عقل ونقل کی کشمکش

عبادت وبندگی

عبادت کے معنی کسی کے آگے اپنی بے بسی اور ذلت کے اقرار واظہار کے ہیں، غلام کو عبد اس لیے کہتے ہیں کہ وہ اپنے آقا کے سامنے اپنا سر تسلیم خم کرتا ہے‘ شریعت کی اصطلاح میں عبادت عناصر ثلاثہ یعنی تین معانی کے مجموعہ کا نام ہے‘ چنانچہ حافظ ابن کثیر اپنی تفسیر میں سورۂ فاتحہ کی آیت نمبر 5کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ’’والعبادۃ فی اللغۃ من الذلۃ …وفی الشرع عبارۃ عما یجمع کمال المحبۃ والخضوع والخوف‘‘ یعنی عبادت سو فیصد محبت‘ عاجزی اور خوف کا نام ہے ۔
چونکہ یہ امر طے شدہ ہے کہ ہم سب کا خالق ومالک اللہ تبارک وتعالیٰ ہے اس لئے وہی انتہائی محبت کے مستحق ہے‘ اسی سے انتہائی خوف کرنا چاہیے اور اس کے حضور سب سے زیادہ عاجزی کا اظہار واقرار کرنا چاہیے۔
جیسا کہ عرض کیا جاچکا ہے کہ انسانوں کے درمیان تفرقہ بازی اور ان کی مشکلات سے بچنے کا ممکنہ حل اسلام کے سوا کسی کے پاس نہیں ‘وہ الگ بات ہے کہ مسلمان اپنی ذمہ داریوں سے غافل رہیں یا عارفانہ تجاہل اور مجرمانہ تغافل کرنے لگیں اور غیر مسلم اسلام کے زرین اصول کو اپنی عملی زندگی کا حصہ بناکر کسی حد تک ایسا معاشرہ تشکیل دینے میں کامیاب ہوجائیں جو مسلمانوں کے لئے بھی ایک مثال بنے۔ آئیے پہلے اس پس منظر کا ایک اقتباس پڑھتے ہیں تاکہ اصل بات سمجھنے میں سہولت میسر ہو۔
’’گیارہویں صدی عیسوی کے اختتام پر جب صلیبی فوجوں کی شکست وریخت پر دوچار ٹولے ودستے‘ ٹوٹتے پھوٹتے بکھرتے ٹھوکریں کھاتے‘ شکست کے داغ سے سرنگوں شرمسار یورپ لوٹے تو انہیں صرف یہی صدمہ نہیں تھا کہ وہ اپنے مقصد میں ناکام اور شکست خوردہ واپس ہوئے بلکہ ایک عجیب احساس محرومی وپسماندگی اور درماندگی دل وجگر کو چھلنی کررہی تھی کہ جو لوگ (مسلمان) مقدس سرزمین اور بابرکت خطے کے محافظ وپاسبان ہیں وہ صرف فوجی‘ تہذیبی‘ معاشی اعتبار سے فائق وممتاز نہیں ہیں بلکہ اخلاقی‘ مذہبی‘ انسانی اور روحانی اقدار وکردار میں بھی امتیازی شان رکھتے ہیں‘‘۔
یہی وجہ تھی کہ جب وہ لوگ پاپائے روم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پوری داستان بڑی سچائی اور ایمانداری سے سنائی تو پاپائے روم نے ان سب کو اور خصوصیت سے مہم جوئیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا:
’’ تم لوگ اب اپنی زندگی کے اطوار بدل ڈالو‘ ذی ہوش‘ اعتدال پسند‘ امن چاہنے والے‘ پرہیز گار اور سچائی کے طلب گار ہوجائو! تم کو لازم ہے کہ اب تم منصف مزاج‘ پاک طینت اور خدا سے ڈرنے والے بن جائو‘ تاکہ (حضرت) عیسیٰ کے سپاہی کہلانے کے مستحق ہوجائو! اور بے دینوں کے مقابلہ میں تلوار اٹھانے کے بعد سفاکی اور ظلم کا راستہ ترک کردو‘‘۔
معروف انگریزی تنقید نگار میورل بوڈن لکھتی ہیں کہ پاپائے روم کی اس تلقین نے مہم جوئیوں کو زندگی کی اپنی روش یکسر بدل ڈالنے پر مجبور کیا‘ اس کا صاف مطلب ہے کہ اس زمانہ میں مہم جو (نائٹ) اخلاقی ضابطوں سے کلیۃً بے نیاز تھے اور ان کی حیثیت گروہ بند مسلح ٹولوں سے مختلف نہ تھی جو اوباش طبع اور بدقماش تھے ‘لیکن ان کو قانون کا تحفظ بھی حاصل تھا اس لیے کہ وہ اکثر بادشاہ کے محافظ دستوں کا کام بھی کرتے تھے۔‘‘
(کچھ مغرب سے کچھ مشرق سے‘ بحوالہ مفکر اسلام ص 11،ص10)
اس مختصر اقتباس وتبصرے سے یہ اندازہ لگانا ہرگز مشکل نہیں کہ گیارہویں صدی سے قبل مغرب کا مجموعی حال کیا تھا اور صلیبی جنگوں کے بعد ان کی حالت کیوں بدل گئی؟ کس چیز نے پاپائے روم کو اس تلقین پر مجبور کیا؟ انہوں نے مسلمانوں سے کیا سیکھا‘ اس تعلیم پر عمل کرنے سے ان کو کیا ملا؟؟؟ اور یہ کہ مسلمان کیوں پستی کی طرف جارہا ہے؟۔
بہرحال اسلامی تعلیمات کے مطابق اگر ساری انسانیت ایک ہی خدا پر یقین رکھے اور اسی کی عبادت پر اتفاق ہوجائے اور اسی کی اطاعت اور فرمانبرداری کو زندگی کا نصب العین بنالے تو سب لوگوں کی حیثیت ایک خاندان کے افراد کی مانند ہوجائے گی ‘جس کے بعد ان کے دلوں کی نفرت محبت میں اور عداوت دوستی میں تبدیل ہوجائے گی اور یہی عبادت خداوندی کی حکمتوں میں سے ایک پہلو ہے تاکہ اس سے اہل دنیا کو ایک ہی پلیٹ فارم پر جمع کیا جائے۔
ایک ہی خدا کی عبادت کرنے سے وہ تمام لالچ اور غیر فطری بنیادیں معدوم ہوجاتی ہیں جن پر انسانوں کے باہمی جھگڑوں کا لامتناہی سلسلہ قائم ہے کہ جب بجائے خدا کے پولیس کے خوف سے جرائم کی روک تھام کی کوشش کی جائے گی تو جہاں پولیس کی رسائی نہ ہو وہاں جرائم سے روکنے والا کون ہوگا؟ اگر جرائم پیشہ لوگ پولیس کو اعتماد میں لیکر جرائم کریں یا پولیس خود اس کی مرتکب ہو تو ان کا ہاتھ پکڑنے والا کون ہوگا؟ البتہ جس کو اللہ تبارک وتعالیٰ سے محبت ہوگی تو وہ اللہ کی مخلوق سے بھی محبت کرے گا بلکہ مخلوق پر رحم کرے گا‘ اس طرح جو شخص خدا کی تعظیم پر کاربند ہوگا تو وہ مخلوق کی چاپلوسی پر یقین نہیں رکھے گا ایسا شخص کبھی دھوکہ اور فراڈ نہیں کرے گا بلکہ ہمیشہ سچ ہی بولے گا۔
اہل دنیا نے دنیائے حقیر کی محبت میں ایسا غلو اختیار کیا کہ بجائے خدائے برتر کے دنیا کی تعظیم کرنے لگے‘ اسی طمع اور لالچ کی بنا پر وہ اللہ کی تعظیم چھوڑ کر امیروں کی تعظیم کرتے ہیں اور ان کے آگے اپنی عاجزی کا اظہار کرتے ہیں ‘اگر لوگ خوف خدا کے بجائے مخلوق کے خوف میں گرفتار رہیں تو بتائیں یہ غیر اللہ کی عبادت نہیں تو اور کیا ہے؟ اگرچہ اسباب کی رو سے اس کو شرک سے تعبیر نہیں کیا جاتا لیکن یہ اس وقت تک ہے جب تک کوئی شخص اس پر یقین رکھتا ہو کہ عبادت صرف خدا کا حق ہے اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں‘ اس اعتقاد کے بغیر کوئی بھی ایمان کی دولت حاصل نہیں کرسکتا۔ 
عبادت کا دوسرا اہم مقصد آخرت کے لئے سامان نجات اور جنت میں رفع درجات کا حصول بھی ہے۔
عبادت کا تیسرا اور اہم ترین پہلو رب کائنات اور اپنے خالق ومالک کے ساتھ مضبوط تعلق قائم کرنا اور پھر اسے دائم رکھنا ہے‘ مجموعی اعتبار سے ہم عبادت کے دو حصے بناسکتے ہیں‘ ایک اعتقادی عبادت اور دوم عملی عبادت ۔اعتقادی عبادت تو وہی ہے جس کا تذکرہ ہوچکا یعنی اللہ تبارک وتعالیٰ کو خالق ومالک ماننا اور کسی کو اس کا شریک نہ کرنا‘ کلمۂ شہادت اس کی بہترین تعبیر ہے‘ جبکہ عملی عبادت میں سرفہرست نام نماز کا آتا ہے جس میں عبادت کے تینوں عناصر ’’کامل محبت‘ کامل خشوع اور کامل خوف‘‘ پائے جاتے ہیں کہ نمازی اللہ کے خوف ومحبت سے نہ اپنی مصروفیات کی پرواہ کرتا ہے اور نہ نیند اور بیماری کی بلکہ صاف ستھرا ہوکر دست بستہ اللہ کے حضور کھڑا ہوجاتا ہے اور ادھر ادھر نہیں دیکھتا بزبان قال وحال اللہ کی تعظیم کرتا ہے ‘پھر مزید جھکتا ہے اور بالآخر زمین پر سجدہ ریز ہوکر اپنی پست ترین حالت میں بھی کہتا ہے ۔ سبحان ربی الاعلیٰ، میرا رب برتر پاک ہے‘ اسی خوف کی وجہ سے وہ اپنا مال بھی وہاں خرچ کرتا ہے جہاں اللہ کا حکم ہوتا ہے‘ اسی محبت کی بدولت صائم وروزہ دار پورے مہینہ تک بلاناغہ صبح سے شام تک بھوکا پیاسا رہنا برداشت کرتا ہے بلکہ اس پر خوش ہوتا ہے لیکن اللہ کی نافرمانی گوارا نہیں کرتا ۔مزید بریں سر ننگا کرکے بے سلے کپڑے بدن پر لپیٹ کر ننگے پیروں طواف کرتا ہے ‘سعی کرتا ہے یعنی بے تابانہ دوڑتا ہے اور شعائر اللہ کو چومتا ہے بعض اللہ والے تو اس محبت میں اس حد تک بھی جاتے ہیں کہ خدا کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کرتے ہیں‘ ان کی نظر میں دنیاوی متاع کی کوئی وقعت نہیں ہے۔
غور کیا جائے تو عبادت گزار کی کوشش ہوتی ہے کہ کسی طرح وہ اپنے رب ذوالجلال کو خوش کرنے میں کامیاب ہوجائے اسی چیز کا نام ہے عبادت‘ مگر اللہ تبارک وتعالیٰ عبادت میں سچائی ظاہر کرنے کے لئے انسان کو صرف چند معمولات پر اکتفاء کرنے کی حالت پر نہیں چھوڑتا بلکہ اسے ہرحال میں اپنا تابع فرمان دیکھنا چاہتا ہے جس کا نام اطاعت وفرمانبرداری ہے ‘اللہ چاہتا ہے کہ انسان ہر لمحہ اس کی عبادت کرتا رہے۔ ظاہر ہے کہ ایسا کرنا صرف ارکان خمسہ یعنی کلمہ‘ نماز‘ زکوٰۃ ‘ روزہ اور حج میں منحصر نہیں بلکہ زندگی کے تمام شعبے اور لمحات جب اللہ کے حکم کے مطابق گزریں گے تب کہا جائے گا کہ اس نے زندگی بھر اللہ کی عبادت کی ہے۔
چونکہ ہر کس وناکس اس کا فیصلہ ہرگز نہیں کرسکتا ہے کہ ہمارے اعمال میں کون سا عمل اللہ کی رضا کے مطابق اور کون سا ناموافق ہے اس لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس کی تعلیم کیلئے حسب عادت آنحضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مبعوث فرماکر ہمیں آپ علیہ السلام کی پیروی کا حکم دیا کہ آپؐ کی زندگی کے تمام معمولات اللہ کی خوشنودی کے حضول کا بہترین معیار ہیں۔ 
آئیے ہم سب مل کر رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کو اپنی زندگی کا محور بنائیں تاکہ ہمیں دنیا وآخرت دونوں کی سرخروئی نصیب ہو! بلاشبہ یہ ایسا نصب العین کہ اسے اپنانے والا کبھی نادم نہیں ہوتا۔
اس کے برعکس جن لوگوں نے اپنی سمجھ وعقل وخرد کے مطابق عبادت کے جو مفروضے بنائے ہیں ان سے کنارہ کشی اختیار کریں تاکہ اہل دنیا ایک ہی خدا تعالیٰ اور ایک ہی دین کے پیروکار بن کر دنیا سے نفرتوں کا خاتمہ کریں! 
زندگی                  آمد                     برائے           بندگی
زندگی         بے                 بندگی          شر        مندگی

Please follow and like us:

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا. ضرورت کے کھیتوں ک* نشان لگا دیا گیا ہے