مسلمانوں کو ڈرنا نہیں سوچنا چاہیے

گزشتہ دو ڈھائی مہینے سے دنیا پر امریکی انتخابات کا خمار چھایا ہوا تھا جو ڈونالڈ ٹرمپ کی غیر متوقع کامیابی کے ساتھ دنیا کے بعض حصوں سے تو اترگیا البتہ بعض حصوں پر اور بھی گہرا ہوگیا، اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکا واقعی بہت بڑا ملک ہے۔ رقبے کے لحاظ سے، وسائل کے لحاظ سے اور پھر خاص کر عسکری قوت کے لحاظ سے تو اس وقت اس کا کوئی ثانی نہیں…سائنس کے میدان میں گاڑیاں اور گھڑیاں اور بعض دیگر چیزیں بنانے میں ہوسکتا ہے کہ جاپان امریکا کی آشیرواد کے ساتھ کچھ آگے ہو ورنہ دیوہیکل عسکری مصنوعات اور دنیا بھر سے پیسہ کھینچ کر لانے والی اہم اشیاء اور منصوبے امریکا ہی میں بنتے ہیں۔ اس لئے امریکی انتخابات کا اثر کسی نہ کسی طرح پوری دنیا پر مرتب ہوتا ہے۔ 
چین کے ساتھ اس وقت امریکا کا مقابلہ تجارت اور عسکری میدان میں جاری ہے اور ٹرمپ نے انتخابی نعرہ دیا تھا کہ اس وقت امریکا کو چین نے دنیا بھر میں تجارت کے حوالے سے مات دی ہوئی ہے، لہٰذا میں اگر صدر بنا تو چین کا اس لحاظ سے دنیا بھر میں تعاقب کیا جائیگا۔
روس کے ساتھ سرد جنگ کے بعد ایک دفعہ پھر امریکا نیٹو افواج اور یورپی پالیسیوں کے ذریعے دوبارہ سرد جنگ کی طرف جارہا تھا اور کئی ایک محاذوں پر روس نے امریکا کو ٹف ٹائم دیا۔ یوکرائن کا مسئلہ امریکا کا پیدا کردہ تھا اور روس نے بہت سختی کے ساتھ امریکا اور یورپ کو وہاں سے نکالا۔ شام پر روس کا پلڑا اس وقت بھی بھاری ہے۔ ٹرمپ نے امریکا کو ان خواہ مخواہ کی جنگوں سے نکالنے کے لئے روس کو خیر سگالی کا پیغام دیا اور پیوٹن نے خوش آمدید کہا۔ اسی طرح شام اور یمن کے حوالے سے اوباما حکومت سعودی عرب کی مخالفت نہیں کرتی تھی لیکن ٹرمپ نے مشرق وسطیٰ کی پالیسی بدلنے کا واضح عندیہ دیا جس میں سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کے لئے شدید مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں، اسی طرح ایران کا مسئلہ ہے۔ ایران کے ساتھ اوباما حکومت نے اس کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے جو ایگریمنٹ کیا ہے، اس پر بھی ٹرمپ کے بڑے اعتراضات تھے جو ان کی انتخابی مہم کا بڑا حصہ رہے، لہٰذا ایران کے ساتھ امریکا کے تعلقات میں جو سلجھائو آرہا تھا اس میں دوبارہ کچھ بگاڑ آنے کے خدشات پیدا ہوسکتے ہیں۔
ہوسکتا ہے کہ ٹرمپ امریکا کو دنیا میں بالعموم اور مسلمان ممالک میں بالخصوص جاری خانہ جنگیوں اور کشمکش سے نکالنے کے لئے واقعی کوئی اقدام کرلیں لیکن یہ کام بھی اتنا آسان نہیں۔ امریکا کے دفاعی وعسکری ادارے اور بالخصوص پنٹاگون کے اپنے عزائم اور منصوبے ہوتے ہیں جو امریکی مفادات کے تحت چلتے ہیں اور بعض اوقات صدر امریکا کو اپنے انتخابی نعروں اور سلوگنز کو پس پشت ڈالنا پڑتا ہے لیکن خیر ہمارا یعنی پاکستانیوں اور عالم اسلام کا امریکا سے ایک ایسا تعلق بن چکا ہے کہ نہ ہم امریکا کو چھوڑ سکتے ہیں اور نہ اس کا ہمارے بغیر گزارہ ہوسکتا ہے، بھلے ٹرمپ نے الیکشن مہم کے دوران مسلمانوں کے خلاف باتیں کی ہوں لیکن دنیا میں ایک ارب سے زیادہ مسلمانوں اور پھر مشرق وسطیٰ اور بالخصوص جی سی سی ممالک کو تیل کی تجارت اور بعض اسٹریٹجک معاملات کے حوالے سے نظر انداز کرنا ناممکن ہے۔
جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے، یہ مملکت خداداد ہے، اللہ تعالیٰ نے آج تک اس کی حفاظت بھی کی ہے اور بہت ساری مشکلات سے نکالا بھی ہے۔ اب ان شاء اللہ جنوبی ایشیاء میں وطن عزیز کی جو اسٹریٹجک اہمیت ہے وہ مسئلہ افغانستان حل ہونے تک تو برقرار رہے گی۔ اس کے بعد چین کے پہلو میں رہنے کے سبب اور چین کے اسٹریٹجک پارٹنر کی حیثیت سے بعد میں یہی اہمیت قائم رہے گی…اللہ کرے کہ سی پیک پایۂ تکمیل کو پہنچ جائے پھر تو ہمارے بھلے ہی بھلے ہوجائیں گے ، یہ عظیم منصوبہ گیم چینجر ثابت ہوگا اور پاکستان ان شاء اللہ سپر پاور کے کلچر سے نکل جائے گا لیکن اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ ٹرمپ نے یہ کہا یا وہ کہا۔ یا یہ کرے گا اور وہ کرے گا۔ بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ خود مسلمانوں کے درمیان اتحاد واتفاق نہیں ہے۔ عراق، شام، یمن، لیبیا، افغانستان اور بعض دیگر خطوں کے سلگتے مسائل خود ہماری وجہ سے ہیں۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ عالم اسلام میں ایسے حکمران، دانشور اور علماء پیدا ہوجائیں جو امت میں اتحاد پیدا کریں اور مسلمان ممالک کے وسائل کو صحیح طور پر زیر استعمال لاکر خود کفالت کی طرف گامزن ہوجائیں۔ اس سلسلے میں عالم اسلام کے چار ملکوں پر خصوصی ذمے داری عائد ہوتی ہے…پاکستان، ترکی، سعودی عرب اور ایران وسائل ٹیکنالوجی اور افرادی قوت کے لحاظ سے اس مقام پر ہیں کہ اگر ان کے درمیان باہمی افہام وتفہیم پیدا ہوجائے تو امت مسلمہ پر اس کے بہت گہرے اثرات مرتب ہونگے۔
پاکستان کو چاہیے کہ ان تینوں ملکوں کے ساتھ اپنے خصوصی تعلقات کو بروئے کار لاتے ہوئے ایران اور سعودی عرب کے درمیان شام اور یمن کے حوالے سے جو اختلافات ہیں اور اس میں شک نہیں کہ شاید گزشتہ 60,70 برسوں کے دوران ان دو اہم اسلامی ملکوں کے درمیان تعلقات اتنے تلخ کبھی نہیں ہوئے تھے۔ یہی حال ترکی اور ایران کا ہے کہ ایران، بشار الاسد کو سپورٹ کرتا ہے اور ترکی بشار کے مخالفین کے ساتھ کھڑا ہے۔ ان مسائل کو حل نہ کیا گیا اور امت کی سطح کی سوچ وفکر کو پروان نہ چڑھایا گیا تو سپر پاورز کے حکمران عالم اسلام کا استحصال کرتے رہیں گے اور ہم مسلمان ممالک کے عوام، دانشور اور صحافی اسی طرح تجزیے کرتے رہ جائیں گے جس طرح برصغیر پاک وہند پر برطانوی راج کے دوران، برطانیہ کی دو سیاسی جماعتوں لیبر (Labour) اور ٹوری (Touri)کے درمیان انتخابات کے موقع پر کرتے تھے۔ بعض کہتے ہیں مسلمانوں کے لئے لیبر بہتر ہیں اور بعض ٹوریز کو ترجیح دیتے تھے لیکن دونوں پارٹیوں کی حکومتوں کو دیکھ کر آزماکر بلکہ بھگت کر یہ کہنے پر مجبور ہوجاتے کہ یار! یہ انگریز لوگ دراصل اپنے ملک کے مفادات کو سب سے زیادہ ترجیح دیتے ہیں اور اب یہی بات ہے کہ امریکا ہو یا برطانیہ، یورپ ہو یا کوئی اور…پیارے! یہ مفادات اور خود غرضی کی دنیا ہے، دوستی، وفاداری اور رواداری وغیرہ ماضی کی باتیں ہیں۔ لہٰذا اپنے آپ پر اعتماد کرتے ہوئے ڈریں نہیں بلکہ سوچیں …
؎ توقع خیر کی رکھو نہ لیبر سے نہ ٹوری سے
آٹا نکل نہیں سکتا کبھی چونے کی بوری سے

Please follow and like us:

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا. ضرورت کے کھیتوں ک* نشان لگا دیا گیا ہے