© Copyright 2017 Saut-ul-Islam Pakistan All Rights Reserved
+ 92 21 35363159 - 35867580 Fax: + 92 21 35873324
محرم الحرام نئے اسلامی سال کا آغاز ہے اور مذہبی حوالے سے 10محرم الحرام کا دن نہایت ہی اہمیت کا حامل ہے، قدیم تاریخی روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ انبیاء اور رسل سے منسلک بہت سے واقعات اسی دن رونما ہوئے اسی لیے یہودیوں کے یہاں اسے بہت ہی قدر سے دیکھا جاتا تھا اور خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کی اہمیت کے پیش نظر اس دن کا روزہ رکھا اور اس کے ساتھ ایک روزے کے اضافے کا حکم ارشاد فرمایا اس لیے مسلمان 9،10یا پھر 10،11محرم کا روزہ رکھتے ہیں۔
امت مسلمہ کے لئے محرم الحرام کی اہمیت اس لئے بھی بڑی ہے کہ یہ ماہ مبارک 2عظیم الشان شخصیات کی شہادت کا مہینہ بھی ہے، یکم محرم الحرام خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق اور 10محرم الحرام نواسۂ رسول حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی شہادت کا دن ہے۔ خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور نواسۂ رسول حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہ کے فضائل ومناقب کسی سے بھی پوشیدہ نہیں ہیں اور یہ دونوں شخصیات اور ان کی قربانیاں امت مسلمہ کے لئے مشعل راہ ہیں اور اگر ہم ان عظیم شخصیات کی زندگی کا جائزہ لیں اور ان کے افکار ونظریات کو اپنائیں تو دور حاضر میں ہمیں بہت سے مسائل اور چیلنجز کا حل مل سکتا ہے اور ہمیں اپنے اجتماعی اور انفرادی مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لئے راہ مل سکتی ہے۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ وہ عظیم شخصیت ہیں کہ جنہوں نے اسلام قبول کرنے کے بعد اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کو اپنی زندگی کا حاصل بنالیا اور ان کے لئے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت دنیا کی ہر چیز سے قیمتی ہوگئی، محبت واطاعت کے اس تلازم نے عمر فاروقؓ کی زندگی کو اس طرح تبدیل کیا کہ رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے عمر کی زبان پر حق رکھ دیا ہے یعنی عمر فاروق ؓحق اور سچائی کے سوا کچھ نہیں کہتے، حق وصداقت کے ساتھ عمر فاروقؓ کا رشتہ اس قدر گہرا اور مضبوط تھا کہ کئی مرتبہ حضرت عمر فاروقؓ کی رائے اور مشورہ بعد میں نازل ہونے والے قرآنی حکم کے موافق ثابت ہوا۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو مراد رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی کہا جاتا ہے کیونکہ نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کی دو شخصیات ابوجہل اور عمر فاروق میں سے ایک اسلام کی عزت وعظمت کے لئے مانگا اور خالق کائنات نے ان دونوں میں سے عمر فاروق ؓکو اسلام کی عظمت اور سربلندی کے لئے پسند فرمایا اور یہی وجہ ہے کہ پھر عمر فاروقؓ اسلام کی سربلندی اور عظمت کا نشان بن گئے ،خصوصاً13ھ میں جب حضرت عمر فاروقؓ کو خلیفہ اول سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے اپنا نائب اور خلیفہ نامزد کیا اور ان کی وفات کے بعد جب حضرت عمر فاروقؓ نے بارخلافت اٹھایا تو اسلام کی عظمت اور تعمیر وترقی کے ایک سنہری دور کا آغاز ہوا۔
اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروقؓ کا دور خلافت وہ زریں دور ہے کہ جس میں چہار سو اسلام کی عظمت کا بول بالا ہوا اور اسلامی سلطنت چہار اطراف میں پھیلتی چلی گئی اور اسلام نے انسانیت کو فلاح اور ترقی کا جو نظریہ عطا کیا ہے عمر فاروق ؓکا دور اس کے آغاز کا باعث بنا اور اسلامی فلاحی ریاست مکمل طور پر معرض وجود میں آئی، حضرت عمر فاروقؓ کے سنہری دور کو انسانی تعمیر وترقی کا آغاز بھی کہا جاسکتا ہے۔ حضرت عمر فاروقؓ نے اپنی فہم وفراست سے ترقی کے اس سفر کا آغاز کیا جس کی جدید شکل آج ہمارے سامنے ہے، آج کے جدید تمدن میں زندگی گزارنے والے ہر شخص کو حضرت عمر فاروقؓ کا احسان مند ہونا چاہیے کہ وہی وہ عظیم شخصیت ہیں کہ جنہوں نے انسانوں کے جدید معاشرہ کا آغاز فرمایا اور جدید معاشرہ کی تشکیل کے لئے کئی ایسے محکمے اور شعبے ایجاد کئے جو آج بھی جدید معاشروں کی اہم ترین ضرورت ہیں۔
اسی طرح حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے دین اسلام کے روشن احکامات کی روشنی میں بہت سے ایسے قوانین کا اجراء کیا اور انہیں مروج کیا کہ جن کے بغیر انسانیت کی فلاح وبہبود کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا یہی وجہ ہے کہ آج بھی فلاحی ریاست کے طور پر پہچانی جانے والی بہت سی ریاستوں میں یہ قوانین ’’عمر لاز‘‘ کے عنوان سے ان کے آئین کا حصہ ہیں۔
غرض کہ عمر فاروقؓ کے دور خلافت کا تذکرہ کئے بغیر انسانیت کی فلاح وبہبود اور جدید معاشرتی تشکیل کی کہانی مکمل نہیں ہوسکتی اور کاش کہ اسلامی معاشرے خلافت راشدہ میں وضع کئے جانے والے ان سنہری اصول کو مسلسل اپناتے رہتے اور ہم آج بھی دنیا کی تعمیر وترقی اور علوم وفنون سمیت ہر شعبے میں انسانوں کی قیادت اور ان کی رہنمائی کررہے ہوتے۔
نواسۂ رسول حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے قابل قدر جانثاروں کی تاریخی قربانی بھی اسی مقصد کے لئے تھی کہ امت مسلمہ سے خلافت راشدہ کے سنہری دور کو الگ نہ کیا جائے اور خلیفہ کے انتخاب کا وہی طریقہ کار اپنایا جائے جو خلافت راشدہ کے 30سالہ دور میں اپنائے گئے تاکہ مادی اور روحانی ترقی کا یہ تابناک سفر مسلسل جاری رہے اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی زندگی میں اس کی اہمیت کا اندازہ آپ اس سے لگاسکتے ہیں کہ انہوں نے اس نظام کو محفوظ بنانے کے لئے اپنے خاندان کی جان بھی قربان کردی اور آج بھی جب محرم الحرام کا آغاز ہوتا ہے امت مسلمہ میں یہ درد جاگ اٹھتا ہے اور پوری امت اجتماعی طور پر ان دونوں شخصیات کی شہادت اور ان کی قربانیوں کو ایک مرتبہ پھر یاد کرتی ہے۔
کیا ہی بہتر ہو کہ ہم اس موقع پر فرقہ واریت، مسلکی تعصبات سے بالاتر ہوکر اور نفرت وعداوت بھلاکر اتحاد واتفاق کا مظاہرہ کریں ۔اپنے مسلکی تعصبات کو اجتماعی اور قومی مفادات پر قربان کردیں، ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی اور مواسات کا رویہ اپنائیں اور اپنے اجتماعات کو دل آزاری کے بجائے زخموں پر مرحم رکھنے کے لئے استعمال کریں اور وہ مقصد نہ بھلائیں کہ جس کے حصول کے لئے یہ عظیم الشان قربانیاں دی گئیں، آج ہماری بدقسمتی تو دیکھیے کہ آپس میں محبت والفت رکھنے والی ان شخصیات کی شہادت کے ایام ہمارے لئے فرقہ وارانہ فسادات اور باہمی نفرت وعداوت کو ہوا دینے کا ذریعہ بن گئے ہیں۔ آئیے کہ فضا تبدیل کریں، محبت والفت کو عام کریں، دکھی انسانیت کے ہمدرد بن جائیں اور انسانیت کی عظمت کو پروان چڑھانے والے نظام کو ایک مرتبہ پھر اپنالیں، آئیے کہ فاروق وحسینؓ کے راستے پر چلیں اور اپنے ملک کو جدید اسلامی فلاحی ریاست میں تبدیل کرنے کا آغاز کریں کہ یہی راستہ ان عظیم شخصیات کو خراج تحسین پیش کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔
انسان کی تعمیر وترقی اور خلافت راشدہ
مفتی ابوذر محی الدین
مدیر، ماہنامہ ایوان اسلام کراچی