ہمارے دینی مدارس کے نوجوان فضلاء ایسے بھی ہیں جو آج چار سو علم ودانش ،حکمت وتدبر اور اعتدال پسندی کی روشنی پھیلائے ہوئے ہیں ۔ انہی روشن ستاروں میں حافظ شیر علی کا نام بھی آتا ہے جنہوں نے 2006ء میں خیبر پختونخوا کی عظیم درسگاہ جامعہ امداد العلوم پشاور سے دورہ حدیث مکمل کیا اور پھر نوجوان علماء کرام کی ملک گیر اصلاحی تربیتی تنظیم مجلس صوت الاسلام سے تربیت علماء اور خطباء کورس مکمل کئے۔
حافظ شیر علی کاتعلق فاٹا کی مہمند ایجنسی سے ہے جو ایک طویل عرصہ تک شورش زدہ علاقہ رہا، جہاں دینی وعصری علوم بھی حالات کی سنگینوں کی نذر ہوئے، حافظ شیر علی وہ نوجوان عالم دین ہیں، جنہوں نے یہاں نہ صرف دینی مدارس کوشدت پسندی سے دور کیا اور انہیں دوبارہ فعال کرنے میں اہم کردار ادا بلکہ قیام امن کے لئے ایک سفیر کی حیثیت سے بھی گراں قدر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اس حوالے سے ماہنامہ ’’ایوان اسلام‘‘ نے حافظ شیر علی سے خصوصی نشست کا اہتمام کیا جو نذر قارئین ہے۔
سوال :۔مولانا اپنے بارے میں ہمارے قارئین کو بتائے؟
جواب: میرا نام حافظ شیر علی ہے،مہمند ایجنسی فاٹا سے میرا تعلق ہے۔ ابتدائی تعلیم میں نے ضلع چارسدہ میں انتہائی غربت اور یتیمی کی حالت میں حاصل کی۔ مختلف مدارس میں علوم وفنون پڑھے۔ میں نے دورہ حدیث کی تعلیم2006ء میں جامعہ امداد العلوم پشاور میں حضرت مولانا شیخ حسن جان شہید ؒ سے مکمل کیا اور یہ میرے لئے بہت بڑا اعزاز ہے۔
سوال :۔ والد صاحب کا آبائی تعلق کس علاقے سے ہے، کیا وہ بھی مدرس تھے؟
جواب:۔ (مسکراتے ہوئے) جناب زندگی میں پہلی بار یہ سوال مجھ سے ہوا اور پہلی بار میں یہ جواب دوں گا کہ میں دو سال کا بچہ تھا جب والد صاحب نے دنیائے فانی سے کوچ کیا(اللہ تعالیٰ ان کی قبرپر ہزاروں رحمتیں نازل فرمائے)۔والدہ اور بڑے بھائی بتاتے ہیں کہ والد صاحب ایک عام انسان اورصوم الصلوٰۃ کے پابند تھے ۔بنیادی طور پر ہمارا تعلق مہمندایجنسی کی پسماندہ تحصیل پنڈیالی کے علاقہ دویزی گائوں شیخ اسماعیل سے ہے جس میں ابھی تک میرے مدرسے کے علاوہ تعلیم کا نہ پرائمری اسکول ہے نہ مکتب ۔
سوال :۔ مجلس صوت الاسلام میں تربیتی کورس کس سال مکمل کیا؟
جواب:۔ صوت الاسلام نے جب پہلی مرتبہ 2011ء میں تربیت علماء کورس شروع کیا تو میں نے اسی سال داخلہ حاصل کیا، اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ اگرچہ میں عالم دین بن چکا تھا مگر اب بھی کچھ کمی محسوس ہوتی تھی، میں نے جب عملی زندگی میں قدم رکھا تو ایک عجیب سی کیفیت میں تھا اور مجھے اس بات کا احساس بار بار ہورہا تھا کہ شاید میں ابھی تک معاشرے میں ذمے داری اٹھانے کے قابل نہیں ہوں، ان حالات میں تربیت علماء کورس میرے لئے کسی نعمت سے کم نہیں تھا اور مجھے اعتراف ہے کہ اس میں شرکت کے بعد مجھے غوروفکر کے نئے راستے ملے اور میرے بہت سے خدشات اور غلط فہمیوں کا ازالہ ہوا۔مجھے اس کورس سے بہت ہی مفید معلومات اور رہنمائی ملی۔ اس کے بعد پھر تربیت خطباء میں بھی حصہ لیا اور بحمدللہ وہ بھی تکمیل تک پہنچا اورمیرے اندر خود اعتمادی پیدا ہوئی۔میرے خیال میں معاشرے کے لئے مفید کام کرنے کا جذبہ اور دوسروں کے خیالات کو برداشت کرنا یہ تبدیلی میں نے انہی کورسز سے حاصل کی اور آج یہ میری زندگی کا حصہ ہیں۔
سوال :۔مجلس صوت الاسلام کی سرگرمیوں کو آپ کس نگاہ سے دیکھتے ہیں؟
جواب:۔دیکھیں جی ہر شخص جانتاہے کہ 9/11کے بعد مسلمان جس دور سے گزر رہے تھے وہ انتہائی تکلیف دہ اور اذیت ناک تھا۔ ایسے میں پورے عالم اسلام کو مختلف قسم کے پلیٹ فارم کی ضرورت تھی ان حالات میں جس بہادری اور بردباری کے ساتھ مجلس صوت الاسلام کے چیئرمین مفتی ابوہریرہ محی الدین اور ان کی ٹیم نے قدم بڑھائے وہ انتہائی قابل ستائش ہے ۔ صوت الاسلام کے پلیٹ فارم سے نوجوان علماء کو آنے والے کٹھن حالات کے بارے میں آگاہی اور دلائل وحکمت کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرنے کا جو گُر سکھایا گیا وہ میرے خیال میں یہاں سے تربیت لینے والے علماء کرام پر ظاہر ہوا ہے اور ہورہا ہے، اس حوالے سے میں سمجھتا ہوں کہ صوت الاسلام معاشرے کی دینی رہنمائی کا اہم ترین فریضہ سرانجام دے رہی ہے۔ یہاں مختلف اوقات میں علماء وخطباء کو ان قائدین اور شیوخ کے خیالات وافکار سے آراستہ ہونے کا موقع دیا جاتا ہے جن سے انفرادی طور پر ہمارا استفادہ کرنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوتاہے۔ ملک بھر کی وہ چند خصوصی ہستیاں جن کا علمی حلقوں میں اہم مقام ہے ان کو سننے اور ان سے سیکھنے کا موقع ملتاہے۔جس کا نتیجہ آج آپ کے سامنے ہے۔
سوال :۔ فاٹا کی مجموعی صورتحال کیا ہے ،کل کتنے مدارس، کتنے طلبہ وطالبات، تعلیمی اداروں کی حالت زار ، عصری علوم کے ادارے فعال ہیں؟۔
جواب:۔فاٹا کے لوگوں نے ایک طویل عرصہ دہشت اور خوف کی حالت میں گزارا ہے اور شدت پسندی کا بھی سامنا کیا ہے ،میرے لئے فاٹا کی مجموعی صورتحال کے بارے میں تفصیلی اور مستقل پیشن گوئی کرنا خاصا مشکل ہے، تاہم اب حالات بتدریج بہتری کی طرف گامزن ہیں۔ میرے خیال میں فاٹا کے نوجوان قابلیت اور صلاحیت میں کسی سے کم نہیں ہیں اگر ان لوگوں کو پرامن معاشرہ اور روزگار کے مواقع سمیت تعلیم کی سہولت دی جائے تو اس خطے میں انتہائی مفید اثرات مرتب ہوسکتے ہیں اور یہاں کے لوگ ملک کی تعمیر وترقی میں کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں۔2014-15ء کے سروے کے مطابق فاٹا میں طلبہ کے لئے کل مدارس 273تھے جو 2016ء کے سروے کے مطابق350سے زیادہ ہوچکے ہیں۔طالبات کے مدارس کی تعداد 121تھی جو کہ اب 220سے اوپر ہے۔ کل طلبہ وطالبات کی تعداد 85213تھی جبکہ نئے سروے میں 1,40,000سے اوپر ہے۔تعلیمی ادارے مخدوش حالات کی وجہ سے قابل توجہ ہیں۔ مجھے یہ کمی محسوس ہورہی ہے کہ مدارس کی تعمیر وترقی کے لئے حکومت کے ساتھ ساتھ نمائندہ تنظیم بھی ہونا ضروری ہے جو فعال اور غیر جانبدار کردار ادا کرے۔عصری علوم کے ادارے زیادہ تر تباہ ہوچکے تھے جو کہ رفتہ رفتہ بحال ہورہے ہیں اور اب حکومت اس جانب تعمیری وتعلیمی دونوں حصوں پر توجہ دے رہی ہے۔
سوال :۔ فوجی آپریشن میں مدارس کی کیا مشکلات تھیں ؟ علماء وطلبہ کوکن حالات سے دوچارہونا پڑا؟
جواب:۔ظاہر سی بات ہے کہ ان حالات سے معاشرے کے سب لوگ متاثر ہوئے ہیں تو مدارس بھی یقینا ان سے متاثر ہوئے اور بہت سے مدارس بند کرنا پڑے لیکن جلد ہی یہ اپنی تعلیمی سرگرمیاںبحال کرنے میں کامیاب ہوئے اور اب صورتحال کافی بہتر ہے۔علماء وطلبہ آزمائشوں سے ضرور گزرے اور گزر رہے ہیں تاہم حکمت عملی صحیح ہو تو مشکلات کم ہوسکتی ہیں اور آپ ترقی کا سفر آسانی کے ساتھ جاری رکھ سکتے ہیں۔
سوال :۔ آپ کی مدارس کے حوالے سے خدمات قابل ستائش ہیں، اس دوران مذہبی رہنمائوں، سیاسی لوگوں، مقامی انتظامیہ اور عسکری شعبے کا کتنا تعاون رہا؟
جواب:۔ میں نے ہمیشہ یہ جذبہ دل میں رکھا ہے کہ مذہبی خدمات اور مدارس کے حوالے سے جو بھی خدمت ہو وہ میں سعادت سمجھ کر کرتا ہوں۔ مذہبی رہنمائوں کا کافی حد تک تعاون رہا جبکہ سیاسی لوگ فاٹا میں صرف نمائندے ہوتے ہیں۔ فاٹا کی سیاست ابھی ابتدائی مراحل میں ہے، بلوغت تک پہنچنے میں وقت درکار ہوگا۔ مقامی انتظامیہ کا اس کام میں عمل دخل کم تھا، کیونکہ بحیثیت عالم وہاں جانا اور ڈیٹا ومسائل لینا میرے لئے آسان تھا۔ عسکری شعبے کی خدمات کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں اور فاٹا کو عسکریت پسندی سے بچانا ہماری فورسز کا قابل قدر کارنامہ ہے، یہ پرامن حالات میرے لئے معاون ثابت ہوئے اور میں اپنے مقصد میں کامیاب ہوا۔
سوال :۔ آپ کے خیال میں دینی مدارس کے طلبہ کو معاشرہ میں کیا مقام ملنا چاہیے اور فاٹا میں دینی مدارس کے ساتھ عوام اور حکومت کا رویہ کیسا ہے؟۔
جواب :۔ ہر فرد اپنی حیثیت خود منتخب کرتا ہے پھر معاشرہ ردعمل میں ان کو اچھا یا برا سمجھتا ہے، دینی مدارس کے طلبہ معاشرے میں ایک اہم اور قابل قدر مقام رکھتے ہیں لوگ ان کے ساتھ تعاون کرتے ہیں اور عزت دیتے ہیں۔ رہی امتیاز کی بات تو آجکل مدرسہ کا طالب علم کالج یا یونیورسٹی کے طالب علم سے کسی بھی صورت میں کم نہیں کیونکہ اگر وہ چاہے تو دونوں علوم آسانی سے جاری رکھ سکتا ہے اور ہر میدان میں وہ قابل قدر خدمات سرانجام دے سکتا ہے۔حکومتی سطح پر اب حالات پہلے سے بہت بہتر ہوچکے ہیں۔ فاٹا کے حوالے سے تو میں یہ بتائوں گا کہ اس سال 2016ء میںبیت المال سے رجسٹرڈ مدارس سے باقاعدہ مالی تعاون کیا گیا۔نوجوان فارغ التحصیل طلبہ کے لئے ماہانہ وظائف مقرر کئے گئے ان کو پولیٹیکل انتظامیہ اور ایجوکیشن آفس کے ذریعے اسکالرشپ بھی دی گئی تاکہ طلبہ کی ضروریات پوری ہوں۔
سوال :۔ آپ نے بہت محنت کی حکومت اور پولیٹیکل انتظامیہ نے اس محنت کو کس انداز میں سراہا؟۔
جواب:۔جی ہاں یہ کام خاصا مشکل ضرور تھا مگر دینی جذبے نے اس کو آسان بنادیا تھا میں نے گرمیوں کی تمام تعطیلات اس کے لئے وقف کر رکھی تھیں۔ مہمند ایجنسی بہت بڑا علاقہ ہے اس میں حکومت کی طرف سے صرف اور صرف ڈیٹا فارم فراہم کئے گئے تھے ،باقی سروے اور اس کے لئے سفر ی انتظام خود کرنا پڑا۔ اس عمل میں سب سے مشکل کام مدارس کے منتظمین کو آمادہ کرنا تھا اور ان کے خدشات دور کرنا بڑا صبر آزما عمل تھا ،اس کے بعد پورے علاقے کے مدارس کیلئے ایک مدرسہ کو مرکز بنایا یہ سب کام اللہ کے فضل سے مکمل کیا ، کام چونکہ فاٹا ڈائریکٹریٹ کے زیر اہتمام تھا اس لئے پولیٹیکل انتظامیہ کا عمل دخل نہیں تھا۔بہرحال یہ کام تحقیقی اعتبار سے اہم تھا اور تمام محکمے اس سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔
سوال :۔ آپ کون سے کالج میں لیکچرار ؟ کس مدرسے میں درس دیتے ہیں ؟ یہ تجربہ کیسا ؟ اور کب سے وابستہ ہیں؟
جواب:۔ میں نے مختلف کالجز اور سیکنڈری اسکولز میں اسلامیات کے لیکچرار کی حیثیت سے کام کیا، فی الحال مہمند ایجنسی میں فرائض ادا کررہا ہوں۔کالج میں تدریسی خدمات انجام دینے کے بعد میں ضلع چارسدہ میں ایک مدرسے میں آکر درس نظامی کی مختلف کتب پڑھاتا ہوں ،تدریسی خدمات سے ضمیر کو اطمینان ملتا ہے۔ میں پچھلے 2 سال سے اس مدرسے سے وابستہ ہوں ، میں سمجھتا ہوں کہ کالج اور مدرسہ دونوں جگہ تدریس ایک منفرد تجربہ ہے اور میں اس سے لطف اندوز ہورہا ہوں، کیونکہ مختلف الخیال لوگوں میں رہنا اور انہیں مختلف انداز سے تعلیم دینا کافی دلچسپ اور مفید عمل ہے۔
سوال :۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کی عملی زندگی پر تعلیم کے ساتھ ساتھ مجلس صوت الاسلام کی تربیت کے گہرے اثرات ہیں؟۔
جواب:۔ جی ہاں! جناب تعلیم تو بنیادی ضرورت ہے اور ایک پاور ہے اب اس پاور کو کیسے کہاں استعمال کیا جائے یہ سب ہم نے مجلس صوت الاسلام کے کورس سے سیکھا ہے کیونکہ ہم نے مختلف شعبوں اور امور سے تعلق رکھنے والوں کو دیکھا ان سے سیکھا اور ان کے تجربے سے استفادہ کیا جو ہمارے لئے بھی زندگی کے صحیح راستے کے تعین میں مددگار ثابت ہوا۔ مجلس صوت الاسلام ایک عملی درس دینے والا ادارہ ہے جو کہ علماء کی ہمہ جہت ضروریات علمی وعملی کے خوبصورت طریقے متعین کرکے آگے بڑھ رہا ہے۔ تاریخ ،جغرافیہ، اسلامی تاریخ، عصری تقاضے میں سب کو سامنے رکھ کر راستے بتاتا ہے اور ہر حوالے سے مفید رہتا ہے۔مجلس صوت الاسلام پاکستان کے کورسز کسی بھی نوجوان عالم دین کی زندگی کا رخ متعین کرنے کے لئے کافی ہیں اور مجھے خوشی ہے کہ ان نوجوانوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔
سوال :۔ مجلس سوال سے متعلق آپ کیا پیغام دینا چاہیں گے؟۔
جواب:۔ جہاں تک میں نے دیکھا اور محسوس کیا۔ مجلس صوت الاسلام ایک اچھا فورم ہے۔ خصوصاً دینی طبقوں کیلئے کہ وہ عالمی حالات کو سمجھیں اور پھر فراہم کردہ ہدایات کے مطابق کام کریں۔ ہر سطح پر صوت الاسلام سب کیلئے ایک درسگاہ بھی ہے اور آپ کی صلاحیتوں کا قدرداں ادارہ بھی۔چاہے تحریری کاوش ہو، تقریری یا عملی، تمام تر تعصبات سے بالاتر ہوکر سب کو گراں قدر مواقع دیتے ہیں تاکہ وہ دین کی خدمت صحیح اور مؤثر طریقے سے کریں اور ملکی ترقی میں اپنا کردار نبھائیں۔ویسے توصوت الاسلام کی خدمات کا دائرہ بہت وسیع نظرآتا ہے مگر ایک خدمت ایسی ہے جس کی میری نظر میں ماضی میں نظیر نہیں ملتی،مجلس صوت الاسلام نے اس وقت نوجوان علماء کا ہاتھ تھامااور دینی مدارس کے دفاع میں نکلی جب پوراعالم اسلام خاموش تھا،9/11سانحہ کے بعد ایک بہت براوقت تھا اور اس وقت مفتی ابوہریرہ اوران کے رفقاء نے جس انداز میں مدارس وعلماء کامقدمہ لڑا میرے خیال میں وہ ایک مثالی کارنامہ ہے جس کے ثمرات آج بھی نظر آرہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دینی طبقات میں اس تنظیم کے لئے مخلصانہ تصورات سامنے آرہے ہیں۔اور میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت فاٹا میں بھی میں مجلس صوت الاسلام کے طرز تعلیم وتربیت سے فائدہ اٹھا کر نوجوان علماء کی رہنمائی میں اہم کردار ادا کیاجاسکتا ہے۔
سوال :۔ آپ نے ایک منفرد کارنامہ انجام دیا، یہ خیال کیسے آیا ؟ کن مشکلات کا سامنارہا،اس دوران مذہبی شخصیات نے ساتھ دیا؟۔
جواب:۔ جیسا کہ میں نے پہلے بھی عرض کیا کہ مدارس کی تعمیر وترقی کا ہر کام سعادت سمجھ کر کرتا ہوں۔ ڈائریکٹریٹ کے دینی مدارس کا ڈپٹی ڈائریکٹر کا قیام جب عمل میں آیا اور باقاعدہ الگ دفتر بنا تو میں نے مدارس کے حوالے سے ہر کام سے خود کو باخبر رکھا اور جب انہوں نے یہ سروے کرنا چاہا تو میں نے یہ حامی بھری اور مجھے شوق بھی تھا کہ مدارس کے اصل حالات کو سامنے لایا جائے اور ان کے مسائل بھی حکومت کے سامنے لائے جائیں۔ مشکلات ضرور ہوتی ہیں ہر کام میں، مگر اللہ کی مدد شامل حال رہی ۔ مذہبی شخصیات میں اکثر نے ساتھ دیا، ہاں یہ ضرور ہے کہ ان کو قائل کرنا ذرا مشکل ہوتا ہے خصوصاً جب ان سے کام بھی وابستہ ہو تاہم ہر علاقے میں جان پہچان کے ساتھی کو ساتھ لے کر یہ کام کیا اور پہلے ان کو اس کے فوائد بتائے پھر فارم فل کیا۔مجموعی طور پر دینی مدارس میں حکومت کے بارے میں تاثر کچھ زیادہ متاثر کن نہیں ہے اور عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ حکومت زبانی جمع خرچ کے علاوہ عملی اقدامات اٹھانے سے قاصر رہتی ہے۔
سوال :۔ فاٹا طویل عرصے سے شدت پسندی اور تخریب کاری کا شکار رہا، دیگر ملکی حصوں سے کٹا رہا، مذہبی طبقات کن مسائل سے دوچارہیں ؟
جواب:۔ جی ہاں فاٹا کو یقینا مشکلات کا سامنا رہا اور اب بھی ہے۔ مگر دیگر حصوں کے لوگوں نے کبھی اس کیلئے آواز بھی نہیں اٹھائی، بہرحال جن صاحب دانش لوگوں نے صحیح حکمت عملی اپنائی تھی وہ ایک دو سال مشکلات میں تھے مگر اب الحمدللہ مدارس پہلے سے زیادہ پرجوش طریقے سے کام کررہے ہیں۔
سوال :۔ اقلیت کی تعداد کتنی ہے ؟ کن مسائل کا سامناہے اور تدارک کیسے ممکن ہے؟
جواب:۔ فاٹا میں غیر مسلم آبادی بہت بڑی تعداد میں تھی مگر مسائل اور مشکلات کی وجہ سے اقلیتی برادری نقل مکانی پر مجبور ہوئی اور صوبہ کے دیگر علاقوں کی طرف منتقل ہوگئی جہاں انہیں کئی مشکلات کا سامنا ہے، بہرحال تازہ ترین اعداد وشمار کے مطابق اب بھی فاٹا میں 30ہزار کے قریب غیر مسلم افرادرہتے ہیں اور یقینا انہیں شدید ترین مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور سب سے بڑھ کر انہیں احساس عدم تحفظ لاحق ہے اور ان کی مذہبی عبادت گاہیں بھی مکمل طور پر غیر محفوظ ہیں ، میرے خیال میں اقلیتوں کے تحفظ کا بہترین راستہ یہ ہے کہ دین اسلام کے اصول اور اقلیتوں کو دیئے گئے حقوق کو عملی طور پر معاشرہ میں نافذ کیا جائے اور کسی بھی شخص یا گروہ کو یہ حق حاصل نہ ہو کہ وہ مذہب کو اپنی خواہشات کے تابع بناکر اس کی من چاہی تشریح کرکے دوسروں کو نقصان پہنچاسکے۔ یہ وہ طرزِ عمل ہوگا جو ہمارے گمبھیر مسائل کے حل میں معاون ثابت ہوگا۔