مفتی نذیر احمد خان

آئین کی اسلامی شقوں میں مجوزہ ترامیم
آئین اور قانون کسی بھی ملک کے قیام و استحکام کا اہم ترین ستون ہیں۔ آئین کے ذریعے ہر شخص، ہر حکمران اور ہر ادارے کے لئے حد بندی کردی جاتی ہے اور قانون کے ہاتھ ان حدود کو جانچنے اور ضابطوں میں لانے کے لئے متحرک رہتے ہیں۔ اسلام ایک نظام حیات ہے اور اسلامی قانون جس کا مآخذ قرآن و حدیث ہیں پاکستانی آئین اور قانون میں اس کی حاکمیت کو تسلیم کیا گیا ہے چنانچہ 1973ء کے متفقہ آئین کے آرٹیکل 2میں واضح درج ہے کہ۔
’’اسلام پاکستان کا مملکتی مذہب ہوگا‘‘
مگر افسوسناک پہلو یہ ہے کہ پاکستان کے آئین اور قانون کے جس طرح پاکستان کے آئینی اور غیر آئینی حکمرانوں نے ایسے ایسے کھیل کھیلے ہیں کہ الامان و الحفیظ۔
موجودہ جمہوری حکومت نے برسراقتدار کے بعد قوانین میں ہونے والی پے درپے ترامیم کے جائزے کے لئے ایک کمیٹی بنائی اور اتحاد میں شامل تمام جماعتوں کے نمائندے لئے گئے یہ کمیٹی میاں رضا ربانی کی سربراہی میں کام کررہی ہے۔ اس کمیٹی کے رکن رکین قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن صاحب بھی ہیں جو موجودہ سیاستدانوں میں آئین اور قانون کی پاسداری کے سب سے بڑی داعی ہیں۔ مولانا نے آئین کے جائزے کے لئے اور 1973ء کے آئین میں ہونے والی ترامیم کو جانچنے کے لئے اپنے طور پر ماہر علماء کرام، دانشوروں اور وکلاء کی کمیٹی بنائی ہے اس کمیٹی میں جامعہ اسلامیہ کلفٹن کے استاذ مولانا مفتی نذیر احمد خان بھی ہیں۔ حضرت موصوف نے بھی متعدد سفارشات مرتب کی ہیں جو مولانا فضل الرحمن صاحب کی خدمت میں پیش کی گئی ہیں۔
اللہ کرے کہ یہ کمیٹی ہمارے اکابر کے دیئے ہوئے 1973ء کے متفقہ آئین کو اپنی اصل حالت میں بحال کرانے میں کامیاب ہوجائے، مفتی نذیر احمد صاحب کی تحریر کردہ سفارشات افاد عام کے لئے ’’ایوان اسلام‘‘ میں قسط وار شائع کی جارہی ہیں… (ادارہ)
آئین اور قانون دو الگ الگ لفظ ہیں آئین حد بندی اور دائرہ کار کا نام ہے ،جبکہ قانون اس دائرہ کار اور حد بندی کے پابند ضابطوں کا نام ہے۔
جبکہ فقہ جس کا معنی اسلامی قانون سے بھی کیا جاتا ہے ،وسعت کے منافی ہے ، کیونکہ فقہ اسلام میں انسانی زندگی کے جزو جزو کو قانون و ضابطے کے اندر شامل کرنے کا نام ہے۔ اسلامی قانون جس کا ماخذ قرآن و حدیث ہے پاکستانی آئین و قوانین میں اس کی حاکمیت کو تسلیم کیا گیا ہے اور حاکمیت کا مطلب ہے کہ جب کبھی روایتی اور اسلامی قانون میں تصادم ہوجائے تو اولیت اسلامی قانون کو ہونے کے سبب وہ روایتی قانون مخالفت کی حد تک کالعدم متصور ہوگا قرآن و سنت کی حاکمیت کو پاکستان کے وجود کے روز اول سے تسلیم کیا گیا ہے۔
آرٹیکل 227 کا متن ہے:
All   the   existing   laws   shall   be   brought   in   conformity   with injunctions   of   Islam   as   laid   down   in   the   Holy   Quraan   and Sunnah  , In   this   part refered   to   as   the   injuctions   of   Islam   and   no law   shall   be   enacted   which   is   repugnant   to   such   injuctions.
بلکہ کل پاکستان کو سراپا اسلامی یعنی اسلامی جمہوریہ پاکستان کا نام دیا گیا، اسلامی جمہوریہ پاکستان رسم بسمل کی طرح آئین کے آرٹیکل 1میں تسلسل کے ساتھ چلا آرہا ہے۔
1956ء کے پہلے مرتب شدہ آئین میں الفاظ اس طرح سے تھے:
Pakistan shall be a federal republic to be known as the Islamic Republic of Pakistan.
بدقسمتی سے 7 اکتوبر 1958ء کو آئین منسوخ قرار پاکر مارشل لاء نافذ کیا گیا، 8 جون 1962ء کو فوجی سربراہ جنرل ایوب خان نے اپنا خود ساختہ آئین نافذ کیا اور آرٹیکل نمبر1 میں اسلامی کا لفظ متروک رہ گیا، جب اس آئین کا مسودہ ڈھاکہ کی اسمبلی مین پیش ہوا تو ایک اسلام پسند رکن اسمبلی کے توجہ دلانے پر اسلامی کا لفظ بڑھانے کا وعدہ کیا گیا، اور اس کے ایک سال بعد یعنی 1962ء کو جمہوریہ پاکستان سے پہلے اسلامی کا سابقہ لگادیا گیا۔
بہرحال آزادی پاکستان کے روز اول سے پاکستان کا اسلامی ہونا ہر دور میں تسلیم کیا گیا یہ الگ بات ہے کہ لفظی خانہ پوری سے بات کبھی آگے نہ بڑھ سکی حتیٰ کہ 1973ء کا آئین قوم کا متفقہ آئین کے نام سے وجود میں آیا۔
آرٹیکل 2 جس کا متن ہے:
Islam   shall   be   the   state   religion   of   Pakistan.
اسلام پاکستان کا مملکتی مذہب ہوگا۔
یہ آرٹیکل پڑھ کر ہر پاکستانی کا دل خوشی سے باغ باغ ہوجاتا ہے، لیکن عملی طاقت کے لحاظ سے اس جملہ کی حیثیت رسم بسمل سے زیادہ کچھ نہیں، جب اس آرٹیکل کا مفہوم اور احاطۂ کار کے تعین کے لئے سندھ ہائی کورٹ کی پانچ رکنی بنچ بیٹھی تو طویل سوچ و بچار کے بعد اپنا آبزرویشن ان الفاظ میں دیا:
Article   2   is   incorporated   in   the  introductory   part   of   the constitution   and   as   far   as   its   language   is   concerned   , it merely conveys a declaration. --
-- This article   does   not   even   profess   that   by   its   force  , it   makes   Islamic Law   to   be   the   law   of   the   land.
بنچ مزید وضاحت کرتی ہے:
There   is   there  fore  , no   scope   for   the   argument   that   Islamic   laws are   to   be   enforced   in   the   teritory   by   virtue   of   article   2   itself.  
آرٹیکل 2… الف: جس کا متن ہے:
ضمیمہ میں منقول قرار داد مقاصد میں مندرج اصول و احکام کو آئین کا مستقل حصہ قرار دیا جاتا ہے جو حرف بہ حرف اور من و عن مؤثر ہونگے۔
قرار داد مقاصد کو آئین کا مستقل حصہ بنانے کا سہرا صدر ضیاء الحق مرحوم کو جاتا ہے ،جنہوں نے 2مارچ، 1985ء کو آئین کا مستقل حصہ کے طور پر اندراج کروایا۔
قرار داد مقاصد کو آئین کا مستقل حصہ بنانے کا پس منظر یہ ہے کہ جب 1947ء کو تقسیم ہند کے نتیجے میں پاکستان کو اپنا مستقل آئین بنانے کا اختیار ملا تو قوم کے نمائندوں کے ذریعہ ’’قرار داد مقاصد‘‘ کے نام سے نئے تشکیل پانے والے آئین کے خدو خال اور مبادی کے تعین کے لئے ایک متفقہ قرار داد پاس کی گئی، لیکن بدقسمتی سے آئین سازی کا کام کھٹائی میں پڑنے کے سبب قرار داد مقاصد اپنی حیثیت نہیں منواسکی، جس کے سبب اگلے وقتوں میں قرار داد مقاصد کو آئین میں جگہ ضرور دی گئی لیکن محض رسمی اور تمہیدی جیسا کہ کتابوں کے شروع میں تمہید یا برکت کے لئے مصنف خطبہ میں پیش لفظ لکھتا ہے ظاہر ہے یہ کسی معنی میں بھی اصل کتاب نہیں سمجھا جاتا ہے، لیکن اب یہ قرار داد مقاصد آئین کا مستقل حصہ ہے اور اسے ہر حال میں اس کی اصل حیثیت میں رہنا چاہئے۔
آرٹیکل 37,31 (ز ، ج) 38 (و):40
آرٹیکل31، اسلامی طرز زندگی:
1… پاکستان کے مسلمانوں کو انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی زندگی اسلام کے بنیادی اصولوں اور اساسی تصورات کے مطابق مرتب کرنے کے قابل بنانے کے لئے اور انہیں ایسی سہولتیں مہیا کرنے کے لئے اقدامات کئے جائیں گے جن کی مدد سے وہ قرآن پاک اور سنت کے مطابق زندگی کا مطلب ذہن نشین کرسکیں۔
2… پاکستان کے مسلمانوں کے بارے میں مملکت مندرجہ ذیل امور کے لئے کوشش کرے گی۔
(الف) قرآن پاک اور اسلامیات کی تعلیم کو لازمی قرار دینا، عربی زبان سیکھنے کی حوصلہ افزائی کرنا اور اس کے لئے سہولت بہم پہنچانا اور قرآن پاک کی صحیح اور من و عن طباعت اور اشاعت کا اہتمام کرنا۔
(ب) اتحاد اور اسلامی اخلاقی معیار اور ترقی کی پابندی کو فروغ دینا اور
(ج) زکوٰۃ (عشر) اوقاف اور مساجد کی باقاعدہ تنظیم کا اہتمام کرنا۔
آرٹیکل 37، (ز، ج)
(ز) عصمت فروشی، قمار بازی، ضرر رساں ادویات کے استعمال، فحش اور مخرب الاخلاق اشتہارات کی طباعت، نشرو اشاعت اور نمائش کی روک تھام کرے گی۔
(ج) نشہ آور مشروبات کے استعمال کے سوائے اس کے کہ وہ طبی اغراض کے لئے یا غیر مسلموں کی صورت میں، مذہبی اغراض کے لئے ہو روک تھام کرے گی۔
آرٹیکل 38، (و)
(و) سود کو جتنا جلد ممکن ہو ختم کرے گی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ درج بالا دفعات اسلام کے مطابق بھی ہیں اور خوش آئند بھی لیکن …آرٹیکل 30 کے سبب ناقابل عمل ہیں آرٹیکل 30 درج ذیل ہے:
آرٹیکل 30… حکمت عملی کے اصولوں کی نسبت ذمہ داری :
1… یہ فیصلہ کرنے کی ذمہ داری کہ آیا مملکت کے کسی شعبے یا ہیئت مجاز کا یا مملکت کے کسی شعبے یاہیئت مجاز کی طرف سے کام کرنے والے کسی شخص کا کوئی فعل حکمت عملی کے اصولوں کے مطابق ہے؟ مملکت کے متعلقہ شعبہ یاہیئت مجاز کی یا متعلقہ شخص کی ہے۔
2…کسی فعل یا کسی قانون کے جواز پر اس وجہ سے اعتراض نہیں کیا جائے گا کہ وہ حکمت عملی کے اصولوں کے مطابق نہیں ہے اور نہ اس بناء پر مملکت کے کسی شعبہ یاہیئت مجاز یا کسی شخص کے خلاف کوئی قانونی کاروائی قابل سماعت ہوگی۔
(وضاحت: اس سے ریاست کے کسی شعبہ یا حاکم یا اس کی جانب سے مقرر کردہ کسی شخص کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کا پتہ لگائے کہ ان کی ماتحتی میں کوئی شخص حکمت عملی کے اصولوں کے مطابق کام کررہا ہے یا نہیں۔ کسی قانون کے تحت کئے جانے والے کسی اقدام کی ضابطگی کو اس بنیاد پر عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکے گا کہ وہ حکمت عملی کے اصولوں کے مطابق نہیں ہے۔)
اس لئے سفارش کی جاتی ہے کہ درج بالا دفعات کی نافعیت وا فادیت تب ظاہر ہوسکتی ہے جبکہ حصہ دوئم کے باب اول… بنیادی حقوق… کی طرف باب دوئم… حکمت عملی کے اصولوں… کو بھی عدالتی دائرہ کار میں شامل کیا جائے اور جیسا کہ بنیادی حقوق کے باب کو آرٹیکل 8 کی ذیلی دفعہ نمبر1 اور نمبر2 تحفظ فراہم کرتی ہیں اسی طرح آرٹیکل 8 کی دونوں ذیلی دفعات کو آرٹیکل 30 کے تحت کرکے باب دوئم کو تحفظ فراہم کیا جائے اور موجود آرٹیکل 30 کو حذف کرکے اس کو اس طرح لکھا جانا چاہئے۔
1… مملکت کے کسی شعبہ ہیئت مجاز یا مملکت کی طرف سے کام کرنے والے کسی شخص کا کوئی فعل، اقدام یا کارکردگی حکمت عملی کے اصولوں کے منافی ہونے کی صورت میں وہ اس حد تک کالعدم ہوگا جس حد تک وہ حکمت عملی کے اصولوں کے نقیض ہو۔
2… مملکت کوئی ایسا اقدام، فعل یا کارروائی نہیں کرسکتی ہے جو حکمت عملی کے اصولوں کے خلاف ہو۔ ہر وہ اقدام یا فعل جو شق نمبر2 کی خلاف ورزی میں کیا جائے، عدالت میں اس کو چیلنج کیا جاسکے گا اور مملکت کا وہ حکم یا فعل اس حد تک کالعدم ہوگا جس حد تک وہ حکمت عملی کے اصولوں کے خلاف ہو۔
متبادل تجویز…
اگر درج بالا عبارت کے درج میں مشکلات پیدا ہوں، اور یہ موجودہ حالات سے بھی ظاہر ہے، تو آرٹیکل 30 کے حذف پر زور دیا جائے، حذف سے درج بالا دفعات کا قانونی، عدالتی اور آئینی تحفظ خود بخود نکھر جائے گا۔ ہمارے خیال میں درج کے مقابلہ میں حذف زیادہ مؤثر اور سہل ذریعہ ہے۔
آرٹیکل 203…
آرٹیکل 203 (ج)
’’قانون‘‘ میں کوئی رسم یا رواج شامل ہے جو قانون کا اثر رکھتا ہو۔ مگر اس میں دستور، مسلم شخصی قانون، کسی عدالت یا ٹریبونل کے ضابطہ کار سے متعلق کوئی قانون یا اس باب کے آغاز نفاذ سے دس سال کی مدت گزرنے تک کوئی مالی قانون محصولات یا فیسوں کے عائد کرنے اور جمع کرنے یا بنکاری یا بیمہ کے عمل اور طریقہ سے متعلق کوئی قانون شامل نہیں ہے۔
آرٹیکل 203 (ب) کے جدول… ج… میں ’’قانون کے احاطۂ کار کو انتہائی محدود کیا گیا ہے۔ آئین، عائلی قوانین، کریمینل پروسیجر کوڈ… عدالت کا ضابطۂ کار… سودی بینکاری، انشورنس، ٹیکسز اور ظالمانہ محصولات کو قانون کے احاطۂ کار سے خارج کئے گئے ہیں۔ جب آئین میں قرار دیا گیا، کہ تمام مخالف اسلام قوانین کی جگہ متبادل اسلامی قوانین لے لیں گے تو پھر ضرورت ہے کہ قانون کے دائرہ کار میں وسعت لائی جائے۔
اس لئے… دفعہ 203… ب کے جزو… ج … کو اس طرح ہونا چاہئے۔
ج… ’’قانون‘‘ میں کوئی رسم یا رواج، حکم یا فیصلہ شامل ہے جو قانون کا اثر رکھتا ہو بشمول مسلم شخصی قوانین، کسی عدالت یا ٹریبونل کے ضابطہ کار سے متعلق کوئی قانون، آئین کی کوئی دفعہ یا شق۔
آرٹیکل 203 (ج)
وفاقی شرعی عدالت میں ماہرین فقہ کی بجائے فرنگی ذہن کے اور عصری قوانین کے ماہرین کو زیادہ سے زیادہ نمائندگی دی گئی ہے، بلکہ اسلامی قانون کے ماہرین کی کھپت کو بڑی چالاکی سے صفر کردی گئی ہے یہی وجہ ہے کہ شریعت کورٹ اور شریعت اپیلیٹ بنچ میں قیام سے لیکر تاحال دو علماء کرام کی شمولیت ممکن ہوسکی ہے اس لئے اسلامی قوانین کی عملی حاکمیت کے اظہار کے لئے آرٹیکل 203 (ج) کی ذیلی دفعہ …3… میں درج ذیل اضافہ ہونا چاہئے:
چیف جسٹس ایسا شخص ہوگا جو عدالت عظمیٰ کا جج ہو یا رہ چکا ہو، یا بننے کا اہل ہو یا جو کسی عدالت عالیہ کا مستقل جج رہ چکا ہو یا، کسی مستند دینی ادارہ کا سند یافتہ عالم ہو اور کم از کم پندرہ سال کی مدت سے اسلامی تحقیق یا تدریس کے کام وابستہ رہا ہو۔
(سابق دفعہ 203ج …3… چیف جسٹس ایسا شخص ہوگا جو عدالت عظمیٰ کا جج ہو یا رہ چکا ہو یا بننے کا اہل ہو یا جو کسی عدالت عالیہ کا مستقل جج رہ چکا ہو۔)
آرٹیکل 203 ج کی ذیلی دفعہ 3 کے جدول … الف… میں زیادہ سے زیادہ تین جج علماء کرام کی جگہ کم از کم تین جج علماء کرام کی عبارت ہونی چاہئے… یعنی…
(الف) ججوں میں زیادہ سے زیادہ چار ایسے اشخاص ہوں گے جن میں سے ہر ایک کسی عدالت عالیہ کا جج ہو یا رہ چکا ہو یا بننے کا اہل ہو اور کم سے کم تین جج علماء کرام ہوں گے جو کسی مستند دینی ادارہ یا مدرسہ میں دینی ادارہ کے سند یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ کم از کم پندرہ سال کی مدت سے اسلامی تحقیق یا تدریس کے کام سے وابستہ رہے ہوں۔
آرٹیکل 203 (ج) کی ذیلی دفعہ 4 (ب)…
4… (ب) صدر کسی بھی وقت تحریری حکم کے ذریعہ:
(لف) کسی جج کے تقرر کی شرائط تبدیل کرسکے گا۔
(ب) کسی جج کو کوئی اور عہدہ تفویض کرسکے گا اور
(ج) کسی جج کو ایسے دیگر کارہائے (امور) منصبی انجام دینے کا حکم دے سکے گا جو وہ مناسب سمجھے۔
درج بالا… آرٹیکل 203 (ج) کی ذیلی دفعہ 4 (ب) کو اپنی تمام مشمولات کے ساتھ حذف کیا جائے۔
آرٹیکل 203 (د) ک ذیلی دفعہ …2… کے جدول … ب… میں… تو اس اپیل کے فیصلہ سے پہلے مؤثر نہیں ہوگا… کے بعد درج ذیل اضافہ کیا جانا چاہئے… مگر اپیل کی میعاد (6ماہ) کے اندر سماعت نہ ہونے کی صورت میں مذکورہ فیصلہ عدالت عظمیٰ کا فیصلہ کہلایا جائے گا… جدول (ب) کی مجوزہ عبارت درج ذیل ہے:
(ب) وہ حد جس تک وہ قانون یا حکم بہ ایں طور منافی ہے اور اس تاریخ کی صراحت کرے گی جس پر وہ فیصلہ مؤثر ہو۔ مگر شرط یہ ہے کہ ایسا کوئی فیصلہ اس میعاد کے گزرنے سے پہلے جس کے اندر عدالت عظمی میں اس کے خلاف اپیل داخل ہوسکتی ہو یا جبکہ اپیل بہ ایں طور پر داخل کردی گئی ہو تو اس اپیل کے فیلہ سے پہلے مؤثر نہیں ہوگا۔ مگر شرط یہ ہے کہ اپیل کی معیاد (6 ماہ) گزرنے کے بعد شریعت کورٹ کا فیصلہ خود بخود قابل اطلاق ہوجائے گا۔
آرٹیکل 203 (ھ) عدالت عظمیٰ میں شریعت کورٹ کے فیصلہ کے خلاف اپیل سے متعلق ہے:
دفعہ بالا کی ذیلی دفعہ 1 میں وفاق یا کسی صوبہ کو شریعت کورٹ کے فیصلہ کے خلاف عدالت عظمیٰ میں اپیل کی میعاد چھ ماہ قرار دی گئی ہے۔ اور اس میعاد کے اندر اپیل نہ آنے کے باوجود بھی شریعت کورٹ کا فیصلہ قابل اطلاق نہ ہ وگا۔ (یعنی اپیل بمعنی دائمی التواء اور اسٹے ہو جانا) اس لئے قرین انصاف یہ ہے کہ اس عرصہ کو زیادہ سے زیادہ تین ماہ پر لایا جائے، اور عدالت عظمیٰ کی سماعت کی انتہائی میعاد چھ ماہ قرار دی جائے، تاکہ بیسیوں زیر التواء شرعی فیصلوں کی قسمت کا فیصلہ ممکن ہوسکے۔
ذیلی دفعہ… 1… کی عبارت اس طرح سے ہونی چاہئے:
1… اس آرٹیکل F-203 کے تحت عدالت کے سامنے کسی کارروائی کا کوئی فریق جو مذکورہ کارروائی میں عدالت کے قطعی فیصلہ سے مجروح ہو مذکورہ فیلصہ سے ساٹھ یوم کے اندر عدالت عظمی میں اپیل داخل کرسکتا ہے۔ مگر شرط یہ ہے کہ وفاق یا کسی صوبہ کی طرف سے اپیل مذکورہ فیلصہ سے 3 ماہ کے اندر داخل کی جاسکے گی۔
اسی دفعہ کی ذیلی دفعہ2… کی عبارت کا متن اس طرح سے ہونا چاہئے۔
2… وفاقی شرعی عدالت کے کسی فیصلہ، حکم قطعی یا سزا کے خلاف کوئی اپیل عدالت عظمی میں قابل سماعت ہوگی۔
مگر شرط یہ ہے کہ عدالت عظمی کی سماعت کی میعاد چھ ماہ ہوگی، سماعت نہ ہونے کی صورت میں مذکورہ فیصلہ عدالت عظمی کا فیصلہ کہلایا جائے گا۔
اسی دفعہ کی ذیلی دفعہ 3… کے جزو… ب… میں زیادہ سے زیادہ دو علماء کی بجائے… کم از کم دو علماء… کی عبارت ہونی چاہئے۔ اور عبارت… اجلاس میں شرکت کے لئے بطور ارکان بغرض خاص مقرر کرے گا… کو حذف کیا جانا چاہئے۔
اس دفعہ کی ذیلی دفعہ 3 کے جزو… الف اور جزو …ب… کی عبارت اس طرح سے ہونی چاہئے۔
(الف) عدالت عظمی کے تین مسلمان جج۔
(ب) کم از کم دو علماء جو کسی مستند دینی ادارہ میں کم از کم پندرہ سال کی مدت سے اسلامی تحقیق یا تدریس سے وابستہ رہے ہوں۔
آرٹیکل228 کی ذیلی دفعہ 3 کے جدول (ج) میں ترمیم کرکے اس کو درج ذیل طریقہ سے لکھا جائے۔
کم از کم چار ارکان ایسے ہوں جن میں سے ہر ایک کسی مستند دینی ادارہ یا مدرسہ میں کم از کم پندرہ سال کی مدت سے اسلامی تحقیق یا تدریس کے کام سے وابستہ چلا آرہا ہو۔
اسی دفعہ کی ذیلی دفعہ 3 کے جزو…ب… میں ترمیم کرکے… کم از کم کی جگہ… زیادہ سے زیادہ تحریر کادیا جائے جس کی عبارت اس طرح سے ہونی چاہئے۔
(ب)… زیادہ سے زیادہ دو ارکان ایسے اشخاص ہوں جن میں سے ہر ایک عدالت عظمیٰ یا کسی عدالت عالیہ کا جج ہو یا رہا ہو۔

Please follow and like us:

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا. ضرورت کے کھیتوں ک* نشان لگا دیا گیا ہے