عقل ونقل کی کشمکش

ماحول عقل کے علاوہ فطرت پر بھی اثر انداز ہوتا ہے
جیسا کہ عرض کیا جاچکا کہ انسانی عقل ماحول سے متاثر ہوجاتی ہے اور پھر بڑے بڑے ارباب عقل بھی اسی سمت سفر کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں جس رخ پر عوام الناس کا ریلہ رواں دواں ہوتا ہے۔
اس کے ساتھ یہ بھی جاننا چاہیے کہ ماحول کی تباہ کاری صرف عقل کو برباد کرنے پر ہی اکتفا نہیں کرتا بلکہ وہ ا نسانی فطرت کو بھی اپنی آغوش میں سلاکر اسے میٹھی میٹھی ماحولیاتی کہانیاں سناتا ہے ،اس طرح فطرت ماحول کی تلقین کو قبول کرلیتی ہے ،یہ سلسلہ ہمیشہ سے جاری ہے اور دنیا کے تمام خطوں میں ساری ہے ،مثال کے طور پر ماں کا اپنے بچوں سے محبت ایک فطری عمل ہے خواہ وہ ماں نوع انسانی کا فرد ہو یا کسی دوسری نوع سے تعلق رکھتی ہو ،چرند پرند سارے جانور اپنے بچوں سے طبعاً وفطرتاً محبت کرتے ہیں لیکن اسلام سے قبل جب عربوں میں اس تاثر نے جڑپکڑ لی کہ کسی عورت کے بطن سے لڑکی کا جنم لینا بڑا عیب ہے اور اس تاثر کو غیر معمولی پذیرائی ملی اور پورے عرب میں اس نے فروغ پایا تو ہر عرب ماں کے دل میں اپنی بچی سے نفرت رچ بس گئی، اس نفرت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ عربی ماں اپنی بچی کو دیکھنا بھی گوارا نہ کرتی ،باپ کو جب لڑکی کے پیدا ہونے کی خبر ملتی تو وہ شرم کے مارے اپنا سر نیچے کرتا تھا، اس کا رنگ اڑجاتا اور بیوی پر غصہ ہوجاتا، دونوں میاں بیوی میں ریس لگتی کہ کون اس معصوم سی بچی کو پہلے زندہ درگور کرے گا، بچی کو زمین میں زندہ گاڑنے سے ان کا مقصد صرف اپنی نفرت کا اظہار تھا ورنہ اس کا گلا دباکر بھی وہ اسے دفن کرنے کا بہانہ تلاش کرسکتے تھے لیکن اس سے ان کی نفرت کا برملا اظہار نہ ہوتا۔
بتائیے کہاں تھی وہ محبت جس کا ماں دعویٰ کرتی ہے؟ کہاں تھی وہ فطرت جس پر ماں ناز کرتی ہے؟ کہاں تھی وہ انسانیت جس پر انسان فخر کرتا ہے ،اگر کسی کے ذہن میں یہ سوال گردش کرنے لگے کہ دراصل وہ زمانہ تو قدیم انسانی ذہنیت کا دور تھا جب انسان ارتقا کے عمل سے ابھی تک گزر رہا تھا اگر اس طرح کی کمی رہ گئی ہو تو ارتقائی عمل میں یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے تو اس سے کہا جائے گا کہ چلو اپنے آج کے مہذب ماحول پر نظر ڈالیے کہ آج کی مہذب ماں، تعلیم یافتہ وترقی یافتہ ماں اور پیار کرنے والی ماں جاہلیت اولیٰ کی ماں سے کتنی مختلف ہے؟ کیا آج ایسا نہیں ہوتا ہے کہ مائیں اپنے بچے کچرہ کنڈی میں پھینک کر سکون محسوس کرتی ہیں؟ اس کی کتنی مثالیں درکار ہیں جو میں پیش کروں؟ کیا آپ نے رفاہی سینٹروں کے آگے بچوں کے جھولے نہیں دیکھے ہیں؟ ان پر کیا لکھا ہوتا ہے؟ کیا آپ نے اخبارات میں متواتر خبریں نہیں پڑھی ہیں کہ کچرے سے کبھی زندہ اور کبھی مردہ بچے برآمد ہوئے ہوں؟ کبھی چوہے نے بچے کی ناک اور کان کھالیے اور کبھی بلی اور کتے نے اس سے اپنی بھوک مٹائی؟
بلکہ آج کی ماں تو صرف لڑکی ہی نہیں بلکہ لڑکے کو بھی کتوں کے آگے زندہ حالت میں کبھی منہ بند کرکے اور کبھی منہ بند کئے بغیر چھوڑ جاتی ہے، ان میں نسبتاً رحم دل ماں وہ ہوتی ہے جو اپنا بچہ کسی کو ہدیہ کرتی ہے یا فروخت کرتی ہے، یا پھر ہسپتال میں چھوڑ کر چلی جاتی ہے۔
یہ سب ماحول کی کارستانیاں ہیں جو آج کی مہذب دنیا میں پیار کرنے والی ماں اپنا دوست خوش کرنے کیلئے کرتی ہے۔
اگر اس قسم کی مزید مثالیں تلاش کی جائیں تو تعداد درجنوں سے بھی بڑھ جائے گی اس لئے بجائے اس کے کہ ہم فطرت سے عداوت وبغاوت کی مثالیں ڈھونڈنے میں وقت ضائع کریں کیوں نہ اس مختصر تبصرہ پر اکتفاء کریں کہ آج کا انسان فطرت سے بغاوت وسرکشی میں قدیم زمانے کے انسان سے سو قدم آگے ہے پیچھے ہرگز نہیں ہے۔ خواہ اس کا ذمہ دار کوئی بھی ہو۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ زیادہ تر لوگ فطرت وجبلت کو بھی نہیں جانتے، اکثر لوگ اس حقیقت سے ناواقف ہیں کہ بچپن اور فطرت دو مختلف چیزیں ہیں زیادہ تر نادان تو ڈاڑھی کو بھی غیر فطری کہتے ہیں کیونکہ ڈاڑھی انسان کے ساتھ پیدا نہیں ہوتی ہے۔ارے نادان کبھی انسان کے ساتھ دانت پیدا ہوئے ہیں؟ کبھی بچہ پیدائش کے وقت چلتا پھرتا اور بولتا ہوا، کام کاج کرتا ہوا دیکھا گیا ہے؟ کبھی کسی پودے کو زمین سے پھل لیے ہوئے اگتا ہوا دیکھا گیا ہے؟ کبھی کسی جاندار کو جنسی خواہشات کے ساتھ پیدا ہوتا ہوا دیکھا گیا؟ ہرگز نہیں کیونکہ بچپن اور طفولیت میں یہ چیزیں ہیولائی درجہ میں ہوتی ہیں ،ان اشیاء کی صرف صلاحیت ہوتی ہے جو آگے چل کر اپنے وقت میں نمودار ہوتی ہیں، اگر کوئی چیز اپنی صلاحیت اور خداداد خوبی سے سرک جائے تو ہم کہیں گے کہ فطرت سے ہٹ گئی مثلاً اگر سیب کے درخت پر آم لگ جائے تو کہا جائے گا کہ یہ غیر فطری عمل ہے جو بظاہر ممکن نہیں ہے اِلَّا یہ کہ بطور خرق عادت کے رونما ہوجائے جیسے معجزات وغیرہ۔
فطرت بگڑنے سے اسلام غیر فطری محسوس ہوتا ہے:
جس طرح ماحول کی تبدیلی سے ماں کی محبت، نفرت میں تبدیل ہوکر اپنے بچوں کو موت کے گھاٹ اتارنا ایک اچھا فیصلہ اور مستحسن اقدام تصور کیا جاتا ہے اور اس پر فخر بھی کیا جاتا ہے اسی طرح آج کا انسان ماحول کے جادو کے آگے رقص کرنے پر مجبور سا محسوس ہوتا ہے، بے شمار افعال واعمال ایسے ہیں جو دراصل غیر فطری ہیں لیکن آج کا انسان ان اعمال کو سرانجام دینے پر فخر کرتا ہے جبکہ لاتعداد اعمال ایسے ہیں جو عین فطرت کے مطابق ہیں لیکن آج کا عقل مند ان کو غیر فطری کہتا ہے ایسے فطری اعمال کے مجموعہ کا نام اسلام ہے جس کا ہر ہر جزئیہ اور تمام کلیات فطری ہیں ،لیکن ماحول کا اثر دیکھیے کہ آج کے متاثرین فطرت سے دوری کی بنا پر ان فطری قواعد واصول کو غیر فطری قرار دیتے ہیں…اگر اپ زندگی کا سرسری جائزہ لے کر زندگی کے شعبوں پر نظر ڈالیں ایک طرف انسان کو رکھیں اور دوسری جانب انسان کے ہم جنس جانوروں کو رکھیں تو آپ کو صاف نظر آئے گا کہ شادی ونکاح کرنا فطری عمل ہے اور زنا ولواطت غیر فطری ہیں کیونکہ زندگی کے بنیادی شعبے تمام جانداروں میں تقریباً یکساں ہیں تقریباً تمام پرندے آپس میں جوڑیوں اور خاندانوں کی شکل میں رہتے ہیں اور سب ہی اپنے بچوں سے پیار کرتے ہیں ،اگر کسی جوڑی کی مادہ پر کسی آوارہ نر کی طرف سے جنسی زیادتی ہوجائے تو اس کو سخت برا مانا جاتا ہے حتیٰ کہ اس بات پر ان میں جھگڑے ہوتے ہیں اور زیادتی کرنے والے کو قرار واقعی سزا دینے کی کوشش کی جاتی ہے ،اگر کسی نے صحرائی زندگی کا رنگ دیکھا ہو تو وہ اس بات میں کسی طرح کا شک وتردود نہیں کرے گا۔ 
فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی
یا بندۂ صحرائی یا مردِ کوہستانی
اس لئے جو جانور عام جانداروں کی فطرت پر نہیں ہیں انسان کو ان کی صحبت اختیار کرنے یعنی ان کو پالنے، کھانے اور خرید وفروخت سے منع کیا گیا ہے جیسے کتا اور خنزیر وغیرہ تاکہ ان کے غیر فطری اخلاق انسان پر اثر انداز نہ ہوں کہ ؎ 
صحبت صالح ترا صالح کند
صحبت طالح ترا طالح کند
حتیٰ کہ ہمیں کتوں کی مشابہت سے بھی منع کیا گیا کہ ہم سجدہ کی حالت میں اپنے بازوئوں کو کتے کی طرح زمین پر نہ بچھائیں اور رکوع میں گدھے کی طرح سر نہ جھکائیں اور لومڑی کی طرح ادھر اُدھر نہ دیکھیں وغیرہ وغیرہ ہاں البتہ ناگزیر ضرورت میں سوائے سور کے باقی جانوروں کے پالنے کی اجازت دی گئی لیکن کھانے کی اجازت ہرگز نہیں ہے سوائے اس صورت کے کہ موت کا یقین ہو اور کھانے کے لیے حرام کے سوا کچھ نہ ہو تو صرف بقدر ضرورت کھانا جائز ہے۔
ماحول کے علاوہ موسمی تبدیلیاں اور جغرافیائی حالات بھی انسانی فطرت واخلاق اور مزاج پر گہرا اثر چھوڑتے ہیں چنانچہ اس باب میں مہارت تامہ رکھنے والے علامہ عبدالرحمن ابن خلدون نے اپنے مشہور مقدمہ میں اس پر تفصیل سے بحث کی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جو اقلیم یعنی قطعۂ زمین موسمی اعتبار سے اور آب وہوا کے لحاظ سے جتنا معتدل ہوتا ہے وہاں کے لوگوں کا مزاج بھی اتنا ہی معتدل ہوتا ہے ،دوسری طرف اسلام ایک معتدل دین ہے اس لئے معتدل خطوں میں اسلام جلد قبول کیا گیا اور آج تک باقی ہے کیونکہ دین اسلام وہاں کے باشندوں کے مزاج کے مطابق اور فطرت کے عین موافق ہے۔
اس کے برعکس جو اقالیم اعتدال سے دور ہیں ان کے باشندے بھی ان تمام حالتوں میں اعتدال سے بہت دور ہیں، ان کے مزاج اور اخلاق جانوروں کے مزاج سے بہت زیادہ ملتے جلتے ہیں اوریہ لوگ جس قدر اعتدال سے دور ہوں گے اسی قدر انسانیت سے بھی دور ہوں گے، ان کا دینداری میں بھی یہی حال ہے نہ وہ نبوت کو پہچانتے ہیں اور نہ کسی شریعت کو جانتے ہیں۔ ان کے سوا وہ لوگ جنہوں نے عیسائی دین کو قبول کرلیا ہے جیسے صقالبہ، فرنگی اور ترک جو جنوب وشمال میں آباد ہیں ان میں دین مجموعی (اعتبار سے) ہے اور علم مفقود ہے اور ان کے تمام حالات انسانیت سے دور ہیں اور حیوانیت سے قریب ہیں (مقدمہ نمبر 1صفحہ274)
آپ اندازہ لگائیے کہ عیسائیت شمال یورپ اور ماسکو سے جنوب یورپ کے مقابلے میں کس حال میں رخصت ہوئی؟۔

Please follow and like us:

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا. ضرورت کے کھیتوں ک* نشان لگا دیا گیا ہے