info@majlissautulislam.com
© Copyright 2017 Saut-ul-Islam Pakistan All Rights Reserved
Email:
01:30
sautulislampk@gmail.com
+ 92 21 35363159 - 35867580  Fax: + 92 21 35873324
05:15
08:15
Example
 شام کی صورتحال تقریباً ایک عشرہ سے خراب چلی آرہی ہے، عرب دنیا میں جنم لینے والی عرب اسپرنگ کے اثرات شام پر بھی پڑے اور عرصہ دراز سے شامیوں پر تسلط جمائے رکھنے والے ڈکٹیٹر بشار الاسد کے خلاف لوگ اٹھ کھڑے ہوئے اور ان کو امید تھی کہ دوسرے ممالک کی طرح شام میں بھی بشار الاسد عوامی طاقت کے سامنے گھٹنے ٹیک دیں گے اور قومی امنگوں کے مطابق عوام کو نئے حکمران چننے کا موقع دیں گے مگر افسوس کہ عوامی طاقت سے شروع ہونے والی یہ تحریک توقعات پر پورا نہیں اتری اور اس عوامی تحریک کو عالمی طاقتوں نے اپنے اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کی اور دھیرے دھیرے یہ تحریک کئی چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں بٹ گئی اور عصر حاضر کے ظالم ترین اور طاقت وقوت کے نشے میں مست بشار الاسد کو نئی طاقت ملی اور اقتدار کے لالچ میں گم بشار الاسد کی حکومت کے لئے ٹکڑیوں میں بٹی اس تحریک سے نمٹنا آسان ہوگیا اور اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ آج ہمارے سامنے ہے۔

افسوس کہ امن وسکون کے وعدے، انسانیت کے بلند وآہنگ نعرے اور انسانی حقوق کی حفاظت کے آہنی ادارے اور دنیا میں فلاحی اور انسانی بہبود کے لئے جانے پہچانے تمام طاقتور ممالک کے سامنے ایک ایسا المیہ جنم لے چکا ہے جس کے ملبے میں معصوم انسانوں کے ساتھ ساتھ یہ سب کچھ بھی دفن ہوگیا۔ شام میں جو کچھ ہورہا ہے یہ انسانوںکو یہ بتانے کے لئے کافی ہے کہ اقتدار کے بھوکوں اور مذہبی تعصبات رکھنے والے افراد اور چھوٹے چھوٹے مالی مفادات کی حریص حکومتوں کے سامنے انسانیت، عزت احترام شفقت ومہربانی اور اخوت ومحبت کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ۔ایسے جنونی اور شدت پسندوں کے لئے ان کی ذات سے بڑھ کر کچھ نہیں ہوتا یہ معاشرے کا ایسا کینسر ہوتے ہیں کہ اگر بروقت ان کا راستہ نہ روکا جائے تو پھر معصوم جانوں کو محفوظ رکھنا ناممکن ہوجاتا ہے، یہ ایسے درندے ہیں کہ انسانی خون سے انہیں سکون اور معصوم انسانوں کو تکلیف پہنچاکر انہیں سرور ملتا ہے، قوت وطاقت کے نشے میں چور ان گروپوں کا راستہ روکنا سب کی مشترکہ ذمے داری تھی مگر افسوس کہ نہ تو انسانیت کے علمبردار ذمے داری پوری کرسکے اور نہ ہی دین اسلام کے مبارک کلمے سے وابستہ ہم لوگ ان کی مدد کرپائے۔ حلب میں جاری کارروائی نے تو انسانیت سوز مظالم کے سارے ریکارڈ توڑ ڈالے اور دنیا میں امن، محبت اور بھائی چارے کی تمام تحریکوں کو شرمندہ کردیا،  ہر چہرے پر موجود نقاب نوچ ڈالا اور انسانیت سے محبت کے ہر نعرے کو زمین بوس کرڈالا۔

Mercy CorpsنامیNGOکی رپورٹ کے مطابق پانچ سال کے دوران اس نام نہاد جنگ میں جسے سفاک بشارالاسد کی جابر ترین افواج، مذہبی منافرت میں مغلوب ایران اور دیگر گروپ انتہا پسندوں کے خلاف جنگ کہتے ہیں اور شام کی آزادی کا تحفظ جیسا خوشنما نعرہ لگاتے ہیں، اب تک اس جنگ میں کروڑوں شامی شہری متاثر ہوئے ہیں اور 11ملین کے قریب لوگ بے گھر ہوچکے ہیں، رپورٹ کے مطابق 63لاکھ سے زائد افراد شام ہی کے مختلف حصوں میں پناہ گزین ہیں جبکہ 48لاکھ سے زائد افراد وطن چھوڑ کر دیگر ممالک میں پناہ لینے پر مجبور کردئیے گئے ہیں۔عمارتیں تباہ وبرباد ہوچکی ہیں، محلوں کے محلے بمباری سے متاثر نظر آتے ہیں ۔UNکے مطابق 22لاکھ سے زائد افراد کو ہنگامی طبی امداد کی ضرورت ہے جو بدقسمتی سے انہیں میسر نہیں ہے، بشار الاسد کی حامی افواج اور مختلف ممالک سے آئے ہوئے جنگجو مزاحمت کاروں کی آڑ میں بے گناہ اور نہتے شامیوں کا قتل عام کررہے ہیں اور مذہبی منافرت کا شکار یہ گروپ سنی آبادیوں کو مسلک کی بنیاد پر نفرت کی بھٹی کا ایندھن بنارہے ہیں۔

دنیا کا تاریخی شہر حلب جسے اب بھی مشرق وسطیٰ کا ساتواں بڑا شہر گردانا جاتا ہے اور جسے اسلامی تاریخ میں نہایت اہمیت حاصل ہے اور وہاں کی جامع مسجد بنی امیہ تاریخ میں اہمیت کی حامل ہے، یہ تاریخی شہر اس کی تاریخی عمارتیں حتیٰ کہ خانہ خدا جامع مسجد بنی امیہ بھی ان ظالموں سے محفوظ نہ رہ سکیں، آج اس شہر خصوصاً مشرقی حصہ میں کوئی ہسپتال ایسا نہیں ہے جہاں زخمیوں کا علاج کیا جاسکے۔ جنیوا معاہدے اقوام متحدہ کے چارٹر حتیٰ کہ اسلامی اصول کی بھی نفی کردی گئی ہے، رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا کہ ’’جہاد کے دوران بھی درخت نہ جلائے جائیں، بچوں کو نہ قتل کیاجائے، بوڑھوں کو نقصان نہ پہنچایا جائے اور ہتھیار نہ اٹھانے والوں سے کوئی تعارض نہ کیا جائے‘‘۔ آج بہت سے مذہبی رہنما حلب کی تباہی پر جشن منارہے ہیں اور آزادی کے تحفظ کا نعرہ لگارہے ہیں کیا ان میں سے کوئی ایک ایسا نہیں جو ظالموں کا ہاتھ روکے اور انہیں محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان سنائے۔

حلب میں خواتین کی عصمت دری اور وہ بھی ان لوگوں کے ہاتھوں جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں کسی المیہ سے کم نہیں ہے، بعض رپورٹوں کے مطابق مشرقی حلب میں بشار الاسد کی افواج کے داخل ہونے سے پہلے دس ہزار خواتین کی عزتوںکو پامال کیا جاچکا تھا اور معلوم نہیں کہ اب کیا صورتحال ہے، کیا کوئی مذہبی منافرت میں اتنا بھی اندھا ہوسکتا ہے کہ انسانی رشتہ ہی بھول جائے وہ رشتہ کہ جسے اسلام نے سب سے زیادہ اہمیت دی ہے اور ارشاد فرمایا ہے کہ ایک انسان کو بچانا پوری انسانیت کو بچانا ہے، اسی طرح اقوام متحدہ کے چارٹر میں ہسپتالوں، اسکولوں اور عوامی مقامات کو تحفظ دینے کی بات کی گئی ہے مگر افسوس کہ بشار الاسد کی مدد میں آنے والے روسی طیاروں نے ہر اس جگہ کو انتہائی سفاکی سے نشانہ بنایا کہ جہاں انسانی حرکت نظر آئی اور ہر اس جگہ کو عبرت کا نشان بنادیا جہاں مظلوم انسان پناہ لیے ہوتے تھے، بشار الاسد کی افواج اور ان کی مدد کرنے والے گروپوں نے ہر اس جگہ کو تباہ وبرباد کردیا کہ جہاں کسی زخمی کو ہنگامی طبی امداد دی جاسکتی تھی اس سے بڑا المیہ اور اس سے بڑھ کر جنگی جرم اور کیا ہوسکتا ہے مگر افسوس مسلمانوں سمیت مہذب ممالک نہ صرف تماشائی بنے رہے بلکہ رسمی احتجاج بھی ریکارڈ نہ کرواسکے۔

اس مجرمانہ خاموشی نے ظالموں اور طاقت وقوت کے نشے میں چور گروپوں کو کھل کھیلنے کا موقع دیا اور انہوں نے بچے ،خواتین ،بوڑھوں سمیت ہر انسان کو نقصان پہنچایا اور رپورٹ کے مطابق اب تک 480,000شامی شہری شہید کیے جاچکے ہیں۔

دین اسلام نے بچوں پر شفقت ومہربانی کا حکم دیا ہے  مگر ان غاصب فوجوں کی شفقت ومہربانی دیکھئے کہ اب تک 25لاکھ شامی بچے ہجرت کرچکے ہیں اور تعلیم وتربیت کی اس عمر میں یہ بچے اسکول اور مدارس سے محروم کردئیے گئے ہیں، بشار الاسد کا اس سے بڑا جنگی جرم اور کیا ہوسکتا ہے کہ ان 25لاکھ بچوں میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہے کہ جس کے والدین ،اساتذہ اور طلباء ساتھیوں میں سے کوئی نہ کوئی شہید نہ ہوا ہو، رپورٹ کے مطابق ان میں سے تقریباً 5لاکھ انتہائی معصوم ہیں اور ان کی عمر پانچ سال سے بھی کم ہے اور یہ معصوم پھول شدید ترین خوف کا شکار ہیں اور نفسیاتی اور ذہنی بیماریوں میں مبتلا ہوسکتے ہیں۔

یہ صورتحال ہم سب کے لئے باعث تشویش ہے اور اقوام متحدہ، او آئی سی سمیت تمام عالمی طاقتوں کو اپنی ذمے داریوں کا احساس کرنا ہوگا اور اب بھی وقت ہے کہ عالمی برادری اس جنگ کے تمام فریقوں کا ہاتھ روکے اور انسانی المیے میں اضافے کا باعث بننے والے عوامل کا سدباب کیا جائے ،دنیا کے کسی بھی حصے میں موجود نوجوان ان خبروں سے پریشانی اور رنج وغم محسوس کررہے ہیں اور اگر عالمی اداروں نے ذمے داریاں پوری نہ کیں تو دنیا بہت جلد ایک مرتبہ پھر انارکی اور مختلف نظریات کی بنیاد پر چپقلش کا شکار ہوسکتی ہے، اس نازک موقع پر پاکستان سمیت تمام بڑے اسلامی ممالک پر بھی بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے اور مسلم حکمرانوں کی یہ مشترکہ ذمے داری ہے کہ وہ اسلامی معاشروں کو مذہبی اور مسلکی تقسیم سے بچائیں اور بشار الاسد سمیت ان تمام طاقتوں کو مذاکرات کی میز پر لائیں جو امت مسلمہ کو ایک خاص تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔

 او آئی سی کا کردار ہمیشہ سے زیر بحث رہا ہے اور مسلم نوجوانوں کا بڑا حصہ بجا طور پر یہ سمجھتا ہے کہ یہ ادارہ کبھی بھی اپنی ذمے داریاں احسن طور پر پوری نہیں کرپایا، حلب کے المیہ نے اس ادارے کے لئے ایک نیا موقع پیدا کیا ہے اور امت مسلمہ کے سرگرم رہنمائوں کو او آئی سی کے ذریعے فعال کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ مسلم معاشروں میں اس کی عزت میں اضافہ ہو، یہ نازک وقت مسلم حکمرانوں سے سخت فیصلوں کا تقاضہ کرتا ہے اور ہم بجا طور پر عالمی سطح کے مسلم حکمرانوں سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ امت مسلمہ کے اتحاد واتفاق اور وحدت کے لئے کلیدی کردار ادا کریں گے اور امت کو انتشار وافتراق سے بچائیں گے اور ایسی طاقتوں کا راستہ اتحاد کے ذریعے روکیں گے جو مذہب مسلک اور فروعی عقائدکو استعمال کرکے اپنا اقتدار محفوظ کرنا چاہتے ہیں اور اقتدار کے لئے امت مسلمہ کے مستقبل کوتباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں ۔ایسی قوتوں کا راستہ روکنا اور انہیں امت مسلمہ کے وسیع تر مفاد میں جمع کرنا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے اور اگر ہم یہ نہ کرسکے تو خاکم بدہن آج حلب ہے کل کوئی اور شہر ہوگا اور یہ المیہ یونہی جاری رہے گا۔ اللہ ہم سب کی حفاظت فرمائے۔
 حلب کا المیہ، انسانیت کے لئے باعث شرم
مفتی ابوذر محی الدین
مدیر، ماہنامہ ایوان اسلام کراچی