info@majlissautulislam.com
© Copyright 2017 Saut-ul-Islam Pakistan All Rights Reserved
Email:
01:30
sautulislampk@gmail.com
+ 92 21 35363159 - 35867580  Fax: + 92 21 35873324
05:30
08:30
Example
بلا مبالغہ علم بحر میں ایسی نابغہ ہستیاں پائی جاتی ہیں جو تشنگان دین وعلم کو سیراب کرتی ہیں لیکن اس علم بحر میں بعض علوم ایسے ہیں جن پر دسترس حاصل کرنے کے لئے جہاں عالم کی اپنی محنت شاعقہ شامل ہوتی ہے وہیں اللہ رب العزت کا خصوصی کرم اور عطا کردہ صلاحیتیں بھی شامل حال ہوتی ہیں کیونکہ بغیر اللہ تعالیٰ کی رضا کے کوئی علم کارآمد ہوتا ہے نہ کوئی کام منطقی انجام تک پہنچ پایا ہے۔
جامعہ اسلامیہ کلفٹن کے شعبہ دارالافتاء کے رئیس حضرت مولانا مفتی کمال الدین المسترشد اسی علم بحر کے ایک شہسوار ہیں جن کی درجنوں تصانیف سے تشنگان علم سیراب ہورہے ہیں ۔ حضرت نے اللہ رب العزت کی توفیق سے قرآن مجید فرقان حمید کی تفسیر بعنوان ’’انعام الرحمن فی تفسیر القرآن‘‘ کا آغاز کردیا ہے ۔
اردو میں کئی تفاسیر موجود ہیں لیکن مصنف کی اس کاوش میںجن نکات کا اہتمام کیا گیا ہے ،یہ ایک منفرد اور عام فہم انداز ہے جس کے ذریعے ایک عام انسان بھی احکام خداوندی اور مقصد قرآن کو سمجھ سکے گا۔ حضرت کی یہ کتاب ابھی زیرِ تألیف ہے ۔ آپ کی خصوصی اجازت سے ہم اپنے قارئین ’’ایوان اسلام ‘‘کے لئے پیش کررہے ہیں جو سلسلہ وار انہی صفحات میں شائع ہوگی۔
گزشتہ سے پیوستہ
تفسیر سورۂ فاتحہ آیت نمبر1تا 2
’’الحمد للّٰہ‘‘
حمد کو لفظِ اللہ پر مقتضائے مقام کی وجہ سے مقدم کیا کیونکہ یہاں حمد وثناء کا بیان مقصودی ہے مگر اس کے باوجود حمد،اللہ کے ساتھ خاص ہے کہ الحمد کا الف لام جنس یا استغراق کے لئے ہے اور ’’لِلّٰہ‘‘ کا لام تخصیص واستحقاق کے لئے ہے نیز زمخشری نے کشاف میں لکھا ہے کہ حمد کا بیان ’’ایاک نعبدوایاک نستعین‘‘ سے ہوا ہے گویا کہا گیا کہ تم کس طرح حمد کرو گے ؟ تو گویا کہا گیا کہ ہم خاص اللہ کی عبادت اور اسی سے مدد طلب کریں گے اور ظاہر ہے کہ ’’ایّاک‘‘ میں تخصیص ہے۔ اس موقع پر یہ بات مشہور ہوگئی ہے کہ علامہ زمخشری چونکہ مُعتزلی ہیں اور معتزلہ انسان کو اپنے افعال کا خالق مانتے ہیں اس لئے انہوں نے ’’الحمد‘‘ کے الف لام کو بجائے استغراق کے جنسی قرار دیا ہے، کیونکہ بعض حمد ان افعال پر بھی ہوتی ہے جو انسانی تخلیق ہیں، لیکن علاّمہ تفتا زانیؒ نے مطول میں اس تأثر کو غلط قرار دیا ہے، کہ یہ بحث محض لغوی ہے نہ کہ اعتقادی کیونکہ معتزلہ گو کہ انسان کو کسی درجہ میں خالق مانتے ہیں مگر وہ یہ بھی مانتے ہیں کہ انسان کو افعال کی تخلیق کی قدرت اللہ ہی نے دی ہے بنا بریں تمام محامد کے مستحق اللہ ہی ہے، علّامہ زمخشری یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ’’حمد‘‘ مصدر ہے اور اصلاً منصوب ہے تقدیر اس طرح ہے ’’حمدتُ اللہ حمداً‘‘ پھر اس سے جملہ اسمیہ کی طرف انتقال کیا گیا تاکہ عبارت دوام اور ثبوت پر دلالت کرے کیونکہ جُملہ اسمیہ بذاتِ خود دوام پر دلالت کو مستلزم نہیں مگر جب فعلیہ سے معدولہ ہو تو پھر دوام پر دلالت کرتا ہے اور فعل تو حقیقت یعنی جنس پر دلالت کرتا ہے لہٰذا جو چیز فعل کی قائم مقام ہوگی وہ بھی جنس پر دلالت کرے گی علیٰ ھذا جب جنسِ حمداللہ کے ساتھ مختص ہوگئی تو باقی کسی کے لئے حمد کا اثبات صحیح نہ ہوا کیونکہ اگر حمد کا ایک فرد بھی غیر اللہ کے لئے ثابت ہوجائے تو اللہ کے ساتھ تخصیصِ جنس نہیں رہے گی کیونکہ اس فرد کے ضمن میں جنس آجائے گی۔ 
تاہم علامہ تفتازانی فرماتے ہیں کہ اگر حمد کو فعل مقدر کا مفعول مطلق (مصدر) مانا بھی جائے تب بھی یہ لام استغراق کے منافی نہیں ہے کیونکہ قائم مقام دراصل مصدرِ نکرہ ہوتا ہے جیسے ’’سلام علیک‘‘ علیٰ ھذا اگر اس نکرہ ’’حمد‘‘ پر الف لامِ استغراق داخل ہوجائے تو اس سے کوئی وجہ مانع نہیں بن سکتی۔
پھر صاحبِ کشاف کے نزدیک حمد اور مدح دونوں ہم معنی ہیں، جبکہ قاضی بیضاویؒ فرماتے ہیں کہ کسی کو اختیاری (اور اچھے) فعل پر خراج تحسین پیش کرنا حمد ہے خواہ وہ فعل اِنعام ونعمت دینا ہو یا نہ ہو جبکہ مدح مطلق خراجِ تحسین پیش کرنے کو کہتے ہیں۔
حمد ومدح دونوں کے مقابل ذم آتا ہے، ایک تیسری چیز شکر ہے جو نعمت یعنی حُسن سلوک کی وجہ سے ادا کیا جاتا ہے کبھی الفاظ کی صورت میں، کبھی عمل جیسے خدمت وغیرہ کی شکل میں اور کبھی قلبی عقیدت مندی کے ذریعے،
بہرحال الحمد مبتدأ ہے اور لِلّٰہ اس کی خبر ہے یہ جملہ اسمیہ خبر یہ ہے اسی کو علاّمہ آلوسیؒ نے تحقیقی قول قرار دیا ہے اور چونکہ تمام تعریفات کے اللہ کے لئے ثبوت کی خبر دینا بعینہ حمد وثنا ہے اس لئے اس کو انشاء بنانے یا بمعنی انشاء ماننے کی ضرورت نہیں ہے۔ پس ترجمہ یوں ہوگا سب طرح تعریف اللہ ہی کے لئے ہے۔
’’رَبِّ العٰلمین‘‘
جو تمام مخلوقات کا پالنے والا ہے ۔ ربوبیت یا تربیت کے معنی ہیں کسی چیز کو اکائی سے نشوونما دیتے رہناتاآنکہ وہ حدِّ کمال کو پہنچ جائے، اردو میں اس کا ترجمہ پروردگار سے بھی کیا جاتا ہے، چونکہ انسان اکثر اثرات کو دیکھ کر ان کے اسباب وعلل تلاش کرتا ہے اس بناء پر جب مادہ پرستوں نے خدا کی ذات اور کاریگری سے صرفِ نظر کیا تو وہ مادی نظام کے تنگ دائرے کے اندر گردش کرتے کرتے مختلف زوایہ سے دیکھنے لگے اور ہر ایک نے اپنے زاویۂ نگاہ کے تناظر میں اسباب کا دعویٰ کیا ،ڈارون نے اِرتقاء کا نظریہ گھڑلیا، کسی نے ھٰیُٓولیٰ اور صورت کا سہارا لیا اور کسی نے اجزائے دیمقراطیسیہ وغیرہ کے من گھڑت خیالات پیش کئے، حالانکہ مخلوق کی تربیت وتدبیر جس لطیف وباریک انداز سے ہورہی ہے بنظر انصاف دیکھا جائے تو سوائے خدائے تعالیٰ کے ایسی کوئی طاقت قابلِ توجہ نہیں ہے جس کے متعلق کہا جائے کہ یہ سب کچھ وہی کرتی ہے خواہ وہ مخلوق کی ذات کے اندر تصور کی جائے یا باہر؟ پھر رب صرف پرورش کنندہ کو نہیں کہتے بلکہ جو مالک بھی ہو علیٰ ھذا اللہ عزوجل تمام مخلوقات کا ایسا مالک ہے جو تنہا ان کی تربیت کرتا ہے۔ اللہ کے سوا دوسرے مالکوں پر رب کا اطلاق اضافت کی صورت میں تو ہوسکتا ہے جیسے رب الدار، ورب الدابہ لیکن صرف ’’رب‘‘ کا اطلاق اللہ کا خاصہ ہے۔ ترکیبی اعتبار سے رب مجرور ہے کہ لِلّٰہ کی صفت ہے اور ’’عالمین‘‘ کِہہ کر یہ اعلان کردیا کہ وہ کسی مخصوص جنس یا نوع کا پروردگار نہیں جیسا کہ خود ساختہ مذاہب کے ماننے والوں نے ایک تصور قائم کیا ہے کہ عرب کے فلاں قبیلے کے خدا کا نام عُزّیٰ ہے اور فلاں کا لات اور ہندوستان والوں نے کہا کہ ہمارا خدا عربوں کے خدا سے سو گنا زیادہ طاقتور ہے اس لئے وہ سومنات سے موسوم کیا گیا، یہ جملہ اللہ کی کتنی عظیم شان ظاہر کرتا ہے کہ کائنات کے ذرہ ذرہ سے لے کر سماوات اور عرش وکرسی سمیت سب کا رب اللہ جل شانہ ہے، اس نے تمام مرئی وغیر مرئی مخلوقات کے لئے اپنے اپنے ضابطے اور مضبوط نظام بنائے ہیں ہم جب اس چھوٹی سی دنیا پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں بہت کچھ نظر آتا ہے، ہم ان محدود موجودات میں بے شمار قوانین وتدابیر کا مشاہدہ کرسکتے ہیں، ان تمام نظامہائے موجودات کے سِرے اللہ عزوجل کے دستِ قدرت میں ہیں کوئی چیز اللہ کی اجازت اور حکم کے بغیر سرِمُو کے بقدر اختیار نہیں رکھتی۔
اس ربوبیت کا دائرہ کہاں تک ہے اور کتنا وسیع ہے یہ سوائے اللہ عزوجل کے کوئی بھی نہیں جانتا کہ انسانی تصور غیر متناہی دائرے اور لامتناہی وسعت تک کبھی بھی رسائی حاصل نہیں کرسکتا مثلاً اگر ہم ایک خط یا ایک زمانہ ماضی کی طرف جاتا ہوا فرض کریں تو ایک نقطہ پر جاکر ہمارا تصور منقطع ہوجائے گا ہم اس سے آگے نہیں بڑھ سکیں گے، اسی طرح سمجھنا چاہیے کہ اللہ عزوجل کی ربوبیت وتربیت ایک لامتناہی سلسلوں کا نام ہے جن کی وہ جھلکیاں شاید ہمیں نظر آسکیں جو ہمارے سامنے ہیں اور جن کا تعلق حال ومشاہدہ سے ہے مگر جو ہماری نظروں سے اوجھل ہیں اور جو لامتناہی ماضی اور لامتناہی مستقل سے تعلق رکھتے ہیں ہم ان کی صحیح تعبیر تک نہیں کرسکتے ہیں، البتہ اس ’’رب العلمین‘‘ کے جملہ نے ایک لامتناہی حقیقت کو اپنے اندر سمیٹا ہے جس سے ہم کچھ سبق سیکھنے کے قابل ہوگئے ہیں ’’والحمدللّٰہ علیٰ ذالک‘‘ جو لوگ اس پہلی آیت کے اس جملہ پر غور کرنے سے محروم ہوگئے ہیں وہ ہر خیرو بھلائی سے محروم کردیے گئے ہیں، ایسے لوگوں نے فرضی خدائوں کا سہارا لینے کی کوشش کی ہے، مگر وہ اس پر غور نہیں کرتے کہ ان خدائوں میں کتنی طاقت ہے جو اس عالم کو تھام سکیں اور اس کے نظام کو چلاسکیں، آج کا ترقی یافتہ انسان بُڑھاپے سے ارتقائی سفر کرکے واپس پرانی جوانی یا نئی جوانی تک نہیں پہنچ سکتا مگر ان کے زعم میں جب وہی انسان بہت کمزور تھا تو اس نے ترقی کے مراحل ازخود طے کرکے وہاں تک پہنچ گیا جہاں وہ آج ہے ظلم کی بھی ایک حد ہوتی ہے ۔ ازل میں ’’عہد الست‘‘ کے وقت اللہ کی ربوبیت کا اقرار کیا مگر اب اس سے مُکرگئے۔
 ’’عالمین‘‘ عالم کی جمع ہے جو اللہ کی ذات وصفات کے علاوہ تمام موجودات کو کہتے ہیں یہ قالب وخاتم کے وزن پر ہے ’’ما یُعلم بہ الصانع‘‘ کو کہتے ہیں یعنی جو اپنے خالق پر دلالت کریں بالفاظِ دیگر جو اللہ کی صنعت وتخلیق کے مظاہر ہوں چنانچہ جب ہم تعصب اور گمراہی کی عینک پھینک کر کائنات میں صحیح غور کرتے ہیں تو ہمیں یقین آجاتا ہے کہ اس کار خانۂ قدرت کا ضرور کوئی بنانے والا ہے اور یہ کہ وہ واحد لا شریک ہے اور علیم قدیر، سمیع، بصیر اور علیم ہے عالم کا مفرد یعنی واحد نہیں آتا البتہ یہاں پر جمع کا صیغہ ذکر کیا گیا ہے کیونکہ عالم کبھی ایک ہی جنس کو بھی کہتے ہیں جیسے عالم دنیا، عالم آخرت، عالم برزخ اور عالم ملکوت وغیرہ اسی طرح آسمان وافلاک ایک عالم ہے۔ فرشتے دوسرا عالم ہے، حیوانات الگ عالم ہے الی غیر ذالک اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہمارا پورا نظام شمسی ایک عالم ہو اور اس طرح عوالم دوسرے بھی ہوں جن کا تذکرہ متقدمین ’’عالمین‘‘ کے جمع کے صیغے کی روشنی میں کرتے تھے اور آج دور بینوں نے کھوج لگاکر ایسے کئی نظاموں کی تصدیق کی ہے، یہ بھی ممکن ہے کہ وہاں کچھ جاندار بھی ہوں اور کچھ کچھ اثرات حیات کے تو بعض سیاروں پر دوربین کی آنکھ نے ضبط بھی کئے ہیں۔
پھر جمع کا صیغہ جہاں دوسرے اسرار ورموز پر ناطق ہے وہیں یہ صیغہ یا اور نون کے ساتھ عقلاء کی تغلیب پر بھی دال ہے جس سے یہ معلوم ہوتاہے کہ اللہ نے عقل والوں کو دوسری مخلوقات پر بطور خاص انعام کیا ہے کہ ان کی تربیت کا خصوصی ذکر فرمایا جس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ اہل عقل کے لئے عقل کا استعمال ازحد ضروری ہے اور ان کے اندر عقل ودیعت کرنا کسی بڑے مشن کے بغیر نہیں ہے اگر عقلمند نے تعقّل سے کام نہ لیا تو کل وہ بطور افسوس کہے گا ’’وقالوا لوکنا نسمع او نعقل ما کنا فی اصحاب السعیر‘‘ (سورۂ ملک آیت 10)
اور یہ جہنمی کہیں گے اگر ہم سنتے اور جانتے تو ہم (آج) دوزخ والوں میں نہ ہوتے۔
پس معلوم ہوا کہ ’’رب العٰلمین‘‘ ’’الحمدللہ‘‘ کی دلیل ہے کہ جب اللہ سب کا مربّی ہے تو پھر سب تعریفیں بھی اسی کے ساتھ مخصوص ہیں، لیکن یہاں سے کسی کو غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ حمد وثناء کا استحقاق جمع کے صیغہ کی وجہ سے ثابت ہے؟ نہیں بلکہ ایک ایک ذرّہ بھی صانع کے وجود اور عظیم صفات کمالیہ پر دلالت کرتا ہے کہ ایک ذرہ میں بھی بڑی حکمتیں پنہاں ہوتی ہیں، جمع کا صیغہ تو مبالغہ کے لئے ہے کہ جو ذات اتنی مخلوقات کی تخلیق بھی کرتی ہے اور اس کی پرورش بھی تو یہ کیسے ممکن ہے کہ حمدوثناء اور عبادت کا حق کسی غیر کے لئے تسلیم کیا جائے؟ پس اس آیت میں توحید اور اس کی دلیل دونوں کا ذکر ساتھ ساتھ ہوا ہے۔
’’الرحمن الرحیم‘‘
اس میں یہ اشارہ ہے کہ اللہ عزوجل مخلوق کی پرورش محض اپنے کرم سے کررہا ہے یہ کسی غرض یا بامرِ مجبوری کے نہیں ہے، اس سے حمد کے استحقاق وتخصیص کو مزید تقویت ملتی ہے کہ جس ذات کی مہربانی کا یہ عالم ہے کہ وہ سب پر مہربان ہے تو کیوں نہ صرف اسی کی تعریف کریں، اور یہ کہ کسی غیر کو مدح کے استحقاق کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔
چونکہ لفظ ’’اللہ‘‘ ذات واجب الوجود المستجمع لجمیع الصفات الکمال المنزہ عن الزوال والنقصان، کا نام ہے اس لئے ان دو آیات مبارکہ میں اللہ کی خالقیت، ربوبیت اور رحمانیت کا ذکر ہوا اور رحمانیت کا تذکرہ مکرر کیا گیا جس میں اللہ کی صفتِ رحمانیت کے ثبوت پر زور دیا گیا ہے اس سے معلوم ہوا کہ اللہ عزوجل کی صفات زیادہ تر وہی ہیں جن سے مخلوق پر مسلسل شفقت ورحمت ہی برستی اور نازل ہوتی رہتی ہے، غضب کا نزول تو شاذ ونادر ہی ہوتا ہے کہ جب مخلوق میں سے کوئی نافرمانی کی تمام حدیں کراس کردے یہاں تک اللہ کے وجود یا صفات کا منکر ہوجائے تو وہ شفقت کا دروازہ اپنے اوپر خود ہی بند کردیتا ہے، ایسے نافرمانوں کا موازنہ اگر فرمانبردار مؤمنین اور سب فرشتوں سے کیا جائے تو ان کی تعداد بہت کم رِہ جاتی ہے اس لئے اللہ کی رحمت اس کے غضب پر غالب رہنے کا مصداق ہے۔
پھر پہلی آیت میں مبدأ کا ذکر ہوا ہے اور مالک یوم الدین یعنی تیسری آیت میں معاد کا ذکر ہے مگر اللہ کی صفات چونکہ ازلی وابدی ہیں اس لئے کسی ایک عالم کا تذکرہ صفات کو محدود نہیں کرسکتا کیونکہ اللہ ہمیشہ مربی ہے اور ہمیشہ رحمن ورحیم ہے اور ہمیشہ مالک ہے ، اللہ کی مخلوقات میں ہر وقت کوئی نہ کوئی تبدیلی چلتی رہتی ہے ’’کل یوم ھوفی شأنٍ‘‘۔
(جاری ہے)

انعام الرحمن فی تفسیر القرآن
مولانا مفتی کمال الدین المسترشد
رئیس دارالافتاء جامعہ اسلامیہ کلفٹن کراچی