روزہ کے اجروثواب…بے حد وبے حساب
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ابن آدم کے ہر نیک عمل کا اجروثواب دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک بڑھادیا جاتا ہے‘ لیکن اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’روزہ اس سے مستثنیٰ ہے‘ اس لئے کہ وہ خاص میرے لئے ہے اور میں خود (اپنے شایان شان) اس کا بدلہ دوں گا کہ روزہ دار میری ہی خاطر نفسانی خواہشات اور کھانے پینے کو قربان کرتا ہے۔ روزہ دار کیلئے دو فرحتیں ہیں‘ ایک فرحت افطار کے وقت ملتی ہے اور دوسری فرحت اپنے رب سے ملاقات کے وقت نصیب ہوگی اور روزہ دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے زیادہ پاکیزہ اور پسندیدہ ہے۔‘‘
روزہ گناہوں کی معافی کا ذریعہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص نے حالت ایمان میں ثواب کی نیت سے رمضان کا روزہ رکھا‘ اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کردیئے جائیں گے۔ (بخاری)مسند احمد کی روایت میں یہ بھی ہے کہ اگلے گناہ بھی معاف کردیئے جائیں گے۔
رمضان میں شیاطین قید ہوجاتے ہیں:
ماہ رمضان شروع ہوتے ہی جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں‘ جہنم کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں اور شیاطین جکڑ دیئے جاتے ہیں۔
روزہ دار کیلئے جنت کا مخصوص دروازہ:
جنت میں ایک دروازہ ہے جسے ’’باب الریان‘‘ کہا جاتا ہے‘ روزہ داروں کو اس طرف بلایا جائے گا (کہ اس دروازہ سے جنت میں داخل ہوں) چنانچہ تمام روزہ دار اس سے داخل ہوں گے اور جو اس سے داخل ہوگیا‘ اسے کبھی پیاس نہ لگے گی۔
روزہ توڑنے پر وعید:
جو شخص (قصداً) بلا کسی شرعی عذر کے ایک دن بھی رمضان کا روزہ توڑ دے‘ غیر رمضان میں چاہے عمر بھر روزے رکھے اس کا بدل نہیں ہوسکتے۔
یہ فضائل کیسے حاصل ہوں گے:
٭ روزہ کے جتنے فضائل وارد ہوئے ہیں‘ ان کے حصول کی لازمی شرط یہ ہے کہ روزہ ہر قسم کے منکرات ومعاصی اور بدعات سے اجتناب کے ساتھ رکھا جائے‘ زبان‘ کان‘ ہاتھ‘ پائوں‘ آنکھ‘ ناک اور قلب ودماغ اطاعت سے معمور اور معصیت سے مجتنب ہوں۔ کسب معاش‘ معاملات‘ معاشرت غرض حقوق اللہ وحقوق العباد کے ہر شعبے میں اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی سے بچنے بچانے کی کوشش ہو۔
روزہ وہ عظیم الشان عبادت ہے کہ قرآن کریم نے اسے تقویٰ یعنی ترک معاصی کا نسخہ قرار دیا ہے‘ مگر کتنے مسلمان ہیں جو پچاس پچاس‘ ساٹھ ساٹھ سال سے رمضان کے روزے رکھ رہے ہیں۔لیکن ان کی زندگی میں کوئی نمایاں تبدیلی نظر نہیں آتی‘ جو گناہ ان کی زندگی میں تھے‘ وہ سالوں روزے رکھنے کے باوجود جوں کے توں ہیں‘ اس کی وجہ سوائے اس کے کچھ نہیں کہ آج کل کے مسلمان روزے سے گناہ چھوڑنے کا قصد ونیت ہی نہیں کرتے اور گناہوں سے اجتناب کے اہتمام کے ساتھ روزہ رکھتے ہی نہیں‘ جو باطنی امراض سے حصول شفاء کیلئے شرط لازم ہے۔ ایسے لوگوں کا روزہ ذمہ سے سقوط فرض کا ذریعہ تو بن جائے گا مگر اس سے کوئی فضیلت اور ثواب حاصل نہیں ہوگا‘ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جو شخص روزہ رکھ کر بھی جھوٹے کردار وگفتار سے باز نہ آیا تو اللہ تعالیٰ کو اس کے بھوکا پیاسا رہنے سے کوئی غرض نہیں۔‘‘ (بخاری)
’’بہت سے روزہ دار ایسے ہیں جن کے روزہ کا صرف بھوکا رہنے کے سوا اور کچھ نہیں اور بہت سے شب بیدار ایسے ہیں جن کیلئے شب بیداری کا بدلہ سوائے جاگنے کے اور کچھ نہیں۔‘‘ (ابن ماجہ)
٭ دور حاضر میں عموماً فضائل کے بیان پر خوب زور دیا جاتا ہے اور فضائل کے حصول کے موانع اور وعیدوں کا ذکر بہت کم ہوتا ہے‘ جس سے عام لوگوں کا نظریہ بن جاتا ہے کہ خوب گناہ کئے جائو‘ روزوں سے‘ لیلۃ القدر سے یا فلاں عمل صالح سے سب اگلے پچھلے گناہ معاف ہوجائیں گے۔ اس بارے میں یہ حقیقت اچھی طرح ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ جن روایات میں رمضان کے روزوں‘ شب قدر کی عبادت یا کسی بھی عمل صالح سے گناہوں کی معافی کا ذکر ہے‘ اس سے مراد صغیرہ گناہوں کی معافی ہے۔ کبیرہ گناہوں سے جب تک صدق دل سے توبہ واستغفار اور آیندہ اجتناب کا عزم مصمم نہ کیا جائے‘ وہ محض کسی عمل صالح سے معاف نہیں ہوتے۔اسی طرح حقوق العباد کا معاملہ ہے کہ جب تک صاحب حق سے معاف نہ کرایا جائے یا اس کا حق ادا نہ کردیا جائے تو علاوہ ازیں معافی کی کوئی صورت نہیں۔
اس بناء پر ہر مسلمان پر لازم ہے کہ ماہ مقدس کے آغاز ہی سے ہر قسم کے گناہوں سے مکمل احتراز کرے اور جن گناہوں کی عادت پختہ ہوگئی ہے‘ ان کو ہمیشہ کیلئے چھوڑنے کی نیت کے استحضار کے ساتھ روزے رکھے‘ اگر اس اہتمام کے ساتھ رمضان کے مبارک مہینے کا مختصر سا وقت گزارا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ نفس کی اصلاح نہ ہو اور دنیا وآخرت کو تباہ کرنے والے مہلک امراض اور معاصی سے نجات نہ ملے۔