محمد جمال ہاشم محمود، مصر

مکالمہ بین المذاہب اور قرآن و سنت،
مکالمہ بین المذاہب جو کہ اس زمانے کی اہم ضرورت اور امنِ عالم کی ضمانت ہے۔ اسلام نے مکالمہ بین المذاہب کو مطلق اور حدود وقیود سے آزاد نہیں رکھا بلکہ اس کے لئے شرائط اور آداب متعین کیے ہیں۔ مکالمہ بین المذاہب کے شرائط اور آداب اسی وقت سمجھ میں آسکتے ہیں جب ہم اسلام میں اس کے تصور اور مفہوم کو سمجھ لیں۔
قرآن مجید کی روشنی میں مسلمان ایک نورِ ربانی کا حامل فرد ہوتا ہے اور اس پر یہ ذمہ داری عائد کی جاتی ہے کہ وہ اس نور کو لے کر سارے انسانوں کے پاس جائے۔ انہیں حق کی دعوت دے اور اللہ تعالیٰ کی طرف بلائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے لوگوں سے بات کرنی ہے اور اس کی گفتگو اور دعوت پر اثر ہونی چاہیے، اسے سختی اور درشتی سے بات نہیں کرنی، حکمت وبصیرت ، دانائی اور نرمی سے اپنا پیغام پہنچانا ہے۔ اسے یہ دھیان رکھنا ہے کہ اللہ نے اسے ہدایت دینے کا پابند نہیں بنایا پیغام پہنچانے کا پابند بنایا ہے۔ ہدایت دینا تو اللہ کا کام ہے۔
اسلامی تعلیمات کی روشنی میں حوار بین المذاہب مشترکہ عقائد واقدار پر ہونا چاہیے جس کا مقصد شبہات کو دور کرنا اور مذہبی ہم آہنگی کا راستہ نکالنا ہے۔ مکالمہ بین المذاہب کے بڑے مقاصد میں سے ایک انسانیت کا فروغ اور مفاد عامہ کی تعلیم ہے کیونکہ انسانیت اور مفادات عامہ میں کسی مذہب اور دین کا اختلاف نہیں ہوسکتا۔
مکالمہ بین المذاہب کے آداب میں سے ایک ادب یہ بھی ہے کہ اس کے لیے موزوں ترین افراد کا انتخاب کیا جائے۔ نااہل افراد کا انتخاب مکالمے کو ایک دوسرے کے قریب لانے کے بجائے دور لے جانے کا باعث بن جاتا ہے۔ 
مکالمہ کرنے والے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اسلامی عقائد اور شریعت کے قطعی احکام کے بارے میں کسی قسم کا تساہل اور مداہنت نہ کرے بلکہ ایسے امور کو علی الاعلان اور کھل کر بیان کرے۔
دوسروں کی رائے کا احترام اور ان سے خندہ پیشانی کا معاملہ مکالمہ کے آداب میں سے ایک اہم ادب ہے۔
مکالمہ کرتے ہوئے نتائج اور مآل کار پر نظر رکھنا بھی انتہائی ضروری ہے۔ اگر یہ مقصد پیشِ نظر نہ ہو تو مکالمہ کا مقصد فوت ہوجاتا ہے۔
میں اپنی گفتگو کو اس بات پر ختم کرتا ہوں کہ تمام مذاہب کو نفرت کے بجائے محبتیں پھیلانے کا سبب ہونا چاہیے۔ نیز دین کا نفرت کے لیے استعمال یا تو جہالت کی وجہ سے ہوتا ہے یا سازش کی وجہ سے ۔ وگرنہ درحقیقت کوئی مذہب نفرت اور ظلم وتعدی کی اجازت نہیں دیتا۔ انسانیت کے دکھوں کا مداوی اسی میں ہے کہ علمائِ ادیان اپنے متعلقین کو اخلاقِ عامہ، تحمل وبرداشت، صبر، رواداری اور احترامِ انسانیت کی تعلیم دیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہو۔

Please follow and like us:

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا. ضرورت کے کھیتوں ک* نشان لگا دیا گیا ہے