ڈاکٹر عبد اللہ بن عبد المحسن التر کی

انتہا پسندی نے نقصان پہنچایا ،
میں’’یونائٹ‘‘ کو موجودہ عالمی حالات کے تناظر میں مذہبی رواداری اور ہم آہنگی کے موضوع پر اس عظیم الشان کانفرنس کے انعقاد پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ اس وقت پوری دنیا دردوالم کے جس عالم اور آگ وخون کے جس سمندر اور گولہ وبارود کے جس وحشیانہ استعمال سے گزر رہی ہے اس میں محبت اور ہم دردی کا پیغام پھیلانا واقعی قابل قدر سعی ہے۔
یوں تو پوری انسانی تاریخ تنازعات سے بھری ہوئی ہے، لیکن جس تنازع کا سامنا اس وقت عالمِ انسانیت کو ہے اس بارے میں یہ بات پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ یہ دنیا کا جغرافیائی، سیاسی اور ثقافتی نقشہ بدل ڈالے گا۔
دنیا کے موجود ہ سنگین حالات کا ذمہ دار مذہب کو سمجھنا بہت بڑی غلطی ہے۔ دراصل ان حالات کا ذمہ دار مذہب کو قرار دینے والے اپنی موجودہ حالات میں بحیثیت انسان ذمہ داریوں سے کنارہ کش ہونا چاہتے ہیں۔حقائق بتاتے ہیں کہ ان حالات کے پیچھے کچھ افراد اور معاشروں کے ذاتی اور سیاسی مفادات کارفرما ہیں، جبکہ دین ومذہب کا ان سے دور کا بھی تعلق نہیں۔
جہاں تک عالم اسلام کی صورت حال کا تعلق ہے تو کوئی شبہ نہیں کہ اس وقت امتِ مسلمہ اپنی تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہی ہے، ذلت اور پستی کا ایک عالم ہے، اور اس صورت حال سے نجات اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک ایک متحد اور اسلام کے نام پر جمع ہونے والی ملت تیار نہ کرلی جائے۔ اس کے لیے ہمیں گروہی تعصبات اور مسلکی رجحانات سے باہر نکل کر ایک درد دل رکھنے والے مسلمان کی حیثیت سے سوچنا ہوگا۔ تاکہ بغیر دلیل کے دوسروں کو بدعتی، فاسق اور کافر قرار دینے کی روش کا خاتمہ ممکن ہوسکے۔
قومی اور عالمی سطح پر ہم آہنگی اور رواداری کے فقدان کا سبب دین کو قرار دینا اس لیے قابلِ اتفاق نہیں کہ دین توامن وصلح کی بات کرتا ہے، قرآن مجید کی آیات اور احادیث نبویہ ؐ سے یہ بات صراحت کے ساتھ معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر مبعوث فرمایا، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’وما أرسلناک إلا رحمۃ للعالمین‘‘ (الأنبیاء:۱۰۷)
رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے لیے دینِ اسلام کی بنیادوں اور اس دین کے بنیادی خدوخال کو واضح کرتے ہوئے ساری انسانیت کو عزت واحترام میں مساوی قرار دیا۔ آپ نے ہر انسان کی آبرو کو قابلِ احترام قرار دیتے ہوئے اس کے حقوق غصب کرنے کو حرام قرار دیا۔ اسلامی شریعت کی روشنی میں انسانیت پر سرکشی کا مرتکب اللہ تعالیٰ کا مجرم ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ ’’جس نے کسی جان کو ناحق طور پر یا زمین پر فساد مچانے کے لیے قتل کیا تو گویا اس نے ساری انسانیت کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور جس نے کسی ایک جان کو زندگی بخشی تو گویا اس نے ساری انسانیت کو زندہ کردیا ۔‘‘ 
(المائدۃ:۳۲۔۳۳)
یہ بات شک وشبہ سے بالاتر ہے کہ دہشت گردی کا اسلام سے دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں۔ متشدد اور انتہاء پسند سوچ نے اسلام کو نقصان ہی پہنچایا ہے۔ اسلامی حلقوں میں اس فکر کا فروغ یا تو اسلامی تعلیمات سے بے بہرہ ہونے کا نتیجہ ہے یا کسی چالاک ومکار دشمن کی منصوبہ بندی ہے جس نے سادہ لوح مسلمانوں کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے۔ ان حالات سے نمٹنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اسلام کی معتدل سوچ کو پروان چڑھایا جائے، صحیح عقیدے کی ترویج کی جائے اور اسلاف کی فہم کے مطابق امتِ مسلمہ کی کتاب وسنت کے مطابق تربیت کی جائے۔
ہم ذرائع ابلاغ کے ان عناصر کی سختی سے مذمت کرتے ہیں جو دنیا میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کے تانے بانے اسلام کے ساتھ جوڑ کر اسلام کو بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، یہ لوگ مسلمانوں کے بارے میں خراب تاثر کو ابھارتے ہیں ،اس طریقہ کار کی وجہ سے دنیا میں مسلمانوں سے نفرت اوردوری میں اضافہ ہورہا ہے۔ اس طریقہ کار کی اصلاح کے لیے ایک مشترکہ جدوجہد کی ضرورت ہے، تاکہ اسلام اور مسلمانوں کی صحیح تصویر دنیا کے سامنے پیش کی جائے اور مسلمان ایک بار پھر اقوامِ عالم میں اپنا مقام حاصل کرسکیں۔
بلا شبہ ہمیں اس وقت سخت حالات اور مشکل چیلنجز کا سامنا ہے، ایک طرف نہ ختم ہونے والی تکلیفیں، آزمائشیں اور درد ہیں تو دوسری طرف ختم نہ ہونے والے داخلی اور خارجی بحرانوں کی فہرست ہے، ان داخلی بحرانوں اور چیلنجز کے پیشِ نظر امت اپنی توانائیوں کو اپنی ثقافت کے فروغ اور اقوامِ عالم کی ترقی وخوشحالی میں کیسے خرچ کرسکتی ہے۔
ان سب حالات کے باوجود ہم مایوس نہیں ، ہمیں اللہ کی رحمت سے امید ہے کہ اگر ہم سب مل کر ان بحرانوں کے اسباب پر غور کریں اور ایک مشترکہ حکمت عملی کے ذریعے ان مشکلات کا حل تلاش کریں تو اختلافات ختم ہوجائیں گے اور مشترکہ سعی بہترین نتائج کی ضامن ثابت ہوگی۔
اس سلسلے میں سب سے اولین ذمہ داری علماء اور تعلیمی وتربیتی اداروں پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اسلامی معاشروں کو اعلیٰ انسانی اخلاق سے آراستہ کریں، امت میں امید کی کرن روشن کریں، انہیں وحدت کا درس دیں اور اپنی توانائیاں انسانیت کی خدمت کے لیے وقف کرنے کی ترغیب دیں۔ ان کے دل میں اس بات کا یقین پیدا کریں کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے مدد کا وعدہ فرمایا ہے اور انہیں بہترین امت بنا کر بھیجا ہے۔
رابطہ عالمِ اسلامی نے اپنی تاسیس کے دن سے لے کر اب تک اس بات کی کوشش کی ہے کہ معاشرے میں امن واستحکام اور مکالمے کی فضا کو فروغ دیا جائے،مختلف نظریات کے حامل معاشروں کو ایک دوسرے کے قریب لایا جائے، امت مسلمہ کے درمیان اتحاد واتفاق کا فروغ اور امت کو انتشار اور تفرقہ سے بچانا ہمیشہ سے رابطہ عالم اسلامی کا مقصد رہا ہے۔ رابطہ عالم اسلامی ان مقاصد کے حصول کے لیے کئی کانفرنسوں اور سیمینارز کا انعقاد کرچکا ہے اور اس سلسلے میں ہر طرح کی خدمات اور تعاون پیش کرنے کو تیار ہے۔ تاکہ دنیا میں ایثار، ہمدردی، ہم آہنگی کے جذبات پروان چڑھیں اور اعلیٰ انسانی صفات فروغ پائیں۔اس موقع پر میں خادم الحرمین الشریفین ملک سلمان بن عبد العزیز آل سعود کی قیادت میں سعودی عرب کی اسلام اور مسلمانوں کی فلاح وبہبود کے لیے کی گئی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ انہوں نے امت مسلمہ کو ہمیشہ ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی کوشش کی ہے اور رابطہ عالم اسلامی کے ساتھ نہ صرف بھرپور تعاون کرتے چلے آرہے ہیں بلکہ اس کے پورے طرزِ عمل کی نگرانی بھی کرتے ہیں۔ 
میں اس موقع پر حکومتِ پاکستان کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے ہمیشہ امت کے درمیان اتحاد واتفاق کو فروغ دینے کی کوشش کی، نیز عالمِ اسلام کے لیے بالعموم اور سعودی عرب کے لیے بالخصوص انہوں نے اپنا تعاون پیش کیا ہے۔
میں مفتی ابو ہریرہ محی الدین اور ان کے تمام معاونین کا بھی شکر گزار ہوں کہ انہوں نے مجھے اس کانفرنس میں مدعو کرکے اپنی بات آپ تک پہنچانے کا موقع فراہم کیا۔

Please follow and like us:

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا. ضرورت کے کھیتوں ک* نشان لگا دیا گیا ہے