info@majlissautulislam.com
© Copyright 2017 Saut-ul-Islam Pakistan All Rights Reserved
Email:
01:30
sautulislampk@gmail.com
+ 92 21 35363159 - 35867580  Fax: + 92 21 35873324
05:30
08:30
Example
پچھلی دو تین دہائیوں سے، ہند پاکستان میں دینی اسلامی مدرسوں کے نصاب تعلیم میں اصلاح وترمیم کرنے، مدرسوں کے نظام تعلیم کو مؤثر، مفید وبامقصد بنانے اور اس کے ذریعہ سے سلف کا منہج ومزاج اور ان کی سی عمدہ صلاحیتوں، اعلیٰ دماغ، اعلیٰ فکر اور خاص تازہ بصیرتوں سے پُر اصحاب تیار کرنے اور علم وعمل کی اس کشتی کو جو برسوں سے منجدھار میں ہچکولے کھارہی ہے اس خطرہ کی وجہ سے اس نظام ونصاب تعلیم میں نئی روح پھونکنے، تازگی وتوانائی کا مرقع اور نئی تاثیر وفعالیت سے آراستہ کرنے کے لئے موضوع تحریرات ومضامین، تصانیف وکتب، سیمیناروں اور کانفرنسوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے۔دلچسپ یہ ہے کہ اس موضوع پر شائع ہونے والی ہراک نئی کتاب کے متعلق ایسا تاثر ظاہر کیا جاتا ہے کہ یہ اس موضوع کا ایک سنگ میل تاریخی، عہد ساز کام ہے جو:۔
جہانے رادگرگوں کردیک مرد خدا گاہے
کی عملی تفسیر ثابت ہوگا، مگر کچھ دنوں کے بعد یہ نئی تحریر وتصنیف بھی کتابوں کی بھیڑ میں اسی طرح گم ہوجاتی ہے جیسے بہتے دریا میں کنکر پھینکنے سے ایک بلبلہ سا نمودار ہوتا ہے جو چند لمحوں میں ہی معدوم ہوتا ہے۔ اسی طرح اس موضوع کی اکثر تازہ تحریرات، نہ کوئی فکر بنا پاتی ہیں نہ ان کے ذریعہ سے مدرسوں کے نصاب ومعمول میں ترمیم وبہتری کے آثار نظر آتے ہیں اور نہ ہی ان میں ایسے چشم کشا اوراق شامل ہوتے ہیں جو کاروان علم کی ترقی کے لئے ایک نئی جہت یا نئی تصویر ثابت ہوں۔
پہلی بنیادی بات: نصاب تعلیم کے حوالے سے پہلی بات تو ایسی تجویزوں اور مشوروں کی فراوانی ہے جس کی بنیادی کمزوری یہ ہے کہ ان میں سے ہر ایک تصنیف وتحریر اور تجویز وکانفرنس میں بات اس طرح شروع کی جاتی ہے جیسے یہ گفتگو، یہ بحث، پہلی بار اٹھائی جارہی ہے، اس سے پہلے اس پر مفید ومؤثر گفتگو نہیں ہوئی، یعنی اس سے پہلے جو کچھ لکھا یا کہا گیا تھا بعد کی تحریرات ومقالات اور تجویزوں میں ان سے بہت کم فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ ہر مرتبہ نئے سرے سے بات شروع ہوتی ہے جو چند نئی تجویزوں، مشوروں پر آکر ختم ہوجاتی ہے۔
اس لئے سب سے پہلی حقیقی ضرورت یہ ہے کہ پرانے لائق عمل مشوروں، تجویزوں کا ایسا خلاصہ اور حاصل تیار کیا جائے جو مؤثر اور عملی ہو ایسا عملی کہ جب موقع ہو اس خلاصہ کو عملی صورت میں سامنے لایا جاسکے۔ جس کا یہ پہلو بھی سامنے رہنا چاہیے کہ نئی ترتیب علوم اور کسی نصاب کے نتائج واثرات اس وقت تک سامنے نہیں آسکتے جب تک اس نئی ترتیب پر مرتب نصاب تعلیم کے ذریعہ سے تعلیم حاصل کرکے طلبہ کی کم سے کم دو جماعتیں (Batch)فارغ نہ ہوجائیں۔ اس کے بعد ہی اندازہ ہوسکے گا کہ ان تجویزوں میں کس قدر وزن اور معنویت ہے اور عمل وتجربہ کی کسوٹی پر ان کا رنگ کس قدر پختہ ہے اور کتنی دیر تک قائم رہنے والا ہے۔یقینا نصاب تعلیم ایک زندہ اور لائق عمل چیز ہے، اس سے متعلق تجویزوں، مشوروں کو مؤثر اور لائق عمل ہونا چاہیے، وہ فلسفہ یا مابعد الطبعیات کے مسائل نہیں ہیں کہ ان کے لئے صرف بحث وتبصرہ کافی ہو، عملی زندگی میں ان کے نفاذ واحیاء کی ضرورت سامنے نہ آئے۔
مدرسہ، اس کا نظام، نصاب تعلیم اور اس کے مطابق تعلیم وتربیت، ایک عملی اور سو فیصد عملی چیز ہے، جس کے لئے ظاہری وجود، مسلسل مؤثر کوشش، خاص محنت اور عالم اسباب میں اس کی عمدہ نمود ضروری ہے اور جب تک کسی ایک طریقہ تعلیم کو کسی درس گاہ میں نافذ کرکے اس کے تمام پہلوئوں کا توجہ اور گہرائی سے جائزہ نہ لیا جائے۔ وہاں کے طلبہ اور کلاسوں پر اس کے اثرات وثمرات کا حسب توقع اثر اور فائدہ محسوس نہ ہو اس وقت تک اس نصاب اور تجویز وتبصرہ کی حقیقت جاننا مشکل ہے۔
نئے نصاب اور طریقہ تعلیم میں ایک بڑی رکاوٹ:۔ لیکن ہمارے یہاں نفا نفسی کا جو عالم ہے اس میں امید نہیں کہ ایسے لمبے تجربہ کے لئے باصلاحیت علماء اور لائق درس استاذ اپنی قوت اور 10،15 سال کا لمبا وقت خرچ کرنے کے لئے تیار ہوں گے۔ اگر تیار بھی ہوجائیں تو نئی کتابوں یا طرز تعلیم کے مطابق پڑھنے والے نئے طالب علموں کے لئے ایک مشکل سب سے بڑی رکاوٹ بڑے مرکزی مدرسوں میں داخلہ کے وقت سامنے آتی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہمارے اہل مدارس، طالب علموں کی استعداد وصلاحیت اور اعلیٰ کتابوں کے پڑھنے سمجھنے میں ان کی لیاقت کو اصل نہیں سمجھتے بلکہ چند خاص کتابوں کی تعلیم ان کا امتحان اور اس میں کامیابی بڑے مرکزی مدرسوں میں داخلہ کے لئے ضروری سمجھی جاتی ہے۔بڑے مدرسوں میں عموماً ان ہی طلبہ کا داخلہ ممکن ہوتا ہے جو فلاں، فلاں کتابیں، ایک خاص ترتیب سے پڑھ کر آئے ہوں۔ یہ بھی ایک مشاہدہ ہے کہ اکثر اہل مدرسہ کو طلبہ کی استعداد سے عموماً غرض نہیں ہوتی۔ صرف اپنے مدرسہ میں طلبہ کی زیادہ تعداد دکھانے کا اور زیادہ جماعتوں کا شمار کرانا زیادہ ضروری گویا ایک مقصد ہوتا ہے۔
دوسرے نصابوں کے ذی استعداد طلبہ، بڑے مدرسوں میں داخلہ سے محروم رہ جاتے ہیں:۔حالانکہ اس کا بار بار تجربہ ہوا ہے کہ ایسے متعدد طالب علم، جنہوں نے پرانے نصاب وطریقۂ تعلیم کے مطابق نہ پڑھا ہو، ابتدائی اور اوسط مدرسوں میں بلکہ کسی عالم سے ذاتی حیثیت سے یا کسی ایسے نئے مدرسہ میں پڑھنے والوں کی لیاقت اور استعداد پر صلاحیت پر توجہ ہو اس مدرسہ کی نئی ترتیب ومزاج کے مطابق پڑھا ہو، ایسے طلبہ کی علمی لیاقت اور قوت تفہیم، پرانے مدرسوں کے اکثر طلبہ سے بہتر ہوتی ہے مگر اس تعلیم ولیاقت کے باوجود ایسے طلبہ کو خاص کتاب یا ترتیب کی پابندی کی وجہ سے بڑے ممتاز مدرسوں میں داخلہ نہیں ملتا تو ان کی ہمت ٹوٹ جاتی ہے، علمی امنگ سرد پڑجاتی ہے، اس کمی کو دور کرنے اور عمدہ صلاحیتوں کے طلبہ کو علمی مدارس ومراکز میں داخلہ دینے کے لئے چند باتوں پر توجہ بیحد ضروری ہے۔
بڑے مدرسوں میں مختلف نصاب ہائے تعلیم کے طلبہ کے لئے داخلوں کا انتظام اور حصہ ہونا چاہیے:۔ یا کسی خاص نصاب تعلیم اور کتابوں کی پابندی پر زور نہ ہو، بلکہ اعلیٰ کتابوں کے سمجھنے اور درسی کتابوں کے مطالب کے حل کرنے کو بنیاد بنالیا جائے، یا ہر اک بڑے مدرسہ میں ایسے طلبہ کے لئے کچھ نشستیں خاص کردی جائیں جن کی تعلیم کسی عالم کی ذاتی کوشش سے یا کسی اور سلسلہ تعلیم سے ہوئی ہے تو امید ہے کہ ان شاء اللہ اعلیٰ علمی صلاحیتوں میں ترقی ہوگی، تعلیم کی کیفیت میں جلد ہی اضافہ محسوس کیا جائے گا لیکن جب تک یہ پابندی برقرار رہے گی اس وقت تک تعلیم اور صلاحیتوں میں بہتری کی امید دانشمندی نہیں ہوگی۔
مدرسہ میں درسی کتابوں کے اردو ترجموں شرحوں پر سخت پابندی ضروری ہے: ایک اور اہم بنیادی بات جو تمام پرانے مدرسوں کے طلبہ کو،سخت نقصان پہنچانے والی ہے درسی کتابوں کے اردو ترجموں کی کثرت، ان کی شرحات کی فراوانی اور ان کا مدرسین اور طلبہ کے ہاتھوں میں رہنا ہے۔ حالانکہ ان میں سے زیادہ تر ترجمے اور شرحیں، نہایت ناقص اور گمراہ کرنے والی ہیں۔ یہ ترجمے اور شروحات ان کے مترجمین ومؤلفین کے فقدان علمی، خصوصاً اس موضوع اور کتاب  سے ناواقفیت کی سند ہوتی ہیں جن کا وہ ترجمہ فرمارہے ہیں۔ علم کے جویا مگر علمی ترقی کے راستوں سے ناواقف نئے طلبہ جب ان کتابوں کو سامنے رکھ کر علمی لیاقت اور تعلیمی سفر کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں تو ان کے ہاتھ کچھ نہیں آتا لیکن طلبہ کو اس کا دیر میں پتہ چلتا ہے کہ جس چیز کو وہ چشمۂ حیات سمجھ رہے تھے، وہ صرف ایک سراب اور فریب تھا۔
اردو کی اکثر شرحیں، ابتدائی صلاحیت واستعداد کو بالکل ختم کردیتی ہیں:۔ مدرسوں میں ضابطہ اور اصول یہ ہونا چاہیے کہ جو استاد درسیات پڑھانے کے لئے اردو ترجموں، شرحوں کی مدد لیتا ہے، اس کو اس درجہ کے طلبہ کو پڑھانے کے لائق نہ سمجھا جائے۔ بہتر تو یہ ہے کہ ایسے لوگوں کو مدرسہ میں مدرس کے طور پر جگہ ہی نہ دی جائے۔
مزید افسوس اور بدنصیبی یہ ہے کہ یہ شرحیں اور ترجمے وہ اصحاب لکھ رہے ہیں جوان نصاب ہائے تعلیم کے ترجمان اور محافظ سمجھے جاتے ہیں۔ تاہم یہ بات بہت واضح ہے کہ جب تک درسی کتابوں کے ناقص اردو ترجموں اور شرحوں کا چلن ختم نہیں ہوتا، شرحوں کے نام پر غلط سلط کتابوں کا سامنے آنا اور ان کی اشاعت وطباعت کا سلسلہ بند اور ان کا مدرسوں میں داخلہ نہیں ہوتا، اس وقت تک یہ امید کرنا کہ ان ترجموں کو پڑھ کر تیار ہونے والے طلبہ علمی لیاقت واستعداد حاصل کرلیں گے، اچھے عالم یا مدرس بن سکیں گے، دیوانے کے خواب سے زیادہ کچھ نہیں۔مدرسوں کے تیز رفتار تعلیمی زوال کو روکنے کے لئے یہ فیصلہ بہت بنیادی اور نہایت ضروری ہے جب تک یہ نہیں ہوگا اس وقت تک باصلاحیت طلبہ اور ذی استعداد استادوں کی جستجو ناکام ہی رہے گی۔
مدرسین کے تقرر میں سفارش قبول کرنا یا رشتے داری کا خیال بھی تعلیمی زوال کی ایک خاص وجہ ہے: ابتدائی درجوں کے لئے مدرسین خوب جانچ تول کر رکھے جائیں، جس میں کسی کی سفارش اور قربت ورشتے داری کا خیال نہ کیا جائے۔ استاذ ایسے ہونے چاہئیں جو کتابوں کے مطالب حل کرنے سے بڑھ کر ان کے تمام مندرجات پر اس طرح حاوی ہوں کہ اگر ضرورت ہو تو قدیم علماء اور پرانے جید استادوں کی طرح اپنے شاگردوں کو یہ کتاب اس طرح پڑھادیں کہ طلبہ کو محسوس بھی نہ ہو مگر متعلقہ کتاب اور وہ فن ان کے ذہن ودماغ میں اترجائے لیکن مشاہدہ اور عمومی تجربہ یہ ہے کہ فن تو بہت دور کی بات ہے ہمارے اکثر مدرسین بلکہ ان کتابوں کے بار بار پڑھانے والوں کو بھی اس کا پتہ نہیں ہوتا کہ یہ کتاب کیوں پڑھائی گئی ہے طلبہ کو اس سے کیا فائدہ ہونا چاہئے تھا مجھے کیا فائدہ پہنچا۔بلاشبہ ابتدائی کتابیں آخر تک کی تمام تعلیم اور صلاحیت کی بنیاد ہوتی ہیں جب یہی کتابیں ناقص اور کمزور کی ہوں گی تو یقینا ’’تاثر یامی رودیوارکج‘‘ کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوگا۔اس لئے ایسے فارغین جن کی ابتدائی کتابوں کے مضامین پر پوری پکڑ اور ان کی عملی مشق نہ ہو طلبہ کو ان کے حوالہ کرنا سراسر زیادتی بچوں کی زندگی اور دینی تعلیم دونوں کے ساتھ ظلم عظیم ہے۔اگر اسی ایک کمزوری پر قابو پالیا جائے، تو امید ہے کہ دینی تعلیم پر اٹھائے جانے والے بہت سے سوالات کا واضح جواب ہوجائے گا۔
مدرسوں میں فکروعمل کی پابندی کی وجہ سے، نئے فارغین کا بے عمل ہوجانا:۔ ہمارے مدرسوں میں خاص طرح کی اندرونی بندشیں اور بے عملی بھی تعلیم پر بہت زیادہ اثر انداز ہوتی ہے، اس کا ایک اثر یہ ہے کہ وہ نوجوان اور ذی صلاحیت مدرسین، جو بڑے جذبوں اور ولولوں سے مدرسوں میں پہنچتے ہیں، اول اول درسیات کے گہرے جائزہ، ان کی تصحیح وتدوین جدید کے علاوہ اعلیٰ عربی شرحات کو سامنے رکھ کر درس کی تیاری کے اہتمام اور نایافت کی جستجو کے ساتھ سرگرم عمل ہوتے ہیں لیکن حالات جلد ہی ان سے کہہ دیتے ہیں کہ اس محنت اور کنج وکائو کی ذرا بھی ضرورت نہیں، نہ اہل مدرسہ اس کے خواہاں ہیں نہ طلبہ سے اس کا مطالبہ ہے، نہ ہی اس محنت ودماغ سوزی کی کچھ قدر کی جائے گی۔ جب یہ تجربہ سامنے آتا ہے (اور اکثر مدرسوں میں عموماً یہی ہوتا ہے) تو اس مدرس، تازہ وارد عالم اور استاد کا حوصلہ ٹوٹ جاتا ہے اس کے بعد اس کا اس کتاب سے بس اسی طرح کا رابطہ رہ جاتا ہے جیسا اور مدرسین کا، کہ اگر متعلقہ درسی کتاب پڑھانے کے لئے اردو شرح نہ دیکھی تو کسی پرانے بڑے عالم کی تقریر پر نظر ڈالی جائے اسی کی بنیاد پر اس کتاب کے درس کی تکمیل ہوجاتی ہے۔چوں کہ اس درس وافادہ کی بنیاد اپنی محنت وصلاحیت نہیں مانگے کا اجالا (یعنی دوسروں کی تقریروں پر) ہوتی ہے اس لئے ایسے درس سے نہ طلبہ مطمئن ہوتے ہیں ، نہ طلبہ کی استعداد میں کچھ اضافہ ہوتا ہے اور نہ ہی اس میں برکت ہوتی ہے۔
جو بچے اردو بھی نہیں جانتے ان کو فارسی میں، نحووصرف پڑھانا غلط ہے: اہل مدارس کے یہاں اس پر بھی زیادہ غوروفکر نہیں کیا جاتا کہ نحووصرف کی بنیادی سب سے پہلی کتابوں کو فارسی میں پڑھانے کا کیا تُک ہے، کیا فائدہ ہے۔ یہ طریقۂ تعلیم اس وقت تک درست اور برمحل تھا جب مدرسوں میں داخل ہونے والے نوعمر بچے اردو میں خاصی دسترس اور فارسی کی ابتدائی شناخت حاصل کرکے آتے تھے جس کی وجہ سے فارسی کی ابتدائی کتابیں پڑھ لینا ان کے لئے مشکل نہیں تھا وہ کم وقت میںفارسی کی استعداد بڑھاکر ایسی لیاقت حاصل کرلیتے تھے جس سے وہ نحو وصرف کی درسیات پوری طرح حل کرلیتے تھے مگر مدرسوں میں اب جو بچے آتے ہیں وہ اکثر اردو زبان سے بھی ناآشنا ہوتے ہیں ان کو اردو پڑھانا بھی ایک خاصا کام ہوتا ہے مگر مدرسوں میں شروع سے ان کے ہاتھوں میں فارسی کی کتابیں دے دی جاتی ہیں جو ان کے لئے کریلہ اور نیم چڑھا ثابت ہوتی ہیں، اس لئے یہ خیال ضروری ہے کہ اگر ان پرانی کتابوں کی تعلیم ہی کسی وجہ سے ضروری ہو تو صرف ان کے قواعد اردو میں پڑھاکر ان کی عملی مشق کرائی جائے۔ کمسن طالب علموں پر دہرا بوجھ نہ ہو اس دہرے بوجھ کی وجہ سے وہ زبان اردو فارسی دونوں سے ناواقفیت کے علاوہ عربی کے اصول وقواعد سے بھی محروم رہ جاتے ہیں۔
ہندوستان کے قدیم دینی علمی ذخیرہ سے واقفیت کے لئے فارسی کی تعلیم ضروری ہے: مدرسوں کے نصاب تعلیم میں ایک بہت بڑا سوال فارسی کی تعلیم وتدریس کا بھی ہے۔ اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ ہند پاکستان کے اکابر، علمائ، مصنفین کا علمی سرمایہ جو بلاشبہ ملی قومی ورثہ 900سال کی محنتوں کا نتیجہ اور ہزار ہا ہزار کتابوں پر مشتمل ہے، فارسی میں ہے مگر نئی نسل کا فارسی سے کچھ رشتہ نہیں رہا بلکہ اکثر نو عمر طلبہ فارسی کو ایک اہم دینی زبان کی حیثیت سے جانتے ہی نہیں، اہل مدرسہ بھی فارسی سے آہستہ آہستہ بے تعلق ہوتے جارہے ہیں اس غفلت کا اس کے علاوہ کیا نتیجہ ہوگا کہ پوری ملت اس قابل فخر ،گراں بہا سرمایہ اور غیر معمولی وسیع اسلامی کتب خانہ سے محروم ہوجائے گی۔ اس طرح اس بڑے اسلامی سرمایہ اور کتب خانہ سے دستبردار ہوجانا نہایت بڑا اور ناقابل تلافی نقصان ہے اس لئے مدرسوں میں فارسی کے مختصر جامع اور مؤثر نصاب کے لئے کوشش کرنا اور فارسی کی تعلیم کے لئے گنجائش نکالنا بے حد ضروری ہے۔یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ اگر ہم نے فارسی سے غفلت برتی تو عربی کے بعد سب سے قیمتی سب سے بڑا، ہزار خوبیوں والا ایک غیر معمولی علمی سرمایہ ہمارے لئے اجنبی ہوجائے گا جو ایسا بڑا غیر معمولی المیہ اور ایسا نقصان ہوگا جس کا اظہار ممکن نہیں۔اس کے لئے فارسی کا ایک مختصر مگر مفید نصاب اس طرح مرتب اور نافذ کیا جائے جس سے طلبہ میں فارسی کی ابتدائی مگر ایسی عمدہ لیاقت واستعداد پیدا ہوجائے جس کی مدد سے وہ اپنے شوق سے اس کو جہاں تک چاہیں گے بڑھاسکیں۔
مدرسوں میں مناسب تنخواہوں کا نہ ہونا، اچھے استاذ نہ ملنے کی ایک بڑی وجہ ہے: اچھے استاذ اور محنتی مدرسین نہ ملنے کی ایک بڑی وجہ مدرسوں میں اچھی تنخواہوں کا نہ ہونا بھی ہے۔ اکثر مدرسوں میں عمارتوں کی تعمیر ان کی فضول زیب وزینت، بے مقصد توسیع کا نہ ختم ہونے والا کام جاری رہتا ہے، مگر جب مدرسین کی تنخواہوں میں اضافہ کے لئے کہا جاتا ہے تو اس کے لئے گنجائش نہ ہونے کی بات کی جاتی ہے ایثار وتوکل کا سبق پڑھانے کی کوشش ہوتی ہے، حالانکہ اہل مدرسہ بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ مزدور خوش دل کندکار بیش! اس لئے جو رقم بلاوجہ عمارتوں پر برباد کی جارہی ہے اگر اس کا چوتھائی حصہ بھی مدرسین کی تنخواہوں اور اچھے افراد کی تیاری پر لگادیا جائے تو مدرسہ کو اپنی تشہیر وتعارف کی ضرورت نہ رہے۔
عمدہ مدرسین اور ان کے عمدہ شاگرد دونوں اپنی اپنی جگہ پر مدرسہ کا چلتا پھرتا دائمی اشتہار ثابت ہوتے ہیں لیکن عمارتوں میں نام ونمود زیادہ ہے، اس کے حوالے سے رقم جلد مل جاتی ہے اس لئے عمارت اصل توجہ کی چیز بن گئی۔ اچھے استادوں کی تلاش، اچھی تعلیم، اچھے طلبہ کی تیاری اور دین کی اچھی دیرپا خدمت کے لئے ویسی توجہ اور ویسی دلچسپی نظر نہیں آٹی جیسی عمارتوں کی تعمیر وتزئین کے لئے کی جاتی ہے۔ اس بے توجہی اور معمولی تنخواہوں کی وجہ سے باصلاحیت طلبہ، غیر ملکی کمپنیوں، عرب ملکوں کے سفارت خانوں وغیرہ میں ملازم ہوجاتے ہیں یا یونیورسٹیوں سے مختلف کورس پورے کرکے خوش حالی اور تلاش معاش کے ایسے راستوں پر نکل جاتے ہیں جہاں دین اور دینی تعلیم دونوں سے عموماً کچھ رابطہ نہیں رہتا۔ کیا اس بڑے نقصان، اس بے توجہی کے لئے مدرسوں کے ذمے داران جواب دہ نہیں ہیں۔اگر تعمیری اخراجات اور غیر ضروری تکلفات کم کرکے اضافی رقم اچھے استادوں کی تنخواہوں پر خرچ کی جائے، ان کے لئے گھروں کی سہولت اور ان کے متعلقات کے انتظام کی کوشش ہو تو مدرسہ کی اندرونی علمی تعمیر، ظاہری تعمیرات سے بہت مفید دلآویز اور دیرپا ثابت ہگی۔
امید ہے کہ اگر ان معروضات پر کان دھرا جائے اور اس معروض کو صدا بصحرا ہونے سے بچالیا جائے تو ان شاء اللہ تعالیٰ قدیم نصاب سے بھی بہتر کارگزاری کی عمدہ صلاحیتوں کے اعلیٰ افراد کی تیاری کی اور مردم سازی کی قوت نمودار ہوسکتی ہے جو کبھی تھی اور جس پر مسلسل جمود اور ناکارہ پن، بے عمل اور بے اثری کی تہمت گویا چپک کر رہ گئی ہے۔
شاید کہ اترجائے ترے دل میں مری بات



 مدارس کا قدیم نصاب بے اثر کیوں ہے
نورالحسن راشد کاندھلوی
مولویان۔ کاندھا۔ شاملی۔ یورپی