تفصیل

’’صبح ہونے کو ہے‘‘    

28مئی 2012ء کی صبح ہمارے لیے نہایت ہی خوشگوار‘ امید افزا اور ہمارے روشن مستقبل کی ایک جھلک تھی‘ یہ وہ دن تھا کہ جب اسلام آباد کے میریٹ ہوٹل کے جگمگاتے ہال میں ملک بھر سے منتخب کردہ 500نوجوان علماء کرام ’’علماء امن کنونشن‘‘ کی افتتاحی تقریب میں شرکت کے لئے اپنی اپنی نشستوں پر تشریف فرما ہوچکے تھے۔ سچ پوچھیے تو ان نوجوان علماء کے روحانی چہروں سے ہال کی خوبصورتی میں بے پناہ اضافہ ہوگیا تھا اور ان کی موجودگی سے ہوٹل کے درودیوار بھی جھومتے محسوس ہورہے تھے‘ ہال میں ایک عجب قسم کی فرحت ومسرت کا احساس ہورہا تھا۔ دل نہ جانے کیوں یہ گواہی دے رہا تھا کہ اس قوم کا مستقبل نہایت تابناک ہے کیوں کہ اس کے مسیحا پرعزم اور جہد مسلسل کے لیے تیار نظر آتے ہیں۔
مجھ سے پوچھیے تو مجھے یہ کہنے میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ تین دن میری زندگی کے بہترین دنوں میں سے ہیں اور ان دنوں کی یادیں اب زندگی بھر ایک نہایت ہی خوشگوار خواب کی طرح میری ہمسفر رہیں گی۔
علماء امن کنونشن کے انعقاد سے اک نئی تحریک نے جنم لیا ہے اور جس جس نے بھی اس کنونشن کے بارے میں سنا یا پڑھا ہے اور اس پر غور وفکر کیا ہے وہ اس پر متفق نظر آتا ہے کہ اس کے ذریعے اک نئی تاریخ رقم ہوئی ہے اور مذہبی طبقے کے بارے میں طویل عرصے سے پھیلائے جانے والے شکوک وشبہات کا خاتمہ ہوا ہے اور ملک کے تعلیم یافتہ اور اقتدار پر قابض طبقات کو مذہبی طبقات کے بارے میں ایک نئی سوچ ملی ہے‘ ملک وقوم کو مستقبل کے مذہبی راہنمائوں کے بارے میں اطمینان حاصل ہوا ہے اور اس منفی تاثر کا خاتمہ ہوا ہے کہ نوجوان علماء یا دینی مدارس کے طلباء صرف اور صرف تخریبی کارروائیوں کا حصہ بنتے ہیں اور دینی مدارس کے بارے میں اس تاثر کی بھی نفی ہوئی ہے کہ یہ دہشت گردی کے مراکز ہیں۔
ہمیں یہ اعتراف کرنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ یقینا کچھ علماء اور کچھ دینی مدارس شدت پسندی کے فروغ کی اس تحریک کا حصہ بنے اور انہوں نے ملک میں انتہا پسندی کو فروغ دیا لیکن یہ بات بھی تسلیم کی جانی چاہیے کہ ملک میں موجود علماء کرام کی اکثریت نے ہمیشہ شدت پسندی کی مخالفت کی ہے ‘ ملک وقوم کو نقصان پہنچانے والے ہر عمل کی کھل کر مخالفت کی ہے اور ہمیشہ اسلامی احکامات کے مطابق انسانی عظمت اور امن وسلامتی کی تبلیغ کی ہے تو دوسری طرف قتل وغارت گری ‘ دہشت گردی کے ہر عمل کی مذمت کی ہے‘ ہمیں افسوس ہے کہ امن وسلامتی‘ عدل وانصاف اور اسلامی تعلیمات کے فروغ میں مصروف ان علماء کرام کی خدمات کا کبھی بھی اعتراف نہیں کیا گیا بلکہ ہمیشہ علماء اور مذہبی طبقوں کو دہشت گردی سے جوڑنے کی کوشش کی جاتی رہی ہیں جس سے ایک طرف مذہبی طبقات بدنام ہوئے تو دوسری طرف بہت سے نوجوانوں نے شدت پسندی کو ہی اسلامی روایات سمجھ کر اس سے منسلک ہوتے رہے اور دھیرے دھیرے امن وسلامتی کے خواہاں علماء کی آواز کمزور ہوتی چلی گئی‘ ہر فورم پر شدت پسندی کا پرچار کرنے والے علماء کرام کو فوقیت دی جانے لگی اور ملک میں علماء اور مدارس کو دہشت گردی اور شدت پسندی کی علامت بنادیا گیا جس سے ملک وقوم کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔
ان حالات میں شدید تقاضہ پیدا ہوا کہ ملکی سطح پر صحیح اسلامی تعلیمات کے فروغ اور انسانی عظمت کو اجاگر کرنے والی ایک ایسی مذہبی تنظیم تشکیل دی جائے جو نوجوانوں کو شدت پسندی اور دہشت گردی سے بچانے کے لیے سرگرم کردار ادا کرے ‘جو اسلامی تعلیمات کے فروغ کو اہمیت دے ‘اسلام کے روشن احکامات کی روشنی میں اعتدال پسند معاشرہ تشکیل دینے کی جدوجہد کرے‘ دینی مدارس کے بارے میں منفی سوچ ختم کرنے کی جدوجہد کرے اور نوجوان علماء کرام کو ان کی ذمہ داری کی ادائیگی میں درپیش مشکلات کو حل کرنے میں ان کی مدد کرے۔ مستقبل کے ان رہنمائوں میں امت مسلمہ اور ملک کیلئے کچھ کر گزرنے کا عزم پیدا کرے اور انہیں نئے دور کے جدید علوم اور معاشرتی تقاضوں سے ہم آہنگ کرے۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ان عظیم الشان خدمات کے لیے مجلس صوت الاسلام پاکستان نے میدان عمل میں آنے کا فیصلہ کیا اور اکابر علماء کرام کی سرپرستی میں اپنے کام کا آغاز کیا‘ کسے معلوم تھا کہ کچھ عرصہ پہلے عزم واستقلال سے بھرپور ملک وملت کی خدمت کا جذبہ رکھنے والے نوجوان مفتی ابوہریرہ محی الدین کی سربراہی میں یہ تنظیم اتنی جلدی مقبولیت کی انتہا کو چھو لے گی ۔ سچ ہے کہ اخلاص نیت سے اٹھایا جانے والا ہر قدم اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قدر حاصل کرلیتا ہے اور پھر دنیا میں ہر سُو اس کی شہرت عام ہوجاتی ہے۔ آج مجلس صوت الاسلام پاکستان امیدوں کا مرکز بن چکی ہے اور ہر سطح پر اس کی خدمات کا اعتراف کیا جارہا ہے‘ اس تنظیم نے قلیل عرصہ میں دین اسلام اور مذہبی طبقات کے لیے جو خدمات انجام دی ہیں وہ ناقابل فراموش ہیں۔ مجلس صوت الاسلام کے بڑھتے ہوئے دائرہ کار اور ملک کے مختلف حصوں سے مسلسل ملنے والی پذیرائی اس بات کو واضح کرتی ہے کہ علماء اور طلباء کے علاوہ مختلف طبقات نے بھی اس تنظیم سے بے پناہ امیدیں وابستہ کرلی ہیں۔
علماء امن کنونشن میں نوجوان علماء کرام نے بڑی خوبصورتی اور مؤثر انداز میں اپنی صلاحیتوں کا اظہار کیا‘ کنونشن کی مختلف نشستوں میں امت مسلمہ اور ملک وقوم کو درپیش مسائل کا احاطہ کیا گیا اور ان کے حل کیلئے گرانقدر تجاویز پیش کی گئیں۔نوجوان علماء کرام نے اپنے مقالوں میں جس خوبصورتی سے دور حاضر کے چیلنجز کا تذکرہ کیا ہے اور ان سے نمٹنے کے لیے جو قابل قدر تجاویز پیش کی ہیں اور ان چیلنجز سے نبرد آزما کے لیے جس عزم وحوصلہ کا اظہار کیا ہے وہ حاضرین مجلس کے لیے نہایت ہی خوشگوار تھا‘ ہمارے لیے یہ بات نہایت ہی اطمینان بخش ہے کہ کنونشن میں شریک تمام علماء کرام دور حاضر کے مسائل سے آگاہ تھے۔ امت مسلمہ کی قیادت کے لیے پرعزم تھے اور ملک پاکستان کے استحکام کے لیے ہر قربانی دینے پر تیار تھے‘ کنونشن کی ہر نشست میں بار بار امت مسلمہ کے مسائل کا تذکرہ درد دل سے کیا جاتا رہا اور ہر مقرر میں یہ تڑپ نظر آئی کہ وہ ان مسائل کے حل میں سرگرم کردار ادا کرے‘ ہر نشست میں صحیح اسلامی تعلیمات کے فروغ‘ امن وسلامتی اور عدل وانصاف کے لیے عزائم کا اظہار کیا جاتا رہا تو دوسری طرف موجودہ حالات کی سنگینی کا بھی تذکرہ ہوتا رہا اور تقریباً ہر مقرر نے دہشت گردی اور تخریبی کارروائیوں کی کھل کر مذمت بھی کی۔

Please follow and like us:

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا. ضرورت کے کھیتوں ک* نشان لگا دیا گیا ہے