info@majlissautulislam.com
© Copyright 2017 Saut-ul-Islam Pakistan All Rights Reserved
Email:
01:30
sautulislampk@gmail.com
+ 92 21 35363159 - 35867580  Fax: + 92 21 35873324
05:30
08:30
Example
سن2017 ء کا آغاز ہوتے ہی پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں ہونے والے خودکش حملے سے ملک بھر میں دہشت گردی کی نئی کارروائیاں شروع ہوئیں اور ان کے نتیجے میں دہشت گردوں کے خلاف ملک کے مختلف حصوں میں کیے گئے آپریشنز کی کامیابیوں کو مشکوک کرنے اور قوم میں مایوسی پھیلانے کی ناپاک کوششوں کا آغاز ہوا جو نہایت ہی تشویشناک تھا۔خدا کا شکر ہے کہ ہمارے عسکری اداروں نے اس کا احساس کرتے ہوئے ایک مربوط حکمت عملی تشکیل دیتے ہوئے ملک بھر میں ایک نئے آپریشن رد الفساد کا آغاز کیا۔

 اس بارے میں پوری قوم کا اتفاق نظر آتا ہے کہ دہشت گردی اور تخریب کاری ہمارے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے اور انہیں شکست دیے بنا تعمیر و ترقی کا سفر ناممکن ہے اور ہمارے عسکری اداروں کی خوش قسمتی ہے کہ انہیں پوری قوم کا تعاون حاصل ہے اور مختلف ایشوز پر منقسم قوم دہشت گردی کے خاتمے پر متفق نظر آتی ہے ،اب یہ ہمارے عسکری اداروں کی ذمے داری ہے کہ وہ قوم کے اتحاد و اتفاق سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دہشت گردوں اور اسلام اور ملک دشمنوں کے خلاف بھرپور اقدامات کرتے ہوئے ان کے خاتمے کے لیے موثر کارروائی کریں ۔

ہمارے خیال میں آپریشن رد الفساد کے لیے مندرجہ ذیل اقدامات اٹھانا نہایت ضروری ہیں۔
1۔معاشرہ میں موجود شدت پسندی اور طاقت کے استعمال کے بڑھتے ہوئے رجحانات کی ہر قدم پر حوصلہ شکنی لازمی ہے۔بد قسمتی سے ہمارے ملک میں طبقاتی نظام مروج ہے جہاں چند طبقات کو دوسروں پر بالادستی حاصل ہے اور وہ اپنے زیر تسلط لوگوں پر ہر قسم کا ظلم و تشدد جائز سمجھتے ہیں اور ان کے نوجوانوں کی تربیت ہی ایسے ماحول میں ہوتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو ہر قسم کی اخلاقی اور قانونی نظام سے آزاد سمجھتے ہیں اور یہی رویہ ان میں شدت پسندی کو فروغ دیتا ہے اور معاشرے میں نفرت کی فضا قائم ہوتی ہے اس معاشرتی خامی کو دورکیے بغیر آگے بڑھنا ناممکن ہے۔ہمارے اداروں کو ہر سطح پر قانون کی حکمرانی برابر کی سطح پر نافذ کرنا ضروری ہے تاکہ ہر شخص کی عزت نفس کا تحفظ ہو سکے۔

2۔ اس بارے میں دو رائے نہیں ہو سکتیں کہ ہمارا سیاسی نظام بھی خوف و دہشت کو فروغ دیتا ہے اور ہماری سیاسی جماعتوں میں غنڈہ گردی اور توڑپھوڑ کو فروغ دیا جاتا ہے ہمارے سیاسی نظام میں ایسے عناصر نے غلبہ حاصل کر لیا ہے جو قوت و طاقت کا بے دریغ استعمال کر کے مختلف علاقوں میں اپنا سیاسی اثر قائم کرتے ہیں اور پھر اس اثررسوخ کو قائم رکھنے کے لیے ان غنڈہ عناصر کو پناہ دیتی ہیں اور ان کے خلاف کسی بھی قسم کی قانونی کارروائی کو سیاسی ایشو بنا کر انہیں تحفظ فراہم کرتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ مختلف قسم کے جرائم میں ملوث گروہ سیاسی جماعتوں کے زیر اثر رہ کر معاشرے میں جرائم اور قانون شکنی کو فروغ دینے میں مصروف ہیں اور ہمارے سول ادارے ان کے خلاف کسی قسم کی کارروائی کرنے سے قاصر رہتے ہیں اور پھر یہی جرائم پیشہ عناصر دہشتگردی میں ملوث گروہوں کے ساتھ شراکت داری قائم کرکے ملک و قوم کو نقصان پہنچاتے ہیں اگر ہم ملک سے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنا چاہتے ہیں تو ملکی سطح پر جرائم پیشہ گروہوں کے خلاف بلا امتیاز آپریشن کرنا ہو گا اور اس کی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ کو بھی ختم کرنا ہو گا۔

3۔معاشرے میں کرپشن کا ناسور اور ہر سطح پر کرپشن کا فروغ بھی ہمارے ملک میں امن و امان کے لیے خطرہ ہے۔بد قسمتی سے ہمارے ملک میں سیاست ایک مہنگا کھیل بن چکا ہے اور انتخابات میں کامیابی کے لیے مال و دولت کا ہونا اور دل کھول کر خرچ کرنا ناگزیر ہے یہی وجہ ہے کہ سیاسی جماعتیں ایسے امیدواروں کا انتخاب کرنے پر مجبور ہوتی ہیں جو نہ صرف اپنے حلقے میں پیسہ اکٹھا کر سکیں بلکہ انتخابات میں اپنی جماعت کی کامیابی میں بھی اہم کردار ادا کر سکیں۔

دوسری طرف ہمارے معاشرے میںایسی بھی روایات فروغ پا رہی ہیں جو نام و نمود اور عیش وعشرت میں اضافے کا باعث بن رہی ہیں اور نوجوانوں میں مال و دولت کے حصول کی لالچ میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ہم ایک ایسے طبقاتی نظام کا شکار ہیں جہاں عزت و شرافت کو مال و دولت اور قوت و طاقت کے پیمانے کے ذریعے جانچا جاتا ہے جو برائی میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔ ہمارے معاشرے میں اسلامی اور اخلاقی روایات مسلسل نظرانداز ہو رہی ہیں اور دولت کی فراوانی اور طاقت و قوت عزت کے حصول کا ذریعہ بنتی جا رہی ہیں اور ستم در ستم یہ کہ کرپشن کو آمدنی کا ذریعہ سمجھنے کا رجحان فروغ پا رہا ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ ہماری سیاسی جماعتیں جو سب کی سب تقریباً کرپشن میں ملوث نظر آتی ہیں اور کرپٹ افراد کو تحفظ فراہم کرتی ہیں۔ان کی پشتیبان ہوتی ہیں۔

کرپشن میں مسلسل اضافے اور جرائم میں ملوث گروہوں کا سیاسی اثر رسوخ اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے ان افراد کی سرپرستی اور تعاون نے ایسی فضا کو فروغ دیا ہے جو ملک دشمن عناصر اور شدت پسند گروہوں کے لیے معاون ثابت ہوئی ہیں اور ان اسلام دشمن قوتوں نے ان کرپٹ اور جرائم پیشہ گروہوں کی مدد سے ہمارے معاشرے میں دہشت گردی تخریب کاری کر کے معصوم انسانوں کو نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ ہماری معیشت اور تجارت کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے اور عالمی سطح پر ہماری ساکھ بھی تباہ کر دی ہے۔آپریشن رد الفساد کی کامیابی اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک ملک میں موجود ان کرپٹ افراد کا محاسبہ نہیں کیا جاتا اور کرپشن اور جرائم میں ملوث ہر گروہ کو کیفر کردار تک پہنچانے کا عمل شروع نہیں ہوتا۔ہمارے اکثر مسائل کا حل بے رحم احتساب یا پھر عام معافی کا اعلان ہے کہ جس میں ہر شخص کو یہ موقع فراہم کیا جائے کہ وہ ماضی کے جرائم ترک کر کے اپنے لیے نئے راستے کا انتخاب کرے اور ایک ایسا نظام تشکیل دیا جائے کہ مستقبل میں جرائم یا کرپشن میں ملوث افراد کے لیے ایسی سزائیں تجویز کی جائیں کہ وہ جرائم میں ملوث ہونے سے خوف محسوس کریں۔اس میں سب سے بڑی ذمے داری ہماری سیاسی جماعتوں پر عائد ہوتی ہے مگر بد قسمتی سے ہمارے سیاست دان اپنی ذمے داریوں کو ادا کرنے کے بجائے اپنے اپنے ساتھیوں کو بچانے میں مصروف نظر آتے ہیں۔

4 ۔ہمارا موجودہ عدالتی نظام اور صدیوں پرانے قوانین بھی توجہ چاہتے ہیں۔عدالتی نظام سے وابستہ شخصیات اور عدالتوں میں پیش ہونے والے وکلاء کی بہت بڑی تعداد اس پر متفق نظر آتی ہے کہ معاشرے میں تباہی بربادی کی ایک بڑی وجہ ہمارا عدالتی نظام بھی ہے۔اس میں یہ سکت ہی نہیں ہے کہ طاقتور کو انصاف کے کٹہرے میں لا سکے یا غریب کو سستا اور فوری انصاف فراہم کر سکے جہاں انصاف کے حصول کے لیے بھاری نذرانے کا وکیل لازمی ہو وہاں سستا انصاف پانا کسی دیوانے کا خواب ہی ہو سکتا ہے۔ ایک طرف عوام انصاف کے حصول کے لیے در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہے تو دوسری طرف طاقتور گروہوں نے عدالتی نظام کو گھر کی لونڈی بنا رکھا ہے اور یہ حالات نوجوانوں کو ہتھیار اٹھانے پر مجبور کرتے ہیں اور وہ دہشت گرد عناصر کے ہاتھوں استعمال ہو کر اپنے ہی بھائیوں کے لیے خطرہ بن جاتے ہیں ۔

آپریشن رد الفساد اور نیشنل ایکشن پلان کی جزیات کے تحت اس بات کا بھی جائزہ لینا ضروری ہے کہ ہمارا عدالتی نظام کس طرح بہتر بنایا جا سکتا ہے تاکہ قوم کا عدالتوں پر اعتماد بحال ہو اور ہمارے نوجوانوں کو انصاف کی آسان اور فوری حمایت حاصل ہو سکے۔

 5۔ ہمیں اس کا اعتراف کرنے میں کوئی عار نہیں کہ بہت سے مذہبی رجحانات کے حامل نوجوان شدت پسندی اور دہشت گردی میں ملوث پائے گئے ہیں جو کہ نہایت ہی افسوسناک ہے۔مذہب سے وابستہ نوجوانوں کو تو معاشرے میں خیر و بھلائی کی روشن مثال ہونا چاہیے تھا اور ان سے ہی تو تمام توقعات وابستہ ہوتی ہیں کہ وہ معاشرے میں اسلامی تعلیمات کو فروغ دیں گے اور معاشرے میں انسانیت کی عظمت بحال کرنے کا باعث بنیں گے۔

ان نوجوانوں کا تخریب کاری اور دہشت گردی میں ملوث ہونا ہماری سب سے بڑی بدقسمتی ہے اور اس سے بھی بڑی بد قسمتی یہ ہے کہ معاشرے میں ان واقعات کو بنیاد بنا کر مذہب اور مذہب سے وابستہ ہر شے کو مشکوک بنانے کوشش کی جا رہی ہے۔اس بات سے کوئی بھی ذی رائے شخص اختلاف نہیں کر سکتا کہ اچھے اور برے ہر معاشرے اور طبقے میں موجود ہوتے ہیں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں اور حکومتی اہلکاروں کی ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ ان عناصر کو نہ صرف بے نقاب کریں بلکہ اس طبقے اور معاشرے کو ان سے بچانے کی بھی ہر ممکن کو شش کریں مگر یہاں تو معاملہ ہی الٹ نظر آتا ہے اور سیاسی جماعتوں اور حکومتی اداروں کی اولین کو شش یہ نظر آتی ہے کہ تمام مذہبی اداروں اور مذہبی شخصیات کو ہی مشکوک بنا دیا جائے اور معاشرے میں اس بات کو فروغ دیا جائے کہ تمام برائیاں انہی کے سبب سے ہیں۔یہ ایک سوچی سمجھی سازش ہے کہ جس کے ذریعے یہ سیاسی قوتیں ایک طرف اپنی اپنی صفوں میں موجود کرپٹ مافیا کو بچانے اور غنڈہ گردی میں ملوث گروہوں کو تحفظ فراہم کر رہی ہیں تو دوسری طرف اپنی تمام ناکامیوں کا بوجھ بھی مذہبی طبقے پر ڈال کر عوام کی نظروں میں دھول جھونک کر اقتدار پر قبضہ کرنے کے لیے کوشاں ہوتی ہیں۔

ہمیں امید ہے کہ عسکری قیادت اس معاملے میں متوازن پالیسی تشکیل دے کر آگے بڑھے گی اور مذہبی طبقے کی جائز شکایات کا ازالہ کر کے ان طاقتوں کو قوت فراہم کرے گی جو ملک میں امن و امان کی بحالی میں مدد فراہم کرنا چاہتے ہیں اور مذہبی رجحانات کے حامل نوجوانوں کو شدت پسندی سے بچانے میں کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔

 من حیث القوم ہمیں یہ یقین ہونا چاہیے کہ ہمارے عسکری ادارے اور امن و امان کے قیام کے ادارے اس بات کی اہلیت رکھتے ہیں کہ وہ نہ صرف ملک دشمنوں کا خاتمہ کر سکیں بلکہ ملک کو درپیش ہر خطرے کا سامنا کامیابی سے کر سکتے ہیں۔بس ہمیں اپنی ذمے داریوں کا احساس ہونا چاہیے اور کوشش کرنی چاہیے کہ ہم اتحاد واتفاق سے آگے بڑھیں اور معاشرے میں تعلیم و تربیت محبت و اخوت اور باہمی اعتماد کو فروغ دیں۔

 اگر ہم کامل اعتماد اور درست حکمت عملی کے ذریعے آگے بڑھے تو کوئی وجہ نہیں کہ آپریشن رد الفساد ہماری تاریخ کا آخری آپریشن ہو اور اس کے بعد تعمیر و ترقی کا نیا دور شروع ہو۔


آپریشن رد الفسادکی کامیابی کا راستہ
مفتی ابوذر محی الدین
مدیر، ماہنامہ ایوان اسلام کراچی