سیف الا سلام سیفی

عالمی طاقتوں کے مفادات کا محافظ ہمارا معاشی نظام 
پاکستان کی معیشت زبوں حالی کا شکار ہے اور خوشحالی اور ترقی ایک خواب بن کر رہ گئی ہے قیام پاکستان کے بعد ایک نسل خوشحالی کی منزل پانے کی خواہش دلوں میں لے کر کوچ کرچکی اور دوسری نسل اس کی تمنا میں ذہنی ا نتشار اور بے چینی سے دوچار ہے ملک کی معاشی بد حالی کے ذمہ داروں کے تعین کے لئے کسی تحقیق و جستجو کی ضرورت نہیں حکومت کی غلط پالیسیاں ملک کے معاشی تنزل کا باعث بنیں تو بڑی طاقتوں نے اپنے سیاسی و اقتصادی مفادات کے لئے یہاں کے حکمرانوں کو اخراجات پو رے کرنے کے لئے بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے قرضوں کے حصول کی راہ پر لگا دیا پہلے پہل یہ قرضے اسان شرائط پر دیے جاتے رہے حکمران کے عادی ہوجانے کے بعد مالیاتی اداروں اور بڑی طاقتوں نے حکومتوں سے اپنی شرائط منوانا شروع کردیں پوری طرح گرفت اور چنگل میں ٓنے کے بعدبڑی طاقتوں نے حکومتوں سے سخت اور عوامی مفادات کے منافی فیصلے بھی کروائے جن میں جنرل سیلز ٹیکس ،بجلی اور دوسرے یوٹیلٹی بلز میں وقتا فوقتا اضافے ،کارپوریٹ فارمنگ اور اب ویلیو ایڈڈ ٹیکس مسلط کرنے کے ناپسندیدہ فیصلوں سمیت دوسرے معتدد اہم فیصلے شامل ہیںحکمرانوں کے پیش نظر عوامی مفاد کم اور بڑی طاقتوں کی خوشنودی رہی ہے یہ سب کچھ عالمی سرمایہ دارانہ اقتصادی نظام کو قبول کرنے کی بدولت ہو جس نے نہ صر ف پاکستان بلکہ دنیا کے تمام ترقی پذیر ممالک کو اپنے پنجوں میں جکڑ رکھا ہے سرمایہ دارانہ نظام نے دولت کو مغربی مفادات اور پاکستان کے چند انتہائی امیر افراد کے ہاتھوں میں مرتکز کررکھا ہے پاکستان کے عوام اپنی ضروریات زندگی پوری کرنے کے لئے تاریخ کے بدترین جبر کا شکا ر ہیں بڑھتی قیمتوں ،بھاری ٹیکسوں اور سہولیات کی گرانی نے ان کی کمر دوہری کرکے رکھ دی ہے حکومت غریبوں کے لئے علامتی اقدامات کرکے عوام کی ٓانکھوں میں دھول جھونکتی رہتی ہے اور وہ یوٹیلٹی سٹورز کی چند اشیا کی قیمتوں میں وقتی کمی کرکے وہ اپنی ذمہ داریوں سے بری الزمہ ہوجاتی ہے پاکستان کے قرضوں کا بیشتر حصہ ٓائی ایم ایف ،ورلڈ بینک اور پیرس جیسے اداروں سے حاصل کئے جانے والے قرضوں پر مشتمل ہے جن پر مغرب اور بڑی طاقتوں کا دباؤ اور اثر ہے بلکہ یہ ادارے خود ان بڑے ممالک کے دست نگر ہیںاور یہ ادارے بڑی طاقتوں کے مفادات کے تحفظ کے لئے ہی قائم کئے گئے ہیں دوسال قبل پاکستان پر پچاس ارب ڈالر قرضے واجب الادا تھے جن میں مزید اضافہ ہوچکا ہے ٓائی ایم ایف ٹیکسوں کے نیٹ ورک کو وسیع کرنے اور ٹیکس کا بوجھ مزید بڑھانے کے لئے پچھلے ایک عشرے سے پاکستان پر دباؤ بڑھانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے دوسال قبل حکومت نے ٹیکس وصولی کے ہدف میں مزید ایک سو نوے ارب روپے کا اضافہ کیا ٹیکسوں کی بھر مار نے داخلی معیشت کا گلا گھونٹ دیا ہے اور یہ پاکستان کی معیشت کو تیزی سے ابھرنے اور مغربی ممالک کی معیشتون کو چیلنچ کرنے سے روکے ہوئے ہے انکم ٹیکس لوگوں کی تنخواہوں کو کھا جاتا ہے جی ایس ٹی ٹیکس کھانے پینے کی لوازمات اور ادویات کی خریداری کو بوجھ بنادیتا ہے جبکہ ایندھن اور توانائی کے وسائل پر ٹیکس صنعتی اور زرعی پیداوار کا گلا گھونٹ دیتا ہے مغربی مفادات کی تکمیل کے لئے ملکی اثاثہ جات کی نجکاری کے منصوبے کو شدومد سے چلایا جارہا ہے جس نے معاشی بدحالی کو مزید بڑھا دیا ہے انیس سو ننانوے سے دوہزار سات تک نجکاری سے چھ ارب ڈالر کی رقم حاصل کی گئی نہ صرف یہ کہ نجکاری کے عمل میں ان اشیا کی نجکاری کی جارہی ہے جن کا تعلق عوامی ضروریات سے ہے جیسا کہ گیس اور بجلی کے ذرائع وغیرہ بلکہ اس عمل سے عوامی سہولیات کی قیمتوں میں اضافہ کردیا جاتا ہے تاکہ ان اداروں کو خریدنے والے بے پناہ منافع کما سکیں ورلڈ بینک نے بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے عمل کی نگرانی کی اورسن دوہزار سے دوہزار چار کے دوران بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا اور اس کے بعد بھی کئی مرتبہ بجلی کی قیمتیں بڑھائی گئیںایک اور مغربی پالیسی جس نے لوگوں کی مشکلات میں اضافہ کیا ہے وہ پاکستانی کرنسی کی قیمت میں بتدریج کمی ہے حکومت پاکستان سونا و چاندی جیسی حقیقی دولت کو بنیاد بنائے بغیر دھڑادھڑ کرنسی نوٹ چھاپتی رہتی ہے جس کے نتیجے میں افراط زر کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے اور پیسے کی قوت خرید میں کمی واقع ہوتی ہے پاکستان کے روپے کی قیمت میں کمی مغربی ملٹی نیشنل کمپنیوں کو فائدہ پہنچاتی ہے جو پاکستان میں سستی قیمت پر مال تیار کرکے مغرب میں اچھے داموں پر فروخت کرتی ہیں تاہم روپے کی قیمت میں کمی کے نتیجے میں چیزوں کی کریداری مہنگی ہوجاتی ہے اور کئی مقامی صنعتیں متاثر ہوتی ہیں یہ مسئلہ اس قدر سنگین ہے کہ مقامی صنعت کاروں نے یا تو اپنے کاروبار کو بالکل خیرباد کہہ دیا ہے یا انہوں نے امپورٹ ایکسپورٹ کا کام شروع کردیا ہے جس سے مغربی معیشتوں کی ضروریات ہی پوری ہورہی ہیں ان سرمایہ دارانہ پالیسیوں کے ذریعے مغرب حکومت پاکستان کی ملی بھگت سے پاکستان کے لوگوں کو اقتصادی بدحالی کی دلدل میں دھکیل رہاہے جس نے دولت کو چند ہاتھوں میں مرتکز کردیا ہے اور ایک مختصر امیرگروہ تمام وسائل پر براہ راست یا بالواسطہ قابض ہے یہ ہی سرمایہ دارانہ نظام کی پہچان ہے کیونکہ سرمایہ دارانہ نظام جہاں بھی نافذ ہوا وہاں دولت کا حد درجے ارتکاز پیدا ہوگیا یورپ اور امریکہ میں بھی وسائل اور دولت کا زیادہ تر حصہ وہاں چند افراد کی ملکیت میں ہے چونکہ سرمایہ دارانہ نظام انسانی ذہن کا تخلیق کردہ خود غرضانہ معاشی نظام ہے جو لوگوں کو اس بات کا اختیار دیتا ہے کہ وہ اپنی خواہشات اور لذتوں کی خاطر دوسروں کا استحصال کریں جبکہ کائنات کے خالق کے ت خلیق کردہ نظام معیشت میں اس بات کو یقینی بنایا گیا ہے کہ دولت چند ہاتھوں میں مرتکز ہونے کی بجائے معاشرے میں گردش کرتی رہے چنانچہ اسلام کا اقتصادی نظام ظالمانہ ٹیکسوں سے پاک ہے اور اس نے محاصل کا منفرد نظام دیا ہے جس میں عوامی اثاثہ جات مثلا گیس کی اضافی مقدار سے حاصل ہونے والی آمدنی ،زرعی پیداوار سے حاصل ہونے والے محصولات مثلا خراج وغیرہ شامل ہیں جو معاشی سرگرمی کا گلا گھونٹے بغیر امدنی کے حصول کا باعث بنتے ہیں توانائی ،چراگاہوںاور پانی جیسے وسائل کو عوامی ملکیت قرار دیا گیاہے ریاست یا افراد ان سے حاصل ہونے والے فائدہ کو غصب نہیں کرسکتے اور حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی رو سے پانی ،چراگاہیں اور اگ میں تمام مسلمان شریک ہیں اسلامی ریاست میں کرنسی نوٹ سونے اور چاندی کی بنیاد پر چھاپے جاتے ہیں جس کے نتیجے میں اشیا کی قیمتوں میں اضافے کی روک تھام ہوتی ہے اور یہ نظام ہی شہریوں کے بنیادی حقوق کی حقیقی ضمانت فراہم کرتے ہوئے ایک فلاحی ریاست کے تصور کو پورا کرتا ہے

Please follow and like us:

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا. ضرورت کے کھیتوں ک* نشان لگا دیا گیا ہے