اقلیتوں کے حقوق اور ان کی حفاظت

لفظ اسلام کے لغوی معنیٰ امن اور سلامتی کے ہیں اور یہ سلامتی کائنات میں بسنے والے جن و انس ، چرند، پرند سمیت تمام مخلوقات کے لیے یکساں مفید ہے۔ اسلام کا فلسفہ امن کسی وقتی ضرورت و حادثہ کے وجوہ و نتائج کی بنا پر معرض وجود میں نہیں آیا بلکہ تخلیق انسان کے وقت فرشتوں کے انسان کے فساد فی الارض کے خدشے سے پہلے ہی اللہ رب العزت نے قرآن و سنت میں رہنما اصول بنادیے تھے۔انہی کی تعلیم و تبلیغ کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا گیا۔ 

اسلام نے ایسے بنیادی واساسی احکام و قوانین دیے اور ایک ایسا نظامِ اخلاق مرتب کیا کہ جس پر چل کر انسان ایک مستحکم امن اور مستقل مامون خطہ ارضی حاصل کرسکتا ہے۔یہ نظام صرف تحریر کی حدتک نہیں تھا بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اورخلفائے راشدین نے اس کا عملی نمونہ ایسی ریاست کی صورت میں دکھا یا جہاںانسان تو انسان جانوربھی خلیفہ کی تابعداری کرتے تھے نتیجۃ شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ سے پانی پیتے تھے۔ اور ان خلفاء کا ایمان اتنا مضبوط تھا کہ دریائے نیل بھی ان کا حکم ماننے پر مجبور تھا۔ رعایا کا خیال اس حدتک تھا کہ غیرمسلم تو بہت دور کی بات دریائے فرات کے کنارے ایک بکری کی خوراک بھی ریاست کی ذمہ داری سمجھا جاتا تھا۔ 
اسلام جہاں امن کی تعلیم دیتا ہے وہیں قرآن مجید میں متعدد مقامات پر فتنہ وفساد کی شدید مذمت کی گئی ہے۔ ارشاد ربانی ہے :
وَلَا تَعْثَوْاْ فِی لْأَرْضِ مُفْسِدِینَ ۔(ہود:85)زمین میں فساد کرتے ہوئے حد (توحید و عدل) سے مت نکلو۔اور سورۃ بقرہ (وَلْفِتْنَۃُ أَشَدُّ مِنَ لْقَتْل)میں فتنہ و فساد کو قتل سے بھی سنگین جرم قرار دیا۔
اسلامی قانون بطور شہری مسلم و غیرمسلم کی تفریق کے بغیر پوری کائنات کی حفاظت کا ضامن ہے ۔ غیرمسلم کی عزت و آبروکی حفاظت اطمینان وسکون کی فراہمی اسلامی ریاست میں اتنی ہی اہم ہے جتنی ایک مسلمان کی ۔ ایک اسلامی حکومت کا فریضہ ہے کہ جو غیر مسلم اس کی قلمرومیں بستے ہیں اور حکومت نے ان کی ذمہ داری قبول کرلی ہے ان کی جان ومال،عزت وآبرو اور مذہبی آزادی پر حرف نہ آنے دے اور جس طرح ممکن ہو سب سے پہلے ان کی خبر گیری کرکے اپنی ذمہ داری کو پورا کرے،اس لیے کہ یہ معاہدہیں ،گوان کا مذہب حکومت کے مذہب کے خلاف ہے،ایسا کبھی نہ ہوکہ مذہب کا اختلاف ظلم وجور کا ذریعہ بن جائے اور خدا کے بندے اسلام کے عدل وانصاف سے محروم رہ جائیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے مدینہ میں قیام امن کے لیے غیرمسلم قبائل سے معاہدے کیے اور تمام بنیادی حقوق فراہم کیے گئے۔ اور ان معاہدوں کی اس حدتک پاسداری کی کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر معاہدہ کی تکمیل سے پہلے جب حضرت ابوجندل زنجیروں سمیت آپ کے پاس حاضر ہوئے تو آپ نے انہیں فرمایا "عنقریب حق تعالیٰ شانہ تمہارے لئے راستہ نکالیں گے" اور واپس فرمایا دیا۔ مسلمانوں کی طرف سے برداشت اور عہد کی پاسداری کا بے مثال نمونہ تھا۔ اللہ رب العزت نے بھی غیرمسلموں کے اچھا سلوک کرنے کی اجازت اور انصاف کرنے کا حکم فرمایا۔ارشاد ربانی ہے:
لَّا یَنْہَٰکُمُ للَّہُ عَنِ لَّذِینَ لَمْ یُقَـٰتِلُوکُمْ فِی لدِّینِ وَلَمْ یُخْرِجُوکُم مِّن دِیَـٰرِکُمْ أَن تَبَرُّوہُمْ وَتُقْسِطُوٓاْ إِلَیْہِمْ إِنَّ للَّہَ یُحِبُّ لْمُقْسِطِینَ (ممتحنۃ :8)
اللہ تعالیٰ تم کو ان لوگوں کے ساتھ احسان اور انصاف کا برتاؤ کرنے سے منع نہیں کرتا جو تم سے دین کے بارے میں نہیں لڑے اور تم کو تمہارے گھروں سے نہیں نکالااللہ تعالیٰ انصاف کا براؤ کرنے والوں سے محبت رکھتے ہیں۔
مولانا محمد شفیع عثمانی اس آیت کی تشریح میں فرماتے ہیں :
اس آیت میں ایسے کفار جنہوں نے مسلمانوں سے مقاتلہ نہیں کیا، اور ان کے گھروں سے نکالنے میں بھی کوئی حصہ نہیں لیا، ان کے ساتھ احسان کے معاملہ اور اچھے سلوک اور عدل و انصاف کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ عدل و انصاف تو ہر کافر کے ساتھ ضروری ہے، جس میں کافر ذمی اور مصالح اور کافر حربی و دشمن سب برابر ہیں، بلکہ اسلام میں تو عدل و انصاف جانوروں کے ساتھ بھی واجب ہے کہ ان کی طاقت سے زیادہ وہ بار ان پر نہ ڈالے اور ان کے چارے اور آرام کی نگہداشت رکھے، اس آیت میں اصل مقصود بر و احسان کرنے کی ہدایت ہے۔(معارف القرآن۔ج8ص405)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاـ:اَلخَلقُ عَیَالُ اللّٰہ فَاَحَبُ الخَلقِ اِلَی اللّٰہِ مَن اَحسَنَ اِلیٰ عَیَالِہ مخلوق اللہ کا کنبہ ہے اللہ تعالیٰ کے نزدیک محبوب ترین وہ ہے جو اس کے کنبے سے اچھا سلوک کرتا ہے ۔
کسی بھی ریاست میں کم تعداد میں بسنے والی اقوام اقلیت کہلاتی ہیں۔ اقلیتیں دوطرح کی ہیں۔ ایک وہ جو ریاست کے ساتھ معاہدہ کریں اور پاسداری کا عہدکریں۔ ایسی اقلیتوں کو معاہد اور ذمی کہتے ہیں۔ اقلیتوں کوبطور شہری تمام حقوق کی فراہمی اور ان کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری ہے۔ جبکہ بغیر کسی معاہدہ کے رہنے والی اقلیتوں کی ریاست پر کوئی ذمہ داری نہیں۔ اول الذکر کے حقوق کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :فان قبلوا الذمۃ فأعْلِمْہم أن لہم ما للمسلمین وعلیہم ما علی المسلمین (بدائع الصنائع)’’اگر وہ ذمہ قبول کرلیں، تو انھیں بتادو کہ جو حقوق و مراعات مسلمانوں کو حاصل ہیں، وہی ان کو بھی حاصل ہوں گی اور جو ذمہ داریاں مسلمانوں پر عائد ہیں وہی ان پر بھی عائد ہوں گی۔‘‘اورفرمایا:"الا من ظلم معاھداوانتقصہ او کلفہ فوق طاقتہ او اخذمنہ شیا بغیر طیب نفس فاناحجیجہ یوم القیامۃ"’’سنو!جو کسی معاہد پر ظلم کریگا اس کے حقوق میں کمی کرے گا،استطاعت سے زیادہ تکلیف دے گا،یا اس کی کوئی چیز اس کی مرضی کے بغیر لے گا تو قیامت کے دن میں اس کی طرف سے احتجاج کروں گا‘‘
قرآن و حدیث کی تعلیمات اورعملی طور پرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے زمانہ میں اقلیتوں کو جزیہ کے بدلے میں دی گئی سہولیات اس بات کی گواہ ہیں کہ بطور شہری اقلیتوں کو مسلمانوں کے برابر حقوق دیے گئے۔چند اہم حقوق حسب ذیل ہیں۔ 
بنیادی شہری سہولیات:
آپ کے فرمان "ان لہم ما للمسلمین" کے تحت تمام ریاستی سہولیات میں مسلم و غیرمسلم برابر کے شریک ہے۔ کسی قسم کی کوئی تفریق نہیں ہے۔ 
جان ومال کی حفاظت :
بطور شہری مسلمان و ذمی دونوں کے جان و مال کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دماوئہم کدمائناان کے خون ہمارے خون ہی کی طرح ہیں۔(نصب الرایۃ) اور فرمایا: من قتل معاہدًا لم یرح رائحۃ الجنۃ، وان ریحہا لیوجد من مسیرۃ أربعین عامًا (بخاری )جو کسی معاہد کو قتل کرے گا وہ جنت کی خوشبو تک نہیں پائے گا، جب کہ اس کی خوشبو چالیس سال کی مسافت سے بھی محسوس ہوتی ہے۔
جان کی بقا کے لیے مال ضروری ہے اس لیے مسلم ریاست کے لیے کہ مسلم عوام کے اموال و جائیداد کی طرح اقلیتوں کے اموال و جائیداد کی حفاظت بھی ضروری ہے۔ صنعت و تجارت اور تمام تر معاشی معاملات میں اقلیتوں کو وہی حقوق حاصل ہوں گے جو مسلمانوں کو حاصل ہیں۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق اقلیتوں سے جزیہ کے علاوہ کسی بھی ناجائز طریقے سے ان کے اموال حاصل کرنا قطعا جائز نہیں ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :ألا لا تحل أموال المعاہدین الا بحقہا(سنن ابی داود)خبردار معاہدین کے اموال حق کے بغیر حلال نہیں ہیں۔اسی طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:"انما بذلوا الجزیۃ لتکون دمائھم کدمائنا واموالھم کاموالنا"ان غیر مسلموں نے جزیہ اسی لیے ادا کیا کہ ان کا خون ہمارے خون کے برابر اور ان کا مال ہمارے مال کے درجہ میں آجائے۔
عزت و قار کا تحفظ :
بلا تفریق مذہب تمام افراد کی عزت و قار کی حفاظت بھی مسلم ریاست کی ذمہ داری ہے۔ اقلیت ہونے کی وجہ کسی قسم کی تذلیل و توہین کسی کے لیے جائز نہیں ۔ ویجب کف الأذی عنہ، وتحرم غیبتہ کالمسلم (اسلامی حکومت میں غیرمسلموں کے حقوق)اس کو تکلیف دینے سے رکنا واجب ہے اوراس کی غیبت ایسی ہی حرام ہے جیسی کسی مسلمان کی۔
عدل و انصاف:
تمام تر دیوانی و فوجداری قانونی معاملات جیسے ملکیت ، قبضہ ، چوری ، زنا ، الزام تراشی، قصاص کی سزا و جزا میں بلاامتیازمسلم و غیرمسلم برابر ہیں۔ البتہ مذہبی معاملات جیسے نکاح، طلاق، وصیت، ہبہ، نان و نفقہ، عدت اور وراثت میں اسلام کے بجائے انہی کیمذہب کے کے مطابق فیصلہ کیا جائے گا۔ مساوات کا یہ عالم ہے کہ قصاص میں بھی برابری کا معاملہ رکھا گیا ہے۔ آپ نے ذمی کے قتل پر مسلمان کو قتل کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا :أنا أحق من وفیٰ بذمتہ میں ان لوگوں میں سب سے زیادہ حقدار ہوں جو اپنا وعدہ وفا کرتے ہیں۔(مصنف ابن ابی شیبہ)
مذہبی آزادی:
ذمیوں کو اپنی عبادت گاہوں کے اندر اپنے عقائد و عبادات پر عمل اوراپنے بچوں کی تربیت کی مکمل آزادی حاصل ہوگی، اسی طرح ان کی عبادت گاہوں کا احترام و حفاظت ریاست کی ذمہ داری ہے۔ لا اکراہ فی الدین کے تحت ان کو اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی اپنے مذہب کی تشہیر و تبلیغ کی اجازت ہوگی اسی طرح نئی عبادت گاہیں تعمیر کرنے کی بھی اجازت نہیں ہوگی۔ اہل نجران کو دیے گئے پروانہ ذمہ داری سے یہی باتیں واضح ہوتی ہیں ۔ آپ نے فرمایا:وجعل لھم ذمۃ اللہ وعہدہ وان لایفتنوا عن دینھم ومراتبھم فیہ ولایحشر را ولایعشروا’’ان غیر مسلموں کو اللہ تعالٰی کی ذمہ داری اور عہد دیاجاتا ہے کہ ان کو نہ تو ان کے مذہب سے روکا جائے گا،نہ ان کے مرتبے گھٹائے جائیں گے،نہ ان سے فوجی خدمت لی جائے گی اور نہ عشر لیا جائے گا۔‘‘
منصب وملازمت:
اسلامی دستور کے بنیادے ڈھانچے یعنی قرآن و سنت سے اختلاف کی وجہ سے اقلیتوں کو آئین سازی جیسے معاملات میں کسی منصب پر فائز نہیں کیا جاسکتا۔ البتہ قوانین کے نفاذ اور دیگر خدمات کی ملازمتوں کے تمام دروازے اقلیتوں کے لیے کھلے ہیں ۔ 
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کا غیرمسلموں سے سلوک 
مدینہ کی عظیم ریاست کی بنیاد کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حاکمانہ دور شروع ہوا اور اس کے ساتھ ہی بین الاقوامی کا باقاعدہ دور شروع ہوا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں آباد قبائل کے ساتھ معاہدے کیے اور ہر طرح سے امن و امان قائم کرنے کے لیے بھرپور کردار ادا کیا۔ مدینہ میں آنے والے وفود کی عزت و تکریم کی یہاں تک کہ مسجد میں ملاقاتیں فرمائیں، بھرپور طاقت کے باجود صلح حدیبیہ انجام پائی ،علاقائی امن کے بعد دیگر بادشاہوں کو خطوط تحریر فرمائے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انہی امن پسند پالیسیوں کی وجہ سے مکہ بغیر کسی لڑائی کے فتح ہوگیا اور پھرکفار مکہ کی دئی ہوئی تکالیف و مصائب کو بھلاتے ہوئے باوجود طاقت کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عام معافی اور حسن سلوک نے کفار کے لیے اسلام کے دروازے کھول دیے اور لوگ جوق در جوق مسلمان ہونے لگے یہاں تک جنگ بدر کی وجہ بننے والے قافلے کے سردار حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ ، عکرمہ بن ابی جہل رضی اللہ عنہ جیسے لوگ بھی ایمان کی دولت سے مالا مال ہوگئے۔ 
خلفائے راشدین نے اپنے زمانہ میں جو فتوحات کی ہیں ان کی تاریخ کے مطالعہ سے بخوبی اندازہ ہوتاہے کہ انہوں نے بھی غیر مسلم رعایا کے ساتھ جس قدر رعایتیں ممکن ہوسکتی ہیں کیں،14ہجری میں فتح دمشق کا واقعہ پیش آیا ہے،حضرت خالد بن ولید نے اس موقع پر جو امان نامہ عطاکیا ہے اس کے الفاظ یہ ہیں:
"بسم اللہ الرحمن الرحیم ھذا مااعطی خالد بن الولید اھل دمشق اذا دخلھا اعطاھم امانا علی انفسھم واموالھم وکنائسھم وسور مدینتھم لایھدم ولایسکن شی من دورھم لھم بذالک عھد اللہ وذمۃ رسولہ صلی اللہ علیہ وسلم والخلفاء والمؤمنین لایعرض لھم الابخیر اذا اعطوالجزیۃ"
’’شروع کرتاہوں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو بڑا مہربان اور کرم فرماتا ہے یہ وہ پروانہ جو خالد بن ولید نے اہل دمشق کو وہاں داخل ہوتے وقت عطاکیا،آپ نے ان تمام کو جان ومال اور عبادت خانوں اور شہر پناہ کی طرف سے امن بخشا،علاوہ ازیں شہر پناہ نہ ڈھائیں گے اور نہ ان کے گھروں میں کوئی سکونت اختیار کرے گا،اس لیے کہ ان کو اللہ تعالٰی اور اس کے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء نے اور تمام مؤمنین کی طرف سے ان چیزوں کا عہد لیا ہے جب تک یہ جزیہ دیتے رہیں گے سوائے بھلائی کے اور کوئی اعتراض نہ ہوگا۔‘‘
اس امان نامہ کا ایک ایک جملہ اس بات پر واضح دلالت کرتا ہے کہ غیر مسلم رعایا کے جان،مال،گرجے،شہراور ان کے گھر سب چیزوں کے لیے امن وامان کا اقرار کیا گیا ہے۔اسی طرح حضرت عمر نے جب ایک بوڑھے یہودی بھکاری کو دیکھا اور معاشی ابتری معلوم ہونے پر خزانچی سے نہ صرف اس ضعیف کی فوری امداد کی بلکہ اس طرح کے دیگر افرادکی امداد کا حکم فرمایا :
یہ اور اس قسم کے دوسرے حاجت مندوں کی تفتیش کرو۔ خدا کی قسم ہرگز یانصاف پسند نہیں ہوسکتے ۔ اگر ان (ذمیوں ) کی جوانی کی محنت (جزیہ) تو کھائیں اور ان کی پیری کے وقت ان کو بھیک کی ذلت کے لیے چھوڑ دیں۔ قرآن عزیز میں ہے:انما الصدقات للفقراء والمساکین میرے نزدیک یہاں فقراء سے مسلمان مفلس مراد ہیں اور مساکین سے اہل کتاب کے فقراء اور غرباء ۔ اس کے بعد حضرت عمرؓنے تمام ایسے لوگوں سے جزیہ معاف کردیا اور ان کا وظیفہ بھی بیت المال سے مقرر فرمادیا اسی طرح حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دورخلافت میں اہل حیرہ کے لیے لکھا گیا عہد نامہ بھی اقلیتوں سے مسلم ریاست کے اقلیتوں کے ساتھ حسن سلوک کی عمدہ مثال ہے۔ (بحوالہ اسلام کا اقتصادی نظام، صــ:307)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء راشدین کے اسی حسن سلوک اور حسن معاملات کی وجہ سے اسلام تیزی سے پھیلنا ہوا اور حضرت عثمان کے زمانہ تک مدینہ کے مختصر شہر سے نکل کر 44لاکھ مربع میل تک پھیل گیا۔ صحابہ کرام نے مفتوحہ علاقوں میں مثالی انتظام و انصرام فرمایا اور جہاں سے گذرتے گئے لوگوں پر اپنا اثر چھوڑتے گئے، مسلمانوں نے اپنے عہد وپیمان کی وفاداری کا جیسا ثبوت دیا ہے اس کی مثال تاریخ نہیں پیش کرسکتی ہے،خود غیرمسلم رعایا نے اس سلسلے میں اعتراف احسان کیا اور ہم مذہبوں کے مقابلہ میں مسلمان حکمرانوں کو ترجیح دی ہے۔شام میں حضرت ابوعبیدہ اور آپ کے مسلمان حکام نے غیر مسلم کے ساتھ عدل وانصاف کا ایسا ثبوت بہم پہنچایا کہ وہاں کی رعایا مسلمانوں کی گرویدہ اور ممددمعاون بن گئی۔
جہاں اقلیتوں کے حقوق ہیں وہیں بطور شہری فرائض بھی ہیں۔ اسلامی ریاست کو نہ صرف اپنی ریاست سمجھنا بلکہ اس کا عملی مظاہرہ کرنا ۔خواہ مقابلے میں ہم مذہب ، ہم قوم ہی کیوں نہ ہو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب قبائل مدینہ سے معاہدہ فرمایا تو معاہدہ میں یہ بات وضاحت سے لکھی گئی کہ مسلمان پر حملہ آور جو بھی ہو یہ قبائل مسلمانوں کا ساتھ دیں گے، بیرونی کسی قوت کا ساتھ نہیں دیں گے۔ جہاں مسلمانوں پر اقلیتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے وہیں اقلیتوں کے لیے بھی ضروری ہے اسلامی ریاست کے مفادات کا خیال رکھیں۔ کسی بھی حادثہ کی صورت میں برداشت کا مظاہرہ کرنا اور ریاستی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے دشمن عناصر کا آلہ کار بننے سے گریز کریں۔ 
اسی طرح ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضوان اللہ علیہم کی اتباع کرتے ہوئے حسن سلوک کا ایسا مظاہرہ کریں کہ غیرمسلم اسلام کی عظیم صفات کے مشاہدہ کرنے کے بعد اسلام قبول کرنے پر مجبور ہوجائیں۔ اگر ہم اشاعت اسلام کے لیے کوئی بھی خلاف شرع طریقے اپنائیں گے تو یقینی طور پر اسلام کا نقصان ہوگا۔ اقلیتوں سے نفرت کی بجائے اپنے بچوں کی ایسی تربیت کریں کہ جب وہ مخلوط معاشرے میں جائیں تو دوسروں سے متاثر ہونے کی بجائے اپنی مضبوط مذہبی اقدار کی وجہ سے ہمیشہ دوسروں کو متاثر کریں۔ واضح رہے کہ عبادات سے زیادہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے معاملات کی شفافیت کی وجہ سے غیرمسلموں کو متاثر کیا۔ یہی وجہ تھی کہ اعلان نبوت سے پہلے ہی آپ صادق اور امین کے لقب سے مشہور تھے۔آپ کے معاملات کی تاثیر کی سب سے بڑی مثال حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کاروباری معاملات اور پھر آپ سے نکاح ہے۔یہ آپ کے معاملات ہی کا نتیجہ تھا کہ حضرت اسود کے تنصیب بغیر کسی جھگڑے کے مکمل ہوگئی۔
آج بین الاقوامی سطح پر دھوکہ دہی اور معاملات میں کوتاہی مسلمان کی پہچان بنتا جا رہا ہے۔ امت محمدیہ کے ہر فرد پر فرض عین ہے کہ اس تاثر کو غلط ثابت کرنے کے لیے اپنا بھرپور کردار اداریں۔ اور ثابت کریں کہ آج بھی مسلمان تمام تر نقصان کے باوجود اسلامی تعلیمات و اقدار سے روگردانی نہیں کرتا۔ اور اپنے مثبت رویے سے ثابت کریں کہ اسلام ایک عالمگیر دین ہے اور اسلامی نظام حکومت ہی وہ واحد نظام ہے جو تمام اقوام کے بنیادی حقوق کی پاسداری کرتے ہوئے پوری دنیا پر حکومت کا حق دار ہے۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ دین اسلام کو پوری دنیا پر رائج فرمائے ۔ امین بجاہ النبی الکریم ۔

Please follow and like us:

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا. ضرورت کے کھیتوں ک* نشان لگا دیا گیا ہے