پروفیسرحافظ عبدالواحد سجاد

توہین آمیزخاکے اور مسلم حکمرانوں کی ذمہ داری
طائف مکہ معظمہ سے مشرق کی طرف ساٹھ ستر میل کے فاصلے پر ایک سرسبز وشاداب مقام ہے‘ جہاں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نبوت کے دسویں سال تبلیغ اسلام کیلئے تشریف لے گئے اور قبیلہ بنی ثقیف کے ایک بااثر خاندان کو دعوت اسلام دی۔ اس خاندان کے سردار تین حقیقی بھائی تھے‘ انہوں نے نہ صرف حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اڑایا‘ بلکہ طائف کے اوباشوں کو بھی آپ کے پیچھے لگادیا۔ ان اوباشوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر آوازیں کسیں‘ گالیاں دیں اور پتھر برسائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ انور لہولہان ہوگیا‘ ریش مبارک تر ہوگئی اور لہو مبارک نعلین (مبارک جوتوں) تک پہنچا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر طائف کا یہ احوال ہر اس فرد کو معلوم ہے جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نسبت رکھتا اور اس پر فخر کرتا ہے۔ طائف کا یہ پس منظر لوح حافظہ پر یوں آیا کہ ایک معاصر میں طائف کی ایک نمائش کا تذکرہ پڑھنے کو ملا۔ قارئین تک اس کا احوال پہنچانے کا مقصد یہ ہے کہ دیکھا جائے کہ مسلمان آج ذلت ورسوائی کے عمیق گڑھے میں کیوں گرے ہوئے ہیں؟ بات آگے بڑھانے سے پہلے وہ رپورٹ ملاحظہ فرمالیجئے۔
’’طائف ایک ایسا تفریحی مقام ہے‘ جہاں آئے روز کسی نہ کسی موضوع پر کوئی نمائش یا میلہ جاری رہتا ہے‘ کبھی پھلوں‘ کبھی پھولوں کی نمائش‘ کبھی گرمی اور سردی کی چھٹیوں کے میلے منعقد کئے جاتے ہیں۔ یہاں کا موسم ہمیشہ ٹھنڈا اور خوشگوار رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امراء اکثر چھٹیوں میں یہاں آکر وقت گزارتے ہیں‘ یہاں تک کہ بیرون ملک سے بھی آئے ہوئے لوگ طائف میں وقت گزارنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ گزشتہ دنوں طائف میں شادی میں استعمال میں آنے والی اشیاء کی نمائش لگائی گئی۔ نمائش میں ’’عالمی ریکارڈ‘‘ قائم کرنے کیلئے دنیا کا سب سے بڑا 36منزلہ کیک رکھا گیا‘ جس کی لمبائی 18میٹر سے زیادہ تھی۔عالمی ریکارڈ یافتہ کیک کو دیکھنے اور اسے کھانے کیلئے دور دراز سے بڑی تعداد میں لوگوں نے فیملی کے ساتھ شرکت کی۔ کیک شرکاء کی خصوصی توجہ کا مرکز رہا۔ کیک بنانے والی کمپنی حلویات الحیاء کے مالک ابو خالد فہد عمر اور کمپنی کے بڑے کاریگر رضا نے بتایا کہ 36منزلہ کیک کی تیاری میں ایک ہفتہ لگا ۔ کیک میں 200کلو سے زائد چینی استعمال کی گئی‘ جبکہ کیک کو تہہ بہ تہہ رکھنے کیلئے لفٹر کا استعمال کیا گیا۔ نمائش میں کیک کے علاوہ عروسی ملبوسات‘ گلدستے اور دوسری چیزیں بھی رکھی گئیں۔‘‘
یہ رپورٹ پڑھنے کے بعد معلوم ہوا کہ فیس بک‘ یوٹیوب اور دوسری ویب سائٹس پر سرور عالم صلی علیہ وسلم کے اہانت آمیز خاکے بنانے کی جرأت شیطانی غول کو کیوں ہوئی؟ اور آئے دن نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف مغربی مقتدرین‘ مصنفین اور مغربی میڈیا ہرزہ سرائی میں کس وجہ سے مصروف رہتا ہے؟ یہ روز مسلمانوں کو اس لئے دیکھنا پڑا کہ وہ علمی پسماندگی‘ سیاسی زوال‘ غلامانہ ذہنیت کے ساتھ ساتھ مرعوبیت کے اس مقام پر پہنچ چکے ہیں کہ وہ عیاشیوں میں مغرب کو بھی مات دے گئے ہیں اور کفرملت واحدہ بن کرہذیان میں مصروف ہے‘ اسے جونہی موقع ملتا ہے وہ ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے دلوں پر چرکے لگاتا ہے مگر او آئی سی اور مسلم حکمرانوں پر سکوت مرگ کی کیفیت طاری ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خاندانی نسبت کا دعویٰ کرنے والوں کے لبوں پر قفل لگے ہوئے ہیں‘ اقبال نے سچ ہی کہا تھا۔
بجھی عشق کی آگ‘ اندھیر ہے
مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے
FACE BOOKنے مغرب کا حقیقی FACE(چہرہ) اگر سب کے سامنے رکھ دیا ہے تو ان کے فکری غلام بھی عریاں ہوگئے ہیں۔ فیس بک کا ہیڈ کوارٹر کیلی فورنیا (امریکا) میں ہے۔ 
فیس بک کے کل صارفین کی تعداد 46کروڑ 92لاکھ 21ہزار ہے۔ پاکستان کے صارفین کی تعداد 24لاکھ ہے۔ کل صارفین سے آمدنی کم وبیش 4بلین ڈالر ہے۔ پاکستانی صارفین سے 50لاکھ 31ہزار 282ڈالر کی رقم حاصل ہوتی ہے۔ تمام مسلم ممالک 47.5فیصد کی شرح سے 51کروڑ 70لاکھ ڈالر فیس بک کی نذر کرتے ہیں۔ ہر دوچار ہفتوں کے بعد احتجاج کرنے سے بات بنتی ہوتی تو اب تک مغرب راہ راست پر آجاتا لیکن وہ ہمارے احتجاج سے حظ اٹھاتے ہیں‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم وقتی ہیجان کا مظاہرہ کرنے کے بعد برف کی طرح پگھل جاتے ہیں اور معمولات دوبارہ شروع ہوجاتے ہیں‘ جس کے باعث ہذیان بکنے اور لکھنے والوں کو دوبارہ موقع ملتا ہے تو وہ پہلے سے زیادہ آگے بڑھتے اور اہانت کے مرتکب ہوتے ہیں۔ ماضی کا جائزہ لیں تو ڈنمارک کے اخبار جو لاندپوسٹن نے 30دسمبر 2005ء کو 12خاکے شائع کرکے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی تو مسلمانوں نے مظاہرے کئے اور مصنوعات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا جس پر ڈنمارک حکومت نے مسلمانوں کی دل آزاری پر معافی مانگی لیکن اظہار رائے کے نام پر اخبار پر کسی قسم کا دبائو ڈالنے سے معذوری ظاہر کی۔ معافی پر ہمارے جذبات جھاگ کی طرح بیٹھ گئے تو جنوری 2006ء میں 22ممالک کے 75اخبارات نے یہ خاکے شائع کرکے مسلمانوں کی حمیت پر تازیانے برسائے‘ پھر 200ریڈیو اور ٹی وی چینلز پر اظہار رائے کی آزادی کے نام پر سہ بارہ نشر کیا گیا۔ ہالینڈ کے اخبارات نے ان خاکوں کو ہر ہفتے شائع کرنے اور اٹلی کے ایک وزیر نے خاکوں والی ٹی شرٹ خود پہنی اور اسے بطور فیشن فروغ دینے کا اعلان کیا۔ 
اب فیس بک پر یہ گستاخانہ خاکے کیسے آئے؟ اس کی وجہ ایک انٹرنیشنل ٹی وی چینل ’’کامیڈی سنٹرل‘‘ (1989ء ) ہے جس کا صدر دفتر نیویارک میں واقع ہے۔ ’’سائوتھ پارک‘‘ اس کا طنز ومزاح پر مبنی پروگرام ہے‘ جو 13سال (1997ء) سے جاری ہے۔ 14اپریل 2010ء کو ’’سائوتھ پارک‘‘ کی چودہویں سیریز کا 200واں پروگرام تھا۔ اس پروگرام کے رائٹر اور ڈائریکٹر ٹیری پارکر اور میٹ اسٹون نے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق ایک مزاحیہ کردار پیش کرکے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی‘ جس پر ایک مسلم ویب سائٹ پر اس گستاخانہ حرکت پر شدید مذمت کے ساتھ شودو بارہ ٹیلی کاسٹ کرنے سے منع کیا گیا۔ شودو بارہ نہ چلا لیکن بدلہ لینے کی منصوبہ بندی کی گئی۔ کارٹونسٹ مولی نورس نے کہا کہ مسلمان ایک پروگرام تو روک سکتے ہیں مگر جب انٹرنیٹ پر دنیا بھر سے تصویری خاکے آئیں گے تو مسلمان اس وقت کچھ نہ کرپائیں گے۔ چنانچہ اس ملعونہ اور اس کے ابلیسی ٹولے نے ’’فیس بک‘‘ کے ذریعے یہی کچھ کیا‘ جس پر احتجاج کی لہر اٹھی اور مسلمان ممالک اور مکاتب سے بلند ہوکر میدان میں آئے۔ فیس بک کا بائیکاٹ اور اسے کئی ممالک میں بند کرکے انہیں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا۔
اب مولی نورس نے معافی مانگی ہے۔ پیٹ پر لات پڑی تو مغرب بھی بول اٹھا کہ ’’مذہبی جذبات کا احترام کرتے ہیں مگر آزادی اظہار سے کسی کو نہیں روکا جاسکتا‘‘۔ یہ وہی چال ہے جو ڈنمارک نے چلائی اور ہم خاموش ہوگئے‘ کیا اب بھی خاموش ہوجائیں گے؟ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا دعویٰ کرنے والے کیا فیس بک کا مکمل بائیکاٹ نہیں کرسکتے؟ ایک دن کے بائیکاٹ پر معافیاں تلافیاں شروع ہوگئیں‘ اگر مستقل اکائونٹس ختم کردیئے جائیں تو کیا وہ زمین چاٹنے پر مجبور نہیں ہوجائیں گے؟ مسلم مقتدرین اپنی آسودگی کو ’’ناآسودہ‘‘ سرگرمیوں پر ضائع کرنے کی بجائے کوئی ایسی ’’ویب سائٹ‘‘ اور پلیٹ فارم مہیا نہیں کرسکتے‘ جسے مسلمان نوجوان اور دیگر مذاہب کے لوگ ’’فیس بک‘‘ پر ترجیح دے سکیں؟
طائف جو ایک تاریخی پس منظر رکھتا ہے‘ وہاں ’’کیک‘‘ کے ’’عالمی ریکارڈ‘‘ کے ذریعے پیسہ برباد کرنے والے آئی ٹی اور تحقیق کے میدان میں اپنی دولت خرچ کرلیں تو اس امت کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے والوں کے منہ ہمیشہ کیلئے بند ہوجائیں گے۔ کیا انفرادی فیصلے ہی ہمارا مقدر رہیں گے یا کوئی اجتماعی فیصلہ بھی ممکن ہوگا؟۔

Please follow and like us:

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا. ضرورت کے کھیتوں ک* نشان لگا دیا گیا ہے