info@majlissautulislam.com
© Copyright 2017 Saut-ul-Islam Pakistan All Rights Reserved
Email:
01:30
sautulislampk@gmail.com
+ 92 21 35363159 - 35867580  Fax: + 92 21 35873324
05:15
08:15
Example
حیا عربی زبان کا لفظ ہے جو حیات سے نکلا ہے اور حیات کے معنی زندگی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کسی بھی معاشرے یا فرد میں حیا کا ہونا زندگی کی علامت ہے۔ حیا کا لفظ بہت وسیع ہے، جس کے مطالب میں عاجزی، خودداری اور عزت کو لیا جاسکتا ہے۔ مومن کی زندگی میں حیا ایک لازمی جزو ہے۔ حیا، ایمان کا حصہ ہے جس کے بغیر انسان کا ایمان مکمل نہیں ہوسکتا۔

آپ ﷺ نے فرمایا:۔ ’’ایمان کی 70 سے اوپر کچھ شاخیں ہیں، جن میں سے ایک حیا ہے۔‘‘

حیا اور ایمان لازم و ملزوم ہیں۔ اگر حیا انسان کے اندر سے رخصت ہوگئی تو ایمان بھی جاتا رہے گا، کیوں کہ سارے نیک اعمال کی بنیاد حیا ہے۔حیا وہ خوبی ہے جو انسان کو گناہ کے راستے پر جانے سے بچاتی ہے۔ یہ انسان کی زبان، اس کی نگاہوں، سماعت اور قدموں کو غلط کاموں سے روکے رکھتی ہے۔ جب انسان میں حیا نہ رہے تو وہ بے حس ہوجاتا ہے، اسے نہ تو گناہ کا احساس ہو پاتا ہے نہ اللہ کی ناراضی کا ڈر۔ اس لیے کہا گیا ہے کہ جب تم حیا نہ کرو تو جو چاہے کرو۔ حیا نہ صرف انسان میں اللہ کا ڈر پیدا کرتی ہے بلکہ جس میں حیا ہوتی ہے وہ لوگوں کے ساتھ معاملات میں بھی لحاظ و مروت سے کام لیتا ہے۔ حیا انسان کو بداخلاقی و بدتہذیبی سے بچاتی ہے۔

انسان میں حیا کا ہونا مرد و زن دونوں کے لئے یکساں ضروری ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ جب بھی حیا کا لفظ ادا کیا جائے تو اس کو محض عورت سے منسوب کردیا جاتا ہے، جب کہ قرآن میں سورہ نور میں عورتوں سے پہلے مردوں کو اپنی نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم فرمایا گیا ہے۔ اس کے ساتھ عورتوں کے لئے بھی پردے اور نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم ہے۔ نگاہ کی حفاظت انسان کو باحیا بناتی ہے۔ کیوں کہ اگر نظر میلی ہوگئی تو دل بھی میلا ہوگا۔ نظر کا جھکانا دل کو روشن کرتا ہے۔ آنکھ میں حیا ہوگی تو دل میں تقویٰ کی کیفیت پیدا ہوجائے گی۔ جیساکہ حیا کا لفظ حیات سے نکلا ہے تو یہ حیات القلب یعنی دل کی زندگی کا نام ہے۔اللہ نے انسان کی فطرت میں حیا رکھی ہے۔ ایک بچہ فطرتاً باحیا پیدا ہوتا ہے۔ لیکن پھر آہستہ آہستہ اس پر معاشرے کے رسم و رواج اور ماحول کے اثرات حاوی ہوتے چلے جاتے ہیں اور اس کے اندر حیا کی صفت نابود ہوجاتی ہے۔ آج کے دور میں دیکھا جائے تو نگاہیں نیچی رکھنے والے شرمیلے اور باحیا انسان کو فرسودہ اور دقیانوسی خیال کیا جاتا ہے۔ دوست احباب، خیرخواہی کے پردے میں طنز کے تیر چلا کے اس شخص کی خود اعتمادی کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ جب کہ اسلام اور آپ ﷺ کی تعلیمات سے ظاہر ہوتا ہے کہ شرمیلا اور باحیا ہونا باعث ِشرمندگی نہیں۔

عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :۔’’ رسول اللہﷺ ایک آدمی کے پاس سے گزرے جو اپنے بھائی کو حیا کے حوالے سے نصیحت کر رہا اور کہہ رہا تھا کہ تم بہت شرمیلے ہو اور مجھے ڈر ہے کہ اس سے تمہیں نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اسے چھوڑ دو کہ حیا ایمان کا حصہ ہے۔‘‘ ( بخاری)

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسان کو کس سے حیا کرنی چاہئے۔ سب سے پہلے تو انسان کو اللہ سے حیا کرنی چاہئے کیوں کہ اللہ کی پاک ذات ہی اس بات کی سب سے زیادہ حق دار ہے کہ اس سے حیا کی جائے۔ اللہ کے ڈر سے انسان کوئی ایسا کام نہ کرے جس میں پکڑ ہو اور جو اس کو عیب دار بنا دے۔ انسان کے دل اور دماغ میں کیسے خیالات آتے ہیں یہ صرف اللہ ہی جانتا ہے۔ اس کے دل میں کسی کے لئے نفرت، دشمنی، حسد یا نفاق کے اندھیرے ہیں یا پھر ایمان کی روشنی اللہ ہی اس سے واقف ہے۔

ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا : ’’ اللہ سے حیا کرو جیسے حیا کرنے کا حق ہے‘‘۔ لوگوں نے کہا وہ تو ہم کرتے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا ’’یہ حیا نہیں۔ اللہ سے حیا یہ ہے کہ انسان اپنے سر اور جو کچھ اس کے اندر ہے، پیٹ اور جو کچھ اس کے اندر ہے ، اس کی حفاظت کرے۔ اور موت اور اس سے جڑے فتنوں کو یاد رکھو، اور جو آخرت کی تمنا کرتا ہے وہ اس دنیا کی زیب و زینت چھوڑ دیتا ہے۔ پس جو شخص یہ سب کرتا ہے وہ واقعی اللہ سے حیا کرتا ہے جیسا کہ اس سے حیا کرنے کا حق ہے۔‘‘ ( ترمذی)

اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ باحیا ہونے کا مطلب محض شرمیلا ہونا نہیں بلکہ ہر چیز کے بارے میں محتاط ہونا ہے۔ ایک باحیا انسان کے ذہن میں پنپتے خیالات ہوں یا پیٹ میں جاتا لقمہ، وہ اس کے حلال ہونے کے بارے میں بھی محتاط رہتا ہے۔ اس کے علاوہ ملائکہ اور لوگوں سے بھی حیا کرنا۔ لوگوں سے حیا صرف یہ نہیں کہ انسان لوگوں کے ڈر سے غلط کام نہ کرے بلکہ لوگوں سے اچھے اخلاق سے پیش آنا بھی ان سے حیا کرنا ہے۔ اس کے بعد اپنے نفس سے بھی انسان حیا کرے اور کوشش کرتا رہے کہ بری باتیں ذہن و دل میں جگہ نہ بنائیں۔ ایمان کی حفاظت کے لئے حیا کی حفاظت بہت ضروری ہے۔ اس لئے اپنے اندر اس کیفیت کو لانے کے لئے اللہ سے دعا اور کوشش جاری رکھنی چاہئے۔

شرم و حیا
 انسان کو بداخلاقی و بدتہذیبی سے بچاتی ہے



٭ایک باحیا انسان کے ذہن میں پنپتے خیالات ہوں یا پیٹ میں جاتا لقمہ، وہ اس کے حلال ہونے کے بارے میں بھی محتاط رہتا ہے
٭حیا نہ صرف انسان میں اللہ کا ڈر پیدا کرتی ہے بلکہ جس میں حیا ہوتی ہے وہ لوگوں کے ساتھ معاملات میں بھی لحاظ و مروت سے کام لیتا ہے