کہ شب قدر کیستی
ہر شب شبقدر ست گر قدر بدانی
اس سلسلے میں حدیث شریف ملاحظہ کیجیے۔
یَنْزِلُ رَبُّنَا تَبَارَکَ وَتَعَالیٰ کُلَّ لَیْلَۃٍ اِلَی السَّمَآئِ الدُّنْیَا حِیْنَ یَبقٰی ثُلُثُ اللَّیْلِ الْاٰخِرِ وَیَقُوْلُ مَنْ یَّدْعُوْنیِ فَاسْتَجِیْبَ لَہٗ مَنْ یَّسْأَ لُنِی فَاُعْطِیَہٗ مَنْ یَّستَغفِرُنیِ فَاَغْفِرَلَہٗ (بخاری ومسلم)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ پروردگار بزرگ وبرتر ہر رات کو جب تہائی رات باقی رہ جاتی ہے آسمان دنیا کی طرف نزول فرماتا ہے‘ اور فرماتا ہے‘ ہے کوئی جو مجھ سے دعا مانگے‘ میں اس کی دعا قبول کروں۔
شعبان کی پندرہویں شب
کی فضیلت اور اس کے نام
شعبان کی پندرہویں شب کی جو فضیلت ہے وہ پورے مہینہ کی نہیں‘ چنانچہ سب سے پہلے یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ اس رات کے کئی نام ہیں:
(1) لیلۃ البراء ۃ: یعنی دوزخ سے بری ہونے کی رات
(2) لیلۃ الصک: یعنی دستاویز والی رات
(3) لیلۃ المبارک: یعنی برکتوں والی رات
مگر عرف عام میں یہ رات ’’شب برأت‘‘ کے نام سے مشہور ومعروف ہے۔
پندرہویں شب میں کیا ہوتا ہے
جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
ھَلْ تَدْرِیْنَ مَا فِیْ ھٰذِہِ اللَّیْلَۃِ یَعنِی لَیْلَۃَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ، قَالَتْ مَا فِیْھَآ یَا رَسُوْلَ اللَّہِ فَقَالْ فِیْھَا اَنْ یُّکْتُبَ کُلَّ مَوْلُوْدٍ بَنیِْ اٰدَمَ فِی ھٰذِہِ السَّنَۃِ وَفِیھَآ اَنْ یُّکْتَبَ کُلُّ ھَالِکٍ مِّنْ بَنِیْ اٰدَمَ فِیْ ھٰذِہِ السَّنَۃِ، وَفِیْھَا تُرْفَعُ اَعْمَالُھُمْ وَفِیھَا تُنْزِلُ اَرْزَاقُھُمْ ،(بیہقی)
’’کیا تمہیں معلوم ہے شعبان کی اس (پندرہویں) شب میں کیا ہوتا ہے؟ انہوں نے دریافت کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کیا ہوتا ہے؟ تو آپؐ نے بتلایا اس رات میں یہ ہوتا ہے کہ اس سال میں جتنے پیدا ہونیوالے ہیں وہ سب لکھ دیئے جاتے ہیں اور جتنے اس سال مرنے والے ہیں وہ سب بھی اس رات میں لکھ لئے جاتے ہیں‘ اور اس رات میں سب بندوں کے اعمال (سارے سال کے) اٹھائے جاتے ہیں اور اسی رات میں لوگوں کی (مقررہ) روزی اترتی ہے۔
حضرت تھانویؒ اس کی شرح میں فرماتے ہیں کہ اعمال اٹھائے جانے کا مطلب یہ ہے کہ اعمال دربار خداوندی میں پیش ہوتے ہیں۔
اور روزی اترنے کا مطلب یہ ہے کہ ایک سال میں جتنی روزی انسان کو ملنے والی ہے وہ سب لکھ دی جاتی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا
پندرہویں شب میں معمول
جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس رات میں کیا معمول ہوتا تھا وہ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث سے پوری طرح واضح ہوتا ہے‘ آپؓ فرماتی ہیں:
عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ فَقَدْتُّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اِللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَیْلَۃً فَاِذَا ھُوَبِالْبَقِیْعِ فَقَالَ اَکُنْتِ تَخَافِیْنِ اَنْ یَّحِیْفَ اللّٰہُ عَلَیْکَ وَرَسُوْلُہ،
قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اِنّیِْ ظَنَنتُ اَنَّکَ اَتَیْتَ بَعْضَ نِسَائِکَ،فَقَالَ اِنَّ اللَّہَ تَعَالیٰ یَنْزِلُ لَیْلَۃَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ اِلَی السَّمَآئِ الدُّنْیَا فَیَغْفِرُ لِاَکْثَرَ مِنْ عَدَدِ شَعْرِ غَنَمِ کَلْبٍ (ترمذی‘ ابن ماجہ)
’’میں نے ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بستر پر نہ پایا (پس میں آپؐ کو تلاش کے لئے نکلی) تو آپ کو بقیع (قبرستان مدینہ) میں پایا۔ آپؐ نے فرمایا :اے عائشہؓ! کیا تجھے اس بات کا ڈر تھا کہ اللہ اور اس کا رسولؐ تیرے اوپر زیادتی کرے گا‘ میں نے عرض کیا یا رسول اللہؐ! میں نے خیال کیا شاید آپؐ ازواج مطہرات میں سے کسی کے ہاں تشریف لے گئے ہوں‘تب آپؐ نے فرمایا بیشک اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں شب میں آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے ‘پس قبیلہ کلب کی بکریوں کے بالوں کے شمار سے زیادہ (دوزخی) لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے‘‘۔
پندرہویں شب میں حضور ﷺکی دعائیں
حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں میں نے جب کان لگاکر (غور سے) سنا تو آپؐ یہ دعا فرمارہے تھے:
(1) اَعُوْذُ بِعَفْوِکَ مِنْ عِقَابِکَ اَعُوْذُ بِرْضَاکَ مِنْ سَخَطِکَ وَاَعُوْذُ بِکَ مِنْکَ جَلَّ وَجْھُکَ
اَللّٰھُمَّ لَا ٓاُحْصِیْ ثَنَآئً عَلَیْکَ اَنْتَ کَمَآ اَثْنَیْتَ عُلٰے نَفْسِکَ (بیہقی)
’’یااللہ! میں تیرے عفو کی پناہ چاہتا ہوں تیری سزا سے‘ اور تیری رضا کی پناہ چاہتا ہوں تیرے غصہ سے اور پناہ چاہتا ہوں تیری سختیوں سے یااللہ میں آپ کی تعریف کا شمار نہیں کرسکتا‘ آپ کی ذات ایسی ہی بلند وبالا ہے جیسے آپ نے خود فرمایا‘‘
حضرت عائشہؓ نے دریافت کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) آپؐ رات کو یہ دعا پڑھ رہے تھے‘ تو آپؐ نے فرمایا‘ ہاں! تو بھی یہ کلمے یاد کرلے اور دوسروں کو بھی بتلادے، جبرئیل علیہ السلام نے مجھے یہ کلمے بتلائے ہیں اور کہا ہے ان کلموں کو سجدے میں بار بار پڑھا کرو۔
پندرہویں شب کی چند خصوصیات
اس رات کی مختلف احادیث میں جو خصوصیات بیان کی گئی ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے :
پہلی خصوصیت: غروب آفتاب کے بعد سے طلوع صبح صادق تک حق تعالیٰ کی خصوصی تجلیات اور انوار کی مسلسل بارش‘ اور آسمان دنیا کی طرف نزول خداوندی،
دوسری خصوصیت: حق تعالیٰ کی اپنے بندوں پر خصوصی رحمت اور ساری رات فرشتوں کے ذریعہ گنہگاروں کو طلب مغفرت‘ بیماروں کو طلب عافیت وصحت‘ حاجتمندوں کو اپنی حاجت برآری کے لئے دعا مانگنے کی دعوت۔
تیسری خصوصیت: بیماروں‘ گنہگاروں‘ حاجت مندوں وغیرہ کو قبولیت دعا کی بشارت
چوتھی خصوصیت: گنہگاروں کو اپنے گناہوں سے سچی توبہ کرنے پر جنت کی بشارت اور دوزخ سے نجات کا پروانہ
پانچویں خصوصیت: ایک سال کے اندر پیدا ہونے والے مرنے والے‘ حج کرنے والے لوگوں کے متعلق فیصلہ متعلقہ فرشتوں کے سپرد۔
پندرہ شعبان کے روزہ کا حکم
اگرچہ یہ روزہ فرض یا واجب نہیں بلکہ نفلی ہے‘ مگر اس کا بڑا ثواب ہے کیونکہ صرف نفلی روزہ کا بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑا ثواب بیان فرمایا ہے‘ مثلاً آپؐ نے ارشاد فرمایا۔
مَنْ صَامَ یَوْماً فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہ بَعَّدَ اللّٰہُ وَجْھَہٗ عَنِ النَّارِ سَبْعِیْنَ خَرِیْفاً، (متفق علیہ)
’’جس شخص نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے ایک دن کا (نفل) روزہ رکھا تو اللہ تعالیٰ اس کو دوزخ سے ستر برس کے فاصلہ پر (دور) کردے گا‘‘
اسی طرح آپؐ نے ارشاد فرمایا:
مَنْ صَامَ یَوْمَانِابتِغَآئَ وَجْہِ اللّٰہِ بَعَّدَہُ اللّٰہُ مِنْ جَھَنَّمَ کَبُعْدِ غُرْابٍ طَائِرٍ وَھُوَ فَرِحٌ حَتّٰی مَاتَ ھَرِماً (احمد‘بیہقی)
’’جس شخص نے صرف اللہ کی رضا کے لئے ایک دن کا روزہ (نفلی) رکھا تو اللہ تعالیٰ اس کو دوزخ سے اتنا دور کردیتا ہے جتنا کوا بچپن سے بڑھاپے تک اڑتا رہے۔
پندرہ شعبان کے روزہ کے ثواب کا بہتر طریقہ
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس مہینہ میں بہت زیادہ روزے رکھا کرتے تھے اور امت کو بھی اس کا حکم دیا کہ چاہے تو اس مہینہ میں روزے رکھ کر حق تعالیٰ کی خوشنودی اور رضا حاصل کرے۔
اس کی بہتر صورت یہ ہے کہ اس مہینے میں صرف پندرہ تاریخ کا ایک روزہ رکھنے کے بجائے تیرہ‘ چودہ‘ پندرہ ان تینوں تاریخوں کے روزے رکھے تاکہ ایام بیض بھی اس میں آجائے۔