info@majlissautulislam.com
© Copyright 2017 Saut-ul-Islam Pakistan All Rights Reserved
Email:
01:30
sautulislampk@gmail.com
+ 92 21 35363159 - 35867580  Fax: + 92 21 35873324
05:15
08:15
Example
بیس جنوری کو نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 45 ویں امریکی صدر کی حیثیت سے عہدے کا حلف اٹھایا اور اسی کے ساتھ صدر اوباما کے آٹھ سالہ دور اقتدار کا خاتمہ ہو گیا جس طرح صدر اوباما کا انتخاب تاریخی لمحہ تھا اسی طرح صدر ٹرمپ کا انتخاب بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہے کیونکہ انہیں تاریخ کا غیر مقبول ترین صدر گردانا جا رہا ہے اور ابھی سے ان کی مدت صدارت مکمل نہ ہونے کی پیشگوئی کی جا رہی ہے اور ان کے خلاف احتجاج کا سلسلہ مسلسل جاری ہے ۔

 بہرحال صدر ٹرمپ نے عہدے کا حلف اٹھایا اور اس کے بعد انہوں نے ہزاروں کی تعداد میں موجود امریکیوں سے خطاب کرتے ہوئے اپنی ترجیحات کو ایک مرتبہ پھر دہرایا اور مبصرین کی توقعات ایک مرتبہ پھر غلط ثابت ہوئیں کہ وہ اپنے عزائم میں کوئی بڑی تبدیلی لائیں گے اور مخالفین کے تحفظات کو ختم کرنے کی کوشش کریں گے اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کا لہجہ پہلے کئی درجہ بہتر تھا اور الفاظ کا انتخاب بھی عمدہ تھا مگر یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ غیر روایتی سیاستدان ہونے کی وجہ سے اب بھی وہ صاف گوئی سے امریکی سیاست میں نئے انداز متعارف کروا رہے ہیں جسے مبصرین سیاست کے ساتھ ساتھ امریکا میں موجود مختلف کمیونیٹیز کے لئے بھی خطرہ قرار دے رہے ہیں اور ان کے خیال میں یہ طرز سیاست ملک کی یکجہتی کے لئے بھی خطرہ بن سکتی ہے ۔

صدر ٹرمپ نے اپنے پہلے خطاب میں سب سے پہلے امریکا کا نعرہ لگاتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی معیشت کو دوبارہ عروج تک پہنچانا ان کا مشن ہے اور انہوں نے بڑے بڑے امریکی کارخانے دوبارہ فعال کرنے اور امریکیوں کو ملازمتیں دینے کا وعدہ بھی دہرایا اور کہا کہ وقت آگیا ہے کہ ہم سب مل کر ایک مرتبہ پھر امریکا کو عظیم ریاست بنائیں اور اتحاد واتفاق سے نئے سفر کا آغاز کریں انکا کہنا تھا کہ اگر ہم متحد ہو گئے تو امریکا کو روکنا کسی کے لئے بھی ممکن نہیں رہے گا اور ہم ترقی میں سب سے آگے ہوں گے۔ انہوں نے انتہائی جذباتی انداز میں کہا کہ ہم ایک قوم ہیں ہمارا ایک ہی خواب ہے ایک ہی گھر ہے اور ایک ہی مقصد ہے‘ انہوں نے امریکی مصنوعات خریدنے اور امریکی کو ہی نوکری دینے کی بھی بات کی ۔امریکی صدر کا یہ انداز اور یہ جذبات امریکیوں کے لئے نہایت ہی حوصلہ افزا ہوں گے اور کسی کو بھی اس معاملے پر پریشان نہیں ہونا چاہئے کیونکہ تعمیر و ترقی کی راہ اپنانا ہر ملک کا حق ہے اور ہر ملک کا یہ حق ہے کہ وہ ملکی وسائل کو اس کے لئے استعمال کرے‘ نئے امریکی صدر کا معیشت کے لئے پلان پاکستان سمیت کئی ممالک خصوصا ًچین کی معیشت پر اثر انداز ہو گا اور ہماری حکومت کو ابھی سے دوسرے ذرائع تلاش کرنے چاہئیں۔

صدر ٹرمپ نے ملکی سیاست کا ذکر کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر اسٹیبلشمنٹ کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ اسٹیبلشمنٹ نے اپنا تحفظ کیا اور عوام کو تحفظ فراہم نہیں کیا مگر اب نئی سوچ حکمرانی کرے گی آج کے دن سے عوام حقیقی حکمران بن گئے ہیں اور اقتدار واشنگٹن سے آپ کو منتقل ہو گیا ہے قوم سے کئے گئے تمام وعدے پورے کئے جائیں گے۔ انہوں نے داخلی امن وامان کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ منشیات اور سماج دشمن عناصر جیسے مسائل کا ہمیں سامنا ہے مگر اب منشیات سمیت کسی بھی سماج دشمن عناصر کو مزید خون بہانے کی اجازت نہیں دی جائے گی میں ان سیاستدانوں کی طرح نہیں ہوں جو صرف باتیں کرتے ہیں کام نہیں اب باتیں کرنے کا وقت ختم ہو گیا اب صرف کام ہو گا ۔ وقت آگیا ہے کہ ہم سب کو یہ سوچنا ہو گا کہ ہمارا رنگ جو بھی ہو گورا کالا یا گندمی مگر ہم سب کے خون کا رنگ ایک ہی ہے اور وہ ہے سرخ ۔۔۔انہوں نے کہا کسی کو خوف نہیں ہونا چاہیئے ہم سب کو تحفظ فراہم کریں گے ‘انہوں نے ایک مرتبہ پھر کہا کہ ہمارا عزم سب سے پہلے امریکا ہے اسی لئے امیگریشن ‘ٹیکس ‘تجارت ‘خارجہ امور سمیت تمام فیصلوں میں امریکی مفادات کو ترجیح دی جائے گی۔
انہوں نے خارجہ امور کا تذکرہ کرتے ہوئے امریکی اسٹیبلشمنٹ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ ماضی میں امریکیوں کے بجائے دوسروں کے مفادات کا تحفظ کیا گیا اور امریکی پیسوں سے امریکا کے بجائے دوسروں کے سرحدوں کی حفاظت کی گئی مگر اب ایسا نہیں ہوگا اور دوسروں کے دفاع پر امریکا کے اربوں ڈالر خرچ نہیںکئے جا سکتے ۔ انہوں نے کہا کہ آج کے بعد صرف امریکی مفادات کو ترجیح دی جائے گی مگر ہم اپنا نظریہ کسی پر مسلط نہیں کرنا چاہتے۔ انہوں نے دنیا میں دہشت گردی کا ذکر کرتے ہوئے اسے ختم کرنے کا عزم ظاہر کیا اور اسلامی دہشت گردی کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ اسے جڑ سے ختم کر دینگے اور دنیا سے مٹا دینگے۔ انہوں نے کہا دہشتگردی کے خاتمے کے لئے ہم پرانے اتحادیوں کو مضبوط اور نئے اتحاد تشکیل دیں گے انہوں نے کہا کہ دنیا سے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے آخری سانس تک مقابلہ کیا جائے گا اور وہ عوام کو مایوس نہیں کریں گے ۔

 صدر ٹرمپ کی تقریر کا یہ حصہ ان کی خارجہ پالیسی کا رخ متعین کرتا ہے جو یقینی طور پرکئی ممالک اور کئی تنظیموں کے لئے انتہائی تشویش کا باعث ہو گا اور مستقبل میں ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ کیا واقعی امریکی اسٹیبلشمنٹ ان کو آزادانہ طور پر خارجہ پالیسی بدلنے کی اجازت دیتی ہے یا پھر ان کو اسی پالیسی کو جاری رکھنے پر آمادہ کر لیتی ہے اگر انہوں نے خارجہ پالیسی میں یہ تبدیلی کر لی تو یورپی یونین اور نیٹو سمیت بہت سی تنظیمیں اپنا مقصد کھو دیں گی اور بہت سے ممالک شدید مالی مشکلات کا شکار بھی ہو جائیں گے اور ان کا یہ فیصلہ دنیا میں نئی صف بندی کا باعث بھی بن سکتا ہے بہرحال ہمارے لئے ان کی تقریر کا یہ حصہ انتہائی اہم ہے جس میں انہوں نے اسلامی دہشت گردی کا ذکر کیا ہے اور اسے ختم کرنے کا عزم ایک مرتبہ پھر دہرایا ہے ۔

ہم ان کے اس عزم کو سراہتے ہیں اور دعا گو ہیں کہ وہ اس مقصد میں کامیاب ہوں مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ کہنا بھی لازمی ہے کہ سب سے پہلے ان کو اس دہشت گردی کی صحیح صورتحال اور اس کے عوامل کو سمجھنا ہو گا اور ان اسباب کو تلاش کرنا ہو گا کہ جن کی وجہ سے ان کے پیشرو اوباما مسلسل آٹھ سال تک اسے ختم کرنے میں ناکام رہے۔ دنیا کا کوئی بھی منصف پسند انسان اس سے انکار نہیں کرسکتا کہ شدت پسندوں کی دہشت گردی کا سب سے بڑا شکار امت مسلمہ اور اسلامی ممالک ہی رہے ہیں اور آج تک پاکستان سمیت کئی اسلامی ممالک کی معیشت اسی دہشت گردی کی وجہ سے تاریخ کے بدترین بحران کا شکار نظر آتی ہے ۔اب تک لاکھوں مسلمان دہشت گردوں کی ظالمانہ کارروائیوں کے نتیجے میں شہید ہو چکے ہیں اوربلاشبہ کروڑوں خاندان اس سے متاثر ہوئے ہیں‘ ان حالات میں اس سے بہتر اور کیا ہو سکتا ہے کہ عالمی طاقتیں امت مسلمہ کے ساتھ مل کر اس دہشت گردی کو کچل دے اور مزید خون بہنے کا عمل رک جائے مگر جب عالمی طاقتیں اس ناپاک دہشت گردی کو اسلام کے ساتھ جوڑتی ہیں اور عالمی میڈیا اس کے  ذریعے اسلام کو بدنام کرتے ہیں تو اس عمل سے وہ امت مسلمہ خصوصاً نوجوان نسل کو دہری تکلیف پہنچاتے ہیںاور اس شدت پسندی کو پروان چڑھانے کا باعث بنتے ہیں۔

صدر ٹرمپ کو یہ سمجھنا ہو گا کہ شدت پسندی اور تخریب کاری کا دین اسلام سے دور دور کا بھی واسطہ نہیں ہے اور نہ ہی اسلام اس طرح کی کسی ظالمانہ عمل کی اجازت دیتا ہے۔ یہ عمل کرنے والے عناصر کا مذہب یا مذہبی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی وہ یہ عمل دین اسلام کی بلندی کے لئے اپنائے ہوئے ہیں بلکہ یہ وہ تخریبی عمل عالمی امن خصوصاً اسلامی ممالک کے امن کو تباہ کرنے کے لیے اپنائے ہوئے ہیں اور عالمی سطح پر مسلمانوں کے دیرینہ مسائل کا حل نہ ہونا ان کو نیا خون حاصل کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔

اگر آپ اس دہشت گردی کا خاتمہ چاہتے ہیں تو سب سے پہلے آپ سمیت تمام عالمی قوتوں کو دہشت گردی کو مذہبی تفریق سے آزاد کرنا ہوگا اور آگے بڑھ کر اس کے خاتمے کے لئے امت مسلمہ کو وسائل فراہم کرنا ہوں گے اور اسلامی معاشرہ میں صحیح اسلامی تعلیمات کے فروغ کے لئے اعتدال پسند علماء کو مضبوط کرنا ہوگا اور نوجوانوں میں علم و حکمت کو فروغ دینا ہوگا تاکہ وہ شدت پسندوں کے بہکاوے میں نہ آئیں اور وہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اپنی ذمے داریوں سے آگاہ ہوں۔

یہی وہ راستہ ہے کہ جسے اپنا کر مذہبی بنیا دپر ہونے والی دہشت گردی کا خاتمہ ممکن ہے اور دنیا کو امن اور انسانیت کو تحفظ دیا جاسکتا ہے ورنہ دہشت گردی کے خاتمے کا صرف خواب ہی دیکھا جاسکتا ہے اور اسے صرف باتوں میں ہی ختم کیا جاسکتا ہے اور صدر ٹرمپ نے پہلے ہی واضح کردیا ہے کہ اب عمل کا وقت آن پہنچا ہے اور باتوں کا وقت ختم ہوگیا تو امید کرنی چاہئے کہ صدر ٹرمپ صحیح راستہ اپناکر اس دہشت گردی کا خاتمہ کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔
 نیا صدر نئی توقعات
مفتی ابوذر محی الدین
مدیر، ماہنامہ ایوان اسلام کراچی