دورۂ تفسیر قرآن کریم، دورۂ صرف و نحو اور دورۂ میراث کے حلقے بطور خاص قابل ذکر ہیں۔

یہ دونوں دائرے آج بھی مختلف شکلوں میں موجود ہیں اور سینکڑوں اصحابِ ذوق ان دائروں میں محنت کر رہے ہیں لیکن ان کی افادیت میں اضافہ کے لیے ان کی درجہ بندی اور ترجیحات پر نظر ثانی کی ضرورت ہے، میرے خیال میں جس طرح یونیورسٹیوں میں ایم فل اور پی ۔ایچ ڈی کے درجات ہیں اور اس کے ساتھ ہی اساتذہ کی تربیت کے مختلف کورسز ہیں، دینی مدارس میں اسی طرز کی درجہ بندی ضروری ہے۔ اگر تکمیل کو ایم فل اور تخصص کو پی-ایچ ڈی کی طرح منظم کیا جائے، اس کے ساتھ بی ایڈ اور ایم ایڈ قسم کے کورس اساتذہ کی فکری و عملی تربیت کے لیے مرتب کر کے ان کا اجراء کیا جائے اور ان کے نصابات میں آج کی ضروریات اور تقاضوں کو متوازن انداز میں ایڈجسٹ کر لیا جائے تو تکمیل اور تخصص کے ان حلقوں کو با مقصد اور مؤثر بنایا جا سکتا ہے اور ان کی افادیت میں کئی گنا اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ 
نوجوان علماء کرام کی تعلیم و تربیت کا تیسرا دائرہ میرے خیال میں ’’تحسین‘‘ کا ہے جس کا مطلب میرے نزدیک وہ ’’احسان‘‘ ہے جس کا ذکر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں موجود ہے اور جس سے حضرات صوفیاء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ ’’سلوک و احسان‘‘ کے نظام کے لیے راہ نمائی حاصل کرتے ہیں، یعنی دینی اعمال پر پختگی کے ساتھ ساتھ ان میں مزید حسن پیدا کرنا اور اللہ تعالیٰ کے ذکر کے ساتھ قلوب کو منور کرنا ہے جو ایک عالم دین کی صلاحیتوں کو جِلا دیتا ہے اور اخلاق و آداب میں عمدگی پیدا کرتا ہے۔ میں عام طور پر نوجوان علماء کرام کو مشورہ دیا کرتا ہوں کہ وہ کسی شیخ کامل کے ساتھ روحانی تربیت کا عملی تعلق قائم کریں اور ان کی باقاعدہ صحبت اختیار کریں یا کم از کم تبلیغی جماعت کے ساتھ کچھ وقت لگائیں جس سے ان کی عبادات اور دینی معمولات میں باقاعدگی پیدا ہوگی، کارکن کی سطح پر کام کرنے کا ذوق بیدار ہوگا۔ یہ باتیں آج ہم میں نہیں ہیں لیکن آج کے دور میں دین کی صحیح محنت کے لیے ضروری ہیں۔ 
اس سلسلہ میں چوتھا دائرہ میرے نزدیک تطبیق کا ہے کہ جو کچھ پڑھا ہے سوسائٹی میں اس پر عملدر آمد کی صورتیں ہمارے ذہن میں واضح ہوں، ہم قرآن کریم کی کوئی آیت پڑھ رہے ہوتے ہیں، جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث بیان کر رہے ہوتے ہیں، حتیٰ کہ فقہ کا کوئی جزئیہ زیر بحث ہوتا ہے مگر آج کے عمومی حالات میں اس کی ضرورت کہاں ہے اور اس کی تطبیق کی موجودہ صورت کیا ہے؟ یہ بالکل ہمارے ذہن میں نہیں ہوتا، ہم اگر تطبیق کی بات کرتے بھی ہیں تو جس فقیہ اور مجتہد کا بیان کردہ جزئیہ ہمارے پیش نظر ہوتا ہے اسی کے دور کے حالات کاتناظر بھی ہمارے سامنے ہوتا ہے اورا س بات کی طرف ہمارا ذہن نہیں جاتا کہ عرف و تعامل کی تبدیلی سے تطبیق کی صورتیں بدل جاتی ہیں۔ اور یہ بات قطعی طور پر ضروری نہیں ہے کہ مثلاً صاحبِ ہدایہ نے اپنے دور کے حالات کے تناظر میں اور اس دور کے عرف و تعامل کی روشنی میں کوئی جزئیہ تحریر کیا ہے تو وہ آج کے دور میں بھی اسی طرح فٹ ہو اور آج کے حالات سے بھی اسی طرح مطابقت رکھتا ہو۔ 
اس کے لیے سوسائٹی کے عمومی ماحول سے واقفیت، عرف و تعامل سے آگاہی اور لوگوں کی نفسیات و روایات سے شناسائی ناگزیر ضرورت کی حیثیت رکھتی ہے جس کی طرف ہماری سرے سے توجہ نہیں ہے، بلکہ افسوسناک بات یہ ہے کہ ہم نے حالات سے بے خبر رہنے کو کمال کی بات سمجھ رکھا ہے اور مسائل و مشکلات سے بے خبری کو ہم نے ان کا حل قرار دے لیا ہے، ہمارے ہاں علم اور بزرگی کا ایک بڑا معیار یہ بن گیا ہے کہ اردگرد کے حالات کی کچھ خبر نہ ہو اور دنیا میں کیا ہو رہا ہے، اس سے کوئی دل چسپی نہ ہو، یہ طرز عمل درست نہیں ہے، اسے تبدیل کرنا ہوگا اور خاص طور پر فارغ التحصیل ہونے والے علماء کرام میں یہ ذوق پیدا کرنا ہوگا کہ وہ نہ صرف اپنے ملک کے بلکہ عالمی حالات سے بھی با خبر رہیں، دنیا اور معاشرے میں ہونے والی تبدیلیوں پر نظر رکھیں، قرآن و سنت، فقہ اسلامی اور تاریخ اسلامی کے ذخیرے سے استفادہ کرتے ہوئے خود کو فکری و عملی طور پر تیار رکھیں۔ 
نوجوان علماء اور فضلاء کی تعلیم و تربیت کا پانچواں دائرہ میرے خیال میں ان کی فکری تربیت اور ذہن سازی کا ہے جس کا ہمارے ہاں کوئی بامقصد اور منظم اہتمام موجود نہیں ہے۔
آج کی دنیا افکار و خیالات کے عروج کی دنیا ہے ، اور افکار و خیالات کی اشاعت اور فروغ میں جدید میڈیا نے جو ہمہ گیری اور وسعت پیدا کی ہے اس نے ہماری ذمہ داریوں میں بہت زیادہ اضافہ کر دیا ہے، فکر و فلسفہ کی عالمی تحریکات، ان کے اہداف، ان کے طریق کار اور عالم اسلام پر ان کے مثبت و منفی اثرات پر نظر رکھنا، اور منفی خیالات کا توڑ تلاش کرکے متاثرہ لوگوں پر اسلامی تعلیمات سے مزین افکار و خیالات پہنچانا علمی و فکری محنت کا ایک مستقل دائرہ ہے جو اس وقت بدقسمتی سے ہماری توجہ کی رینج میں نہیں ہے، اور پریشان کن بات یہ ہے کہ ہم نے عقائد اور افکار و نظریات کو ایک ہی دائرہ کی چیز سمجھ رکھا ہے حالانکہ عقائد اور ان کی تعبیرات کی سطح اور دائرہ الگ ہے اور افکار و نظریات کی دنیا اس سے بالکل مختلف ہے مگر ہم کسی نئے فکر و نظریہ کا جواب فکر و نظریہ کی صورت میں دینے اور علمی و منطقی طور پر اس کی کمزوری واضح کرنے کی بجائے ہر بات کا رَد فتویٰ کی زبان میں دینے کے عادی ہوگئے ہیں جس سے کنفیوژن بڑھتا جا رہا ہے۔ عقیدہ کی بنیاد وحی پر ہے جبکہ فکر و نظریہ کا تعلق عقل سے ہے اور عقل کے ارتقاء کے ساتھ ساتھ افکار و نظریات میں رد و بدل ہوتے رہنا ایک فطری بات ہے۔ اس لیے جو فکر و نظریہ وحی سے صریح متصادم نہ ہو اسے غلط عقیدہ قرار دے کر رد کر دینا قرین قیاس نہیں ہے، لیکن میں اس بحث کو مزید آگے بڑھانے کی بجائے اصولی طور پر یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارے مدارس کے فضلاء میں سے جو علماء اس کی اہلیت و صلاحیت رکھتے ہیں انہیں آج کے مروجہ نظریات و افکار اور فلسفہ و ثقافت سے آگاہی حاصل کرنا اور دور حاضر کی فکری و تہذیبی کشمکش سے روشناس کرا کے انہیں اسلام کے فطری نظام اور ثقافت و تمدن کی علمی زبان میں ترجمانی کے لیے تیار کرنا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ 
حضرات محترم! میں نے آج کے حالات اور ضروریات کے تناظر میں دینی مدارس سے فارغ التحصیل ہونے والے علماء کرام کی تعلیم و تربیت کے چند ناگزیر تقاضوں کا ذکر کیا ہے، اس سلسلہ میں ’’مجلس صوت الاسلام پاکستان ‘‘ کی محنت میرے نزدیک انتہائی مفید اور بروقت ہے اور میں اس پروگرام میں مسلسل شریک رکھنے پر مجلس صوت الاسلام کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اس کی ترقی و کامیابی اور ثمرات و نتائج کے ساتھ بارگاہِ ایزدی میں اس کے لیے قبولیت و رضا کے لیے بھی تہہ دل سے دعا گو ہوں۔ آمین یا رب العالمین۔ 
٭٭٭٭٭٭                   

Please follow and like us:

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا. ضرورت کے کھیتوں ک* نشان لگا دیا گیا ہے