اسلامی فوجی اتحاد وقت کی ضرورت

سعودی عرب کی زیر قیادت اسلامی فوجی اتحاد میں شامل ممالک کی تعداد 39تک جا پہنچی ہے اور اس اتحاد کے سپہ سالار کی حیثیت سے پاک فوج کے ریٹائرڈ جنرل راحیل شریف کا نام بھی تصدیق ہوچکا ہے اسلامی فوجی اتحاد کا ہیڈ کوارٹر ریاض ہوگا جبکہ بعض حلقوں کی جانب سے اتحاد سے متعلق شکوک وشبہات اور تحفظات بھی سامنے آرہے ہیں۔ 15دسمبر 2015ء کو جب اس اسلامی فوجی اتحاد سے متعلق خبر سامنے آئی تو اس میں 34ملک شامل تھے جن میں سعودی عرب کے علاوہ پاکستان‘ متحدہ عرب امارات‘ بحرین‘ بنگلہ دیش‘ ترکی‘ چاڈ‘ تیونس‘ ٹوگو‘ بینن‘ سوڈان‘ صومالیہ‘ سینگال‘ قطر‘ فلسطین‘ گینی‘ گبون‘ مراکش‘ مصر‘ مالی‘ مالدیپ‘ لیبیا‘ موریتانیہ‘ نائیجیر‘ نائیجیریا‘ یمن‘ کویت‘ کمروز‘ جبوتی‘ لبنان‘ سپر الیون اور اردن حصے دار ٹھہرے تاہم آہستہ آہستہ ارکان کی تعداد میں اضافہ ہوا جس سے ثابت ہوتا ہے تمام اسلامی ممالک دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف ایک صفحے پر ہیں۔
ایران کا نام شامل نہ ہونے پر بالخصوص پاکستان میں سخت ردعمل سامنے آیا ہے جبکہ خود ایران بھی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے اس اتحاد کو اپنے خلاف سنی محاذ قائم ہونے کا تاثر دے رہا ہے۔ اس میں کوئی شک شبہ نہیں کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان بعض امور پر اختلافات پائے جاتے ہیں ‘باوجود ان اختلافات کے اگر ایران کو بھی اتحاد میں شامل ہونے کی دعوت دے دی جائے تو یہ ایک مثبت قدم ہوگا اور معاملات تیزی سے بہتری کی طرف جانے کی امید ہوجائے گی۔
تاہم سعودی عرب نے اتحاد کے مقاصد واضح کرتے ہوئے واشگاف الفاظ میں کہا کہ یہ فوجی اتحاد کسی اسلامی یا غیر اسلامی ممالک کے خلاف نہیں بلکہ اس کا مقصد تمام اسلامی ممالک کو درپیش دہشت گردی کے خطرات سے نمٹنا ہے۔ اتحاد کا اعلان ہوتے ہی اگلے روز سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر پیرس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اس فوجی اتحاد کے تحت خفیہ معلومات کا تبادلہ کیا جائے گا اور اگر ضرورت ہوئی تو فوجی دستے بھی تعینات کئے جائیں گے۔ سعودی وزیر خارجہ نے داعش سمیت ہر قسم کی تشدد پسند تنظیموں کے قلع قمع کا عزم کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ اس سلسلے میں کوئی حدود وقیود نہیں دہشت گردوں کا ہر جگہ پیچھا کیا جائے گا۔ وزیر دفاع شہزادہ محمد بن سلمان کا کہنا ہے کہ اتحاد کے ذریعے عراق‘ شام‘ لیبیا‘ مصر اور افغانستان جیسے ممالک میں شدت پسندی سے نمٹنے کے لئے کی جانے والی کوششوں کو مربوط کیا جائے گا۔
ایک سال بعد پاکستان کی جانب سے اسلامی فوجی اتحاد میں شمولیت کی تصدیق کے ساتھ ساتھ جنرل (ر) راحیل شریف کے بطور سپہ سالار کی بھی تصدیق کی گئی ۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے نجی ٹی وی سے گفتگو میں بتایا کہ حکومت پاکستان نے سعودی عرب کی جانب سے درخواست کی منظوری دے دی ہے اور اب اس اتحاد کی کمانڈ جنرل (ر) راحیل شریف سنبھالیں گے۔ انہوں نے معاہدے کی معلومات سے اظہار لاعلمی کیا جبکہ مختلف حلقوں کی جانب سے تحفظات سامنے آنے پر پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے واضح کرتے ہوئے کہا کہ راحیل شریف کی سپہ سالاری میں اسلامی اتحاد کسی بھی اسلامی ملک کے خلاف نہیں بلکہ اس کا مقصد بلا تفریق مذہب‘ مسلک اور فرقہ دہشت گردی کا خاتمہ ہے تاہم اگر کسی موقع پر کوئی ایسی چیز سامنے آئی جس سے لگا کہ اتحاد کسی اسلامی ملک کے خلاف ہے تو راحیل شریف واپس آجائیں گے۔ وفاقی حکومت کی جانب سے بھی یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ ایران کے ساتھ خطے میںپاکستان کے تعلقات اور مفادات اپنی نوعیت کے لحاظ سے انتہائی نازک ہیں اور کسی بھی سطح پر اس اتحاد کو ایران کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا۔
سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات بہت پرانے ہیں اور مشکل کی ہر گھڑی میں سعودی عرب نے پاکستان کا ساتھ دیا ہے بلاشبہ دونوں ممالک کے برادرانہ اور دوستانہ تعلقات اپنی مثال آپ ہیں اور دونوں میں سے کوئی بھی ملک کسی برادر اسلامی ملک کے خلاف جارحیت کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ ایران کو اتحاد میں شامل نہ کیے جانے کی بنیادی وجہ ایران اور سعودیہ میں اختلافات ہیں۔ اب جبکہ سعودی عرب اور حکومت پاکستان سمیت افواج پاکستان کی جانب سے بھی یہ یقین دہانیاں سامنے آچکی ہیں کہ اسلامی فوجی اتحاد کسی اسلامی ملک کے خلاف نہیں تو اس پر تحفظات ختم کرکے آگے بڑھنا ہی وقت کی ضرورت ہے۔
اسلامی ممالک میں نیٹو طرز کے اتحاد کی ضرورت تو کئی دہائیوں سے محسوس کی جارہی تھی مگر کوئی بھی ملک آگے بڑھ کر قیادت کے لئے حامی نہیں بھر رہا تھا۔جناب ذوالفقار علی بھٹو نے لاہور میں اسلامی ممالک کی عالمی کانفرنس کا انعقاد کرکے ایک اتحاد ہی کی بنیاد رکھی تھی وہ بھی چاہتے تھے کہ تمام اسلامی ممالک کا ایک بلاک ہو مگر ان کی زندگی میں ایسا نہ ہوسکا۔ آج دنیا 1971ء سے یکسر مختلف ہے۔ 9/11کے بعد حالات نے جس تیزی سے پلٹا کھایا ہے اس نے نہ صرف پاکستان مغرب ویورپ اور عرب ممالک کو ہلاکر رکھ دیا ہے بلکہ اب تو دہشت گرد مسلمانوں کے مقدس مقامات مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ تک جا پہنچے ہیں ۔ ادھر پاکستان میں دھماکوں کا یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے جبکہ مغرب اور یورپ میں بم دھماکوں کے ساتھ ساتھ ٹرک کے ذریعے دہشت گردی کے واقعات بھی رونما ہوچکے ہیں۔ یعنی دنیا کا کوئی کونا ایسا کوئی نہیں جہاں اس وقت خون انسانی نہ بہ رہا ہو۔ پہلی اور دوسریی جنگ عظیم کے بعد مغرب اور یورپ نے حالات کا ادراک کرتے ہوئے جس طرح شمالی اوقیانوسی اتحاد یا مغربی اتحاد کی بنیاد رکھی اسی طرح آج اسلامی ممالک میں بھی اس اتحاد کا ہونا انتہائی ضروری ہے۔ دونوں عالمی جنگوں نے جس طرح مغرب ویورپ کو نقصان پہنچایا اور انہیں تقسیم کیا اسی طرح آج کے دور میں ہونے والی دہشت گردی اسلامی ممالک کے اتحاد کو بھی پارا پارا کررہی ہے جس کی ایک واضح مثال پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کی سرد مہری ہے۔ خطے کے ان دو ملکوں کے درمیان برادراننہ اور دوستانہ تعلقات اپنی مثال آپ تھے۔
سوویت یونین کو مار بھگانا اور لاکھوں افغانوں کو پناہ دینا اتنا آسان نہیں جتنی آسانی کے ساتھ آج دہشت گرد پاکستان کے خلاف افغان سرزمین استعمال کررہے ہیں۔ ادھر یمن جنگ کے بعد سعودی سرحدیں انتہائی غیر محفوظ ہونے سے ملک کے اندر دہشت گردی کے واقعات نے پوری اسلامی دنیا کو تذبذب کا شکار کردیا ہے۔ پاکستان بارہا اس امر کا اظہار کرچکا ہے کہ دہشت گردی کا خاتمہ کسی ایک ملک کے بس کی بات نہیں اس کو جڑ سے اکھاڑنے کے لئے اس کی بنیادیں ختم کرنا ہوں گی اور اس کے لئے اتحاد ضروری ہے۔
آج اسلامی فوجی اتحاد کا قیام عمل میں آیا چاہتا ہے ایسے میں تمام اسلامی ممالک کی حکومتوں اور عوام کو آگے بڑھ کر اس اتحاد کو کامیاب بنانے کے لئے کردار ادا کرنا چاہیے۔ امریکا سمیت کئی ممالک نے اسلامی اتحاد کے قیام کا خیر مقدم کیا ہے تو پھر اسلامی ممالک کے حکمرانوں اور عوام کو فروعی اختلافات سے بالاتر ہوکر امن وامان کے قیام کے لئے کام کرنا ہوگا۔ آج دنیا کے ہر کونے میں مسلمان عتاب کا شکار ہیں ۔ مقبوضہ کشمیر‘ فلسطین‘ عراق‘ افغانستان‘ شام سمیت دیگر ممالک میں نہتے مسلمان مررہے ہیں۔ املاک تباہ ہورہی ہیں۔ نسلیں مٹائی جارہی ہیں۔ اندرونی خلفشار خانہ جنگی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ بھارت میں مسلمانوں پر مذہبی پابندیاں لگائی جارہی ہیں۔ کشمیر میں مسلمانوں کو انڈین فوج بے دردی سے شہید کررہی ہے۔ فلسطین میں اسرائیل نے نہتے مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کررکھا ہے۔ آخر کب تک ہم 58اسلامی ممالک کے ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمان شتر مرغ کی طرح سر ریت میں چھپائے بیٹھے رہیں گے۔ اس وقت بھی ہم نے اتحاد کا مظاہرہ نہ کیا تو کب کریں گے۔
موجودہ حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے اتحاد کی اشد ضرورت ہے اور اب تک سامنے آنے والے خدوخال اور بیانات ویقین دہانیوں کے بعد اسلامی فوجی اتحاد کے قیام کی راہ میں کوئی بھی رکاوٹ کھڑا کرنا ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے خلاف بدترین سازش ہوگی۔
دنیا جانتی ہے کہ 9/11کے بعد جس انداز میں پاکستان دہشت گردی کا شکار ہوا اور پوری دنیا کو محفوظ بنانے کے لئے جس طرح پاکستان نے قربانیاں دیں وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ آج الحمدللہ پاکستان گزشتہ دہائی کی نسبت مستحکم اور مضبوط ہے تو اس کا سہرا حکومت کے ساتھ ساتھ ہماری بہادر افواج کو بھی جاتا ہے جس نے اپنی آنے والی نسلوں کو محفوظ بنانے کے لئے اپنی جانیں قربان کردیں۔ جنرل (ر) راحیل شریف نے بطور سپہ سالار جس طرح پاکستان کے اندر پہاڑوں اور جنگلوں کے ساتھ ساتھ شہروں میں بھی دہشت گردوں کا تعاقب کیا اور ان کو بلوں سے نکال کر مار بھگایا یہ ان کی بہادری اور قائدانہ صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
تمام اسلامی ممالک کو یقین ہے کہ جنرل راحیل کی قیادت میں اسلامی فوجی اتحاد انتہائی مضبوطی کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کرے گا اور دہشت گردوں کے خاتمے میں کلیدی کردار ادا کرے گا۔ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان ممالک کے درمیان قائم ہونے والا یہ اتحاد صرف فوجی اتحاد تک محدود نہ ہو بلکہ مشترکہ کئی ادارے قائم کئے جائیں تاکہ دہشت گردی کے ساتھ ساتھ مسلم اقوام کو شدت پسندی اور انتہا پسندی سے بھی نجات دلائی جاسکے۔

راحیل شریف کی عملی زندگی پرایک طاہرانہ نظر
٭جنرل راحیل شریف نے 28 نومبر 2013ء کو پاکستان کے 15ویں سپہ سالار کا منصب سنبھالا، انہیں 20 دسمبر 2013 ء کو نشان امتیاز سے بھی نوازا گیا تھا۔جب 2013ء میں جنرل اشفاق پرویز کیانی نے آرمی چیف کا منصب راحیل شریف کے سپرد کیا تو وہ اس دوڑ کے پسندیدہ امیدوار نہیں تھے۔
٭اپنے آگے آنے والی ہر مشکل کو پار کرتے ہوئے وہ آرمی چیف تو بن گئے تاہم اس کے بعد بھی ان کے ناقدین ان پر شک کرتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ انہیں انٹیلی جنس اور کارروائیوں کے پس منظر کا کچھ خاص علم نہیں۔تاہم راحیل شریف نے اپنے ناقدین کو غلط ثابت کیا، ان کے دور کا سب سے اہم کارنامہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے خلاف شمالی وزیرستان میں آپریشن ضرب عضب تھا، جس کا آغاز 2014ء جون میں کیا گیا۔
٭راحیل شریف نے ملک اور خاص طور پر کراچی میں سکیورٹی کو بہتر بنایا ۔
٭2015 ء میں جنرل راحیل شریف کی مقبولیت میں اضافہ ہوا اور انہیں ملک بھر میں پہچانا گیا۔
٭راحیل شریف کو عوام کی جانب سے بے پناہ مقبولیت اور پذیرائی ملی، پاکستان کا ہر شخص ’’شکریہ راحیل شریف‘‘ سے بخوبی واقف ہے۔
٭جنرل راحیل شریف میجر شبیر بھٹی شریف کے چھوٹے بھائی ہیں جو 1971ء کی پاک بھارت جنگ میں شہید ہوئے اور انہیں نشان حیدر ملا۔
٭راحیل شریف، میجر شبیر شریف سے 13 سال چھوٹے ہیں، جنہوں نے اپنی ابتدائی زندگی کا زیادہ تر وقت بھائی کی تعلیم کے سائے میں گزارا۔
٭راحیل شریف نے دو انفینٹری بریگیڈز کی کمانڈ کی جن میں کشمیر میں 6 فرنٹیئر فورس رجمنٹ اور سیالکوٹ بارڈر پر 26 فرنٹیئر فورس رجمنٹ شامل ہیں۔
٭راحیل شریف 16 جون 1956 ء کو محمد شریف کے گھر پیدا ہوئے۔
٭راحیل شریف کا نک نیم (پیار سے بلایا جانے والا نام) بوبی ہے ۔
٭راحیل شریف ملٹری اکیڈمی کے 54ویں لانگ کورس کے فارغ التحصیل ہیں ۔
٭1976 ء میں گریجویشن کے بعد، جنرل راحیل شریف نے فرنٹیئر فورس رجمنٹ، کی 6th بٹالین میں کمیشن حاصل کیا۔
٭شمالی وزیرستان میں آپریشن ضرب عضب کا آغاز جنرل راحیل شریف نے کیا۔
٭جنرل راحیل شریف 29نومبر 2016ء کو ریٹائرڈ ہوئے۔
٭وزیراعظم ہاؤس میں آرمی چیف راحیل شریف کے اعزاز میں الوداعی عشائیے کی تقریب منعقد کی گئی۔
آرمی چیف راحیل شریف کی وزیر اعظم نواز شریف، ایئر چیف اور نیول چیف کے ہمراہ تصویر

Please follow and like us:

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا. ضرورت کے کھیتوں ک* نشان لگا دیا گیا ہے