زمانے کے بدلے تیور

لوگوں کے تیور تو آپ نے دیکھ لیے ہوں گے جو بدلتے رہتے ہیں جس کا اپنا پس منظر اور ایک گہرا فلسفہ ہے، مگر یہ موضوع اس وقت زیر بحث نہیں ہے ہمارا موضوع زمانے کے بدلتے تیور ہیں۔
انسانی تاریخ کے بھی انسان کی طرح تیور ہمیشہ ایک حال پر نہیں رہتے ایک چیز زمانے کے ایک حصہ میں مقبول ہوتی ہے پھر وہی چیز آگے چل کر مردود ومتروک بن جاتی ہے اس کے برعکس ایک چیز کو کبھی قبولیت عام ملتی ہے مگر وہی چیز کچھ عرصہ بعد لوگوں کی نظروں سے ساقط ہوجاتی ہے اگر ہم ایسی مثالیں تلاش کرنا چاہیں تو شاید ان کی تعداد شمار سے باہر ہو یوں سمجھنا چاہیے جیسے لباس کا فیشن ہے جو کبھی بھی ایک حالت پر مستحکم نہیں رہتا ایک شلوار کی اقسام گننا بھی مشکل ہے۔ 
موجودہ دور میں ڈرامہ بازی نے ایک مستقل پیشہ کی شکل اختیار کرلی ہے اور ایک فن کی حیثیت سے لوگوں میں پروان چڑھ رہی ہے۔ڈرامہ باز ایک طرف اپنے فن کے ذریعہ زرکثیر بھی کماتا ہے اور دوسری جانب وہ لوگوں کی نظروں میں عزت کا مقام بھی حاصل کرلیتا ہے۔چونکہ کسی بھی معاشرہ میں شخصیتوں کی مقبولیت کے پیچھے ان کا کردار چھپا ہوا ہوتا ہے کہ جس سے اہل زمانہ محبت کرتے ہیں اور اسے قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔درحقیقت یہ اس کردار اور فن کی تاثیر ہوتی ہے پس جس معاشرہ میں لوگ کرکٹ سے محبت کرتے ہوں ان کی نظر میں کرکٹر معزز ہوگا اور جو اہل زمانہ علم دوست ہوں گے تو ان کی نظروں میں عالم کی قدر زیادہ ہوگی۔
اب چونکہ دجال کی آمد کا وقت بہت قریب آچکا ہے اور دجال اس دنیا کا سب سے بڑا ڈرامہ باز ہے دوسری طرف یہ اصول ہے کہ جب کوئی بڑا حادثہ پیش آتا ہے تو اس سے پہلے اس کے آثار رونما ہونا شروع ہوجاتے ہیں اس بنا ء پر ہونا یہ چاہیے کہ فی زمانہ ڈرامہ بازی کی راہ ہموار ہو اور لوگ کسی نہ کسی طرح ڈراموں سے منسلک ہوں، چونکہ یہ ایک تکوینی امرہے اس لئے اس کا راستہ روکنا ممکن بھی نہیں ہے البتہ قیامت چونکہ بدترین لوگوں پر قائم ہوگی اس لئے شریعت کی رُو سے یہ راستہ اپنانا سخت گناہ اور ممنوع ہے خواہ لوگ مانیں یا نہ مانیں۔
آسان لفظوں میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ لوگ اپنے عمل بد کی وجہ سے بگاڑ کی طرف مسلسل بڑھتے جارہے ہیں مگر یہ کام چونکہ معاشرتی طور پر ہورہا ہے اس لئے عام لوگ اس کی بُرائی کو نہ صرف جانتے نہیں بلکہ مانتے بھی نہیں ہیں کہ انسانی مزاج کی یہ بڑی کمزوری ہے جو شے معاشرہ کا حصہ ہو وہ چاہے کتنی ہی بُری کیوں نہ ہو لوگ اسے اچھا ہی مانتے ہیں۔
چنانچہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ بہت سارے کام ایسے ہیں جو کسی زمانہ میں عیوب شمار ہوتے تھے مگر آج وہ کمال مانے جاتے ہیں۔منجملہ ازاں ڈرامہ باز کی حیثیت ہے جو قدیم زمانہ میں ازروئے عقل ونقل معیوب تصور کی جاتی تھی مگر آج حالات ہمارے سامنے ہیں۔
ڈرامہ بازی کی شرعی حیثیت کا پہلو تو بہت واضح ہے کہ نقالی کرنے والا شخص اور لوگوں کو اپنی باتوں کے ذریعہ ہنسانے والا آدمی ہمیشہ وعیدات کی زد میں رہا ہے، اس بارے میں واضح نصوص موجود ہیں جو بڑی تعداد میں مروی ہیں۔جہاں تک اس کی عقلی اور قانونی حیثیت کا پہلو ہے تو اس کے لئے افلاطون کے کلام کا اقتباس ہی کافی ہے کہ آج سے تقریباً ڈھائی ہزار سال قبل ڈرامہ بازوں کی معاشرتی حیثیت کیا تھی؟
افلاطون لکھتے ہیں: ایک اچھے آدمی کو ایک بُرے آدمی کی نقل کرنے کے لئے رضامند نہیں ہونا چاہیے، اب اکثر ڈراموں میں بُرے کردار ہوتے ہیں اس لئے ڈرامہ نگار اور ایکٹر کو جو بُرے شخص کا کردار ادا کرتا ہے، ایسے لوگوں کی نقل کرنی پڑتی ہے جو مختلف جرائم کے مرتکب ہوتے ہیں، نہ صرف مجرموں بلکہ عورتوں، غلاموں اور عام کم تر لوگوں کے کردار ادا کرنا اعلیٰ آدمیوں کو زیب نہیں دیتا، اگر ڈراموں کی اجازت دینی ہی ہے تو صرف اس صورت میں کہ ان میں اچھی پیدائش کے مرد اور بے داغ ہیروز کے سوا کوئی کردار نہ ہوں۔ اس بات کا ناممکن ہونا اس سے ظاہر ہے کہ افلاطون فیصلہ کرتا ہے کہ تمام ڈرامہ نگاروں کو شہر سے نکال دیا جائے۔
’’اگر کبھی ان حضرات میں سے جو ہر چیز کی نقالی کمال ہنر مندی کے ساتھ کرتے ہیں کوئی صاحب ہماری ریاست میں آجائیں گے اور اپنی شاعری اور ہنرمندی کی نمائش کرنا چاہیں گے تو ہم بے شک ان کی بڑی تعظیم کریں گے اور بحیثیت ایک دلکش مقدس اور حیرت انگیز ہستی (یعنی مہمان) کے ان کی پرستش تک کریں گے لیکن ساتھ ہی انہیں مطلع بھی کردیں گے کہ ہماری ریاست میں ان جیسے اشخاص کا وجود ممنوع ہے اور قانون ان کے قیام کی اجازت نہیں دے سکتا۔ ان کے جسم پر خوشبودار ابٹن مل کر اور ان کے سر پر اُون کا ایک ہار پہناکر ہم ان بزرگوں کو کسی دوسرے شہر چلتا کریںگے‘‘۔ (فلسفہ مغرب کی تاریخ برٹرینڈرسل ص156)
دیکھیے افلاطون اور ان کے ہم وطن یونانیوں کے پاس کوئی اسلامی تعلیمات پر مشتمل کتاب وقانون نہیں مگر اس کے باوجود وہ ڈرامہ بازوں اور ڈرامہ نگاروں سے کہتا ہے کہ ہمارے ملک میں جو ڈرامہ باز ہیں وہ ملک سے نکل جائیں اور جو ڈرامہ باز باہر سے آتے ہیں تو بحیثیت ایک مہمان وفنکار کے ہم ان کی قدر ضرور کریں گے مگر ساتھ یہ بھی کہیں گے کہ ہماری ریاست میں ان جیسے اشخاص کا وجود ممنوع ہے اور قانون ان کے قیام کی اجازت نہیں دے سکتا۔
ریاست اور قانون ڈرامہ سازوں اور ڈرامہ بازوں کو اجازت کیوں نہیں دیتا اس کی وضاحت ان الفاظ سے واضح ہے کہ اچھے آدمی کو ایک بُرے آدمی کی نقل کرنے کیلئے رضامند نہیں ہونا چاہیے (اور) اب اکثر ڈراموں میں بُرے کردار ہوتے ہیں اور یہ کہ یہ لوگ نہ صرف مجرموں ، پھانسیوں وخودکشیوں بلکہ عورتوں، غلاموں اور عام کمتر لوگوں کی نقالی کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ یقیناً جب تماشائی ایسی حرکات دیکھتے ہیں تو ان کے دل ودماغ پر اس بُرائی کا اثر پڑتا ہے اور رفتہ رفتہ معاشرہ سنجیدگی ومتانت کے بجائے ناشائستہ حرکات وافعال کی طرف بڑھتا ہے۔دیکھیے ایک دانشور کس طرح اپنے معاشرہ کی حفاظت کے لئے فکرمند ہے اور کیسے قوانین بناتا ہے کہ معاشرہ میں گھٹیا لوگ نہ گھسنے پائیں۔ 
مگر آج افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے پاس آسمانی تعلیمات پر مشتمل قرآن وسنت موجود ہونے کے باوجود ہمیں معاشرے کی اصلاح کی کوئی خاطر خواہ فکر لاحق نہیں ہے ریاستی سطح پر ہمیں کہیں بھی ایسے الفاظ یا ایسے اقدامات نظر نہیں آتے جو افلاطون کے الفاظ سے ہم آہنگ ہوں بلکہ عملاً ایسے لوگوں کو ہیروز کہا جاتا ہے جو فلم اور ڈرامہ میں پستول ہاتھ میں لیکر کبھی کسی کو قتل کرتے ہیں اور کبھی بینک کو لوٹ کر فرار ہوتے ہیں اور چند لمحات میں کروڑ پتی بن جاتے ہیں بلکہ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی لڑکی کو یاری دوستی میں گھر سے بھگاکر لے جاتے ہیں اور چوری چھپے گھٹیا حرکات کرتے ہیں۔
ظاہر ہے ان ہیروز کو دیکھنے والے بچے کل بڑے ہوکر معاشرہ میں یہی کام کرتے ہوں گے جس کا عملی نمونہ آج ہمارے سامنے ہے۔
یہ ہے زمانے کے تیور جو کسی کو اچھے دکھائی دیتے ہیں اور کسی کو بُرے۔

Please follow and like us:

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا. ضرورت کے کھیتوں ک* نشان لگا دیا گیا ہے