امت کا مشترکات پر جمع کیا جائے

ملی یکجہتی کونسل کے صدر قاضی حسین احمد کا علماء امن کنونشن سے فکر انگیز خطاب
محترم صدر مجلس میرے عزیز نوجوان علمائے کرام! مفتی ابوہریرہ صاحب مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے نوجوان علماء کرام کو مشترکات پر اکٹھا کرنے اور اپنے فرائض کی طرف متوجہ کرنے کیلئے ایک اچھی مجلس ‘صوت الاسلام کے نام سے بنائی ہے۔ میں اس مبارک کاوش پر ان کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔
استحکام پاکستان سے پہلے ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ پاکستان کیا ہے؟ برصغیر پاک وہند کے مسلمانوں نے اسلامیت اور اپنے تشخص کو بچانے کیلئے یہ ملک قائم کیا ہے شخصی کام نہیں اجتماعی کام ہے۔ اگر قائد اعظم یہ کہتے کہ میں سیکولر پاکستان جس میں ہندو مسلمان سب اکٹھے ہوں گے‘ بناناچاہتا ہوں تو بھی کوئی مسلمان ان کا ساتھ نہ دیتا‘ قائد اعظم نے لوگوں کو کلمہ طیبہ کی بنیاد پر بلایا ہے۔ اس وجہ سے لوگوں نے ان کا ساتھ دیا۔ مدارس اور یوپی کے لوگوں نے کیوں ساتھ دیا حالانکہ ان کو پتہ تھا کہ پاکستان میں ہم نہیں ہوں گے۔ صرف کلمہ طیبہ کی بنیاد پرساتھ دیا ۔ آگ اور خون کی ندیوں سے گزر کر لوگ آئے‘ تاریخ انسانی میں اتنا بڑا تبادلہ آبادی کا نہیں ہوا ایک کروڑ لوگوں کا تبادلہ ہوا۔ اسلام کے نام پر یہ ملک حاصل کرنے کے بعد کوئی یہ کہے اس میں مسلمان‘ ہندو اور عیسائی سب برابر ہیں تو اس کو منافقت کے علاوہ کیا کہا جاسکتا ہے۔پاکستان کلمہ طیبہ اور اسلامی نظریہ کی بنیاد پربنا ہے اور قرار داد مقاصد میں یہ بات طے ہوچکی ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی شریعت کے مطابق اس کا نظام چلے گا۔ اللہ رب العزت کی حاکمیت اعلیٰ اور اقتدار اعلیٰ کو تسلیم کیا گیا ہے اور قرآن وسنت کے حدود کے اندر رہ کر مشورے کے نظام کو اپنایا گیا۔ 
استحکام پاکستان کیلئے ضروری ہے کہ مخلص متقی اور حب اللہ حب رسول سے سرشار لوگوں کو اقتدارمیں لایا جائے جب تک مخلص لوگ برسر اقتدار نہیں ہوں گے تو ملک مستحکم نہیں ہوسکتا۔ ہمارے لیے حضور اکرم ﷺ کی ذات اقدس بہترین نمونہ ہے۔ اسوہ حسنہ پر عمل پیرا ہوکر ملک کی تقدیر بدل سکتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ کس مقصد سے بھیجے گئے تھے ’’ھوالذی ارسل رسولہ بالھدیٰ ودین الحق لیظہرہ علی الدین کلہ ولو کرہ المشرکون‘‘ پھر تمام پیغمبروں کو بھیجا ’’لیقوم الناس بالقسط‘‘ نظام قسط کو اللہ نے اقامت دین بھی کہا ’’شرع لکم من الدین ماوصیٰ بہ نوحاً والذی اوحینا الیک و ما وصینا بہ ابراہیم وموسیٰ وعیسیٰ ان اقیمواالدین ولا تتفرقوا فیہ‘‘
اقامت دین ‘اظہار دین اور نظام عدل وقسط یہ تین چیزیں ہیں۔ اس کو اللہ تعالیٰ نے اعلاء کلمۃ اللہ بھی کہا۔ 
انصاف اس وقت قائم ہوگا جب اللہ کے اور بندوں کے حقوق پورے پورے قائم کیے جائیں۔ خالق اور مخلوق کی حدود کی نشاندہی قرآن وسنت کی تعلیمات میں موجود ہے۔ اقامت دین کا وہ طریقہ اور منہج کیا ہے؟جس پر پوری امت اکٹھی ہوسکتی ہے وہ صرف منہج نبویﷺ ہے۔ اس لیے قرآن وسنت کی تعلیمات کی روشنی میں منہج الرسول کی نشاندہی کی جائے کہ وہ کیا ہے؟۔اللہ نے نبی کریم ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ’’قل ھذہ سبیلی اد عوا الی اللہ علیٰ بصیرۃ انا ومن اتبعنی‘‘
اللہ تعالیٰ کی بندگی کی دعوت پر پوری بصیرت کے ساتھ امت کو جمع کریں، مسلک کی طرف دعوت کی کوئی بھی دلیل نہیں ہے۔ 
حضور نبی کریم ﷺ اس لیے تشریف لائے تاکہ امت کو یہ بتایا جائے کہ ہمارا رب کن باتوں سے خوش اور کن باتوں سے ناراض ہوتا ہے اور اس لیے تشریف لائے کہ ’’بعثت لاتمم مکارم الاخلاق‘‘ اخلاق حسنہ سکھایا اور مخلوق کو خالق سے آشنا کروایا۔ اس دین کو غالب کرنے کیلئے تشریف لائے تھے۔ اظہار دین کیلئے ان کو یہ تعلیم دی گئی تھی کہ صرف ایک اللہ کی بندگی کی طرف دعوت دو نہ کسی لیڈر کی طرف اور نہ مسلک کی طرف اور نہ کسی قومی ولسانی عصبیت کی طرف اور بالکل واضح طور پر انہوں نے یہ کہا کہ کسی عربی کو عجمی پر عجمی کو عربی پر‘ کالے کو گورے پر گورے کو کالے پر فضیلت حاصل کیں۔
نبی کریم ﷺ انسانیت کی فلاح کیلئے تشریف لائے ’’قل یا یھا الناس انی رسول اللہ الیکم جمیعا‘‘ انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نکال کر رب کی غلامی میں دینے کیلئے تشریف لائے جو ایک صحابی نے ایرانی سپہ سالار کے دربار میں کہا ’’جئنا الیکم لنخرجکم من عبادۃ العباد الی عبادۃ رب العباد ومن جور الادیان الی عدل الاسلام ومن ضیق الدنیا الی سعۃ الاخرۃ‘‘ آخرت کی وسعت کی سوچ دینے کیلئے اپنے رب کے سامنے جوابدہی کیلئے اور نہ ختم ہونے والی زندگی کی طرف جانا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اس پر امت کو اکٹھا کریں ایک اللہ کی بندگی کی طرف بلائیں‘ پھر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت جن لوگوں نے قبول کی انہوں نے ان کی تربیت کی‘ ’’لقدمن اللہ علی المؤمنین اذ بعث فیھم رسول من انفسہم یتلواعلیکم آیاتہ ویزکیھم ویعلمھم الکتاب والحکمۃ وان کانوامن قبل لفی ضلال مبین‘‘
اور پھر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے درمیان نظم قائم کیا اور ان کی تنظیم کی سمع اور طاعت کی عمدہ مثال قائم کی اور مشاورت’’ وامرہم شوریٰ بینھم‘‘ اور اس طریقہ سے ایک منظم جماعت کھڑی کردی اور پھر ان کو اللہ کے راستے میں جہاد اور پھر اپنے گھر کو چھوڑ کر ہجرت اور پھر جو پہلی اسلامی ریاست بنی دعوت کی بنیاد پر بنی ہے قتال کے ذریعے سے نہیں بنی ہے۔ دعوت کی بناء پر مدینہ منورہ میں پہلی اسلامی ریاست بنی ہے ۔ قتال اس وقت فرض کیا گیا جب اسلام کا دین کا راستہ روکا جارہا تھا اور اسی لیے ’’اذن للذین یقاتلون باہم ظلموا وان اللہ علی نصرہم لقدیر‘‘ ظلم کے خلاف امت کھڑی ہوگئی۔
اس وقت مسلمانوں میں پائے جانے والے جذبہ جہاد اور شوق شہادت کو اغیار مسلمانوں کے خلاف ہی استعمال کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ پاکستان اسلام کے نام پر بنا اور سب سے زیادہ قربانیاں علماء نے دی ہیں‘ 60سال گزرنے کے باوجود پاکستان میں اسلامی نظام کا نفاذ نہیں ہوا‘ اس کے ذمہ دار وہی لوگ ہیں جو خود ہی غازی اور شہید بنتے ہیں‘ دینی جماعتوں پر یہ الزام غلط ہے کہ وہ اسلام کے نام پر اسلام آباد پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔ دینی قوتوں نے قربانیاں نہ دی ہوتی تو پاکستان قائم نہیں ہوسکتا آج بھی دینی قوتوں کا مقصد اس ملک میں اسلامی نظام کا نفاذ ہے۔
برادران عزیز! انبیاء کا سلسلہ ختم ہوا، دوسرا نبی آنے والا نہیں ہے۔ امت اس بات پر متفق ہے اور اب یہ اس امت کا فریضہ ہے ۔ اقامت دین اعلاء کلمۃ اللہ۔ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نصرت ہے۔ اعلاء کلمۃ اللہ کے مقام سمجھ کر اور ان کا مکمل ادراک کرکے آپ کو آگے بڑھنا پڑے گا اور اپنے کردار اور اپنے عمل کے ذریعے سے بھی اور قول کے ذریعے سے بھی ۔مشترکات پر امت کو اکٹھا کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کیلئے علماء کرام کو فرقہ وارانہ اختلاف کو ختم کرکے مشترکات پر تمام لوگوں کو ایک ہی پلیٹ فارم پر جمع ہوکر جدید تحدیات کے مقابلے کیلئے متفقہ لائحہ عمل طے کریں تاکہ آپس میں ہم آہنگی پیدا ہوجائے۔ منبر ومحراب سب سے بڑا ذریعہ ابلاغ ہے اس سے ایک ہی آواز پیدا ہوجائے اس سے اسلام کا غلغلہ بلند ہوگا۔ اس کو ہم آہنگ کرنا علماء کی ذمہ داری ہے۔ مجلس صوت الاسلام کے مقاصد میں بھی یہی ہے اور یہی اس کومنظم انداز میں کرسکتے ہیں۔

Please follow and like us:

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا. ضرورت کے کھیتوں ک* نشان لگا دیا گیا ہے